عشرہ ذوالحجہ کی اہمیت و فضیلت
﴿وَ الْفَجْرِۙوَ لَیَالٍ عَشْرٍۙ وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِ وَ الَّیْلِ اِذَا یَسْرِۚ هَلْ فِیْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍؕ﴾ (الفجر:1۔5)
گذشتہ جمعے عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت ہم نے جانی، ماہ ذوالحجہ کے یہ ابتدائی دس دن جو کہ کل سے شروع ہو رہے ہیں سال بھر کے تمام ایام سے یقینًا افضل و برتر ہیں، اللہ تعالی نے ان کی قسم کھائی اور ان میں ذکر و اذکار اور تکبیر تسبیح کی ترغیب دی ہے، اسی طرح احادیث میں بھی ان کی فضیلت بیان ہوئی اور ان میں کثرت سے تسبیح و تحمید اور تکبیر و تہلیل کی تاکید کی گئی ہے۔
لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ جس طرح نہایت تاکید کے ساتھ ان ایام کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور جس پر زور انداز سے ان میں عمل صالح کی ترغیب دی گئی ہے، لوگوں میں اس حساب سے جوش و ولولہ نظر نہیں آتا ، شوق و جذ بہ دکھائی نہیں دیتا، پہلے تو اکثر لوگ ان ایام کی فضیلت سن کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے ، ان میں کوئی تحریک اور باچل پیدا نہیں ہوتی اور پھر جو لوگ تھوڑی بہت کوشش کرتے بھی ہیں، تو وہ بھی بس اک سرسری ہی اور بے دلی کے ساتھ ہوتی ہے، نیکی کے جذبے اور ذوق و شوق کے ساتھ نہیں ہوتی اور یہ کیفیت دیکھ کر ڈر سا لگنے لگتا ہے کہ کہیں ہمارا شمار منافقین میں تو نہیں ہوتا، کیونکہ قرآن پاک میں یہ کیفیت تو انہی کی بتلائی گئی ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰی ۙ﴾ (النساء:142)
’’یہ منافق اللہ کے ساتھ دھو کہ بازی کر رہے ہیں ، حالانکہ در حقیقت اللہ ہی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔‘‘
﴿وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰی ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًاؗۙ﴾(النساء:142)
’’جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے، محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔‘‘
بے دلی کے ساتھ عبادت کرنا اور بہت کم اللہ کا ذکر کرنا منافقین کی علامات میں سے ہیں: ہم اگر ایمانداری سے اپنی ایمانی کیفیت کا جائز ولیں ، اپنے اپنے طرز عمل پر نظر ڈالیں اور اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ہماری حالت اس سے چنداں مختلف نظر نہیں آئے گی ، ہماری دین سے دوری اور بے رغبتی اور ذوق و شوق کا فقدان واضح طور پر دکھائی دے گا جو کہ اگ انتہائی خطرناک اور خوفناک صورت حال ہوگی، جو کہ حقیقت میں بھی کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے، جسے دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے دین کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق و واسطہ ہی نہیں ہے، حالانکہ دین کے ساتھ ربط و تعلق قائم رکھنا اور وابستہ رہنا ہماری ضرورت بھی ہے اور مطلوب بھی ، اور دین کے ساتھ وابستہ رہنے کا مطلب کم از کم فرائض کی ادائیگی ہے، پابندی کے ساتھ، دین کے ساتھ وابستہ رہنے کا مطلب وہ نہیں جو کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے کہ:
اگر چہ پورا مسلمان تو نہیں ہوں لیکن
اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوں
نماز و روزه و حج و زکوة کچھ نہ سہی
شب برات پٹاخہ تو چھوڑ سکتا ہوں
تو دین کے ساتھ وابستہ رہنے کا مطلب یقینًا وہ نہیں ہے، بلکہ دین کے ساتھ وابستہ رہنے کا مطلب کم از کم فرائض کی پابندی ہے، حالانکہ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے، اور ہمارے حق میں یقینی اور حتمی طور پر بہتر بات یہ ہے کہ ہم فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل میں گہری دلچسپی ظاہر کریں اور مقدور بھر نفلی عبادات بجالانے کی کوشش کریں، تاکہ حقیقی کامیابی کے قریب تر ہو سکیں اور ہمیں اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو اور دنیا و آخرت میں اس کی نوازشوں اور عنایتوں کے مستحق بن سکیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، مشہور حدیث ہے، آپﷺ نے فرمایا: ((وَمَا تَقَرَّبَ إِلَى عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ ))’’سب سے زیادہ میرا کوئی بندہ جو مجھ سے قریب ہوتا ہے تو اس چیز کے ذریعے جو میں نے اس پر فرض کر رکھی ہو۔‘‘
((وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ))
’’ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے جہتی کہ میں اسے اپنا محبوب اور پسندیدہ بنا لیتا ہوں ۔‘‘
((فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يَبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِسُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَإِنْ سَأَلَنِي الأعْطِينَّهُ وَلَيْنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ)) (بخاري:6502)
’’اور جب میں اسے اپنا محبوب اور پسندیدہ بنا لیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں کہ جن سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اس کو ضرور عطا کروں ، مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور پناہ دوں ۔‘‘
یعنی پھر اس کے تمام اعضاء اللہ تعالی کے احکام کے مطابق استعمال ہوتے ہیں اور وہ مستجاب الدعاء بن جاتا ہے۔
تو نوافل کے ذریعہ انسان اپنے رب کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے، مگر نوافل پر توجہ دینے کی ضرورت و اہمیت آدمی کو تب سمجھ آتی ہے جب اسے اللہ تعالی کی محبت کی قدر و قیمت سمجھ میں آجائے، اس کی ضرورت واہمیت سمجھ میں آجائے۔
دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہونا انسان کا سرمایہ حیات ہے، حقیقی فوز و فلاح ہے، اور مطلوب و مقصود ہے۔ قرآن وحدیث میں اللہ تعالی کی محبت کی ضرورت و اہمیت کو خوب واضح کر کے بیان کیا گیا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی کا یہ انداز ملاحظہ کیجئے، اللہ فرماتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ ۙ﴾(المائدة:54)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے، (تو پھر جائے) اللہ تعالی اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہوگا اور جو اللہ سے محبت کرتے ہوں گے۔‘‘
اور حدیث میں اللہ کی محبت مانگنے کی دعاء سکھائی گئی ہے۔
((اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يبلغني حبك )) (ترمذي:3490)
’’اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور جو تم سے محبت کرتا ہے اس کی محبت کا بھی سوال کرتا ہوں اور ہر ایسے عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے۔‘‘
اور اگر کسی کے دل میں دنیا کی محبت، اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر غالب آجائے توپھر ایسے شخص کے لیے شدید وعید بھی سنائی گئی ہے، فرمایا:
﴿قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ِ۟اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠﴾ (التوبه:24)
’’کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا ۔‘‘
تو اللہ کی محبت کی ضرورت واہمیت سمجھ میں آجائے تو پھر انسان اس کے حصول کے لیے تمام ذرائع اور وسائل بروئے کار لاتا ہے، اس کے لیے جد و جہد کرتا ہے، قوت و طاقت صرف کرتا ہے اور تمام صلاحیتیں کھپا دیتا ہے۔
ممکن ہے بہت سے لوگ اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہوں کہ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اک بہت بڑا دعوٹی ہے اور کسی بچے مسلمان کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ ایسا دعویٰ کرے سوائے انبیاء علیہم السلام کے، کیونکہ ایک تو کوئی شخص علم غیب نہیں رکھتا کہ جس کی بناء پر وہ یہ دعوی کر سکے اور دوسرے یہ کہ خصوصی طور پر اس سے متعلق کوئی آیت اور حدیث نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس سے محبت کرتا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ ہر دعوے کی کوئی اک دلیل ہوتی ہے اور اللہ تعالی سے محبت کے دعوے کی دلیل اتباع رسولﷺ ہے۔
﴿قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي﴾ (آل عمران:31)
’’کہہ دیجئے! کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو‘‘
اسی طرح اللہ کے ہاں بھی محبت کا اک معیار ہے کہ اللہ تعالی کن کن لوگوں سے محبت کرتا ہے، اتباع رسول کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے مزید کئی صفات کا ذکر فرمایا ہے۔
اور چوتھے یہ کہ اللہ سے محبت کرنے والوں کا انداز یہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنے ایمان کی سلامتی کی فکر ہوتی ہے اور یہ اندیشہ انہیں کھائے جا رہا ہوتا ہے کہ کہیں وہ منافق تو نہیں ہیں۔
اندازہ کیجئے کہ صحابہ کرام کہ جن کی جان نثاری، آپﷺ سے محبت اور اطاعت و فرمانبرداری پر کسی مسلمان کو ہرگز کوئی شک نہیں ہو سکتا، جن کا اتباع سنت کا اک انوکھا اور نرالہ انداز یہ تھا کہ آپﷺ نے دوران سفر اگر کسی جگہ قضائے حاجت کے لیے کہیں قیام فرمایا ہوتا، تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی اپنے سفر کے دوران عین اسی جگہ پر بغیر حاجت کے، قضائے حاجت کے انداز سے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کا حال یہ تھا کہ وہ اس بات سے ڈرتے کہ کہیں وہ منافق تو نہیں ہو گئے ۔
اک مشہور تابعی ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ
((أَدْرَكْتُ ثَلاثِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ كُلُّهُمْ يَخَافُ النِّفَاقَ على نفسه)) (بخاري، كتاب الايمان باب خوف المؤمن من ان يحيط عمله وهو لا يشعر)
’’مجھے میں صحابہ کرا م رضی اللہ تعالی عنہم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے اور وہ تمام کے تمام اپنے بارے میں نفاق کا ڈر اور خوف رکھتے تھے۔‘‘
جب ان پاکباز ہستیوں کا یہ حال تھا تو پھر ہماری کیا حیثیت ہے اور ہمارے پلے کیا ہے کہ ہم یہ دعوی کر سکیں یا فخر کر سکیں کہ ہم اللہ سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ البتہ کچھ لوگ اللہ تعالی کے کسی بندے سے محبت کرنے اور اس سے خوش ہونے کی علامت اور دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالی نے اسے خوب مال و دولت سے اور دیگر نعمتوں سے نواز رکھا ہے، اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے خوش ہے اور اس سے محبت کرتا ہے، حالانکہ مال و دولت کی فراوانی اللہ تعالی کی محبت اور خوشنودی کی علامت اور معیار ہر گز نہیں ہے۔ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الله يُعْطِي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ وَمَنْ لَا يُحِبُّ))
’’اللہ تعالی جن سے محبت کرتا ہے، ان کو بھی دنیا دیتا ہے اور جن سے محبت نہیں رکھتا ان کو بھی دیتا ہے۔‘‘
((وَلَا يُعْطِي الدِّينَ إِلَّا مَنْ يُحِبُّ)) (مسند احمد:3490، السلسلة الصحيحة:2714)
’’مگر دین صرف اس کو دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح صحت مند و توانا جسم بھی اللہ کی محبت کی علامت نہیں ہے، حدیث میں ہے۔
آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّهُ لَيَأْتِي الرَّجُلُ الْعَظِيمُ السَّمِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَزِنُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَة)) (بخاري:4729)
’’قیامت کے دن بھاری بھر کم اور موٹا تازہ شخص آئے گا، مگر اللہ کے ہاں اس کی حیثیت اک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوگی ۔‘‘
اس کے برعکس اگر کسی کو اللہ کے ہاں اک مقام و مرتبہ حاصل ہو تو اس کا نحیف و ناتواں ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ بعض صحابہ کرام کی جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی کمزور اور باریک پنڈلیوں پر نظر پڑی تو وہ بے ساختہ ہنس پڑے، تو آپﷺ نے دریافت فرمایا:
((مِمَّ تَضْحَكُونَ؟))
’’کس بات پر ہنستے ہو؟‘‘
((قَالُوا مِنْ دِقَّةِ سَاقَيْهِ))
’’تو انہوں نے عرض کیا کہ اس کی باریک پنڈلیوں کی وجہ سے ۔‘‘
((فَقَالَ:‘‘
’’تو آپﷺ نے فرمایا:‘‘
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَهُمَا أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانَ مِنْ أَحَدٍ)) (مسند احمد:3991)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ پنڈلیاں ترازو میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں‘‘
تو بات اصل میں یہاں سے چلی تھی کہ قرآن وحدیث میں عشرہ ذی الحجہ کی بہت زیادہ فضیلت اور ترغیب و تاکید کے باوجود دلوں میں ان سے مستفید ہونے کا شوق اور جذبہ کیوں نہیں پیدا ہوتا ؟
اس کا جائزہ لینے کے لیے اور اس کے اسباب معلوم کرنے کے لیے یوں تو اک لمبی نشست درکار ہے، مگر خلاصہ اس کا چند باتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے، نیکی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں، جن کے سرفہرست انسان کا اپنا آپ، نفس انسانی اور دوسرے نمبر پرشیطان، اور تیسرے نمبر پر گھر کا اور معاشرے کا ماحول، ان میں ترتیب ضروری نہیں ہے،
کیونکہ کسی ایک کے لیے کوئی ایک ترتیب ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے کے لیے کوئی دسری۔ یہ چیزیں کسی طرح نیکی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں اور ان سے بچنے کا طریقہ کیا ہے، یہ ایک الگ مستقل موضوع ہے، مگر اس کا جو سب سے خطر ناک پہلو ہے وہ یہ ہے کہ اس بات کا احساس ہی ختم ہو جانا کہ ان چیزوں کا انسان کی بے راہ روی میں کوئی عمل دخل بھی ہے، جبکہ یہ عدم احساس اور بے حسی ہی در اصل تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
انسان کی بے راہ روی کے ان تین بنیادی اسباب میں سے گھروں کے ماحول کا اگر جائزہ لینا چاہیں، تو سب سے پہلے اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ گھروں کے ماحول کے خراب ہونے کا احساس ہی ختم ہو چکا ہے، کیا ہم میں سے کوئی شخص یہ جاننے کے لیے تیار ہوگا کہ اس کے گھر کا ماحول خراب ہے؟ بالکل نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر خطرے کی بات یہ ہوگی کہ اگر بتلایا جائے کہ گھروں کا ماحول خراب ہے تو یقینًا بہت سے لوگ چیں بجبیں ہوں گے، یعنی ماتھے پر شکن ڈالتے ہوئے نظر آئیں گے۔
تو آئیے وہ کڑوی حقیقت معلوم کرتے ہیں کہ جس کے سبب گھروں کا ماحول خراب ہوتا ہے اور وہ متعدد اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ جس کے گھر میں ٹی وی ہے اس گھر کے ماحول کو کم از کم خالص دینی ماحول نہیں کہہ سکتے، باقی آپ اس کو جو بھی نام دینا چاہیں آپ کی مرضی ہے، حقیقت میں ٹی وی والے گھر کا ماحول خراب ہی ہے، البتہ میں اس کی خرابی کے لیول کا تعین نہیں کر سکتا، لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کے گھر کا ماحول خراب نہیں ہے تو یہ محض اس کی خوش فہمی ہے۔
گھر کا ماحول صاف کرنے کے لیے سب سے پہلے اس گھر سے شیطان کو بھگانا ہوگا۔
مثلاً: حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بيته فذكر الله عِنْدَ دُخُولِهِ وَعِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ الشَّيْطَانُ لَا مَبِيتَ لَكُمْ وَلَا عَشَاءَ ))
’’جب کوئی آدمی اپنی گھر میں داخل ہو اور وہ داخل ہوتے وقت اور کھانا کھانے کے وقت کا ذکر کر لے، بسم اللہ پڑھ لے تو شیطان دوسرے شیطانوں سے کہتا ہے کہ آج تو یہاں نہ رات رہنے کا ٹھکانا ہے اور نہ کھانا کھانے کا انتظام ‘‘
((وَإِذَا دَخَلَ فَلَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ عِنْدَ دُخُولِهِ قَالَ الشَّيْطَانُ أَدْرَكْتُمُ المبيت))
’’اور وہ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے کہ رات گزارنے کی جگہ تو مل گئی ۔‘‘
((وَإِذَا لَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ عِنْدَ طَعَامِهِ قَالَ أَدْرَكْتُمُ الْمَبِيتَ وَالْعَشَاءَ))(مسلم:5262)
’’اور اگر کھانے کے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے، یعنی بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان کہتا ہے کہ آج رات گزارنے کی جگہ بھی مل گئی اور کھانے کا انتظام بھی ہو گیا۔‘‘
اب یقینًا بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ وہ گھر میں داخل ہوتے وقت بھی اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور کھانا کھاتے وقت بھی، مگر شیطان پھر بھی گھر سے نہیں جاتا، اس کی وجہ امام ابن جوزی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ شیطانوں کا متقی اور مخلط کے ساتھ مختلف معاملہ ہوتا ہے، متقی تو آپ جانتے ہیں کہ نیکوکار اور پر ہیز گار شخص کو کہتے ہیں اور مخلط کا مطلب ہے ملے جلے عملوں والا، یعنی نیکیاں بھی کرتا ہے اور گناہ بھی کرتا ہے۔
ایک متقی کے ساتھ اس کا معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے جیسے کسی آدمی کے پاس کھانا ہو اور کتا پاس سے گزرے اور وہ آدمی کتے سے کہے وفعہ ہو جا، تو وہ چلا جاتا ہے۔
اور دوسرا شخص مخلط ہے اور اس کا معاملہ یوں ہے کہ اس کے پاس کھانا بھی ہے اور گوشت بھی ، کتا اس کے پاس آتا ہے، وہ کتے کو دفعہ کرتا ہے، کتا تھوڑا پیچھے ہٹتا ہے اور پھر آجاتا ہے، کیونکہ اس کی نظر گوشت پر ہے۔
تو متقی شخص کے صرف اعوذ باللہ پڑھنے سے شیطان دور چلا جاتا ہے، لیکن مخلط کے اعوذ باللہ پڑھنے سے شیطان چلا تو جاتا ہے، مگر لوٹ کر پھر آجاتا ہے، کیونکہ اس کی پسندیدہ چیز بدستور وہاں موجود ہے اور جب تک وہ وہاں موجود رہے گی وہ آتا رہے گا۔
اسی طرح ہم میں سے وہ شخص جس کے گھر میں ٹی وی ہے وہ اگر چہ گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھتا بھی ہو، مگر شیطان پھر بھی آجائے گا، کیونکہ اس کی تفریح کا سامان وہاں موجود ہے، اور جب وہ گھر میں آئے گا تو سونے کے لیے تو نہیں آئے گا، وہ جہاں جاتا ہے تباہی مچاتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
…………………..