اِصلاح معاشرہ کیسے ہو ؟
اہم عناصرِ خطبہ :
01.اسلامی معاشرے کی خصوصیات
02. معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کا طریقۂ کار
پہلا خطبہ
محترم حضرات !
آج ہمارے معاشرے میں بہت ساری خرابیاں پائی جاتی ہیں ۔ بہت زیادہ اخلاقی بگاڑ پایا جاتا ہے ۔ اِس قدر فساد پایا جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تباہی وبربادی کے کنارے پر جا پہنچا ہے ۔ اور آب سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کس قدر اخلاقی انحطاط کا شکار ہو چکے ہیں !
سوال یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو اس تباہی وبربادی سے کیسے بچا سکتے ہیں ؟ اور معاشرے کی تمام خرابیوں کی اصلاح کیسے ممکن ہے ؟
اِس کیلئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اِس امت کا اولین اسلامی معاشرہ جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں تشکیل دیا تھا اس کی کیا خصوصیات تھیں کہ جن کی بناء پر وہ معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن گیا تھا ۔ کیونکہ یہ بات کسی بھی شخص سے مخفی نہیں ہے کہ کسی بھی اسلامی معاشرے کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشکیل کردہ پہلے اسلامی معاشرے کی خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی اصلاح نہ کرے ۔
تو آئیے اختصار کے ساتھ ان خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہیں اور انہی کی روشنی میں اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔
پہلی خصوصیت :توحید باری تعالیٰ کا صدق دل سے اقرار اور شرک سے براء ت اور لاتعلقی
اسلامی معاشرے کی پہلی اور سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں بسنے والے تمام مسلمان اکیلے اللہ تعالیٰ کو معبودِ برحق سمجھتے ہیں اور شرک سے براء ت اور لا تعلقی کا اعلان کرتے ہیں ۔ یہی بات ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے معلوم ہوتی ہے ۔ چنانچہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے
ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے کی بنیاد ہی توحید باری تعالیٰ کے اقرار پر رکھی تھی ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز ہی توحید باری تعالیٰ سے کیا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دعوت کا آغاز اِس جملہ سے کیا :
( قُولُوا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا ) ’’ تم سب اقرار کرو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، یہ اقرارکر لو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمۂ توحید ( لا إلہ إلا اللہ ) کی طرف دعوت دی تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صرف باری تعالیٰ کو رب ( خالق ومالک ، رازق اور مدبر الأمور ) ماننا ہی نہیں تھا کیونکہ مشرکین ِ مکہ اللہ تعالیٰ کو خالق ومالک مانتے تھے جیسا کہ سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر ۶۱اور ۶۳ میں اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی ہے ، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ اِس بات کو بھی دل سے تسلیم کیا جائے کہ معبود برحق بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ، تمام عبادات کے لائق وہی ہے اور ہر قسم کی عبادت اسی کیلئے روا ہے ۔ نماز ، روزہ ، حج ، زکاۃ ، قربانی ، نذر ونیاز ، رکوع وسجود ، استعانۃ ، استغاثہ ، امید ورجاء ، خوف وخشیت ، توکل ، دعا ، عاجزی وانکساری ، تذلل وخشوع ، عقیدت ومحبت ۔۔۔۔۔۔۔ الغرض یہ کہ تمام تر عبادات میں وہ وحدہ لا شریک ہے ۔
کلمۂ توحید کا یہی مفہوم جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے سامنے پیش کیا تو وہ کہنے لگے :
﴿اَجَعَلَ الْآلِھَۃَ إِلٰھًا وَّاحِدًا إِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ ﴾ ص38:5
’’کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنادیا ، یہ تو بڑی عجیب بات ہے ‘‘
یعنی ان کے لئے کلمۂ توحید کا یہ مفہوم ناقابلِ فہم تھا کیونکہ وہ تو تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ اسی لئے ایک ہی معبود کا تصور ان کے لئے باعث ِ تعجب تھا اور وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے ، بلکہ کہنے لگے :
﴿ اَئِنَّا لَتَارِکُوْا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ﴾ الصافّات37: 36
’’ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں ؟‘‘
اسی توحید کو ’توحید الوہیت‘ کہتے ہیں اور یہ سب سے اہم بنیاد ہے اسلامی معاشرے کی تشکیل کیلئے اور اس کی ترقی اور کامرانی وکامیابی کیلئے۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری مکی زندگی میں اُن تمام لوگوں کی تربیت اسی توحید باری تعالیٰ کی بنیاد پر ہی کرتے رہے جو کچھ عرصہ بعد مدینہ منورہ میں اولین اسلامی معاشرے کا حصہ بننے والے
تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت وعقیدت کی آبیاری کی ، چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ ہی سے امیدیں وابستہ کرنے لگے ، اسی کا خوف اپنے دلوں میں بسانے لگے ، اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے لگے ۔ وہ لوگ جو کل تک ’لات ، عزی اور مناۃ ‘وغیرہ کو نفع ونقصان کا مالک سمجھتے تھے اب وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھنے لگے ۔ یہ لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو داتا، دستگیر ، غریب نواز اور غوث تصور کرتے تھے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی توحید کا نور دکھلایا تو یہ اللہ تعالیٰ کو ہی داتا ، دستگیر ، غریب نواز اور غوث اعظم تصور کرنے لگے ۔ یہ انقلابی تبدیلی تھی جو ایک کامیاب مسلم معاشرہ کے معرض وجود میں آنے کی پہلی بنیاد بنی ۔
پہلا اسلامی معاشرہ جو مدینہ منورہ میں معرض وجود میں آیا وہ انہی لوگوں پر مشتمل تھا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ کامیاب اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے سب سے پہلے معاشرے میں بسنے والے مسلمانوں کے عقیدے کی اصلاح کرنا ضروری امر ہے ۔
جبکہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں شرک انتہائی بھیانک صورت میں موجو د ہے ، وہ مقامات کہ جہاں سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اورکو پکارا نہیں جانا چاہئے تھا ، وہاں غیر اللہ کو پکارا جاتا ہے ، غیر اللہ کے نام کی نذرو نیاز پیش کی جاتی ہے اور غیر اللہ کے سامنے رکوع وسجود جیسی عبادات انجام دی جاتی ہیں۔روزانہ لاکھوں لوگ ان مقامات پر آتے جاتے اور شرکیہ اعمال کرتے ہیں ۔ اورشرک کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کو کھلم کھلا دعوت دیتے ہیں!جبکہ شرک کو اللہ تعالیٰ نے ظلم عظیم قرار دیا ہے ۔ اِس صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے معاشرے کی اصلاح ہو اور معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو ! یقینا یہ ناممکن ہے جب تک کہ تمام مسلمان شرک سے توبہ نہ کریں اور جب تک شرکیہ مراکز ختم نہ کئے جائیں ۔
شرک سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور جس قوم سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے تو وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے! اور ایسی قوم جس معاشرے کا حصہ ہوگی وہ معاشرہ کیسے کامیابی کی راہیں طے کر سکتا ہے ! یقینا یہ لمحہ فکریہ ہے !
اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کیلئے سب سے پہلے معاشرے میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے عقیدے کا درست ہونا اور شرک کی غلاظت سے پاک ہوناضروری ہے ۔
دوسری خصوصیت :
اطاعت وفر مانبرداری صرف اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اسلامی معاشرے کے باشندوں کو توحید باری تعالیٰ کے بعد جو دوسرا سبق دیا وہ یہ تھا کہ اطاعت وفرمانبرداری اگر ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہے ۔ یعنی اسلامی معاشرے کے باسی اِس بات کے پابند ہیں کہ وہ بحیثیت مسلمان اللہ تعالیٰ کی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کریں اور ان کی نافرمانی سے اجتناب کریں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کا حکم دیا تھا کہ
﴿وَأَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ﴾ المائدۃ5 :92
’’ اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرتے رہو ۔ اور (نافرمانی سے ) ڈرتے رہو اوراگر تم نے اعراض کیا تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ بس صاف صاف پہنچادینا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ﴾ الأنفال8 :24
’’ اے ایمان والو ! اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا حکم مانو جبکہ رسول تمھیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمھارے لئے زندگی بخش ہو ۔‘‘
نیز فرمایا :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ﴾ محمد47 :33
’’ اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو ۔ ‘‘
یہ اور ان کے علاوہ دیگر بہت ساری آیات اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ باشندگانِ اسلامی معاشرہ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے کے مامور وپابندہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کے متعلق ان آیات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات ہمیں کہاں سے معلوم کرنے
چاہئیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیات مبارکہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنا چاہئے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات قرآن مجید اور کتب ِ حدیث سے ہی مل سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو انہی دو چیزوں کو مضبوطی سے تھامنے کی خصوصی وصیت فرمائی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ ، لَنْ تَضِلُّوْا مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ ، وَلَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ)) رواہ الحاکم:319،والدار قطنی:4/345 وحسنہ الألبانی فی المشکاۃ:186،وصحیح الجامع: 2937،3232
’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ تم جب تک انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔ ایک ہے کتاب اللہ ( قرآن مجید ) اور دوسری ہے میری سنت۔ اور یہ دونوں کبھی جدا جدا نہیں ہو نگی یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آئیں گی ۔ ‘‘
اور اولین اسلامی معاشرے کے باسیوں کا یہی منہج اور طرز عمل تھا کہ وہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے تھے ۔ اور انہی لوگوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے’ فرقۂ ناجیہ ‘قرار دیا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ یہود ۷۱ فرقوں میں اور نصاری ۷۲ فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت کے لوگ ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوں گے ۔ ان میں سے ایک کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : یا رسول اللہ ! وہ ایک گروہ کونسا ہے جو نجات پائے گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی )) ’’ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ ‘‘
ایک روایت میں ارشاد فرمایا : ( وَہِیَ الْجَمَاعَۃُ ) ’’ نجات پانے والا گروہ ہی جماعت ہے ۔ ‘‘ سنن الترمذی :2641 ۔ وأبو داؤد : 4597، وابن ماجہ:3993 وحسنہ الألبانی
سوال یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کس چیز پر قائم تھے کہ جس پر قائم رہنے والی جماعت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ نجات پانے والی جماعت ‘ قرار دیا ؟ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ وہ کتاب وسنت ہی کی اتباع پر قائم تھے ۔ ان کے ہاں ان دو چیزوں کے علاوہ کوئی تیسری چیز نہ تھی جس کی وہ اتباع کرتے ۔ لہٰذاآج بھی کوئی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی اصلاح ہو سکتی ہے جب تک کہ اس میں بسنے والے تمام لوگ پورے اخلاص کے ساتھ کتاب وسنت کو اپنا دستور حیات نہ بنائیں ۔
تیسری خصوصیت : باسیانِ اسلامی معاشرہ کا اتفاق واتحاد !
اسلامی معاشرے کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بسنے والے تمام لوگ ایک امت ہوتے ہیں ۔ ان میں گروہ بندی اور فرقہ واریت نہیں ہوتی ۔ وہ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے ، ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے ، ایک قبلے کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھنے والے اور ایک ہی کتاب کو دستور حیات بنانے والے ہوتے ہیں ۔اور اگر ان کے ما بین کسی مسئلے میں نزاع ہوتا ہے تو وہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں حل کرلیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تمام اہل ِ ایمان کو متحد رہنے کا حکم دیا ہے اور فرقہ واریت اور گروہ بندی سے منع فرمایا ہے ۔ اس کا ارشاد ہے :
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ ﴾ آل عمران3 :103
’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو ۔ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے ۔ اور( یاد کرو جب ) تم جہنم کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمھارے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ ۔‘‘
اِس آیت کریمہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو مل کر اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا اور فرقہ بندی سے منع کیا وہاں اس نے اپنا احسان عظیم یاد دلایا کہ تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ، لیکن اس نے تمھارے دلوں میں محبت پیدا کردی ، جس کے نتیجے میں تم سب بھائی بھائی بن گئے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے کے باسیوں کی آپس میں الفت ومحبت اور ان سب کا اکٹھے رہنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اسی نعمت کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر یوں ذکر فرمایا :
﴿وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعًا مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللّٰہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ﴾ الأنفال8 : 63
’’ اس ( اللہ ) نے مومنوں کے دلوں میں الفت پیدا کی ، اگر آپ زمین پر موجود تمام چیزیں خرچ کر ڈالتے تو پھر بھی آپ ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کر سکتے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں محبت پیدا کر دی جو غالب اور حکمتوں والا ہے ۔‘‘
جبکہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت اور گروہ بندی انتہائی بھیانک شکل اختیار کر چکی ہے ۔ اور صورتحال یہ ہے کہ اللہ کے گھروں پر بھی مخصوص گروہوں کے لیبل لگا دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ ہر فرقے کے لوگ انھی مساجد میں نماز پڑھتے ہیں جن پر ان کے فرقے کا نام نمایاں ہوتا ہے ۔ اور اگر کسی دوسری جماعت کا کوئی شخص بھول کر ان مساجد میں چلا بھی جائے تو اسے ناپاک گردانتے ہوئے مسجد کو باقاعدہ دھو کر پاک کیا جاتا ہے ! یا کم ازکم اسے گھور گھور کر ضرور دیکھا جاتا ہے اور اس پر آوازیں ضرور کسی جاتی ہیں !
ہر گروہ ﴿کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُونَ﴾ کا عملی نقشہ پیش کر رہا ہے ، کہ جو جس عقیدے اور نظریے پر لگا ہوا ہے وہ اسی کو حق تصور کرتا اور دوسرے تمام لوگوں کو باطل پر سمجھتا ہے ! اِس صورتحال میں ہمارا اسلامی معاشرہ قطعا ترقی نہیں کر سکتا اور نہ اس کی اصلاح ہو سکتی ہے جب تک کہ معاشرے کے تمام باشندے ایک جماعت نہ بن جائیں اور جب تک کہ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے الفت ومحبت پیدا نہ ہواور وہ بھائی بھائی نہ بن جائیں۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
﴿ وَاِِنَّ ہٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ ﴾ المؤمنون 23:52
’’ اور تمھاری یہ امت ( درحقیقت ) ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں ، لہٰذاتم مجھ سے ڈرتے رہو۔ ‘‘
دوسری آیت میں فرمایا : ﴿ اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ ﴾ الأنبیاء 21:92
’’ یہ تمھاری امت یقینا ایک ہی امت ہے ۔ اور میں تمھارا رب ہوں ۔ لہٰذاتم میری ہی عبادت کرو ۔ ‘‘
ہاں معاشرے میں اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اور اختلافات کا پیدا ہونا برا نہیں ، بلکہ برا یہ ہے کہ اختلافات پیداہوں اور انھیں ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی جائے ۔ اختلاف تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ما بین بھی پیدا ہو جاتا تھا، لیکن وہ اسے قرآن وحدیث کی روشنی میں حل کرلیتے تھے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کا حکم دیا ہے : ﴿یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً ﴾ النساء4:59
’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو۔ اور تم میں جو حکم والے ہیں ان کا بھی ۔ پھر اگر تمھارا کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی (تمہارے حق میں )بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھاہے ۔‘‘
اختلافی مسئلے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا معنی یہ ہے کہ اس کا فیصلہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کر لیاکرو ۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پیشین گوئی فرمائی تھی کہ
(( فَإِنَّہُ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِی فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ))
’’ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ عنقریب بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا ۔ ‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف کثیر کے واقع ہونے پر جس چیز کو مضبوطی سے تھامنے اور اس کی روشنی میں اختلافات کو حل کرنے کا حکم دیا وہ یہ ہے:
((فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ ، تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ))
’’ تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا ۔ اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا ۔اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘ سنن أبو داؤد :4607۔ وصححہ الألبانی
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ امت میں اختلافِ کثیر واقع ہونے کی شکل میں اگر تمام مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کو مضبوطی سے تھام لیں اور دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچیں تو ان کے آپس کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں ۔ اور جب معاشرے میں اختلافات ختم ہونگے تو یقینی طور پر معاشرہ ترقی کرے گا ۔
چوتھی خصوصیت : ایک دوسرے سے تعاون اور خیرخواہی
اسلامی معاشرے کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بسنے والے تمام لوگ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ،ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں ، ایک دوسرے پر رحم کرتے اور ترس کھاتے ہیں ، ایک دوسرے کے
ہمدرد ہوتے ہیں اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اسی قسم کی تعلیمات دی ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اولین اسلامی معاشرے کے باسیوں کی تربیت انہی اصولوں پر کی تھی ۔
اللہ تعالیٰ نے حکم صادر فرمایاکہ
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُوا عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ المائدۃ 5:2
’’ تم نیکی اور تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔‘‘
چنانچہ اولین اسلامی معاشرے کے لوگ ایک دوسرے سے نیکی اور تقوی کی بنیاد پر تعاون کرنے لگے ۔ اور تعاون بھی ایسا کہ قیامت تک اُس جیسی مثالیں پیش کرنا ممکن نہیں ہے ۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولین اسلامی معاشرے کے لوگوں کی جس انداز سے تربیت کی اس کے نتیجے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے بہت ہی خیرخواہ ، ہمدرد اور متعاون تھے ۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے بارے میں گواہی دی کہ وہ
﴿ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ ﴾ ’’ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں ۔‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْ وَلَایَجِدُونَ فِیْ صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ الحشر59 :9
’’ اور ( ان لوگوں کیلئے بھی ) جو ان ( مہاجرین ِ مکہ کے آنے ) سے پہلے یہاں ( مدینہ میں) مقیم تھے اورایمان لا چکے تھے ۔ وہ ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا جائے وہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے۔ وہ ( مہاجرین کو ) اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں ۔ اور جو لوگ اپنے نفس کی تنگی اور بخل سے بچا لئے جائیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے کس طرح اظہار ہمدردی کرتے تھے اس کی ایک واضح دلیل یہ قصہ ہے :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ( ہجرت کر کے ) ہمارے پاس تشریف لائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا جو کہ بہت مالدار تھے ۔ انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا : میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار
ہوں اور یہ بات انصار کو بھی معلوم ہے۔ تومیں اپنا مال دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں، ایک حصہ میرے لئے اور دوسرا آپ کیلئے ۔ اِس کے علاوہ میری دو بیویاں بھی ہیں ، آپ کو ان دونوں میں سے جو زیادہ اچھی لگے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو آپ اس سے شادی کر لیں ۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : ( بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْ أَہْلِکَ وَمَالِکَ )
’’ اللہ تعالیٰ آپ کے گھر والوں اور آپ کے مال میں برکت دے ۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ گھی اور پنیر کے مالک بن گئے اور ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر زرد رنگ کے کچھ آثار دیکھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : میں نے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دے کر ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مبارکباد دی اور فرمایا : ( أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ ) صحیح البخاری:3780 ، 3781
’’تم ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ذبح کرکے ہی۔ ‘‘
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولین اسلامی معاشرے کے باسیوں کے مابین جذبۂ محبت و شفقت کو پروان چڑھانے کیلئے انھیں ایک جسم کی مانند قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَکیٰ مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعیٰ لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمّٰی)) صحیح البخاری :6011، صحیح مسلم : 2586
’’ مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے ، ایک دوسرے پر ترس کھانے اور ایک دوسرے پر شفقت کرنے میں ایک جسم کی مانند ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم اس کیلئے بخار کے ساتھ تڑپ اٹھتا ہے اور اس کی وجہ سے بیدار رہتا ہے۔ ‘‘
چنانچہ اولین اسلامی معاشرے کے باسیوں نے اِس حدیث کو عملی جامہ پہنایا اور وہ اِس طرح ایک جسم کی مانند بن گئے کہ اگر ان میں سے کسی شخص کو تکلیف پہنچتی تو اس کی وجہ سے سارے مسلمان تڑپ اٹھتے اور اس پر ترس کھاتے ہوئے اس کا ہر طرح سے خیال رکھتے ۔
اسلامی معاشرے میں بسنے والا ہر شخص دوسرے کا خیر خواہ ہوتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولین اسلامی معاشرے کے باسیوں کی تربیت اسی چیز پر کی تھی ۔ جیسا کہ ابو رقیہ تمیم بن اوس الداری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
(( اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ ( ثَلَاثًا )، قُلْنَا: لِمَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ ، وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِہِمْ)) رواہ مسلم ۔کتاب الإیمان باب بیان أن الدین النصیحۃ ۔ حدیث 55
’’دین خیر خواہی کا نام ہے ۔‘‘ آپ نے تین بار فرمایا۔ ہم نے کہا : کس کیلئے اے اللہ کے رسول ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کیلئے ، اس کی کتاب کیلئے ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ، مسلمانوں کے حکمرانوں کیلئے اور عام مسلمانوں کیلئے ۔‘‘
اورحضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(( بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی إِقَامِ الصَّلاَۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ )) صحیح البخاری :1401، صحیح مسلم : 56
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی کہ نماز ہمیشہ پڑھتا رہونگا ، زکاۃ دیتا رہونگا اور ہر مسلمان کیلئے خیر خواہی کرونگا ۔‘‘
اور خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کیلئے ہر وہ چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔اور ہر اس چیز کو اپنے بھائی کیلئے نا پسند کرے جو اپنے لئے نا پسند کرتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ )) صحیح البخاری :13، صحیح مسلم :45
’’ تم میں سے کوئی شخص (کامل ) ایمان والا نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔‘‘
اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کس طرح کاہونا چاہئے اس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یُسْلِمُہُ ، وَمَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ أَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہٖ ۔۔۔)) صحیح البخاری : 2442 ، صحیح مسلم :2580
’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، ( چنانچہ ) وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ظالموں کے سپرد کرتا ہے ۔ اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو پورا کرتا رہتا ہے ۔‘‘
نیز فرمایا : (( مَنْ نَّفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ، وَمَنْ یَّسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ أَخِیْہِ )) صحیح مسلم : 2699
’’ جو شخص کسی مومن کی دنیاوی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی کو ختم کرے تواللہ تعالیٰ اس کی اخروی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی کو ختم کردے گا ۔ اور جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے تواللہ تعالیٰ اس کیلئے دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا ۔ اور جو آدمی کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے تواللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا ۔ اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے ۔‘‘
پانچویں خصوصیت : پاکدامنی
اسلامی معاشرے کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رہنے والے تمام مسلمان پاکدامن ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت وعصمت کا تحفظ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ وہ کسی کی ماں، بہن اور بیٹی کی طرف غلط نظروں سے نہیں دیکھتے بلکہ وہ ہر غیر محرم عورت سے اپنی نظریں جھکا کے رکھتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ رب العزت کا ان کیلئے یہی حکم ہے : ﴿ قُلْ لِّلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ﴾ النور24 :30
’’ آپ مومنوں کو حکم دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزگی کا ذریعہ ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اسلامی معاشرے میں بسنے والی خواتین بھی با حیا ہوتی ہیں ، ان کی آنکھوں میں شرم ہوتی ہے اور وہ اپنی عصمت کا تحفظ کرنے والی ہوتی ہیں ۔ وہ اپنے گھروں میں ٹھہری رہتی ہیں اور بغیر ضرورت کے گھروں سے باہر نہیں نکلتیں اور جب نکلتی ہیں تو مکمل طور پر با پردہ ہو کر باوقار اندازسے نکلتی ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے
انھیں انہی باتوں کا حکم دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَقُلْ لِّلْمُؤمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِہِنَّ۔۔۔ ﴾ النور24 :31
’’ اور آپ ایمان والی عورتوں سے بھی کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اپنی عزتوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے ۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں۔۔۔۔‘‘
اسی طرح اس کا فرمان ہے :
﴿ وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُوْلیٰ ﴾ الأحزاب33: 33
’’ اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو ۔ اور قدیم زمانۂ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کا اظہار مت کرو ۔ ‘‘
اسلامی معاشرے میں رہنے والے خواتین وحضرات باہمی اختلاط سے پرہیز کرتے ہیں ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ إِلَّا وَمَعَہَا ذُوْ مَحْرَمٍ ،وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ إِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ )
’’ کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ہرگز خلوت میں نہ جائے ، ہاں اگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو تو ٹھیک ہے ۔ اور اسی طرح کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میری بیوی حج کیلئے روانہ ہو گئی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوہ کیلئے لکھ لیا گیا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ صحیح البخاری ۔ الحج باب حج النساء ۔ 2862، صحیح مسلم ۔ الحج ۔1341
اورحضرت عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ تم ( غیر محرم ) عورتوں کے پاس جانے سے پرہیز کرو ۔‘‘ تو ایک انصاری نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ’الحمو‘یعنی خاوند کے بھائی (دیور) کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’دیور موت ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری ۔ النکاح باب لا یخلون رجل بامرأۃ : 5232 ، صحیح مسلم ۔الأدب ۔2083
اسلامی معاشرے میں عزت وناموس کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور ہر ایسا کام حرام قرار دیا گیا ہے جو بے حیائی
کی طرف لے کر جائے اور جس سے عزت وناموس کو خطرہ لاحق ہو ۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ ﴾ الأنعام6 :151
’’ اور بے حیائی کے تمام کاموں کے قریب بھی نہ جاؤ ، خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں ۔ ‘‘
اور جو لوگ معاشرے میں بے حیائی کو پھیلاتے ہیں انھیں اللہ رب العزت نے سخت وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا : ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ النور24 :19
’’ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے تو ان کیلئے یقینا دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے ۔ اور اللہ کو سب کچھ معلوم ہے اور تم نہیں جانتے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ یہ آیت ِ کریمہ قصۂ افک کے ضمن میں نازل ہوئی ، جس میں منافقوں اور بعض کمزور ایمان والوں نے کوشش کی کہ مسلم معاشرے میں اخلاقی انارکی پھیلے اور برائی کو فروغ ملے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سخت وعید سنائی کہ ایسا کرنے والوں کیلئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے ۔ ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ بے حیائی پھیلانے سے مسلم معاشرے پر کتنے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں! اس کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، تمھیں اس کا اندازہ نہیں ۔ لہٰذامسلم معاشرے میں اِس طرح کی بے حیائی کو فروغ دینے کے بجائے اس کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے ۔
اِس آیت کریمہ میں اس دور کے ذرائع ابلاغ کیلئے بھی سخت تنبیہ ہے جنھوں نے اسلامی معاشروں میں فحاشی ، عریانی اور بے حیائی کو پھیلانے اور نوجوان نسل کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
اسلامی معاشرے کی پاکدامنی اور اس میں رہنے والے تمام لوگوں کی عزت وعصمت کے تحفظ کیلئے درج بالا تعلیمات کے بر عکس آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ خواہ مرد ہوں یا خواتین ہوں ، نہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور نہ عزت وعصمت کی حرمت کا خیال کرتے ہیں۔ خواتین بے پردہ ہو کر گھومتی ہیں ۔ مردو زن کا اختلاط ایک عام سی بات بن گئی ہے ۔ فحاشی ، عریانی اور بے حیائی کو پھیلانے کے تمام وسائل استعمال کئے جا رہے ہیں ۔
حالانکہ ہم اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشکیل
کردہ اسلامی معاشرہ اُس اخلاقی بگاڑ سے پاک تھا جو آج ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی تربیت اِس انداز سے کی تھی کہ وہ کسی غیر محرم عورت کی طرف نظر اٹھا نا بھی گوارا نہ کرتے تھے ۔ چہ جائیکہ وہ برائی اور بد کاری کا سوچتے یا اس کی کوشش کرتے ۔ اُس دور میں بد کاری کے اکّا دکّا واقعات ہوئے ، اور ان میں بھی شاید اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ اگر وہ واقعات رونما نہ ہوتے تو شاید ہمیں پتہ ہی نہ ہوتا کہ اِس طرح کے جرائم کی سزائیں کیا ہیں اور ان کے ساتھ کس طرح سے نمٹا جانا چاہئے ۔
اُس دور میں خواتین بلا ضروت گھروں سے باہر نہ نکلتی تھیں ۔ اور جب ضرورت پڑتی تو مکمل طور پر پردہ کرکے نکلتی تھیں ۔ حتی کہ حج کے احرام کی حالت میں بھی چہرہ سمیت پورے جسم کا پردہ کرتی تھیں ۔
لہٰذاآج بھی ہمیں اپنے معاشروں کی اصلاح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشکیل کردہ اولین اسلامی معاشرے کے خد وخال اور اس کی خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوئے کرنی چاہئے ۔ تبھی اصلاح کرنا ممکن ہے ۔ ورنہ اگر ہم ان خصوصیات سے چشم پوشی کریں گے تو ہمارے معاشرے کی اصلاح نا ممکن ہے ۔ چھٹی خصوصیت : اجتماعی تکافل
اسلامی معاشرے کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بسنے والے مالدار حضرات غرباء ومساکین کی کفالت کرتے ہیں ۔ زکاۃ وصدقات کے ذریعے ان پر خرچ کرتے ہیں ۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ۔ یوں پورا معاشرہ خوشحال رہتا ہے ۔ اور ہر شخص مطمئن ہو کر زندگی بسر کرتا ہے ۔
اسلامی معاشرے میں سرمایہ چند ہاتھوں میں ہی نہیں رہتا بلکہ اس میں رہنے والے تمام لوگوں میں گردش کرتا رہتاہے ۔ اور یوں معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہوتا ہے ۔
جب ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ۔ سب سے زیادہ خرچ کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جتنا مال آتا آپ اسے فراخدلی سے اس کے مستحقین میں خرچ کردیتے تھے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی انداز میں اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی تریبت کی ۔ چنانچہ ان میں سے اغنیاء صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے فقراء ومساکین پر کھلے دل سے خرچ کرتے تھے ۔ غلاموں کو آزاد کراتے تھے ۔ یتیموں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کرتے تھے۔ ضرورتمندوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے ۔ ان میں جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ ، جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، جناب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور جناب عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، جنھوں نے انفاق فی
سبیل اللہ کی عظیم مثالیں قائم کیں اور دوسروں کیلئے بہترین نمونہ بنے ۔
جبکہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں طبقاتی تقسیم پائی جاتی ہے ۔ جو مالدار ہیں ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب اپنا سرمایہ مختلف بنکوں میں فکس ڈیپازٹ اکاؤنٹس میں رکھ کر اطمینان کی نیند سو رہے ہیں اور انہی کے محلوں ، قصبوں اور شہروں میں ان کے پڑوسی بھوکے مر رہے ہیں ! جو مالدار ہیں وہ اور زیادہ مالدار ہوتے جا رہے ہیں اور جو غریب ہیں وہ غریب تر ہوتے جا رہے ہیں ۔جو کل تک لاکھوں کے مالک تھے وہ آج کروڑ پتی بنے بیٹھے ہیں اور جو دس سال پہلے غریب تھے وہ آج بھی غریب ہیں اور ان کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہے ۔ یہ ایسی طبقاتی تقسیم ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہی کے کنارے پر کھڑا ہے ۔ کیونکہ جب مالدار لوگ غریبوں پر پیسہ خرچ نہیں کرتے تو ان کے دلوں میں مالدار لوگوں کے خلاف نفرت اور بغض وعداوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر یہی لوگ آخر کار لوٹ مار کرنے پر تل جاتے ہیں ۔ بلکہ قتل کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ اور یوں معاشرہ تباہی سے دوچار ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ آج کل بہت سارے مسلم معاشروں کی حالت ہے!
معاشرے کے اِس بگاڑ کو ختم کرنے کیلئے بھی ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طرز عمل کو سامنے رکھنا ہوگا ۔
ساتویں خصوصیت : ضروریات ِ خمسہ کا تحفظ اور حدود اللہ کا نفاذ
اسلامی معاشرے کی ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رہنے والے ہر مسلمان کی پانچ چیزوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ اور وہ ہیں : جان ، مال ، عزت ، عقل اور دین ۔ ان پانچوں چیزوں کی حفاظت کیلئے شرعی سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔
لہٰذا اگر کوئی مسلمان اپنا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرے تو وہ واجب القتل ہوتا ہے ۔
اوراگر کوئی شخص کسی کی جان پر حملہ آور ہو اور اسے نا حق قتل کردے تو اسلام نے اس کیلئے قصاص کی سزا مقرر کی ہے ۔
اور اگر کوئی شخص کسی کا مال چرائے تو اسلام اس کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیتا ہے ۔
اور اگر کوئی آدمی کسی کی عزت کو پامال کرے اور وہ شادی شدہ ہو تو اسے پتھر مار مار کر ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور اگر وہ غیر شادی شدہ ہو تو اس کیلئے سو کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی ہے ۔
اور اگر کوئی شخص کوئی نشہ آور چیز استعمال کرے جس سے اس کی عقل پر پردہ پڑ جائے تو اس کیلئے بھی کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی ہے ۔
یہ تمام سزائیں مجرم پیشہ لوگوں کی بیخ کنی کیلئے اور اسلامی معاشرے میں امن وامان کے قیام کیلئے انتہائی ناگزیر ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اولین اسلامی معاشرہ مدینہ منورہ میں تشکیل دیا اس میں بھی اس طرح کے مجرموں پر سزائیں نافذ کی جاتی تھیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ معاشرہ امن وسلامتی کا گہوارہ بن گیا ۔ اور آج بھی جن اسلامی معاشروں میں ان سزاؤں پر عمل کیا جارہا ہے وہاں امن وامان قائم ہے ۔ لیکن جن معاشروں میں ایسا نہیں کیا جا رہا ہے وہاں کے لوگ امن وامان کیلئے ترس رہے ہیں ۔ لہٰذاضرورت اس بات کی ہے کہ مجرم پیشہ لوگوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ان پر اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں تاکہ معاشرے کے باسی امن وسلامتی کے ساتھ رہ سکیں اور چین وسکون کی نیند سو سکیں ۔
آٹھویں خصوصیت : امر بالمعروف ونہی عن المنکر
اسلامی معاشرے کی آٹھویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رہنے والے مسلمان ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔ جس سے معاشرے کے باسیوں میں نیکی کی رغبت اور برائی سے نفرت پیدا ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ آل عمران:3 :104
’’ اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دے ، نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے ۔ اور ایسے ہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں۔ ‘‘
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دین اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے ۔ اور یہ امت ِ محمدیہ کے بہترین امت ہونے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ﴾ آل عمران:3 :110
’’ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو ۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اولین اسلامی معاشرہ تشکیل دیا اس کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس کا خصوصی اہتمام کرتے تھے ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں اِس فریضہ کا اہتمام نہ کیا جائے ۔
اور جس معاشرے میں اِس فریضہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، وہ بہت جلد تباہی کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے ۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مثال یوں بیان فرمائی کہ جیسے کچھ لوگ ایک بحری جہاز میں سوار ہوں ۔ ان میں سے کچھ لوگ نچلے طبقے میں اور کچھ لوگ اوپر والے طبقے میں ہوتے ہیں ۔ نچلے طبقے کے لوگوں کو پانی لینے کیلئے بار باراوپر جانا پڑتا ہے ۔ جس سے اوپر والے طبقے کے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ چنانچہ نچلے طبقے کے لوگ سوچتے ہیں کہ بجائے اوپر جانے اور اوپر والے لوگوں کو بار بار تکلیف دینے کے ہم نیچے سے ہی سوراخ کر لیں ۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو اس سے منع نہ کریں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ جہاز میں سوار سب لوگ ڈوب جائیں گے ۔ اور اگر وہ انھیں ایسا کرنے سے منع کریں تو خود بھی بچ جائیں گے اور جہاز میں سوار دیگر لوگ بھی نجات پا جائیں گے۔ اسی طرح اگر معاشرے میں برائیوں سے منع کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس میں بسنے والے تمام لوگ اللہ کے عذاب کی زد میں آجاتے ہیں ۔ لیکن اگر انھیں منع کرنے والے لوگ موجود ہوں تو وہ خود بھی نجات پا جاتے ہیں اور معاشرے کے دیگر باسیوں کی نجات کا بھی سبب بن جاتے ہیں ۔
لہٰذامعاشرے کو تباہی سے بچانے کیلئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ ہر شخص کو اِس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق یہ فریضہ سرانجام دینا چاہئے ۔ چاہے وہ گھر میں ہو یا آفس میں ۔ دکان میں ہو یا کمپنی میں ۔ سکول میں ہو یا مسجد میں ۔ الغرض یہ کہ جو جہاں ہو وہیں اس فریضے کو ادا کرے اور اپنی نجات اور معاشرے کے تمام افراد کی نجات کا سبب بنے ۔
آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنی خرابیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق دے ۔ آمین
دوسرا خطبہ
عزیز القدر بھائیو اور بہنو ! اسلامی معاشرے کی ایک اور خصوصیت ذکر کرکے ہم آج کا خطبۂ جمعہ ختم کرتے ہیں ۔ اور وہ ہے :
نویں خصوصیت : اصلاح معاشرہ میں مسجد کا کردار
مسجد اصلاح معاشرہ میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ کیونکہ مسجد میں مسلمان دن اور رات میں کم از کم پانچ مرتبہ جمع ہوتے ہیں ۔ فرض نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ وہ اس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے احوال سے واقفیت حاصل کرتے ہیں ۔ اگر کسی کے متعلق معلوم ہو کہ وہ بیمار ہے تو اس کی عیادت کیلئے جاتے ہیں ۔ اور اگر انھیں کسی کے متعلق پتہ چلے کہ وہ فوت ہو گیا ہے تو اس کی نماز جنازہ اور تدفین میں شریک ہوتے ہیں ۔ اور اگر انھیں کسی ضرورتمند کے متعلق بتایا جائے تو وہ اس کی ضروت کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ مسجد کا امام وخطیب مسجد کے منبر ومحراب کے ذریعے اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو ان کی معاشرتی ذمہ داریوں کے متعلق وقتا فوقتاآگاہ کرتا رہتا ہے ۔ انھیں مسلمانوں کے باہمی حقوق کو ادا کرنے کی تلقین کرتا اور ان کی حق تلفی کرنے سے منع کرتا ہے ۔ باہمی حقوق میں والدین کے حقوق ، اولاد کے حقوق ، میاں بیوی کے حقوق ، رشتہ داروں کے حقوق ، یتیموں اور مسکینوں کے حقوق ، نوکروں اور دیگر ما تحت لوگوں کے حقوق ۔۔۔۔ کے متعلق آگاہ کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ انھیں معاشرتی خرابیوں کے متعلق تنبیہ کرتا ہے اور ان خرابیوں کی اصلاح کے بارے میں ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔
مسجد کی اسی اہمیت کی بناء پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرتے ہی جو سب سے پہلا کام معاشرے کی اصلاح کیلئے کیا وہ مسجد کیلئے زمین خریدنااور اس میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھنا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کیلئے زمین خریدی ، پھر اس میں مسجد کو تعمیر کرنے کا حکم صادر فرمایا اور اس کی تعمیر میں بنفس نفیس خود بھی حصہ لیا ۔ بعد ازاں یہ مسجد اولین اسلامی معاشرے کا مرکز بن گئی ، جہاں مسلمانوں کا اجتماع ہوتا تھا اور تمام امور کا فیصلہ چاہے وہ خاندانی ہوں ، معاشرتی ہوں ، معاشی ہوں ، یا سیاسی ہوں ۔۔۔۔ اسی مسجد کے اندر کیا جاتا تھا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصلاح معاشرہ میں مسجد کا کردار بہت ہی اہم ہے ۔ لہٰذا آج بھی اسلامی معاشروں کی اصلاح کیلئے مساجد کے اِس کردار کو مؤثر انداز سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو یہ تمام خصوصیات نصیب کرے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔ آمین