صبر کے فوائدو ثمرات
اہم عناصر خطبہ :
01. صبر کا مفہوم
02. صبر کی اہمیت
03.صبر کے بعض ثمرات وفوائد
04. مختلف آزمائشوں پر صبر :
٭ پیاروں کی جدائی پر صبر
٭ جسمانی تکلیفوں پر صبر
٭ لوگوں کی اذیتوں پر صبر
٭ حکمرانوں کے ظلم پر صبر
٭ بیٹیوں کی آزمائش پر صبر
05.صبر کی شرائط
06.صبر کی اقسام
برادران اسلام ! گذشتہ خطبۂ جمعہ میں ہم نے یہ عرض کیا تھا کہ ایمان کے دو حصے ہیں : پہلا شکر اور دوسرا صبر، پھر ہم ہے نے شکر کی اہمیت ، اس کے فضائل اور فوائد وثمرات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی تھی۔ جبکہ آج ہمارا موضوع ِ سخن ایمان کا دوسرا حصہ یعنی ’’ صبر ‘‘ ہے۔
عربی زبان میں ’’ صبر ‘‘ کا معنی ہے : روکنا اور بند کرنا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ﴾ الکہف18:28
’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں میں بند رکھیئے جو صبح وشام اپنے رب کی رضا کو طلب کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں ۔‘‘
’’صبر ‘‘ کے اسی لغوی معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض اہل علم نے اس کی تعریف یوں کی ہے :
(حَبْسُ النَّفْسِ عَنِ الْجَزَعِ وَالتَّسَخُّطِ،وَحَبْسُ اللِّسَانِ عَنِ الشَّکْوَی،وَحَبْسُ الْجَوَارِحِ عَنِ التَّشْوِیْشِ )
یعنی ’’ اپنے آپ کو گھبراہٹ اور ناگواری سے روکنا ، زبان پر حرفِ شکایت نہ لانا اور باقی اعضائے جسم کو الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہونے سے بچانا ۔‘‘
گویا ’’ صبر ‘‘ سے مراد ہے : برداشت کرنا ، زبان پر حرفِ شکایت نہ لانااورگھبراہٹ ، بے چینی اور مایوسی کا
اظہار نہ کرنا ۔
ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ’’صبر ‘‘ سب سے بڑی خیر ہے اور اس سے بہتر کوئی خیر نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال طلب کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عطا کر دیا ۔ انھوں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر عطا کر دیا یہاں تک کہ جب آپ کے پاس مال ختم ہو گیا تو آپ نے فرمایا :
(( مَا یَکُنْ عِنْدِیْ مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَہُ عَنْکُمْ،وَمَنْ یَّسْتَعْفِفْ یُعِفُّہُ اللّٰہُ ۔۔۔وَمَا أُعْطِیَ أَحَدٌ عَطَائً خَیْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ )) صحیح البخاری : 1469،6470، صحیح مسلم :1053
’’ میرے پاس جو خیر بھی ہو گی اسے میں تم سے بچا کر ذخیرہ نہیں کرونگا ۔ اور جو شخص سوال کرنے سے بچے گا اسے اللہ تعالیٰ بچائے گا ۔۔۔۔ اور کسی شخص کو صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ وسیع عطیہ نہیں دیا گیا ۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ’’ صبر ‘‘ کا تذکرہ ( مختلف افعال واسماء میں ) سو سے زیادہ مرتبہ کیا ہے اور مختلف انداز سے اس کی ضرورت واہمیت کو واضح فرمایا ہے ۔
٭ چنانچہ کہیں اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّہُمْ ﴾ الأحقاف46 :35
’’ پس آپ صبر کیجئے جیسا کہ الو العزم پیغمبر صبر کرتے رہے ،اور ان(کفار)کے بارے میں جلدی نہ کیجئے ۔ ‘‘
٭ اور کہیں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان سے یوں مخاطب ہوتا ہے :
﴿یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾ آل عمران 3:200
’’ اے ایمان والو ! صبر کرو ، پامردی دکھلاؤ ، ہر وقت جہاد کیلئے تیار رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو ۔ ‘‘
٭ اور کہیں اللہ تعالیٰ ’’ صبر ‘‘ کرنے والوں کو یوں بشارت دیتا ہے :
﴿وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ٭الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَالصَّابِرِیْنَ عَلَی مَا أَصَابَہُمْ وَالْمُقِیْمِیْ الصَّلَاۃِ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ ﴾ الحج22 :35-34
’’ اور ان عاجزی کرنے والوں کو بشارت دیجئے کہ جن کے دل اُس وقت دہل جاتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا
جاتا ہے ۔ اور جب کوئی مصیبت آتی ہے تو صبر کرتے ہیں ۔ اور نماز ہمیشہ پابندی کے ساتھ پڑھتے رہتے ہیں ۔ اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ ‘‘
٭ اور کہیں اللہ تعالیٰ نماز اور صبر کو ایک ساتھ ذکر کرکے صبر کو بھی اتنا ہی اہم قرار دیتا ہے جتنی اہم نماز ہے :
﴿واسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ ﴾ البقرۃ 2: 45
’’ اور صبر اور نماز کے ذریعے ( اللہ تعالیٰ سے ) مدد مانگو ۔ ‘‘
٭ اور کہیں اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو اپنی معیت کا یوں یقین دلاتا ہے :
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ﴾ البقرۃ 2: 45
’’ ایے ایمان والو ! تم صبر اور نماز کے ذریعے ( اللہ تعالیٰ سے ) مدد طلب کرو ۔ اور یقین کر لو کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ ‘‘
٭ اور کہیں اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے اپنی محبت کا اظہار فرماتا ہے :
﴿وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ ﴾ البقرۃ 2: 45 ’’ اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘
٭ اور کہیں اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بشارت دیتا ہے کہ ان کا اجروثواب ضائع نہیں ہو گا : ﴿ إِنَّہُ مَن یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ یوسف12 :90
’’ جو شخص اُس سے ڈرتا اور صبر کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔‘‘
یہ در اصل حضرت یوسف علیہ السلام کی بات ہے جو انھوں نے اپنے ان بھائیوں سے کہی تھی جنھوں نے ان پر انتہائی ظلم کرتے ہوئے انھیں کنویں میں پھینک دیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اِس پر صبر کیا ، پھر قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے ’’صبر ‘‘ کے بدلے میں انھیں تخت ِمصر پر بٹھا دیا اور ان کے بھائیوں کو ان کے دربار میں سوالی کے طور پر لا کھڑا کیا ۔
٭اور کہیں اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر وثواب دینے کا وعدہ فرماتا ہے:
﴿إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْْرِ حِسَابٍ﴾ الزمر39 :10
’’ بلا شبہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا ۔ ‘‘
٭اور کہیں اللہ تعالیٰ مالی اور جسمانی آزمائشوں کا تذکرہ کرکے ایمان والوں کو صبر کی ترغیب دلاتا
ہے:﴿لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوا أَذًی کَثِیْرًا وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ﴾ ٓل عمران3 :186
’’ تمھیں اپنے اموال اور اپنی جانوں میں آزمائش پیش آکر رہے گی ۔ نیز تمھیں ان لوگوں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ‘ اور مشرکین سے بھی بہت سی تکلیف دہ باتیں سننا ہو نگی ۔ اور اگر تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تو بلا شبہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے ۔ ‘‘
ان تمام آیاتِ مبارکہ اور ان جیسی دیگر کئی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ مومن کو صابر اور متحمل مزاج ہونا چاہئے ۔ اسے پریشانیوں اور آزمائشوں میں بے صبری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مکمل طور پر برداشت سے کام لینا چاہئے اور اس سلسلے میں اسے انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں کو سامنے رکھنا چاہئے جو مصائب وآلام میں صبر وتحمل کے پہاڑ بنے رہتے تھے حالانکہ ان پاکباز حضرات پر آزمائشیں بھی سب سے بڑی آتی تھیں، اس کے باوجود وہ صبر کا مظاہرہ بھی سب سے زیادہ کرتے تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( أَشَدُّ النَّاسِ بَلَائً اَلْأنْبِیَائُ،ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ، یُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلیٰ حَسَبِ دِیْنِہٖ،فَإِنْ کَانَ فِی دِیْنِہٖ صُلْبًا اِشْتَدَّ بَلَاؤُہُ،وَإِنْ کَانَ فِی دِیْنِہٖ رِقَّۃً اُبْتُلِیَ عَلیٰ قَدْرِ دِیْنِہٖ ،فَمَا یَبْرَحُ الْبَلَائُ بِالْعَبْدِ حَتّٰی یَتْرُکَہُ یَمْشِی عَلَی الْأرْضِ وَمَا عَلَیْہِ خَطِیْئَۃٌ)) سنن الترمذی : 2398، سنن ابن ماجہ :4023۔ وحسنہ الألبانی
’’ انبیاء علیہم السلام لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ پھر وہ جو سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہوتا ہے ۔ اور ہر شخص کو اس کی دینداری کے مطابق آزمایا جاتا ہے ۔ اگر وہ دینداری میں مضبوط ہو تو اس پر آزمائش بھی سخت آتی ہے ۔ اور اگر وہ اس میں کمزور ہو تو اس کے مطابق ہی اسے آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ۔ اور آزمائشیں بندۂ مومن کو پریشان کئے رکھتی ہیں حتی کہ وہ زمین پر اس حالت میں چلتا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو چکا ہوتا ہے ۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سب سے بڑی آزمائشیں انبیاء علیہم السلام پر آئیں جن پر انھوں نے صبر وتحمل کے وہ اعلی نمونے پیش کئے جو آج بھی ہر مومن کیلئے لائقِ اتباع اور قابلِ قدر ہیں ۔ ان نمونوں میں سے ایک عظیم الشان نمونہ حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا ہے جو انھوں نے اپنی جسمانی تکلیفوں کو برداشت کرکے پیش کیا اور جو آج بھی ضرب المثل کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وَاذْکُرْ عَبْدَنَا أَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ٭ اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ہَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ ٭ وَوَہَبْنَا لَہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِکْرَی لِأُولِیْ الْأَلْبَابِ ٭ وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّہِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّہُ أَوَّابٌ﴾ ص38 : 44-41
’’ اور ہمارے بندے ایوب( علیہ السلام )کو یاد کیجئے جب انھوں نے اپنے رب کو پکار کر کہا : شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے ۔ ( ہم نے انھیں کہا : ) اپنا پاؤں مارو ، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کیلئے اور ہم نے انھیں ان کے اہل وعیال عطا کئے اور اپنی مہربانی سے ان کے ساتھ اتنے اور بھی دے دئیے ، یہ اہلِ دانش کیلئے نصیحت ہے ۔ اور ( ہم نے کہا : ) اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لو ، اس سے مارو اور قسم نہ توڑو ۔ ہم نے ایوب ( علیہ السلام ) کو صابر پایا ، وہ بہترین بندے تھے جو ہر وقت ( اللہ کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ ‘‘
نیز فرمایا :﴿وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ٭ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَّآتَیْْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَی لِلْعَابِدِیْنَ﴾ الأنبیاء21 :84-83
’’ اور ایوب ( علیہ السلام ) کو یاد کرو جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے ۔چنانچہ ہم نے انھیں ان کے اہل وعیال ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ اور بھی دے دئیے۔ یہ ہماری مہربانی تھی اور عبادت گذاروں کیلئے نصیحت ۔ ‘‘
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت ایوب علیہ السلام کی سخت تکلیف اور شدید بیماری کا ذکر کیا ہے جو آپ کیلئے بہت بڑی آزمائش بن گئی تھی ۔ چنانچہ اولاد اور بیویوں میں سے سوائے ایک بیوی کے باقی سب نے ساتھ چھوڑ دیا ، خوشحالی تنگ حالی میں تبدیل ہو گئی ، بارہ سال اس شدید ابتلا میں گذر گئے مگر پیکرِ صبر واستقامت کی زبان پر ایک مرتبہ بھی حرفِ شکایت نہ آیا ۔ دعا کرتے تو اس میں بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں ۔ بس اتنا کہتے کہ ’’ اے میرے رب ! میں بیمار ہوں اور تو ارحم الراحمین ہے ۔‘‘
اِس کڑے امتحان میں جب سیدنا حضرت ایوب علیہ السلام پوری طرح کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نوازشوں کی بارش کردی ۔ انھیں حکم ہوا کہ زمین پر پاؤں مارو، بس پاؤں مارنے کی دیر تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک چشمہ رواں کردیا ، آپ اس کے شفا بخش پانی میں غسل کرتے اور اسے پیتے رہتے ۔ جسمانی بیماری جاتی رہی اور جو آل واولاد اِس ابتلاء سے پہلے تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے دوگنی عطا فرمادی ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ جب حضرت ایوب علیہ السلام ننگے بدن نہا رہے تھے توآپ پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہونے لگی ، آپ انھیں اپنے کپڑے میں اکٹھا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں پکارا : ایوب ! کیا میں نے تمھیں ان ٹڈیوں سے بے نیاز نہیں کردیا ؟ تو انھوں نے کہا : اللہ ! تیری عزت کی قسم ، یہ تو ٹھیک ہے لیکن میں تیری رحمت سے تو بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ صحیح البخاری :279
یہ یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حضرت ایوب علیہ السلام کے بے مثال صبر وتحمل کا پھل تھا۔
یہ ایک نمونہ تھا صبرِ انبیاء علیہم السلام کے نمونوں میں سے ، ورنہ تمام انبیاء علیہم السلام اسی طرح صبر واستقامت کے پیکر تھے ۔ ارشاد باری ہے :
﴿ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِیْنَ ﴾ الأنبیاء 21:85
’’ اسماعیل ( علیہ السلام ) ، ادریس ( علیہ السلام ) اور ذو الکفل ( علیہ السلام ) یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے ۔ ‘‘
اور خود امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی انتہائی صابر تھے باوجود اس کے کہ آپ کی قوم نے آپ کو شدید تکلیفیں دیں ،زبانی بھی اور جسمانی بھی ۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : کیا آپ پر کوئی دن یومِ احد سے بھی زیادہ سخت آیا ؟ تو آپ نے فرمایا :
’’ مجھے تمھاری قوم کی طرف سے بہت اذیت پہنچی ہے اور سب سے بڑی اذیت مجھے یوم ِ عقبہ کو پہنچی جب میں نے ابن عبد یا لیل بن عبد کلال کو اسلام کی طرف دعوت دی تو اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ میں شدید غمزدہ تھا ، لہٰذا میں منہ جھکائے ہوئے واپس چل دیا ۔ اور مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں قرن الثعالب (میقاتِ اہلِ نجد) کے قریب پہنچا ۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بادل مجھ پر سایہ فگن ہے، میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس میں حضرت جبریل علیہ السلام نظر آئے ۔ انھوں نے مجھے پکارا اور کہنے لگے :
’’آپ کی قوم نے آپ سے جو کچھ کہا ہے اور آپ سے جو سلوک کیا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے اور اس نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے تاکہ آپ جو چاہیں اسے حکم صادر فرمائیں ۔‘‘
چنانچہ اس فرشتے نے مجھے پکارا اور سلام کرنے کے بعد کہا :
( یَا مُحَمَّدُ ! ذَلِکَ فِیْمَا شِئْتَ ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْہِمُ الْأَخْشَبَیْنِ )
’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ جیسے چاہیں گے اسی طرح ہو گا ۔ اگر آپ کی منشا ہو تو میں دونوں پہاڑوں کو آپس میں
ملا دوں اور یہ سب ان کے درمیان ہلاک ہو جائیں ۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ أَصْلَابِہِمْ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہُ لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا )) صحیح البخاری :3231، صحیح مسلم :1795
’’ نہیں ، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ کو بخار تھا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ کو تو شدید بخار ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَجَلْ،إِنِّیْ أُوْعَکُ کَمَا یُوْعَکُ رَجُلاَنِ مِنْکُمْ ))
’’ کیوں نہیں ، مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے ۔ ‘‘
میں نے کہا : اور آپ کو اجر بھی تو دوگنا ملتا ہے ؟
آپ نے فرمایا : (( أَجَلْ ، ذَلِکَ کَذَلِکَ )) ’’ ہاں ، یہ اسی طرح ہے۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیْبُہُ أَذًی شَوْکَۃٌ فَمَا فَوْقَہَا،إِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا سَیِّئَاتِہٖ کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَۃُ وَرَقَہَا )) صحیح البخاری :5648، صحیح مسلم :2571
’’ جس مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے ، کانٹا چبھنے سے یا اس سے بڑی تکلیف ، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے ایک درخت اپنے پتے گراتا ہے۔ ‘‘
صبر کے بعض ثمرات
صبر کے بعض ثمرات وفوائد ہم قرآن مجید کی بعض آیات کے حوالے سے عرض کر چکے ہیں ۔ مثلا یہ کہ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے اور انھیں صبر کرنے کا اجرو ثواب بغیر حساب کے دیا جائے گا ۔۔۔۔ ان فوائد کے علاوہ صبر کے کچھ اور فوائد یہ ہیں :
1۔ صبر کرنے والوں پر دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ
وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ٭ أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ﴾ البقرۃ2 : 157-155
’’اور ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے ، کچھ خوف و ہراس اور بھوک سے اور مال وجان اور پھلوں میں کمی سے۔اور آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !)صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں : ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ ‘‘
ان آیات مبارکہ میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ ہم تمھیں ضرور بالضرور آزمائیں گے اور ہماری طرف سے آزمائش کسی بھی طرح سے آ سکتی ہے ، دشمن کے خوف کے ساتھ ، یا بھوک وپیاس کے ساتھ ، مال میں کمی کے ساتھ ، یا اپنے پیاروں کی جدائی کے ساتھ ، یا پھلوں کے نقصان کے ساتھ ۔۔۔۔۔ یا اس کے علاوہ کسی اور انداز سے ہم تمھیں ضرور آزمائشوں میں مبتلا کریں گے ۔ لیکن اگر تم صبر وتحمل کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھو گے ، اپنے رب کی تقدیر پر رضا مندی کا اظہار کرو گے ، گھبراہٹ اور بے چینی سے اجتناب کرو گے ، کسی بھی آزمائش کی گھڑی میں ( انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھتے ہوئے اس بات کا اعتراف کروگے کہ ’’ ہم خود بھی اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں اور ہم پر ، ہماری اولاد پر اور ہمارے اموال پر بھی اسی کا حکم چلتا ہے اور ہم قیامت کے روز بھی اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔‘‘ اور ان الفاظ کے ساتھ مشکل سے مشکل تر حالات کو برداشت کر لیتے ہو تو پھر یقین کر لو کہ تم ہی اللہ کی نوازشوں اور اس کی رحمتوں کے مستحق ہو اور تم ہی ہدایت یافتہ اور راہِ حق پر گامزن ہو ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد سنا :
(( مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِیْبُہُ مُصِیْبَۃٌ فَیَقُولُ مَا أَمَرَہُ اللّٰہُ:إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ، اَللّٰہُمَّ اؤْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَأَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْہَا ، إِلَّا أَخْلَفَ اللّٰہُ لَہُ خَیْرًا مِّنْہَا ))
’’ جس مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے ، پھر وہ اللہ کے حکم کے مطابق ( انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھے اور یہ دعا کرے کہ اے اللہ ! مجھے میری مصیبت میں اجر دے اور اس کے بعد مجھے خیر نصیب کر‘ تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے ۔ ‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں نے سوچا کہ ابو سلمہ سے بہتر مسلمان کون ہو سکتا ہے ؟ وہ تو سب سے پہلے مہاجر تھے ۔ پھر میں نے یہی دعا پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے
بہتر شخص یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا کردئیے ۔
آیت کریمہ اورحدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ صبر کرنے والے لوگ ہی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نوازشوں کے مستحق ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ مصیبتوں کا بہترین بدلہ عطا کرتا ہے ۔
02.آخرت میں صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بہترین بدلہ دے گا ۔ اس کا فرمان ہے :
﴿ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ النحل16 :196
’’ اور ہم صبر کرنے والوں کو ان کا بدلہ ان کے اعمال سے کہیں زیادہ اچھا عطا کریں گے۔ ‘‘
یہ بہترین بدلہ کیا ہو گا ؟ جنت کے بالا خانے ہو نگے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی صفات ذکرکرنے کے بعد ارشاد فرماتا ہے :
﴿ أُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلَامًا﴾ الفرقان25 :75
’’ یہی ہیں جنھیں صبر کے بدلے میں بالا خانے دئے جائیں گے اور وہاں آداب وتسلیمات کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا ۔ ‘‘
نیز فرمایا :﴿ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّہُم مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِیْنَ٭الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ﴾ العنکبوت29 :59-58
’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے ہم انھیں یقینا جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور عمل کرنے والوں کیلئے کیا ہی اچھا اجر ہے ! جنھوں نے (مصائب میں ) صبر کیا اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں ۔ ‘‘
عزیزان گرامی ! یہ ہیں صبر کے بعض ثمرات۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمتیں اور آخرت میں جنت کے بالا خانے ۔ لہٰذا ہمیں ہر پریشانی اور تمام مصائب وآلام میں صبر ہی کرنا چاہئے ۔
ہم صبر کیوں نہ کریں جبکہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ہر مصیبت وآزمائش ‘ خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ‘ ہمارے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہی آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ ﴾ الشوری42 :30
’’ اور تمہیں جو مصیبت آتی ہے تمھارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہے۔ اور وہ بہت سے گناہوں کو تو
ویسے ہی معاف کردیتا ہے ۔ ‘‘
اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہر قسم کی مصیبت پر ‘چاہے وہ کانٹا چبھنے کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو ، صبر کرنے والے شخص کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ مٹا دیتا ہے ۔
جیسا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ ، وَلَا ہَمٍّ وَلَا حَزَنٍ،وَلَا أَذیً وَلَا غَمٍّ ، حَتَّی الشَّوْکَۃُ الَّتِیْ یُشَاکُہَا ، إِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ )) صحیح البخاری:5641۔5642، صحیح مسلم :2573
’’مسلمان کو جب تھکاوٹ یا بیماری لاحق ہوتی ہے یا وہ حزن وملال اور تکلیف سے دوچار ہوتا ہے حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰٰ اس کے بدلے میں اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا یَزَالُ الْبَلَائُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَۃِ فِی نَفْسِہٖ وَوَلَدِہٖ وَمَالِہٖ حَتَّی یَلْقَی اللّٰہَ وَمَا عَلَیْہِ خَطِیْئَۃٌ)) سنن الترمذی : 2399۔ وصححہ الألبانی
’’ آزمائشیں مومن مرد اور مومنہ عورت کا پیچھا نہیں چھوڑتیں ، کبھی جان میں ، کبھی اولاد میں اور کبھی مال میں (کسی نہ کسی طرح آزمائشیں ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہیں ) یہاں تک کہ وہ جب اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا ۔ ‘‘
سو آزمائشوں اور مصیبتوں کو اپنے گناہوں کا کفارہ تصور کرتے ہوئے ان پر صبر وتحمل ہی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
پیاروں کی جدائی پر صبر
اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش پیاروں کی جدائی کی صورت میں آتی ہے ۔ سو اس پربھی ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کو صابر ہونا چاہئے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی (حضرت زینب رضی اللہ عنہا ) نے آپ کے پاس بیغام بھیجا کہ ان کا ایک بچہ قریب المرگ ہے ۔ لہٰذا آپ ان کے گھر تشریف لائیں ۔
آپ نے پیغامبر کو کہا کہ انہیں میری طرف سے سلام کہو اور آگاہ کرو کہ (( إِنَّ لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَلَہُ مَا أَعْطیٰ،وَکُلُّ شَیْیٍٔ عِنْدَہُ بِأَجَلٍ مُّسَمّٰی، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ)) ’’ اللہ تعالیٰ کیلئے ہی ہے جو کچھ اس نے لیا اور جو کچھ اس نے عطا کیا ۔ اور ہر ایک کی موت کا وقت متعین ہے ۔ لہٰذا اسے صبر کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھنی چاہئے ۔ ‘‘
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے پیغامبر کو دوبارہ بھیجا اور آپ کو قسم دے کر ضرور بالضرور آنے کی درخواست کی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور چند دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ اپنی صاحبزادی کے گھر میں پہنچے ۔
اُس بچے کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا گیا ، اُس وقت وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھا اور اِس طرح حرکت کر رہا تھا جیسے ایک پرانے مشکیزے میں حرکت ہوتی ہے۔ بچے کی یہ حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے ۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ہٰذِہٖ رَحْمَۃٌ جَعَلَہَا اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ ، وَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَائَ )) صحیح البخاری :1284 ، صحیح مسلم :923
’’ یہ وہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ودیعت کردی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں ۔‘‘
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے معصوم سے بچے کی موت کے وقت صبر کرنے اور اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب طلب کرنے کی تلقین کی ۔ اور آپ کا یہ حکم ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کیلئے ہے ۔ لہٰذا تمام مسلمانوں ، خاص طور پر خواتین اسلام کو ایسے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سامنے رکھتے ہوئے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہئے اور بے صبر ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اونچی اونچی آواز سے رونے پیٹنے اور ماتم کرنے سے قطعی پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ اِس جیسے افعال کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُیُوْبَ وَدَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ )) البخاری : 1294، مسلم :103
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخساروں پر طمانچے مارے ، گریبانوں کو چاک کیا اور جاہلیت کے دعوی کے ساتھ پکارا یعنی واویلا کیا اور مصیبت کے وقت ہلاکت اور موت کو پکارا ۔‘‘
اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس عورت سے لا تعلقی اور براء ت کا اظہار فرمایا جو کسی مصیبت کے وقت اونچی آواز سے روئے ۔ اور جو کسی آزمائش میں اپنا سر منڈوائے اور کسی صدمے میں اپنے کپڑے پھاڑے ۔ ‘‘ البخاری :1296، مسلم :104
نیز حدیثِ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ پیاروں کی جدائی کے وقت آنکھوں سے آنسو بہانا صبر کے منافی نہیں ، کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے اور آپ نے اسے رحمت قرار دیا ۔ اسی طرح آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم جب قریب المرگ تھے تو اس وقت بھی آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے ۔ اور آپ نے فرمایا تھا :
(( إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ ،وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ،وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا یَرْضٰی رَبُّنَا،وَإِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ )) صحیح البخاری :1303 ،صحیح مسلم :2315
’’بے شک آنکھیں اشکبار ہیں ، دل غمزدہ ہے اور ہم صرف وہی بات کرتے ہیں جو ہمارے رب کو راضی کرنے والی ہے۔ اور اے ابراہیم ! ہم تمھاری جدائی پر یقینا غمگین ہیں ۔ ‘‘
اور جہاں تک معصوم بچوں کی جدائی کا تعلق ہے تو اس پر تو ہرگز ہرگز بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان کی موت ان کے والدین کیلئے باعث ِ نجات اور جنت میں داخل ہونے کاسبب ہے۔01. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا مِنَ النَّاسِ مُسْلِمٌ یَمُوتُ لَہُ ثَلَا ثَۃٌ مِنَ الْوَلَدِ لَمْ یَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ بِفَضْلِ رَحْمَتِہٖ إِیَّاہُمْ )) صحیح البخاری :1303 ،صحیح مسلم :2315
’’ لوگوں میں سے جس مسلمان کے تین نا بالغ بچے فوت ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر حم کرتے ہوئے اسے بھی جنت میں داخل کردیتا ہے ۔ ‘‘
02.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ مَّاتَ لَہُ ثَلَاثَۃٌ مِنَ الْوَلَدِ لَمْ یَبْلُغُوا الْحِنْثَ کَانَ لَہُ حِجَابًا مِّنَ النَّارِ أَوْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ)) صحیح البخاری :1303 ،صحیح مسلم :2315
’’جس شخص کی اولاد میں سے تین نا بالغ بچے فوت ہو جائیں تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گے ( یا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ) وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘‘
03.حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک خاتون رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی : اے اللہ کے رسول ! آپ کی احادیث بس مرد حضرات ہی سنتے ہیں ، لہٰذا آپ ہمارے لئے بھی ایک دن خاص کردیں جس میں ہم آپ کے پاس حاضر ہوں اور آپ ہمیں وہ چیز سکھلائیں جو اللہ نے آپ کو سکھلائی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ ٹھیک ہے ، تم فلاں فلاں دن جمع ہو جایا کرو ۔ ‘‘
چنانچہ جب وہ جمع ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی تعلیمات پہنچائیں۔ اور آپ نے فرمایا :
(( مَا مِنْکُنَّ مِن امْرَأَۃٍ تُقَدِّمُ بَیْنَ یَدَیْہَا مِنْ وَّلَدِہَا ثَلاَثَۃً إِلَّا کَانُوْا لَہَا حِجَابًا مِّنَ النَّارِ))
’’ تم میں سے جو عورت بھی اپنی اولاد میں سے تین بچے آگے بھیجے تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گے ۔ ‘‘
ایک عورت نے کہا : اور دو بچے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اور دو بچے بھی ۔ ‘‘ صحیح البخاری :1249، صحیح مسلم :2633
04.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی:مَا لِعَبْدِی الْمُؤْمِنِ عِنْدِیْ جَزَائٌ إِذَا قَبَضْتُ صَفِیَّہُ مِنَ الدُّنْیَا ثُمَّ احْتَسَبَہُ إِلَّا الْجَنَّۃ )) صحیح البخاری :6424
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرا وہ مومن بندہ جس کا اہلِ دنیا میں سے کوئی محبوب فوت ہو جائے، پھر وہ صبر کرتے ہوئے مجھ سے اجر وثواب کا طلبگار ہو تو میرے پاس اس کیلئے سوائے جنت کے اور کوئی بدلہ نہیں ۔ ‘‘
05.حضرت قرۃ بن ایاس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا، اُس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا بھی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا : کیا تمہیں اس سے محبت ہے ؟ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! جس طرح میں اس سے محبت کرتا ہوں اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ سے محبت کرے ۔
پھر (کچھ عرصہ بعد ) اُس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آنا چھوڑ دیا ۔ آپ نے پوچھا : فلاں آدمی کہاں ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اس کا بیٹا فوت ہو چکا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے باپ سے ملے اور تعزیت
کرنے کے بعد فرمایا :
(( أَمَا تُحِبُّ أَن لَّا تَأْتِیَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ إِلَّا وَجَدْتَّہُ یَنْتَظِرُکَ ))
’’ کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں کہ تم جنت کے جس دروازے پر آؤ اسے اپنا انتظار کرتے ہوئے پاؤ ؟ ‘‘
نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَا یَسُرُّکَ أَن لَّا تَأْتِیَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ إِلَّا وَجَدْتَّہُ عِنْدَہُ یَسْعٰی یَفْتَحُ لَکَ )) سنن النسائی:1871،2088۔ وصححہ الألبانی
’’کیا تمھیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ تم جنت کے جس دروازے پر بھی آؤ اسے اپنے سامنے پاؤ اور وہ دوڑ کر تمھارے لئے اس دروازے کو کھول دے ؟ ‘‘
06.حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللّٰہُ لِمَلاَئِکَتِہٖ : قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِیْ ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ،فَیَقُولُ : قَبَضْتُمْ ثَمَرَۃَ فُؤَادِہٖ؟فَیَقُولُونَ:نَعَمْ،فَیَقُولُ:مَاذَا قَالَ عَبْدِیْ؟فَیَقُولُونَ:حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ، فَیَقُولُ اللّٰہُ : اِبْنُوا لِعَبْدِیْ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَسَمُّوہُ بَیْتَ الْحَمْدِ )) سنن الترمذی :1021۔ وحسنہ الألبانی
’’ جب کسی آدمی کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندے کے بیٹے کو قبض کر لیا ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے جگرگوشے کو فوت کردیا ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : تب میرے بندے نے کیا کہا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اس نے تیرا شکر ادا کیا اور ( انا للہ وانا الیہ راجعون ) پڑھا ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے : تم میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام رکھ دو: شکرانے کا گھر۔ ‘‘
ان احادیث کے پیش نظر معصوم بچوں کی وفات پر ان کے والدین کو صبر ہی کرنا چاہئے اور انہیں اپنا غم اِس عظیم خوشخبری کے ساتھ ہلکا کرنا چاہئے کہ یہی بچے روزِ قیامت ان کی نجات کا سبب بنیں گے اور جنت کے ہر دروازے پر ان کا استقبال کریں گے ۔
خصوصا خواتین اسلام کو بچوں کی جدائی پر جزع فزع کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدر پر رضا مندی کا اظہار کرنا چاہئے اور انہیں اس سلسلے میں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا وہ قصہ ہر وقت اپنے ذہنوں میں رکھنا چاہئے جس میں انھوں نے صبر کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جو آج بھی ہر خاتون کیلئے قابل تقلید ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا جو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے تھا بیمار ہو گیا ،پھر وہ اُس وقت فوت ہو گیا جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر سے باہر تھے ۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر والوں سے کہا : جب تک میں خود ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بیٹے کی موت کے بارے میں نہ بتاؤں اُس وقت تک کوئی اور ان سے اس بارے میں بات نہ کرے ۔
پھر انھوں نے اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا ۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ شام کو گھر واپس لوٹے تو انھوں نے آتے ہی بیٹے کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسا ہے ؟ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : وہ آرام کر رہا ہے اور شاید پہلے سے زیادہ راحت میں ہے ! اس کے بعد ام سلیم رضی اللہ عنہا نے انھیں کھانا پیش کیا ، پھر زیب وزینت اختیار کی ۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے صحبت کی اور جب انھوں نے دیکھا کہ وہ سیر ہو کر فارغ ہو چکے ہیں تو انھوں نے کہا : ابو طلحہ ! تمھارا کیا خیال ہے اگر کچھ لوگ کسی کو کوئی چیز ادھار پر دیں ، پھر وہ اُس سے اس چیز کی واپسی کا مطالبہ کریں تو کیا اسے یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ اس چیز کو واپس نہ لوٹائے ؟ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں ۔ تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : تب تم اپنے بیٹے کی موت پر صبر کرو ۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ صبح کے وقت غسل کرکے گھر سے جانے لگے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے انھیں بیٹے کی موت کی اطلاع دی]
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ تم نے مجھے پہلے اطلاع نہیں دی یہاں تک کہ میں جنبی ہو گیا ۔ بعد ازاں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی اور آپ کو پورے واقعہ کی خبر دی ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّبَارِکَ لَکُمَا فِیْ لَیْلَتِکُمَا))
’’ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کی رات میں برکت دے ۔‘‘
سفیان ( راویٔ حدیث ) کہتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی نے انہیں بتایا کہ میں نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب حافظ قرآن تھے۔ البخاری : الجنائز باب من لم یظہر حزنہ عند المصیبۃ :1301، مسلم :2144
عزیزان گرامی ! معصوم سے لخت ِ جگر کی وفات پر یہ ہے صبر وتحمل کا اعلی نمونہ کہ اس صابرہ خاتون نے غم وافسوس کے آثار ہی اپنے اوپر طاری نہ ہونے دئیے ، بلکہ اس کے بر عکس خاوند کیلئے زیب وزینت اختیار کی اور اسے مقاربت کا موقع دیا ۔ بعد ازاں انتہائی عمدہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے اسے یہ بات سمجھائی کہ بیٹا ہمارے پاس اللہ کی امانت تھا جو اس نے واپس لے لی ہے ۔ پھر انھوں نے خود بھی صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنے خاوند کو
بھی اسی کی تلقین کی ۔۔۔۔۔۔کاش اِس دور کی خواتین بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی طرح صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے مواقع پر بے صبری ، سینہ کوبی اور اونچی اونچی آواز سے رونے پیٹنے سے پرہیز کریں !
جسمانی تکلیفوں پر صبر
مختلف آزمائشوں میں سے ایک آزمائش جسمانی بیماریوں کی شکل میں آتی ہے۔ ( نسأل اللہ العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ) لہٰذا جو لوگ اس قسم کی آزمائش میں مبتلا ہوں انھیں بھی صبر وتحمل ہی کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی جسمانی بیماری میں ‘ جو تقریبا بارہ تیرہ سال جاری رہی ‘ صبر کرتے تھے اور اس دوران بار بار یہی دعا کرتے تھے کہ
﴿ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ﴾
’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی اور انھیں صحت وتندرستی جیسی عظیم نعمت سے نوازا ۔
جسمانی بیماریوں میں مبتلا حضرا ت کو یہ بات ہمیشہ اپنے ذہنوں میں رکھنی چاہئے کہ بیماری سے شفا دینے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ۔ لہٰذا ہر وقت اسی کے سامنے عاجزی ، انکساری اور محتاجی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے عافیت کا سوال کرتے رہیں ۔ نیز انھیں اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس عظیم خوشخبری کے ساتھ تسلی دینی چاہئے جو آپ نے ایک بیمار عورت کو دی تھی ۔
عطاء بن ابی رباح جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد تھے ، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : کیا میں تمھیں ایک جنتی خاتون نہ دکھلاؤں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ۔ تو انھوں نے فرمایا : یہ جو کالے رنگ کی عورت ہے ، یہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی : مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے میں بے پردہ ہو جاتی ہوں ۔ لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا کیجئے ۔ تو آپ نے فرمایا :
(( إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الْجَنَّۃُ ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّعَافِیَکِ ))
’’ اگر تم چاہو تو صبر کرو ( اور اگر صبر کروگی تو ) تمھارے لئے جنت ہے ۔ اور اگر چاہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمھیں عافیت دے ۔ ‘‘
( اب اس خاتون نے سوچا کہ ایک طرف صبر کرنے پر آخرت میں جنت کی ضمانت ہے اور دوسری طرف
آپ صلی اللہ علیہ وسلم عافیت کیلئے دعا کرنے کی پیش کش فرما رہے ہیں اور اس میں جنت کی ضمانت نہیں ہے ۔)
تو اس نے کہا : میں صبر ہی کرتی ہوں ، تاہم میں مرگی کے دورہ میں بے پردہ ہو جاتی ہوں تو آپ بس یہ دعا کر دیجئے کہ میں کم از کم بے پردہ نہ ہوں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا فرمائی ۔ صحیح البخاری :5652،صحیح مسلم :2576
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ : إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِیْ بِحَبِیْبَتَیْہِ فَصَبَرَ ، عَوَّضْتُہُ مِنْہُمَا الْجَنَّۃَ )) یُرِیْدُ عَیْنَیْہِ صحیح البخاری :5653
’’ بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب میں اپنے بندے کو اس کی آنکھوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالتا ہوں ( یعنی اس کی بینائی چھین لیتا ہوں ) پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں اس کی آنکھوں کے بدلے میں اسے جنت عطا کرتا ہوں ۔ ‘‘
لوگوں کی اذیتوں پر صبر
آزمائش بعض اوقات یوں بھی آتی ہے کہ لوگ خواہ مخواہ کسی مسلمان کو پریشان کرتے ہیں ، جھوٹے الزامات لگاتے ہیں یا طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ یا برا بھلا کہتے ہیں اور مختلف القاب سے اس کا ذکر کرکے اس کی اذیت کا سبب بنتے ہیں ۔ تو اِس قسم کی آزمائش میں بھی مسلمان کو صابر ہونا چاہئے اور اسے یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لوگوں نے تو امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معاف نہیں کیا ۔ کسی نے آپ کو ’’ مجنون ‘‘ کہا ، کسی نے ’’ دیوانہ شاعر ‘‘ کہا اور کسی نے ’’ ساحر ‘‘ کہا ۔اور زبانی اذیتوں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اذیتیں بھی پہنچائیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر کہ ﴿ فَاصْبِرْ عَلیٰ مَا یَقُوْلُوْنَ﴾ طہ 20: 130
’’ آپ ان کی باتوں پر صبر ہی کیجئے ‘‘ ہمیشہ صبر وتحمل کا ہی مظاہر ہ کیا ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال تقسیم کیا، ایک شخص نے کہا: یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والی نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اُس شخص کی اِس بات کے بارے میں مطلع کیا ۔ تب میں نے آپ کے چہرۂ انور پر غصے کے آثار دیکھے ۔ پھر آپ نے فرمایا :
(( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ أُوْذِیَ بِأَکْثَرَ مِنْ ہَذَا فَصَبَرَ )) صحیح البخاری :3405، صحیح مسلم :1062
’’ اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام پر رحم کرے ، انھیں اِس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انھوں نے صبر کیا ۔ ‘‘
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اَلْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ،أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ )) سنن الترمذی :2507، سنن ابن ماجہ :4032 ۔ وصححہ الألبانی
’’ جو مومن لوگوں میں گھل مل جاتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے وہ اُس مومن سے زیادہ اجروثواب کا مستحق ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔‘‘
حکمرانوں کے ظلم پر صبر
آزمائشوں میں سے ایک آزمائش رعایا پر حکمرانوں کے ظلم کی صورت میں آتی ہے ۔ چنانچہ بعض اوقات وہ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام کو نافذ کرکے عوام پر ظلم کرتے ہیں ۔ بعض اوقات بے گناہ لوگوں کو ناجائز مقدمات میں ملوث کرکے پریشان کرتے ہیں ۔ بعض اوقات مجرم پیشہ لوگوں کو چھوٹ دے دیتے ہیں کہ وہ جیسے چاہیں، جب چاہیں اور جہاں چاہیں لوگوں کی عزتوں اور ان کے اموال کو لوٹیں اور ان کی جانوں سے کھیلتے رہیں ۔ بعض اوقات اہل اور باصلاحیت افراد کو ان کے حقوق سے محروم کرکے سفارشوں اور رشوت کے ذریعے نا اہل لوگوں کو نوازا جاتا ہے اور بعض اوقات اربابِ اقتدار اور اصحابِ اختیار غریب عوام کا خون پسینہ چوستے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے پر ہی تلے رہتے ہیں ۔۔۔۔ سو اِس قسم کی آزمائشوں میں بھی انسان کو دامن ِ صبر نہیں چھوڑنا چاہئے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ رَأَی مِنْ أَمِیْرِہٖ شَیْئًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ )) صحیح مسلم : 1849
’’ جو شخص اپنے حکمران سے کوئی نا پسندیدہ چیز دیکھے تو اس پر صبر کرے ۔ ‘‘
بیٹیوں کی آزمائش پر صبر
بعض اوقات انسان اپنی بیٹیوں کی وجہ سے بھی آزمائش میں مبتلا ہو جاتا ہے ، مناسب تعلیم وتربیت نہ ہونے
کی وجہ سے ، یا ان کیلئے مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے ، یا اولاد میں صرف بیٹیاں ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ تو اس قسم کی آزمائش میں بھی والدین کو مکمل صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور انہیں اپنے لئے باعث ِ خیر وبرکت تصور کرتے ہوئے اور روزِ قیامت انھیں اپنے لئے باعث ِ نجات سمجھتے ہوئے ان کی تعلیم وتربیت پر پوری توجہ دینی چاہئے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنِ ابْتُلِیَ بِشَیْیٍٔ مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ )) سنن الترمذی :1913۔ وصححہ الألبانی
’’ جس شخص کو بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح سے آزمائش میں ڈالا جائے ، پھر وہ ان پر صبر کرتا رہے تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘
اور صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے آئی، اس نے مجھ سے کچھ مانگا تو میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ ملا ۔ چنانچہ میں نے وہی کھجور اس کو دے دی ۔ اس نے اس کے دو حصے کئے اور دونوں بیٹیوں کو آدھی آدھی کھجور دے دی اور خود اس نے کچھ نہ کھایا اور چلی گئی ۔ پھر میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو اُس کے بارے میں بتایا ۔ تب آپ نے ارشاد فرمایا :
(( مَنِ ابْتُلِیَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَیْیٍٔ فَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ )) البخاری:1418،5995، مسلم :2629
’’ جس شخص کو بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح آزمایا جائے ، پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَا وَہُوَ )) وَضَمَّ أَصَابِعَہُ
’’ جو آدمی دو بچیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو قیامت کے روز وہ اور میں ایسے اکٹھے ہونگے جیسے یہ انگلیاں اکٹھی ہیں ۔ ‘‘ صحیح مسلم :2631
صبر کی شروط
برادران اسلام ! آپ نے اب تک صبر کے فوائد اور مختلف آزمائشوں میں اس کی اہمیت وضرورت کے بارے میں ہماری چند گذارشات سماعت کیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ صحیح معنوں میں صبر کیسے ہوتا ہے ؟ صبر کے فوائد سے حقیقی معنوں میں مستفید ہونے کیلئے اس میں تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے :
01.پہلی شرط یہ ہے کہ صابر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے صبر کرے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً وَّیَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولَئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ﴾ الرعد13 : 22
’’ اور جنھوں نے اپنے رب کی رضا کو طلب کرتے ہوئے صبر کیا ، نماز قائم کی اور ہم نے انھیں جو کچھ دے رکھا ہے اس سے پوشیدہ طور پر اور دکھلا کر خرچ کیا ۔ اور وہ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں ( یا گناہ کے بعد نیکی کرتے ہیں ) تو انہی لوگوں کیلئے آخرت کا گھر ہے ۔ ‘‘
نیز فرمایا : ﴿وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ﴾ المدثر73 : 7 ’’ اور اپنے رب کی خاطر ہی صبر کیجئے ۔ ‘‘
02.دوسری شرط یہ ہے کہ بندۂ مومن ہر قسم کی آزمائش میں اپنی زبان پر کوئی حرفِ شکایت نہ لائے اور کسی کے سامنے اللہ کا شکوہ نہ کرے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی:إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِی الْمُؤْمِنَ وَلَمْ یَشْکُنِی إِلیٰ عُوَّادِہٖ أَطْلَقْتُہُ مِنْ إِسَارِیْ، ثُمَّ أَبْدَلْتُہُ لَحْمًا خَیْرًا مِّنْ لَحْمِہٖ ، وَدَمًا خَیْرًا مِّنْ دَمِہٖ، ثُمَّ یَسْتَأْنِفُ الْعَمَلَ )) الحاکم:349/1: صحیح علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں جب اپنے بندۂ مومن کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ عیادت کیلئے آنے والوں کے سامنے میری شکایت نہیں کرتا تو میں اسے اپنی قید سے آزاد کردیتا ہوں ، پھر اسے پہلے سے بہتر گوشت اور بہتر خون عطا کرتا ہوں ۔ پھر وہ نئے سرے سے عمل کرنا شروع کردیتا ہے ۔ ‘‘
03.تیسری شرط یہ ہے کہ بندۂ مومن ابتدائے آزمائش سے ہی صبر کرے ، نہ یہ کہ ابتداء میں تو وہ خوب رو پیٹ لے اور پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ دعوی کرے کہ میں صابر ہوں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گذرے جو ایک قبر کے پاس
بیٹھی رو رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اِتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ )) ’’ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صبر کرو ۔‘‘
اس نے کہا : آپ جائیں اپنا کام کریں ، آپ کو کیا معلوم کہ مجھ پر کتنی بڑی مصیبت آئی ہے!
پھر اسے بتایا گیا کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ تو وہ فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچی ، اسے وہاں کوئی پہرے دار نہ ملا اور وہ سیدھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئی اور کہنے لگی : میں آپ کو نہیں پہچان سکی تھی ( اس لئے مجھے معاف کردیں ۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأوْلیٰ )) صحیح البخاری : 1283، صحیح مسلم : 926
’ ’صبر تو ابتدائے صدمہ میں ہی ہوتا ہے ۔ ‘‘
تویہ ہیں تین شرائط جن کی موجودگی میں ایک صابر ’’صبر ‘‘ کا مکمل اجرو ثواب اور اس کے فوائد وثمرات حاصل کر سکتا ہے ۔
اِس کے ساتھ ہی یہ بھی جان لیجئے کہ آزمائشوں میں مبتلاء انسان اگر اللہ تعالیٰ کے سامنے دست بدعا ہو کر اس سے یہ سوال کرے کہ وہ اسے ان آزمائشوں سے نجات دے تو یہ صبر کے منافی نہیں بلکہ عین عبادت ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت انبیاء کرام علیہم السلام کا وہ طرز عمل ہے جو وہ مختلف مصائب وآلام میں اختیار کرتے تھے، چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو جب برادران ِ یوسف علیہ السلام نے بتایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیے نے کھا لیا ہے تو انھوں نے کہا : ﴿ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَّاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلیٰ مَا تَصِفُوْنَ ﴾ پھر جب ان کے دوسرے بھائی کے بارے میں انھیں بتایا گیا کہ بادشاہ نے اسے چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے تو تب بھی انھوں نے یہی کہا : ﴿ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ عَسَی اللّٰہُ أَنْ یَّأْتِیَنِی بِہِمْ جَمِیْعًا ﴾ اس کے بعد انھوں نے کہا :
﴿ إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّیْ وَحُزْنِیْ إِلَی اللّٰہِ ﴾ ’’ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام بھی اپنے دورِ ابتلاء میں اللہ تعالیٰ کو ہی پکارتے رہے اور بار باریہ دعا کرتے رہے : ﴿ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ﴾
اور حضرت یونس علیہ السلام سمندر کی گہرائی اور مچھلی کے پیٹ میں یوں دعا کرتے رہے :
﴿ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ﴾
اس سے یہ ثابت ہوا کہ پریشانیوں اور آزمائشوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا قطعا صبر کے منافی نہیں بلکہ یہی
ہر مومن مرد اور مومنہ عورت سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرے کہ وہ اسے تمام آزمائشوں سے نجات دے کیونکہ اس کے علاوہ کسی کے پاس اس کا اختیا رنہیں ۔
فرمان الٰہی ہے : ﴿قُلْ مَن یُّنَجِّیْکُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَہُ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ ہَـذِہِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ٭ قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیْکُم مِّنْہَا وَمِن کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِکُونَ﴾ الأنعام 6: 64-63
’’ کہہ دیجئے کہ بحر وبر کی تاریکیوں میں تمھیں کون نجات دیتا ہے ؟ اس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ اگر اس نے ہمیں ان سے نجات دے دی تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہو نگے ۔ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تمھیں اس مصیبت سے اور ہر شدت سے نجات دیتا ہے ، پھر بھی تم اس کا شریک بناتے ہو ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا ارشاد ہے :﴿ أَمَّن یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوئَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَائَ الْأَرْضِ أَإِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُونَ﴾ النمل27 :62
’’بھلا کون ہے جو لا چار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تمھیں زمین کا جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔ ‘‘
لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو تمام مصائب وآلام اور ہر آزمائش سے محفوظ رکھے اور ہمیں دنیا وآخرت کی سعادت نصیب کرے ۔آمین
دوسرا خطبہ
پہلے خطبہ میں آپ نے ’’ صبر ‘‘ کی ضرورت واہمیت ، فضیلت اور اس کے ثمرات وفوائد کے بارے میں ہماری چند گذارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں سماعت کیں اور یہ وہ صبر تھا جو آزمائشوں اور مصیبتوں میں ہر مسلمان کوکرنا چاہئے ۔ اِس کے علاوہ صبر کی دو قسمیں اور بھی ہیں :
پہلی قسم ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری پر ہر حال میں قائم رہنا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ آثِمًا أَوْ کَفُورًا٭ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلاً ٭ وَمِنَ اللَّیْْلِ فَاسْجُدْ لَہُ وَسَبِّحْہُ لَیْْلاً طَوِیْلاً﴾ الإنسان 76: 26-24
’’ لہٰذا آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیجئے اور ان میں سے کسی گناہگار یا نا شکرے کی بات مت مانئے۔ اور صبح وشام اپنے رب کا نام ذکر کیجئے اور رات کو بھی اس کے حضور سجدہ کیجئے۔ اور رات کے طویل اوقات
میں اس کی تسبیح کیجئے ۔ ‘‘
نیز فرمایا :﴿وَاتَّبِعْ مَا یُوحَی إِلَیْکَ وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ وَہُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِیْنَ﴾ یونس10 : 109
’’ آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع کیجئے اور صبر کیجئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کردے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے:﴿رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہِ﴾ مریم19 : 65
’’ وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے ، لہٰذا اسی کی عبادت کیجئے اور اس کی عبادت پر ڈٹے رہئے ۔ ‘‘
نیز فرمایا : ﴿وَأْمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلَاۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْْہَا﴾ طہ20 : 132
’’ اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے اور خود بھی اس پر جمے رہئے ۔ ‘‘
اور دوسری قسم ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سیاجتناب کرنے پر ڈٹے رہنا ۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ صبر کی تین قسمیں ہیں : اوامر الٰہی پر ہمیشہ عمل کرتے رہنا ، اس کی نواہی سے ہمیشہ پرہیز کرنا اور قضاء وقدر پر ناراضگی کا اظہارنہ کرنا ۔‘‘ مدار ج السالکین:165/1
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صبر کی ان تینوں اقسام پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین