ایمان کی لذت اور اس کا مٹھاس
اہم عناصرِ خطبہ :
01. ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو پانے کے تین اسباب
02. اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت
03. اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامات اور اس کے ثمرات
04. محض اللہ کی رضا کیلئے محبت اور اس کے فضائل
05. ایمان پر ثابت قدمی کی اہمیت اور اس کے فضائل
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! ’ایمان ‘ انسان کی کامرانی وکامیابی کی بنیاد اور اساس ہے ۔ اور ایک سچے مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو محسوس کرے ۔
سوال یہ ہے کہ ’ایمان ‘کی لذت اور اس کے مٹھاس کو محسوس کرنا کیسے ممکن ہے ؟ اور وہ کونسے اسباب ہیں کہ جنھیں اختیار کیا جائے تو ایک مومن کو اس کے ایمان کی لذت اور اس کا مٹھاس محسوس ہوتا ہے ؟ اسی سوال کا جواب آج ہم اپنے خطبۂ جمعہ میں دینے کی کوشش کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی ۔
اورآگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ ایمان کی لذت کو پانے سے مراد کیا ہے ؟
ایمان کی لذت کو پانے سے مراد یہ ہے کہ
٭ ایک سچے مومن کو عبادات کے ذریعے انشراح ِ صدر اور اطمینان ِ قلب نصیب ہوتا ہے ۔
٭ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کو پسند کرتا اور نافرمانی کو نا پسند کرتا ہے۔
٭ اس کے سامنے جب ’اللہ ‘کا ذکر کیا جائے تو اس کا دل دہل جاتا ہے اور اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔
٭ وہ اعمال ِ صالحہ سے محبت کرتا اور برائیوں اور گناہوں سے نفرت کرتا ہے ۔
٭ اور جب اس سے کوئی برا عمل سرزد ہوتا ہے تو وہ فورا استغفار کرتا اور سچی توبہ کرتا ہے ۔ وہ اللہ کی طرف لوٹتا اور رجوع کرتا ہے ۔ پھر اس کے سامنے ندامت و شرمندگی اورعاجزی وانکساری کا اظہار کرتا ہے ۔
٭ اس کی زندگی میں اگر آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں تو وہ اللہ کی تقدیر پر رضا مندی کا اظہار کرتا ہے ۔ اس کی قوت ِ برداشت بہت اعلی درجے کی ہوتی ہے۔
٭ وہ اللہ رب العزت کی رضا اور اس کے تقرب کو دنیا کے ساز وسامان پر فوقیت دیتا ہے ۔
٭ وہ دنیا میں ایک اجنبی یا مسافر کی طرح رہتا ہے ۔ اور وہ ہر وقت آخرت کو اپنے سامنے رکھتا اور اسی کیلئے عمل کرتا ہے ۔
٭ اس کے اعمال میں اخلاص ہوتا ہے ۔ اور وہ اپنے اعمال کو ریاکاری اور نمود ونمائش سے محفوظ رکھتا ہے ۔
تو آئیے اب ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو پانے کے اسباب ذکر کرتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی لذت کو پانے اور اسے محسوس کرنے کے تین اسباب ذکر فرمائے ہیں۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْإِیْمَانِ ))
’’ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جو کسی شخص میں موجود ہوں تووہ ان کے ذریعے ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو پا لیتا ہے۔‘‘
01. (( أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا ))
’’ پہلی یہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سب سے زیادہ محبوب ہوں ۔ ‘‘
02. (( وَأَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لَا یُحِبُّہُ إِلَّا لِلّٰہِ ))
’’دوسری یہ ہے کہ اسے کسی شخص سے محبت ہو تو محض اللہ کی رضا کی خاطر ہو ۔ ‘‘
03. (( وَأَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ ، کَمَایَکْرَہُ أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ)) صحیح البخاری:16صحیح مسلم :43
’’اور تیسری یہ ہے کہ اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح نا پسند ہو جیسا کہ جہنم میں ڈالا جانا اسے نا پسند ہے۔ ‘‘
پہلا سبب : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہاء درجے کی محبت کرنا
ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلا امر یہ ہے کہ مومن کو اللہ تعالی اور اس کے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا کی ہر چیزسے زیادہ محبت ہو ۔ یہ محبت مومن کیلئے انتہائی ضروری ہے ۔ ورنہ اگر یہ نہ ہو اور دنیاوی ساز وسامان اور اہل وعیال اور مال ودلت مومن کو اللہ تعالی اور اس کے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب ہوں تو اِس بات پر اللہ تعالی نے مومنوں کو عذاب کی دھمکی دی ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿قُلْ اِنْ کَانَ آبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ﴾ التوبۃ9: 24
’’(اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! ) فرمادیجئے ! اگر تمہارے آباء واجداد ، اولاد واحفاد ، برادران ،بیویاں ، قبیلہ وخاندان ، کمایا ہوا مال ومنال ، تجارتی کاروبار جس میں تمھیں نقصان کا اندیشہ ہے اور تمھارے پسندیدہ قصور ومحلات تمھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہوں تو پھر حکمِ الٰہی ( عذاب ) کا انتظار کرو ۔ اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔‘‘
گویا ایمان کا میٹھا ذائقہ چکھنے اور اس کی لذت کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ مومن کو سب سے زیادہ محبت اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو ۔
آئیے سب سے پہلے اللہ تعالی سے مومن کی محبت کے بارے میں کچھ گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
اللہ رب العزت سے مومن کی محبت :
ایک سچا مومن اللہ تعالی سے سخت محبت کرتا ہے ۔ اور اس کی محبت کو باقی تمام چیزوں پر ترجیح دیتا ہے ۔ جیسا کہ خود باری تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ أَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ﴾ البقرۃ2 :165
المائدۃۃ5: 54
’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو اﷲ تعالیٰ کا شریک بنا کر ان سے بھی ویسی ہی محبت رکھتے ہیں جیسی اﷲ تعالیٰ سے ہونی چاہئے۔ جبکہ ایمان والے سب سے زیادہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
یعنی مشرکین اللہ تعالی کے شریک بناتے ہیں ، پھر وہ ان سے ایسے ہی محبت کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی سے انھیں کرنی چاہئے ۔ ان سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں ، ان کا خوف کھاتے ہیں ، ان پر بھروسہ کرتے ہیں اور پھر ان کیلئے نذر ونیاز پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ سچے مومن سب سے زیادہ محبت اللہ تعالی سے کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اللہ تعالی ہی سے تمام امیدیں وابستہ کرتے ہیں ، اسی سے ڈرتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اپنی ساری عبادات اسی کی رضا کیلئے خالص کرتے ہیں ۔
اسی طرح اللہ تعالی سچے مومنوں کی چند صفات ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ﴾ المائدۃۃ5: 54
’’اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے ،) عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا جن سے اللہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔ وہ مومنوں کے حق میں نرم اور کافروں کے حق میں سخت ہونگے۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہونگے۔ ‘‘
ان دونوں آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ سچے مومن سب سے زیادہ محبت اللہ تعالی سے کرتے ہیں ۔
مومن کی اللہ تعالی سے سب سے زیادہ محبت اس قدر ضروری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باقاعدہ اللہ تعالی سے اس کا سوال کرتے تھے اور فرماتے تھے :
(( اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ،وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ ،وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ ،وَأَنْ تَغْفِرَ لِیْ وَتَرْحَمَنِیْ ، وَإِذَا أَرَدتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُونٍ ،وَأَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّکَ )) جامع الترمذی :3235 وصححہ الألبانی
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کا سوال کرتا ہوں ۔ اور یہ کہ تو مجھے معاف کردے اور مجھ پر رحم فرما۔ اورجب تو کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے اُس میں مبتلا کئے بغیر میری روح کوقبض کر لینا ۔ اور میں تجھ سے تیری محبت کا اور اُس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں تو تجھ سے محبت کرتا ہو ، اسی طرح اُس عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تیری محبت کے قریب کردے ۔‘‘
اللہ تعالی سے سچی محبت کی علامات :
پہلی علامت : کثرت سے اللہ تعالی کا ذکر
جو مومن اللہ تعالی سے سچی محبت کرتا ہو وہ کثرت سے اس کا ذکر کرتا رہتا ہے اور اپنی زبان کو اس کے ذکر کے ساتھ تر رکھتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا ٭ وَّسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلًا ﴾ الأحزاب33 : 41۔ 42
’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح بیان کیا کرو ۔ ‘‘
اور جو مومن مرد اور مومنہ عورتیں کثرت سے اللہ تعالی کا ذکر کرتے ہوں انھیں اللہ تعالی نے مغفرت اور اجر عظیم کی خوشخبری دی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتَاتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقَاتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرَاتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّأَجْرًا عَظِیْمًا﴾ الأحزاب 33: 35
’’ بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ، فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں ، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں ، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ، ان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ اللہ کے ذکر سے مراد ہر وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالی راضی ہو اور اس کا تقرب حاصل ہو ، چاہے وہ دل کا عمل ہو یا بدن کا ۔چاہے وہ قول ہو یا فعل ہو ۔ خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف ہو یاعلمِ نافع کا حصول ہو۔ چاہے وہ کلمۂ حق کہنا ہو یا وعظ ونصیحت کرناہو ۔ چاہے وہ امر بالمعروف ہو یا نہی عن المنکر ہو۔اِس جیسی باقی ساری عبادات اللہ تعالیٰ کے ذکر میں شامل ہیں۔
تاہم قرآن مجید کی تلاوت کرنا اور خصوصا ان سورتوں کو بار بار پڑھنا جن میں اللہ رب العزت کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ ہو یا اس کی قدرت کی نشانیاں ذکر کی گئی ہوں ، اس کی اللہ تعالی سے اظہار ِ محبت میں خاص اہمیت ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا ۔ چنانچہ وہ جب
اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتا تو اپنی قراء ت کا اختتام ﴿ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ﴾کے ساتھ کرتا ۔ پھر جب وہ لوگ واپس لوٹے تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسی بات کا تذکرہ کیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( سَلُوہُ لِأَیِّ شَیْیٍٔ یَصْنَعُ ذَلِکَ )) ’’ اس سے پوچھو ، وہ اِس طرح کیوں کرتا تھا ؟ ‘‘
انھوں نے پوچھا تو اس نے کہا : (( لِأَنَّہَا صِفَۃُ الرَّحْمٰنِ وَأَ نَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِہَا ))
کیونکہ اس سورت میں رحمان کی صفات ہیں اور میں ان کی قراء ت کرنا پسند کرتا ہوں ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَخْبِرُوہُ أَنَّ اللّٰہَ یُحِبُّہٗ)) ’’ اسے بتا دو کہ اللہ تعالی بھی اس سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 7375، وصحیح مسلم :813
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس صحابی کو اللہ تعالی سے انتہا درجے کی محبت تھی ، جس کی بناء پر وہ اُس سورت کو بار بار پڑھتا تھا جس میں اللہ تعالی کی صفات کا بیان ہے ۔
اسی طرح تسبیحات بھی اللہ تعالی کو انتہائی محبوب ہیں ، لہٰذا اللہ تعالی سے سچی محبت کرنے والوں کو ان تسبیحات کا ورد کثرت سے کرنا چاہئے ۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَحَبُّ الْکَلَامِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ أَرْبَعٌ ، لَا یَضُرُّکَ بِأَیِّہِنَّ بَدَأْتَ:سُبْحَانَ اللّٰہِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ )) صحیح مسلم :2137
’’ چار کلمات اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ آپ پر کوئی حرج نہیں کہ آپ ان میں سے جس سے چاہیں ابتداء کریں۔ اور وہ ہیں : (( سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ))
دوسری علامت : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع
اللہ تعالی سے سچی محبت کی ایک بہت بڑی علامت ہے : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرنا۔ چنانچہ اس امت کے افضل ترین لوگ ( یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری اتباع کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر کو فورا عملی جامہ پہناتے تھے ۔ اِس کی وجہ یہی تھی کہ انھیں اللہ تعالی سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہا درجے کی محبت تھی ۔
لہٰذا جو شخص اپنے بارے میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہو کہ اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت ہے تو وہ یہ دیکھ لے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی اتباع کرتا ہے ! وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی اتباع کرتا ہوگا اتنا ہی وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والا ہوگا ۔ اسی چیز کو اللہ تعالی نے اپنی محبت کا معیار قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہ َفَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ آل عمران3 :31
’’ آپ کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ، اس طرح اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ، نہایت مہربان ہے۔ ‘‘
تیسری علامت : ’اللہ تعالی ‘ کا ذکر سن کر دل کا دہل جانا اور اس کی آیات کوسن کر ایمان میں اضافہ ہونا
جی ہاں ! جو مومن اللہ تعالی سے سچی محبت رکھتا ہو تو وہ اُس کا اسم گرامی ( اللہ ) سنتا ہے تو اس کا دل اس کے خوف کی وجہ سے دہل جاتا ہے ۔ اور جب وہ اس کی آیات مبارکہ کی تلاوت سنتا ہے تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْن٭ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ٭ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ ﴾ الأنفال8: 2۔4
’’(سچے ) مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ۔ اور جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ۔ اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں ۔ جو نمازقائم کرتے ہیں اور جو کچھ مال ودولت ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ یہی سچے مومن ہیں ، ان کیلئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ، بخشش ہے اور باعزت روزی ہے ۔ ‘‘
لہذا ہمیں بھی اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہمارے اندر مذکورہ صفات پائی جاتی ہیں ؟ کیا ہمارے دل بھی واقعتا اللہ کا ذکر سن کر دہل جاتے ہیں ؟ اور کیا ہمارا ایمان بھی قرآنی آیات کی تلاوت سن کر بڑھ جاتا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یقینا ہمارے دلوں میں اللہ کی محبت موجود ہے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ اللہ تعالی سے ہماری محبت کس پائے کی ہے !
چوتھی علامت : رات کو اٹھ کر بارگاہ ِ الٰہی میں حاضری دینا
جس مومن کو اللہ تعالی سے سچی محبت ہو ، وہ اس سے اظہار محبت کیلئے رات کو اُس وقت اس کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہے جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالی نے عباد الرحمن کی صفات کے ضمن میں ان کی ایک صفت یوں ذکر فرمائی :
﴿ وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ﴾ الفرقان 25: 64
’’ اور جو اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام میں رات گذارتے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی اپنے متقی بندوں کی بعض صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے :
﴿إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَّعُیُوْنٍ٭ آخِذِیْنَ مَا آتَاہُمْ رَبُّہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ ٭ کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ ٭ وَبِالْأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ﴾ الذاریات51 :15۔ 18
’’ بلا شبہ متقی ( اس دن ) باغات اور چشموں میں ہونگے ۔ جو کچھ ان کا رب ان کو دے گا وہ لے لیں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے۔ وہ رات کو کم سویا کرتے تھے اور سحری کے وقت مغفرت مانگا کرتے تھے ۔ ‘‘
پانچویں علامت : اللہ تعالی کے پسندیدہ اعمال کو سرانجام دینا
جس شخص کو اللہ تعالی سے سچی محبت ہو ، وہ ان اعمال کو سر انجام دینے کا خاص طور پر اہتمام کرتا ہے جو اسے محبوب ہوتے ہیں ۔ اور ان اعمال سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے نا پسند ہوتے ہیں ۔
مثلا اللہ تعالی کو سب سے محبوب عمل اس کے فرائض کو پورا کرنا ہے ۔
حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : (( مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہُ عَلَیْہِ۔۔)) صحیح البخاری :6502
’’جو شخص میرے دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں ۔ اور میرا بندہ سب سے زیادہ میرا تقرب اس چیز کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے جسے میں نے اس پر فرض کیا ہے ( یعنی فرائض کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنا ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ۔)
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَی اللّٰہِ مَا دَاوَمَ عَلَیْہِ صَاحِبُہُ وَإِنْ قَلَّ)) صحیح البخاری : 6465، صحیح مسلم :782واللفظ لہ
’’ اللہ تعالی کو سب سے محبوب عمل وہ ہے جس پر عمل کرنے والا ہمیشگی کرے چاہے وہ کم کیوں نہ ہو ۔ ‘‘
اسی طرحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :
(( أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ؟ )) یعنی کونسا عمل اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلصَّلاَۃُ عَلٰی وَقْتِہَا )) یعنی ’’ بروقت نماز ادا کرنا۔ ‘‘ میں نے پوچھا : پھر کونسا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ )) یعنی ’’ والدین سے نیکی کرنا ۔ ‘‘
میں نے کہا : پھر کونسا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( اَلْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ))یعنی ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ‘‘ صحیح البخاری :5970،صحیح مسلم :85
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی سُرُوْرٌ تُدْخِلُہُ عَلٰی مُسْلِمٍ ، أَوْ تَکْشِفُ عَنْہُ کُرْبَۃً ، أَوْ تَقْضِیْ عَنْہُ دَیْنًا ، أَوْ تَطْرُدُ عَنْہُ جُوْعًا)) صحیح الترغیب والترہیب : 955
’’ اللہ تعالی کو اعمال میں سے سب سے محبوب عمل مسلمان کو خوش کرنا ، یا اس کی کسی پریشانی کو دور کرنا ، یا اس کے قرضے کو اتارنا ، یا اس کی بھوک کو ختم کرنا ہے ۔ ‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ ایک بندۂ مومن کو اگر اللہ تعالی سے سچی محبت ہو تو وہ خاص طور پر ان اعمال کا اہتمام کرتا ہے جو اللہ تعالی کو انتہائی محبوب ہوتے ہیں ۔ اور ان اعمال سے اجتناب کرتا ہے جو اسے نا پسند ہوتے ہیں ۔ مثلا اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ ﴾ البقرۃ2 :205
’’ اور اللہ تعالی فساد کو پسند نہیں کرتا ۔ ‘‘
﴿ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ البقرۃ2 :205
’’ اور اللہ تعالی فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا ۔ ‘‘
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَعْتَدِیْنَ ﴾ البقرۃ2 :190 ’’ یقینا اللہ تعالی زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا ۔ ‘‘
﴿ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ آل عمران3 :140 ’’ اور اللہ تعالی ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا ۔ ‘‘
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا ﴾ النساء4 :36 ’’ یقینا اللہ تعالی اُس شخص سے محبت نہیں کرتا جو مغرور اور خود پسند ہو ۔ ‘‘
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا﴾ النساء4 :107
’’ اللہ تعالی خیانت کرنے والے مجرموں کو پسند نہیں کرتا ۔ ‘‘
چنانچہ اللہ تعالی سے سچی محبت رکھنے والا مومن نہ فساد پھیلاتا ہے اور نہ ہی ظلم وزیادتی کرتا ہے ۔ نہ وہ تکبر اور فخر وغرور کرتا ہے اور نہ ہی خیانت کرتا ہے ۔ وہ ان کاموں کو اس لئے پسند نہیں کرتا کہ اللہ تعالی کے ہاں بھی یہ تمام اعمال نا پسندیدہ ہیں ۔
اللہ تعالی سے سچی محبت کے ثمرات:
اللہ تعالی سے سچی محبت کے ثمرات میں سے بہت بڑا ثمرہ یہ ہے کہ اگر مومن اللہ تعالی سے سچی محبت کرے تو اللہ تعالی بھی اس سے محبت کرلیتا ہے اور اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ البقرۃ2 :195 ’’بے شک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ‘‘
﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ ﴾ البقرۃ2 :222
’’ یقینا اللہ تعالی بار بار توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘
﴿وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ﴾ آل عمران 3:146
’’ اور اللہ تعالی صبر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے ۔ ‘‘
﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ التوبۃ9 : 7
’’یقینا اللہ تعالی پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘
﴿اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ ﴾ الصف61 : 4
’’ بے شک اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو اس کے راستے میں یوں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں کہ جیسے وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔ ‘‘
اور جب اللہ تعالی کسی مومن کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اس کے تمام اعضاء کو اپنی اطاعت وفرمانبرداری کیلئے مسخر کردیتا ہے اور اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے ۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
(( وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ ، وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہَا ، وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِہَا، وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہُ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہُ)) صحیح البخاری :6502
’’ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر لیتا ہوں۔
پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے ۔ اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے ۔ اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ پکڑتا ہے ۔ اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے ۔ (یعنی اس کے ان تمام اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہوں ) اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بالضرور عطا کرتا ہوں ۔ اور اگر وہ میری پناہ طلب کرتا ہے تو میں یقینا اسے پناہ دیتا ہوں ۔‘‘
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالی کسی مومن سے محبت کرلیتا ہے تو جبریل امین علیہ السلام سمیت تمام اہل ِ آسمان اس سے محبت کرلیتے ہیں۔ پھر وہ اہل ِ زمین کا بھی محبوب بن جاتا ہے ۔ صحیح مسلم : 2637
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مومن کی محبت :
ایمان کی لذت اور اس کا مٹھاس پانے کیلئے اللہ تعالی سے محبت کے بعد اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرنا ضروری ہے ، حتی کہ اپنے والدین اور اہل وعیال سے بھی زیادہ ۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَوَالِدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ )) صحیح البخاری : 15، صحیح مسلم :44
’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتایہاں تک کہ وہ اپنی اولاد ، اپنے والد اور دیگرتمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت کرے ۔ ‘‘
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرنا ضروری ہے ۔
جیسا کہ عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ۔ اسی دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :
(( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ إِلاَّ مِنْ نَّفْسِیْ))
’’ اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ( دنیا کی ) ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، ہاں البتہ میری جان سے زیادہ محبوب نہیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( لَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ،حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ ))
’’ نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہاں تک کہ میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو جاؤں ۔‘‘
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : (( فَأنَِّہُ الْآنَ وَاللّٰہ ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ))
’’ اب اللہ کی قسم ! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ ‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( اَلْآنَ یَا عُمَرُ)) ’’ اے عمر ! اب ٹھیک ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :6632
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کی علامات :
01. تمام اقوال وافعال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکامات دئیے ان کی فرمانبرداری کرنا اور جن چیزوں سے منع کیا ان سے پرہیز کرنا ۔
02. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو اپنی تمام نفسانی خواہشات پر فوقیت دینا ۔
03. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود شریف بھیجنا ۔
04. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اعمال سے محبت کرنا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نا پسندیدہ اعمال سے نفرت کرنا اور ان سے اپنے دامن کو بچانا ۔
05. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دلی محبت کرنا۔
06. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی تعظیم کرنا ، انھیں پڑھنا ، ذہن نشین کرنا اور انھیں لوگوں تک پہنچانا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا ایک نمونہ
حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے میری جان سے اور اسی طرح میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔ اور میں جب گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو یاد کرتا ہوں ، پھر میں صبر نہیں کرسکتا یہاں تک کہ آپ کے پاس آؤں اور آپ کو دیکھ لوں ۔ اور میں جب اپنی موت اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ آپ جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو آپ کو انبیاء ( علیہم السلام ) کے ساتھ ( اعلی درجات میں ) بھیج دیا جائے گا ۔ اور اگر میں جنت میں داخل ہوا تو مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ میں وہاں آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا !
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام ) یہ آیت لے کر نازل ہوئے : ﴿وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَأُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُوْلٰئِکَ رَفِیْقًا ﴾ النساء4 :69
’’ اور جو لوگ اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کریں گے وہ ( جنت میں ) ان کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے ۔ یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔ اور یہ لوگ بڑے اچھے ساتھی ہو نگے ۔ ‘‘ رواہ الطبرانی فی الصغیر والأوسط ، وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ :2933
اس حدیث میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا ایک نمونہ ذکر کیا گیا ہے وہاں یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع ہی در اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی محبت کی علامت ہے ۔
عزیزان گرامی !
اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہاء محبت مومن کو جنت میں لے جائے گی ۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز کی اقامت ہوچکی تھی کہ اچانک ایک اعرابی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ (( مَتَی السَّاعَۃ ؟ )) ’’ قیامت کب آئےگی ؟‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد پوچھا :(( أَیْنَ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَۃ ؟ ))
’’ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا شخص کہاں ہے ؟ ‘‘
تو اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :(( وَمَا أَعْدَدتَّ لَہَا فَہِیَ قَائِمَۃٌ ))
’’ تم یہ بتاؤ کہ تم نے قیامت کیلئے تیاری کیاکر رکھی ہے ؟ وہ تو قائم ہو کر ہی رہے گی ۔ ‘‘
تو اس نے کہا : (( مَا أَعْدَدتُّ لَہَا مِنْ کَبِیْرِ عَمَلٍ غَیْرَ أَنِّیْ أُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ ))
’’ میں نے قیامت کیلئے کوئی بڑا عمل تو نہیں کیا ، بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ( سچی ) محبت کرتا ہوں۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((فَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ )) ’’ اگر یہ بات ہے تو پھر تم یقین کرلو کہ تم (قیامت کے دن ) اُسی کے ساتھ ہوگے جس سے تم نے محبت کی ۔ ‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
(( فَمَا فَرِحَ الْمُسْلِمُوْنَ بِشَیْیئٍ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَشَدَّ مِمَّا فَرِحُوْا بِہٖ ))
’’ مسلمانوں کو اسلام قبول کرنے کے بعد جتنی خوشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ہوئی اتنی کبھی نہیں ہوئی۔‘‘ مسند احمد :13411۔ وقال الأرناؤط : إسنادہ صحیح علی شرط مسلم
لہذا ہمیں بھی سب سے زیادہ محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔
دوسرا سبب : خالصتا اللہ کی رضا کیلئے کسی مسلمان سے محبت کرنا
کسی دنیاوی مفاد کو مد نظر رکھے بغیر ایک صالح مومن سے صرف اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرنا اُن تین خصال میں سے ہے جن کے ساتھ ایمان کی لذت اور اس کا میٹھا ذائقہ محسوس ہوتا ہے ۔
اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ أَحَبَّ أَن یَّجِدَ طَعْمَ الْإِیْمَانِ فَلْیُحِبَّ الْمَرْئَ لَا یُحِبُّہُ إِلَّا لِلّٰہِ)) صحیح الجامع : 5958
’’ جو شخص ایمان کا ذائقہ پانا چاہتا ہو تو وہ کسی (صالح)آدمی سے صرف اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرے ۔ ‘‘
اور جو لوگ اللہ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ان کیلئے اللہ تعالی کی محبت واجب ہو جاتی ہے ۔ جیسا کہ ابو ادریس الخولانی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی رضا کیلئے محبت کرتا ہوں ۔ انھوں نے کہا : واقعتا اللہ کی رضا کیلئے ؟ میں نے کہا : جی ہاں محض اللہ کی رضا کیلئے۔ تو انھوں نے کہا :آپ کو خوشخبری ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :
((قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی:وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ،وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ، وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ ، وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ)) صحیح الترغیب والترہیب :3018
’’ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے : میری محبت ان لوگوں کیلئے واجب ہو جاتی ہے جو میری رضا کیلئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ، ایک دوسرے سے مل بیٹھتے ، ایک دوسرے کی زیارت کرتے اور ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں ۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کیلئے اس کی بستی کی طرف روانہ ہوا تو اللہ تعالی نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ مقرر کردیا ۔ چنانچہ وہ جب وہاں سے گذرا تو فرشتے نے کہا : تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا : اِس بستی میں میرا ایک بھائی ہے جس سے ملنے جا رہا ہوں ۔
فرشتے نے کہا : (( ہَلْ لَّکَ عَلَیْہِ مِنْ نِّعْمَۃٍ تَرُبُّہَا ؟ ))
یعنی کیا وہ تمھارا احسانمند ہے جس کی بناء پر تم اس سے ملنے جا رہے ہو ؟
اس نے کہا : نہیں ، میں تو صرف اس لئے جا رہا ہوں کہ مجھے اس سے اللہ کی رضا کیلئے محبت ہے ۔
فرشتے نے کہا : ((فَإِنِّیْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْکَ بِأَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَہُ فِیْہِ ))
یعنی ’’ مجھے اللہ تعالی نے تمھاری طرف یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ جس طرح تو نے اس سے محض اللہ کی رضا کیلئے محبت کی ہے اسی طرح اللہ تعالی نے بھی تجھ سے محبت کر لی ہے ۔ ‘‘ صحیح مسلم :2567
اور محض اللہ کی رضا کی خاطرایک دوسرے سے محبت کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب عمل ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالی ایسے لوگوں کو اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو ان الفاظ کے ساتھ ذکر فرمایا :
((وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ )) صحیح البخاری : 660، صحیح مسلم :1031
’’ وہ دو آدمی جنھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے اللہ کی رضا کیلئے محبت کی ، اسی پر اکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا جدا ہوئے ، ( انھیں بھی اللہ تعالی اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔ ) ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : أَیْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِی الْیَوْمَ ؟ أُظِلُّہُمْ فِیْ ظِلِّیْ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّیْ )) صحیح مسلم :2566
’’ بے شک اللہ تعالی قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا : آج میری خاطر محبت کرنے والے کہاں ہیں ! میں انھیں اپنے سائے میں جگہ دیتا ہوں جبکہ آج میرے سائے کے علاوہ اورکوئی سایہ نہیں ہے۔‘‘
یاد رہے کہ جب کسی شخص کو کسی سے اللہ کی رضا کی خاطر محبت ہو تو اسے آگاہ کردینا چاہئے کہ وہ اس سے اللہ کی رضا کیلئے محبت کرتا ہے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذرا ، اُس وقت آپ کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا ۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے اِس آدمی سے اللہ کیلئے محبت ہے ۔
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( أَعْلَمْتَہُ ؟) ’’کیا تم نے اسے اِس بات کی خبر کر دی ہے ؟
اس نے کہا : نہیں ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( أَعْلِمْہُ ) ’’ اسے بتا دو ۔‘‘ چنانچہ وہ اس کے پیچھے گیا اور اسے کہا :
(( إِنِّیْ أُحِبُّکَ فِی اللّٰہِ )) ’’ میں تجھ سے صرف اللہ کیلئے محبت کرتا ہوں ۔ ‘‘
تو اس نے کہا : (( أَحَبَّکَ الَّذِیْ أَحْبَبْتَنِیْ لَہُ )) ’’ تجھ سے وہ محبت کرے جس کیلئے تم نے مجھ سے محبت کی ہے ۔ ‘‘ سنن أبی داؤد : 5125۔ وحسنہ الألبانی
عزیزان گرامی ! بڑے دکھ اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج کل بہت سارے لوگ ایک دوسرے سے صرف دنیاوی مفادات کی خاطر محبت کرتے اور دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہیں ۔ چنانچہ جیسے ہی دنیاوی مفاد حاصل ہوتا ہے تو ان کا یارانہ ٹوٹ جاتا ہے اور محبت ختم ہو جاتی ہے ۔ پھر وہ ایسے ہو جاتے ہیں جیسے ایک دوسرے کو جانتے بھی نہ تھے ۔
اور اِس سے بھی بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت سارے لوگ برے لوگوں کو اپنا دوست بناتے اور ان سے محبت رکھتے ہیں ۔ حالانکہ برے لوگوں کو دوست بنانا اور ان سے قلبی تعلق قائم کرنا درست نہیں ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ھَوٰہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا ﴾ الکہف18 :28
’’ اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ منسلک رکھیئے جو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں ۔ اور اپنی آنکھیں ان سے مت ہٹائیں کہ دنیوی زندگی کی زینت چاہنے لگیں ۔ اور اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے ۔ ‘‘
اِس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ صرف انہی لوگوں سے محبت رکھنی چاہئے اور ایسے لوگوں کو اپنا دوست بنانا چاہئے کہ جو اللہ رب العزت کے فرمانبردار ہوں اور صبح وشام اس کو پکارتے ہوں ۔ اور ایسے لوگوں کے پیچھے نہیں لگنا چاہئے کہ جن کے دل اللہ کے ذکر سے غافل ہوں اور وہ خواہش پرست ہوں ۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا ، وَلَا یَأْکُلْ طَعَامَکَ إِلَّا تَقِیٌّ)) سنن أبی داؤد :4832، جامع الترمذی : 2395۔ وحسنہ الألبانی
’’ تم صرف ( سچے ) مومن کو ہی اپنا ساتھی بنانا ۔ اور تمھارا کھانا صرف پرہیزگار ہی کھائے ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اَلرَّجُلُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ ، فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَن یُّخَالِلْ)) سنن أبی داؤد : 4833، جامع الترمذی :2378۔ وحسنہ الألبانی
’’ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ۔ لہذا تم میں ہر شخص کو بغور جائزہ لے لینا چاہئے کہ وہ کس کو دوست بناتا ہے ۔ ‘‘
قیامت کے روز صرف پرہیزگار لوگوں کی دوستی ہی برقرار رہے گی ۔ ان کے علاوہ باقی سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَلْاَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ م بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِِلَّا الْمُتَّقِیْنَ﴾ الزخرف43 :67
’’اُس دن پرہیزگاروں کے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے ۔ ‘‘
اور ایسے ہی لوگ برے لوگوں کو اپنا دوست بنانے پر قیامت کے دن انتہائی حسرت و ندامت کا اظہار کریں گے ۔اور کہیں گے : کاش ! ہم نے ان لوگوں کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا٭ یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًا ٭ لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِِذْ جَآئَنِی ﴾ الفرقان25 : 27۔29
’’ اور اُس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا : کاش ! میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی اپنی روش اختیار کی ہوتی ۔ ہائے افسوس ! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے ورغلایا ۔ ‘‘
لہٰذا قیامت کے دن کی حسرت وندامت سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلقات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کس کے ساتھ ہماری محبت اللہ کی رضا کیلئے ہے ۔ اور کس کے ساتھ دنیاوی مفاد کیلئے ہے ! اور دوستوں میں سے کون صالح اور پرہیزگار ہے کہ جس کے ساتھ خالصتا اللہ کی رضا کیلئے محبت رکھنی ہے اور کون برا ہے کہ جس سے دلی پیار ومحبت رکھنے سے بچنا ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایک دوسرے سے اپنی رضا کیلئے محبت کرنے کی توفیق دے ۔ اور ہمیں ایمان کی لذت اور اس کا میٹھا ذائقہ نصیب کرے ۔
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! پہلے خطبے میں ہم نے ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو پانے کے تین اسباب میں سے دو تفصیل کے ساتھ بیان کئے ۔ آئیے اب تیسرا سبب بھی قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔
تیسرا سبب : ایمان پر ثابت قدمی
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرا سبب یوں بیان فرمایا :
(( وَأَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ ، کَمَایَکْرَہُ أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ ))
’’اور اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح نا پسند ہو جیسا کہ جہنم میں ڈالا جانا اسے نا پسند ہے۔ ‘‘
یعنی وہ ایمان پر ثابت قدم رہے اور ایمان کو چھوڑ کر کفر کی طرف واپس پلٹنا اسے شدید نا پسند ہو ۔ کفر سے نفرت اور نا پسندیدگی اتنی ہو جتنی اسے جہنم سے ہے ۔
اللہ تعالی اپنے پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
﴿فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطْغَوْا إِنَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ﴾ ہود 11: 112
’’ پس آپ راہِ حق پر قائم رہئے جیسا کہ حکم دیا گیا ہے ۔ اور وہ لوگ بھی جنھوں نے آپ کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کیا ہے ۔ اور تم لوگ سرکشی نہ کرو ۔ بے شک وہ ( اللہ ) تمھارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘
اور سفیان بن عبد اللہ الثقفی بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی اور سے اس کے بارے میں سوال نہ کرنا پڑے ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ) صحیح مسلم : 38
’’ تم کہو : میں اللہ پر ایمان لایا ، اس کے بعد ( اُس ایمان پر ) ڈٹ جاؤ ۔ ‘‘
اوراللہ تعالی دین پر استقامت اختیار کرنے والے مومنوں کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ ٭ نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْآخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُونَ ٭ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیْمٍ ﴾ فصلت41 : 30 ۔32
’’ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ تعالی ہے ، پھر اس ( عقیدۂ توحید اور عمل صالح ) پر جمے رہے ان پر فرشتے ( دنیا میں یا موت کے وقت یا قبر میں ) اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ( آنے والے مراحل سے ) نہ
ڈرو اور نہ ہی ( اہل وعیال کو چھوڑنے کا ) غم کرو ۔ اور تم اُس جنت کی خوشخبری سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں تمھارے دوست اور مدد گار رہے اور آخرت میں بھی رہیں گے ۔ اور وہاں تمھیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی تمھارا نفس خواہش کرے گا اور وہ چیز جس کی تم تمنا کرو گے ۔ یہ اُس کی طرف سے تمھاری میزبانی ہوگی جو نہایت معاف کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے ۔‘‘
اور جہاں تک ایمان کو چھوڑ کر کفر کی طرف پلٹنے کا تعلق ہے تو یہ انتہائی خطرناک ہے ۔ کیونکہ کفر کی طرف پلٹنے سے انسان کے وہ تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں جو اُس نے حالت ِ اسلام میں انجام دئیے ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ھُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :217
’’ اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور کفر کی حالت میں مر جائیں تو ان کے اعمال دنیا میں بھی غارت ہوگئے اور آخرت میں بھی ۔ اور یہی لوگ جہنمی ہوں گے ، جو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘
اسی طرح ارشاد فرمایا :
﴿ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾ المائدۃ5 :5
’’ اور جو شخص ایمان سے کفر کر لے تو اس کے اعمال غارت ہوگئے ۔ اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا ۔ ‘‘
لہٰذا ایک سچے مومن کو ہمیشہ اللہ تعالی سے دین پر ثابت قدم رہنے کی دعا کرنی چاہئے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ہمیں اِس دعا کی تعلیم دی ہے : ﴿رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنتَ الْوَہَّابُ﴾ آل عمران3 : 8
’’ اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں مبتلا نہ کرنا ۔ اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ۔ بے شک تو ہی بڑا عطا کرنے والا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح یہ دعا بھی بار بارکرنی چاہئے : (( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ))
’’ اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا ۔‘‘
کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دعا اکثر وبیشتر پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے پاس ہوتے تو یہ دعا بکثرت پڑھتے ۔ میں نے ایک مرتبہ آپ سے پوچھ ہی لیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ یہ دعا بہت پڑھتے ہیں ، کیا وجہ ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یَا أُمَّ سَلَمَۃَ ، إِنَّہُ لَیْسَ آدَمِیٌّ إِلَّا وَقَلْبُہُ بَیْنَ أُصْبُعَیْہِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ ، فَمَنْ شَائَ أَقَامَ وَمَنْ شَائَ أَزَاغَ )) جامع الترمذی :3522 ۔ وصححہ الألبانی
’’ اے ام سلمہ ! ہر آدمی کا دل اللہ تعالی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ، پس وہ جس کو چاہے سیدھا رکھے اور جس کو چاہے کج روی میں مبتلا کردے ۔ ‘‘
آخر میں ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دین پر استقامت اور ثابت قدمی نصیب فرمائے ۔ اور ہمارے دلوں میں ایمان کو اور زیادہ مضبوط کرے ۔ اورہمیں ایمان کی لذت کو حاصل کرنے کے تمام اسباب اختیار کرنے کی توفیق دے ۔ آمین
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین