حکمت کا معنی و مفہوم اور اہمیت
﴿ یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ۲۶۹﴾ (البقره:269)
دنیا میں خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے انسان کو جن مادی و معنوی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے اُس میں سے ایک معنوی ذریعہ اور وسیلہ حکمت ہے۔ خوشگوار زندگی کا مطلب محض دنیا کی مادی نعمتیں، سہولتیں اور آسائشیں نہیں ہے، بلکہ دنیا میں حقیقی خوشگوار اور پاکیزہ زندگی، جسے قرآن پاک حیات طیبہ کہتا ہے، فکر آخرت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی ، فکر آخرت اس کا ایک بنیادی اور مرکزی جزو ہوتا ہے، بلکہ وہ خوشگوار زندگی اسی فکر و عمل کے نتیجے میں ہی عطا ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۹۷﴾ (النحل:97)
’’ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مؤمن اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے، اور آخرت میں ایسے لوگوں کو اُن کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘
تو حقیقی خوشگوار زندگی کے لیے حکمت کا ہونا لازمی اور ضروری ہے اور وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، انسان کی زندگی میں حکمت کی ضرورت و اہمیت اور اس کی قدر و منزلت اگر جاننا چاہیں تو بہت حیران کن حقائق جاننے کو ملیں گے۔
مثلا: دنیا کی نعمتیں آپ جانتے ہیں کہ بے شمار اور ان گنت ہیں، ان کا احاطہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے اور یہ اللہ تعالی کا اعلان ہے۔
﴿وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا﴾ (ابراهيم:34)
’’اور اگر اللہ تعالی کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو گے تو نہ کر پاؤ گے۔‘‘
مگر یہ ساری کی ساری نعمتیں کہ جن کا احاط ممکن نہیں ہے متاع قلیل کہلاتی ہیں، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيل﴾ (النساء:77)
’’ان سے کہو! سرمایہ جہاں بہت قلیل ہے ۔‘‘
جس کا مطلب ہے کہ اگر کسی کو ساری کی ساری دنیا بھی مل جائے جو کہ ممکن نہیں ہے، تو بھی اسے حقیقت میں متاع قلیل ہی ملے گا لیکن اس کے برعکس اگر چہ کوئی شخص ان تمام نعمتوں سے محروم ہی ہو مگر اسے نعمت حکمت حاصل ہو تو اُس کے بارے اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا﴾ (البقره:269)
’’اور جس کو حکمت دی گئی ، اسے خیر کثیر دی گئی۔‘‘
تو نعمت حکمت کی اہمیت اور قدر و منزلت کا اندازہ کیجئے کہ کسی کو ساری دنیا بھی مل جائے تو اسے متاع قلیل ہی ملی لیکن کسی کو حکمت مل جائے تو اسے بہت بڑی دولت ملی ۔
سوال یہ ہے کہ آخر حکمت ہے کیا چیز ؟ اس میں کون سی ایسی بات ہے جس کی بنا پر اسے خیر کثیر قرار دیا گیا ہے۔ تو آئیے سب سے پہلے حکمت کی حقیقت اور اس کے معنی و مفہوم کے بارے میں جانتے ہیں، پھر اس کی ضرورت و افادیت اور اس کے فقدان کے نقصانات کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ
حکمت کا لفظ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مختلف معنوں میں وارد ہوا ہے، کہیں نبوت کے معنوں میں، کہیں سنت کے معنوں میں، کہیں فقہ فی الدین کے معنوں میں کہیں اتباع کہیں تقوی اور خشیت الہی کے معنوں میں۔ ان کے علاوہ بھی حکمت کے متعدد معانی ہیں، مگر لفظ حکمت کی ایک ایسی جامع تعریف جو ان تمام معانی کو محیط ہو، کچھ یوں ہوگی کہ ( وَضْعُ الشَّيْءِ فِي مَوْضِعِهِ))
’’چیزوں کو ان کے مقام پر رکھنا ۔‘‘
اسی طرح اس کی کچھ اور جامع تعریفیں بھی کی گئی ہیں، جیسا کہ اس سے ملتی جلتی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ:
((فِعْلُ مَا يَنْبَغِي ، كَمَا يَنْبَغِي ، فِي الْوَقْتِ الَّذِي يَنْبَغِي))
’’ایک ایسا کام کہ جو جس طرح ہونا چاہیے جس وقت میں ہونا چاہیے وہ اس وقت میں ہی ہو یعنی صحیح اور درست کام، صحیح طریقے سے اور صحیح وقت میں سر انجام پائے۔‘‘
اب آئیے حکمت کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں ذرا جانتے ہیں: حکمت کسی آدمی کے قول اور فعل سے کیونکر صادر ہوتی ہے، اس کے پیچھے کیا عوامل ہوتے ہیں، انسان کے اندر کون سی خوبیاں اور صلاحیتیں ہوتی ہیں جن کی بنا پر اس کے کسی قول یا موقف سے حکیمانہ طرز عمل ظاہر ہوتا ہے؟
تو حکمت کے ظہور کے بنیادی تین عناصر ہیں:
1۔ ذہانت 2۔ قوت ارادی 3۔ علم و معرفت
اور ان تینوں خوبیوں اور صلاحیتوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے، ان میں سے کوئی ایک خوبی تنہا حکمت کے ظہور اور صدور کے لیے کافی نہیں ہے۔
کوئی آدمی چاہے کتنا ہی ذہین وفطین ہو، اس کے پاس اگر علم اور قوت ارادی اور قوت فیصلہ نہیں ہے تو اس کے کسی قول و فعل سے ہرگز حکمت ظاہر نہیں ہو سکتی اسی طرح دوسری دونوں صفات ہیں۔
کہ کسی آدمی کا علم چاہے کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو، اس کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں ہوتی کہ اس کے پاس حکمت کے تین اجزاء میں سے ایک جزو ہے
ممکن ہے کوئی آدمی کسی ایک شعبے میں مخصص ، ماہر اور اسپیشلسٹ ہو، مگر ضروری نہیں کہ وہ حکیم بھی ہو، اسی طرح ضروری نہیں کہ حکیم کسی علم میں ماہر اور متخصص بھی ہو۔ عالم اور حکیم کے فرق کو یوں سمجھئے کہ علم ہمیں اسلحہ بنانا سکھاتا ہے، مگر حکمت ہمیں بتاتی ہے کہ اسلحہ کب استعمال کرتا ہے۔
خیر! اس دور میں علماء بہت ہیں، جبکہ حکماء نادر اور قلیل ہیں، خال خال ہیں، اس دور میں حکماء کی ضرورت بہت زیادہ ہے، اور مستقبل میں مزید بڑھتی جائے گی، کیونکہ علم تقریبا اپنے عروج اور کمال کو پہنچ چکا ہے، مادی ترقی کی انتہا ہو چکی ہے، پھر اس کے بعد بڑے اور سب سے اہم سوالوں کا دور شروع ہوگا، کہ آدمی کی پہچان کیا ہے اس کے وجود کا مقصد کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہو گا وغیرہ۔
یہ کی ہے کہ حکمت کو جنم دینے والی خوبیاں اور صلاحیتیں حکمت کے ظہور کے لیے بنیادی شرطیں ہیں، مگر اس ضمن میں دو تین باتیں جاننا ضروری ہیں کہ ایک تو حکمت صرف مسلمان کو ملتی ہے اور دوسرے یہ کہ ہر ایک مسلمان کو نہیں ملتی، یہ اللہ تعالی کی عنایت ہے، اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور تیسرے یہ کہ جن کو ملتی ہے ان میں بھی درجات و تفاوت ہوتا ہے، جیسا کہ آیات و احادیث سے ظاہر ہے۔
تو حکمت اللہ تعالی کی عنایت ہے، اس کا انعام اور احسان ہے، حکمت کی ہر انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں ضرورت ہوتی ہے۔
اس کی ذاتی زندگی میں ازدواجی زندگی میں تعلیم و تربیت میں، کاروبار میں، حکومت دریاست میں، وعظ و ارشاد میں اور ہر معاملے میں اور تبلیغ دین میں تو حکمت شرط ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۱۲۵﴾ (النحل:125)
’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور ان سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔‘‘
جس کی زندگی میں حکمت نہیں ہوتی اس کی زندگی الجھنوں، مصیبتوں اور پریشانیوں میں گھری ہوتی ہے، اس سے نادانیاں اور حماقتیں سرزد ہوتی رہتی ہیں، غلط فیصلے ہوتے ہیں، وہ خواہشات کا غلام ہوتا ہے، اور جسے حکمت عطا ہو جاتی ہے، اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ بات کہاں کرتی ہے اور خاموش کہاں رہنا ہے، کیونکہ بسا اوقات بات ہی سے آدمی کو عزت و احترام ملتا ہے اور بات ہی سے ذلت و رسوائی ملتی ہے، اور صاحب حکمت کو معلوم ہوتا ہے کہ کون سا موقع عزت و احترام والا ہے اور کون سا ذلت و رسوائی والا، چنانچہ وہ قوت ارادی کے ساتھ وہاں بات کرنے یا خاموش رہنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور زندگی کے تمام شعبوں میں ایسا ہی طرز عمل ہوتا ہے جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سیاست و حکمرانی کے شعبے میں حکیمانہ انداز کچھ یوں تھا، فرماتے ہیں:
لَوْ أَنَّ بَيْنِي وَبَيْنَ النَّاسَ شَعرَةٌ مَا انْقَطَعَتْ))
’’کہ اگر میرے اور لوگوں کے درمیان ایک بال بھی ہو تو لوٹتا نہیں ہے، یعنی اگر بہت کمزور اور نازک تعلقات بھی ہوں تو ٹوٹنے نہیں دیتا۔‘‘
قيل: وكيف.
’’پوچھا گیا: وہ کیسے؟‘‘
((قَالَ: لِأَنَّهُمْ إِنْ مَدُّوهَا خَلَّيْتُهَا ، وَإِنْ خَلَّوْهَا مَدَدْتُها))
(روضة العقلاء ونزهة الفضلاء ، ص:72)
’’فرمایا: وہ یوں کہ اگر وہ اس بال کو کھینچیں تو میں اسے ڈھیلا چھوڑ دیتا ہوں اور اگر وہ ڈھیلا چھوڑتے ہیں تو میں کھینچ لیتا ہوں۔‘‘
تو حکمت بہت بڑی نعمت ہے اور یقینًا خیر کثیر ہے، مگر یہ محض اللہ تعالی کا انعام اور احسان ہے (يؤتى الحكمة من يشاء) وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔
حکمت مال و دولت سے نہیں خریدی جاتی ، عہد و منصب سے نہیں ملتی ، شہرت سے نہیں ملتی رقوت و طاقت سے نہیں ملتی بلکہ محض اللہ تعالی کی عنایت ہے، البتہ کوشش کی جاسکتی ہے۔ دعا کے ذریعے اور دین کے ساتھ گہری وابستگی کے ذریعے ، لہذا اس کی اہمیت کے پیش نظر ضرور اس کی فکر ہونی چاہیے اور کوشش بھی ہونی چاہیے۔ بلکہ یہ جاننے کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ حکمت کا کچھ حصہ ہمیں بھی نصیب ہوا ہے کہ نہیں اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
حکمت یوں تو جس خوش نصیب کو نصیب ہو جاتی ہے اسے زندگی جینے کا سلیقہ آ جاتا ہے۔ اس کے معاملات درست سمت چلنے لگتے ہیں، پاکیزہ اور خوشگوار زندگی حاصل ہو جاتی ہے، لیکن ہم جیسے عام آدمی کے لیے کہ جو اُس نعمت سے محروم ہیں، زندگی کے مختلف پہلوؤں سے حکماء کے چند حکیمانہ اقوال و افعال اور مواقف کا ذکر کریں گے تاکہ کم از کم ایسا کوئی موقع ہماری زندگی میں آئے تو ہم ان جیسا طرز عمل اپنا سکیں۔
تو چند ایک واقعات کا ذکر کرتے ہیں، بلند ہمتی کے حوالے سے ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ بلند ہمتی بھی انسان کی عقل و فراست ، دور اندیشی اور حکمت و دانائی پر دلالت کرتی ہے چنانچہ ایک واقعہ یوں ہے کہ مصر کے بازار میں فروخت کے لیے دو حبشی غلام لائے گئے، دونوں بیٹھے آپس میں باتیں کرنے لگے، ایک دوسرے کی خواہشات جاننے لگے۔ ایک کہنے لگا: میری خواہش ہے کہ مجھے کوئی ایسا آدمی خریدے جو طباخ ہو، یا اس کا کھانے پینے کا کاروبار ہوں تا کہ خوب کھاؤں اور سیر ہو کر کھاؤں ۔ دوسرا ساتھی کہنے لگا: مگر میں چاہتا ہوں کہ میں پورے مصر کا مالک بن جاؤں ، مصر پر حکومت کروں اور میرا حکم چلے۔ کچھ دنوں بعد پہلا شخص تو اپنی خواہش کے مطابق ایک طباخ کا ہی غلام بنا۔ جبکہ دوسرے شخص کو مصر کے حکمران طبقے میں سے کسی قائد نے خرید لیا۔ اس کی ذہانت اور قائدانہ صلاحیتیں دیکھ کر اس کو قریب کر لیا، جب وہ مالک فوت ہوا تو اس نے اس کی جگہ لے لی حتی کہ محنت کرتا کرتا چیف آف سٹاف بن گیا حتی کہ مصر اور شام پر حاکم بن گیا اور ابو المسلک کا فور الا خشندی کے نام سے مشہور ہوا۔ (ابوالمسک کافور ، ص:136)
تو حکمت صرف کوئی دانائی کی بات کہہ دینے کا نام نہیں ہے ، بلکہ آدمی کے عزم ارادے کی پختگی ، قوت فیصلہ کی موجودگی اور بلند ہمتی بھی اس کا ایک لازمی عنصر ہوتی ہے، جو آدمی کسی کمتر چیز کو برتر پر ترجیح دے تو وہ تو ایک سادہ نظمند بھی نہیں ہوتا چہ جائیکہ وہ صاحب حکمت کہلائے ، لہٰذا آدمی کو بلند ہمت اور بلند مقصد بھی ہونا چاہیے ، چنانچہ اس حوالے سے شاعر (منبتی) نے کیا خوب کہا ہے:
إِذَا عَامَرْتَ فِي شَرَفٍ مَرُوْمٍ
فَلَا تَقْنَعُ بِمَا دُونَ النُّجُومِ
فطعمُ الْمَوْتِ فِي أَمر حقير
کطعم الموت في أمر عظيم
’’اگر کسی مقام و مرتبے کے حصول کے لیے مہم جوئی کرنا چاہتا ہے تو پھر ستاروں سے کم پر قناعت نہ کرنا ، کہ موت کا ذائقہ کسی حقیر چیز میں بھی ایسا ہی ہے جیسا کسی عظیم چیز کے لیے ہے ۔‘‘
……………..