قربانی کا حقیقی معنی و مفہوم

﴿وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ۝﴾(الحج:34)
’’ہر ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کے طریقے مقرر فرمائے تاکہ وہ ان چو پائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں، سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے۔ تم اس کے تابع فرمان ہو جاؤ۔ اے نبی! عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔ ‘‘
یہ بات تو ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ کائنات کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی اور معمولی سے معمولی چیز بھی بے کار اور عبث نہیں ہے جتنی کہ کوئی ایک ذرہ بھی جو کہ خوردبین کے بغیر دیکھا بھی نہیں جا سکتا ہے کار اور بے مقصد نہیں ہے، اس کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ضرور متعین ہےجیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ۝﴾(الدخان:38)
’’اور ہم نے آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشے کے طور پر نہیں بنایا۔‘‘
تو جب کائنات کا کوئی ایک ذرہ بھی بے کار اور عبث نہیں بنایا گیا تو انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہےیقینًا بے مقصد نہیں ہو سکتا ، انسان کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد سب سے بلند اور سب سے اعلیٰ و ارفع ہے اور وہ ہے: اللہ تعالی کی عبادت کرنا، چنانچہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝﴾(الذاريات:56)
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ‘‘
تو انسان نہ صرف یہ کہ ایک متعیین مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے بلکہ اس کا مقصد تخلیق سب سے اعلیٰ و ارفع بھی ہے۔
انسان کا مقصد تخلیق اس وقت اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے اور زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب اس حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں کہ عبادت تو اللہ تعالی کی تمام کی تمام مخلوقات ہی کرتی ہیں مگر عبادت مقصد تخلیق صرف انسان کا ہی ٹھہرایا گیا ہے کسی اور مخلوق کا نہیں۔
عبادت کیا ہے؟ اس کا معنی و مفہوم کیا ہے اور اس کی اقسام کیا ہیں؟ ان کی تفصیل میں جانا ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے۔ عبادت کے حوالے سے صرف اتنی سی بات عرض کرتا مقصود ہے کہ عبادت زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے، عبادت مکمل طور پر سر تسلیم خم کر دینے کا نام ہے۔ عبادت یہ ہے کہ آدمی کی جان، مال، اولاد، کاروبار، رشتہ داریاں، دوستیاں، تعلقات ، خواہشات ، اٹھنا بیٹھنا ، سونا جاگنا، کھانا پینا اور جینا مرنا، سب کچھ اللہ تعالی کے لیے ہو۔ اللہ تعالی اس بات کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝لَا شَرِیْكَ لَهٗ ۚ ﴾ (الانعام:162)
’’ اے پیغمبر سے کہہ دیجیے، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ۔‘‘
تو عبادت کا مفہوم تو بہت وسیع ہے، اس میں انسان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شامل ہے، مگر مشاہدہ اور ملاحظہ یہ ہے کہ عبادت کو نماز، روزے اور دیگر چند عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے، حالانکہ عبادت میں انسان کی زندگی کا ہر معاملہ شامل ہے۔
عبادت کے بہت سے شعبوں میں سے ایک بہت بڑا اور نہایت ہی اہم شعبہ ہے قربانی کا، اور قربانی کے مفہوم کو بھی عبادت کے مفہوم کی طرح بہت محدود کر دیا گیا ہے اور وہ ہے جانور کی قربانی۔ حالانکہ قربانی سے مراد اگرچہ حج اور عید کے موقعوں پر جانور کی قربانی کرنا ہی ہے، مگر قربانی حقیقت میں اپنے وسیع معنوں میں بھی مطلوب میں ومراد ہے۔ تو آج کچھ قربانی کے حوالے سے بھی بات کرنا چاہیں گے: قربانی ایک ایسا عمل ہے کہ اس کے بغیر نہ انسان کی دنیا بنتی ہے اور نہ آخرت۔
قربانی ایک قدیم عمل ہے اور ہر قوم میں رہا ہے، اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ؕ﴾ (الحج:34)
’’ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں، جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔‘‘
اور قربانی اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان قدیم ہے، یعنی جب سے انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے۔ انسانی تاریخ میں سب سے پہلی قربانی آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہائیل اور قابیل نے دی ، جیسا کہ قرآن بیان کرتا ہے۔
﴿ وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ﴾ (المائدة:28)
’’اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی سنا دو جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی ۔‘‘
قرآن پاک میں ہائیل اور قابیل کے قربانی کرنے کا سبب تو ذکر نہیں کیا گیا البتہ حدیث میں اس کا تھوڑا سا ذکر ضرور ملتا ہے، لیکن قرآن پاک میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قربانی کرنے کا سبب جو بھی ہو اس میں اصل بات ہے قربانی کے قبول ہونے کی اور قربانی قبول کس کی ہوتی ہے؟ فرمایا:
﴿ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ﴾
’’اللہ تعالی تقوی والوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔‘‘
جس کی نیت خالص ہو، دل میں تقوی ہو تو اس کی قربانی اور اس کا عمل اللہ تعالی کے ہاں قبول ہوتا ہے، چنانچہ اللہ فرماتے ہیں: ﴿ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠۝۱۱۰﴾ (الكهف:110)
’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘
اور عمل صالح وہ عمل ہوتا ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو اور سنت کے مطابق ہو اگر ان میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو عمل قبول نہ ہوگا۔
قربانی انسان کی زندگی میں ایک اہم عمل ہے، قربانی حکم شرعی بھی ہے، اسلامی شعار بھی ہے، سنت ابراہیمی بھی ہے، قربانی قرب الہی کا ذریعہ ہے۔ قربانی اپنے مقصد کے ساتھ عقیدت و محبت، خلوص اور سنجیدگی کی علامت ہے، قربانی اللہ تعالی کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے بھی دی جاتی ہے، اور شکرانے کے طور پر بھی دی جاتی ہے۔
قربانی اصل میں تو انسان کی اپنی جان کی قربانی ہے، یعنی آدمی اللہ تعالی کی راہ میں، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے، ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی قربان کر دے، یا کہ یا کم از کم اس کے لیے پختہ عزم وارادہ رکھتا ہو، کیونکہ جان ہی انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔
لہٰذا جان قربان کر دینا سب سے بڑی قربانی کبھی جاتی ہے، اوریقینًا یہ ایک بہت بڑی قربانی ہے، اور پھر اس سے بھی بڑی قربانی اپنی اولاد کی قربانی ہے۔ کیونکہ اولا د انسان کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ اپنی جان پر آنے والی آزمائش اور تکلیف تو آدمی سہہ لیتا ہے مگر اولاد کی تکلیف نہیں سہی جاتی۔
اب اس واقعہ میں دیکھئے کہ قربان تو ہو رہے ہیں اسماعیل علیہ السلام۔ مگر ایک بہت بڑی اور کھلی آزمائش قرار دیا جا رہا ہے ابراہیم علیہ السلام کے لیے۔
﴿ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۝﴾ (الصافات:106)
’’یہ یقینًا ایک کھلی آزمائش تھی ۔ ‘‘
اور اسی طرح قربان تو ہو رہے ہیں اسماعیل علیہ السلام مگر امام الناس بتایا جا رہا ہے ابراہیم علیہ السلام کو۔
﴿ وَ اِذِ ابْتَلٰۤی اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا﴾ (البقرة:124)
’’اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا، اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا کہ میں تجھے امام الناس بنانے والا ہوں ۔‘‘
اولاد انسان کو کتنی عزیز ہوتی ہے، اور اس کے لیے تھی بڑی آزمائش ہوتی ہے، یہ جاننے کے لیے تو عقلی اور نقلی بہت سے دلائل موجود ہیں۔ مگر اس ضمن میں صرف ایک اور حدیث سنتے ہیں، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذا مَاتَ وَلَدُ العَبْدِ))
’’جب کسی آدمی کا کوئی بچہ کوئی بیٹی یا بیٹا فوت ہوتا ہے، تو‘‘
((قَالَ اللهُ تَعَالَى لِمَلَائِكَتِهِ))
’’اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں‘‘
((قَبضَتُم وَلَدَ عَبْدِي))
’’تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی ہے؟‘‘
((فَيَقُولُونَ: نَعَمْ))
’’تو وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔‘‘
((فَيَقُولُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِي))
’’تو اللہ فرماتے ہیں: پھر میرے بندے نے کیا کہا ؟‘‘
((فَيَقُوْلُونَ حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ))
’’تو فرشتے جواب دیتے ہیں کہ تیرے بندے نے اس پر الحمد للہ کہا اور انا للہ واناالیہ راجعون کہا۔‘‘
فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى ابْنُوا لِعَبْدِي بيتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوهُ بَيْتَ الْحَمْدِ))
’’تو اللہ فرماتے ہیں: میرے اس بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو۔‘‘
تو اولا د انسان کو بہت عزیز ہوتی ہے اور اس کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے، لہٰذا اولاد کی قربانی سب سے بڑی قربانی سمجھی جاتی ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کا تو شاید صرف امتحان مقصود تھا کہ کہیں بڑھاپے میں ملنے والی اولاد کی محبت اللہ تعالی کی محبت پر غالب تو نہیں آگئی اور اللہ تعالیٰ کو تو معلوم تھا کہ ایسا نہیں ہے مگر ایک بہت بڑے مرتبے اور مقام اور اعزاز سے نوازنے سے پہلے آزمانا، اللہ تعالی کا طریقہ اور سنت رہی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے آزمایا اور پھر کامیابی پر انہیں امام الناس بنادیا۔
مگر مشرکین مکہ کو شیطان نے ایسا ورغلایا کہ وہ اپنے معبودان باطلہ کی محبت اور خوشنودی کے لیے بالفعل اپنی اولادوں کو ان کے لیے ذبح کر دیتے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ كَذٰلِكَ زَیَّنَ لِكَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَآؤُهُمْ لِیُرْدُوْهُمْ وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْهِمْ دِیْنَهُمْ﴾ (الانعام:137)
’’اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوشنما بنا دیا ہے، تا کہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنادیں‘‘
مشرکین مکہ کا دعوی تو تھا کہ وہ دین ابراہیمی پر قائم ہیں مگر ان کے پاس اس دین کی کوئی مستند اور محفوظ دستاویز نہ تھی ، چنانچہ شیطان نے اولادوں کی قربانی کو اور وہ بھی اپنے جھوٹے معبودوں کے لیے ایک بہت بڑا کارنامہ بنا کر پیش کیا۔
قتل اولاد کی عرب میں تین صورتیں رائج تھیں۔
(1) ایک تو وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے، تاکہ ان کا کوئی داماد نہ ہے اور انہیں یہ عار نہ اٹھانی پڑے، اور کچھ اس لیے بھی کہ قبائلی لڑائیوں میں وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔
(2) اور دوسری صورت یہ تھی کہ وہ اولاد کو معاشی بوجھ سمجھتے ہوئے قتل کر دیتے تا کہ ان کی پرورش کا بارہ اٹھانا پڑے۔
(3) اور تیسری شکل یہ تھی کہ وہ اپنے معبودوں کی خوشنودی کے لیے انہیں قربان کر دیتے اور اس کی صورت یہ ہوتی کہ کوئی نذر مانتا کہ اگر اس کے اتنے بیٹے ہوئے تو وہ ان میں سے ایک کو فلاں معبود کے لیے قربان کر دے گا۔
مگر یہ سب شیطان کا دھوکہ تھا، دین ابراہیمی کو خلط ملط کر کے، اسے بگاڑ کر اور اپنی طرف سے اس میں ترمیم و اضافہ کر کے ان کے سامنے پیش کیا۔ جبکہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا جو حکم فرمایا تو بعد میں اسے منسوخ کر کے اس کے بدلے میں ایک بہت بڑی قربانی پیش کر کے بچے کو چھڑا لیا۔
﴿ وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۝﴾(الصافات:107)
’’اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی قدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔‘‘
اب قیامت تک دنیا میں جانور کو ذبح کر کے وفاداری اور جان شاری کے اس عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ کی جاتی رہے گی۔ اور یہ اللہ تعالی کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اگر آدمی کا خلوص، تقویٰ اور وفاداری جانچنے کا یہی معیار قائم رہتا کہ اپنی اولادوں کو ذبح کرنا پڑتا، تویقینًا بہت کم لوگ اس پر پورا اتر سکتے تھے۔ اور اولاد کی قربانی تو بہت دور کی بات ہے اگر اپنی جان کی قربانی دینا ہی خلوص کا معیار مظہر گیا ہوتا تو کامیابی سے ہمکنار ہونے والوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اللہ تعالی نے وہ بوجھ بھی ہم پر سے اٹھا لیا۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو شرک سے تو بہ کی شرط کے طور پر حکم دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْۤا اِلٰی بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ؕ﴾ (البقرة:54)
’’ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا: لوگو! تم نے پچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے، لہٰذا تم اپنے خالق کے حضور تو بہ کرو، اور اپنے آپ کو قتل کرو۔‘‘
اور انہیں عملا یہ کچھ کرنا پڑا، انہوں نے اپنے آپ کو قتل کیا اور تفاسیر میں قتل کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں:
ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کر دیا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا، اور دوسری یہ کہ شرک کے مرتکب ہونے والوں کو کھڑا کر دیا گیا، اور جو اس سے محفوظ رہے تھے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا، اور قتل ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں تھے، ان کی تعداد ستر ہزار بیان کی جاتی ہے۔ اپنے آپ کو قتل کرنا یا قتل ہونے کے لیے پیش کرنا، نہایت ہی مشکل کام ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے ہمیں دین یسر عطا کرتے ہوئے اس سے محفوظ فرمایا اور مزید احسان یہ فرمایا کہ اس سے بچنے کے لیے ہمیں دعاء بھی سکھلا دی۔
﴿ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ﴾(البقرة:286)
’’اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر والے تھے۔‘‘
اور ہم سے پہلی قوموں پر احکام دین زیادہ سخت تھے، مثلاً حدیث میں ہے کہ
((كَانُوا إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَوَلُ قَطَعُوا مَا أَصَابَهُ الْبَوْلُ مِنْهُمْ))(أبوداؤد:22)
’’کہ بنی اسرائیل میں اگر ان کے کپڑوں کو پیشاب کا کوئی قطرہ لگ جاتا تو انہیں اتنا کپڑا کا نا پڑتا، مگر اللہ تعالی نے ہمارے لیے آسانی فرمائی ہے صرف دھو لینا ہی کافی قرار دیا۔‘‘
اسی طرح اور بہت سے احکام تھے۔ تو جو لوگ اس دین پسر پر عمل نہیں کر سکتے اگر انہیں وہ والے احکام دیے جاتے جو پہلی قوموں پر تھے تو کیسے عمل کر سکتے تھے۔
چنانچہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ﴾(النساء:66)
’’اگر ہم نے حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو قتل کرو، یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ۔‘‘
تو ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں دین پسر، اور دین فطرت عطا فرمایا، اور اس پر عمل کی توفیق طلب کرتے ہیں۔
قربانی جو کہ اللہ تعالی نے ہمیں نیکی کا اور اپنا قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ مہیا فرمایا ہے، ہمیں دل کے تقویٰ اور خلوص سے، اور جذبہ اطاعت و فرمانبرداری سے سرشار ہو کرکرنی چاہیے۔
مگر افسوس کہ قربانی آج عبادت نہیں بلکہ محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے، وہ جذبہ، وہ عقیدت اور محبت اور اس میں وہ خلوص مفقود نظر آتا ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس فخر ومباحات ہے، ہلا گلا ہے، ڈانس اور بھنگڑے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ قربانی کے جانوروں کے نام ناچنے گانے والیوں کے نام پر رکھ کر انہیں منڈی میں فروخت کیا جاتا ہے اور پھر لوگ انہیں شوق سے خریدتے ہیں۔ اور جب کوئی جانور کسی لحاظ سے اول نمبر پر آ جاتا ہے تو پھر لوگ ڈانس کرتے اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے جانور ہرگز نہیں خرید نے چاہئیں جن کے نام ناچنے گانے والیوں کے نام پر رکھے گئے ہوں ، یہ دین کے ساتھ سراسر مذاق ہے، اس سے بہتر ہے کہ سرے سے قربانی ہی نہ کی جائے۔ مگر سنت ابراہیمی کا مذاق نہ اڑایا جائے۔
………………