آج ہم نبی ﷺ دعا کیسے لے سکتے ہیں

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿وَصَلَّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ﴾ [التوبة: 103]
سورۃ التوبہ کی ایک آیت مبارکہ میں نے اس وقت تلاوت کی ہے اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں امام الانبیاء سید ولد آدم جناب محمد رسول اللہ صلی ﷺ کی دعا کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور فضیلت بھی انتہائی جامع کہ آپﷺ کی دعائیں لوگوں کے لیے باعث سکون ہیں۔ سکون میں سب کچھ آ جاتا ہے انسان دنیا میں بھی سکون کا متلاشی ہے۔ قبر حشر میں بھی سکون چاہتا ہے۔ تو اللہ رب العزت نے آپﷺ کی دعا کی یہ فضیلت بتلائی کہ آپ کی دعا لوگوں کے لیے باعث سکون ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ تو بڑے خوش قسمت لوگ تھے۔ وقتًا فوقتًا رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپﷺ سے دعائیں لیا کرتے تھے۔ مثلًا:
کبھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ دعا لیتے ہیں:
حضرت عبد الرحمن بن ابی عمره رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں دعا کی:
(اللهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، وَاهْدِ بِهِ) [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب مناقب معاوية بن أبي سفيان، رقم: 3842]
’’اے اللہ! اس کو ہدایت دکھانے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لوگوں کو بھی ہدایت عطا کر۔‘‘
ضروری وضاحت:
جس عظیم شخصیت کو عظیم پیغمبر ﷺ نے اتنی عظیم دعا دی آج لوگ اسے برا کہہ رہے ہیں ایسے لوگ اپنی عاقبت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔
کبھی حضرت حسن اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہما دعا میں لیتے ہیں:
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ اسے اور حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو پکڑتے اور فرماتے:
(اللَّهُمَّ أَحِبَّهُمَا فَإِنِّي أَحِبُّهُمَا) [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين رضی اللہ تعالی عنہما (3778) وتحقد الأشراف (86) (44/1)]
’’اے اللہ! ان دونوں سے محبت کر اس لیے کہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
اس دعا سے حضرت حسن اور حضرت اسامہ میں کی کتنی بڑی فضیلت ثابت ہو رہی ہے۔
کبھی حضرت سعد ہی وہ دعا لیتے ہیں:
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے احد کے دن(میرے بارے میں) فرمایا:
(اللَّهُمَّ اشْدُدْ رَمْيَتَهُ وَاجِبْ دَعْوَتَهُ) [شرح السن. كتاب فضائل الصحابة باب مناقب سعد بن أبي وقاص رقم 3815]
’’اے اللہ! اسے تیر اندازی میں قوت عطا کر اور اس کی دعا قبول کرنا۔‘‘
اس دعا کی برکت تھی کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ ماہر تیرانداز اور مستجاب الدعوات تھے ان کی دعا بہت جلد قبول ہوتی تھی۔
کبھی ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا اپنے بیٹے خادم رسول انس رضی اللہ تعالی عنہ کیلئے دعا لیتی ہیں:
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہ (انس رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ) بیان کرتی ہیں انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ انس آپ کا خادم ہے آپ ﷺ اس کے لیے دعا فرمائیں۔ آپﷺ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
(اللَّهُمَّ اكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَہ وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ) [صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب قول الله تبارك تعالى ﴿صل عليهم﴾ (6334)]
’’اے اللہ! اس کو مال اور اولاد کثرت کے ساتھ عطا کر اور جو کچھ اسے عطا کیا ہے اس میں برکت عطا فرما۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا: اللہ کی قسم میرے پاس بہت سا مال ہے اور میری اولاد اور میری اولاد کی اولاد آج ایک سو سے متجاوز ہے۔‘‘[صحيح البخاري كتاب الدعوات باب دعوة النبيﷺ لخادمة بطول العمر رقم 6344 و مسلم رقم 6372 و 6376]
معلوم ہوا مال اور اولاد کی کثرت کی دعا کرنا جائز اور درست ہے بشرطیکہ نیت اچھی ہو فخر و غرور کا ارادہ نہ ہو۔
کبھی بدر والے دعائیں لیتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر کے لیے نبی ﷺ تین سو پندرہ افراد میں نکلنے آپﷺ نے دعا فرمائی:
(اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلُهُمُ اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمُ اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِیَاعٌ فَاشْبِعُهُمْ)
’’اے اللہ! ان میں اکثر ننگے پاؤں ہیں۔ انہیں سواریاں عطا فرما۔ اے اللہ! ان کے جسم پر لباس نہیں ہے انہیں لباس عطا فرما۔ اے اللہ! یہ بھوکے ہیں تو انہیں سیر فرما۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کو (مشرکین پر) فتح دی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم واپس آئے اور ان میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو ایک ایک اونٹ یا دو اونٹ کے ساتھ واپس نہ آیا ہو اور (غنیمت سے) کپڑے دستیاب ہوئے اور وہ کھانے پینے سے سیر ہوئے۔[سنن أبي داود، كتاب الجهاد والسير، باب في النقل للسرية … (2747) والحاكم (2642) اسناده حسن لذاته]
کبھی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ والدہ کے لیے دعا لیتے ہیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ مشرک تھیں اور میں انہیں اسلام کی دعوت دیا کرتا تھا (ایک روز) میں نے انہیں دعوت دی تو انہوں نے مجھے رسول اللہﷺ کے بارے میں ایسے کلمات کہے جنہیں میں ناپسند جانتا تھا۔ میں روتا ہوا رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت عطاء فرمائے۔ آپﷺ نے دعا کی:
(اللَّهُمَّ اهْدِ أَمَّ أَبِي هُرَيْرَة)
’’اے اللہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ کو ہدایت عطاء فرما۔‘‘
چنانچہ نبی ﷺ کے دعا فرمانے کے سبب میں خوشی خوشی (وہاں سے) نکلا جب میں دروازے پر پہنچا تو دروازہ بند تھا چنانچہ جب میری والدہ نے میرے پاؤں کی آہٹ سنی تو انہوں نے کہا ابو ہریرہ! رک جا اور میں نے پانی کی حرکت کی آواز کو سنا۔ انہوں نے غسل کیا۔ اپنا لباس زیب تن کیا اور جلدی میں اپنا دوپٹہ لینا بھول گئیں۔ پھر دروازہ کھولا اور کہا ابو ہریرہ! میں اس بات کی گواہی دیتی ہوں کہ صرف اللہ تعالی ہی معبود برحق ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتی ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ چنانچہ میں خوشی سے روتا ہوا رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ الحمد للہ کے کلمات کہے اور فرمایا بہتر ہوا ہے۔[صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي هريرةؓ (6396).]
بہرحال صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو یہ سعادت حاصل تھی کہ وہ وقتا فوقتًا رسول اللہ ﷺ کی دعا میں لیتے رہتے تھے اور خود رسول اللہﷺ بھی صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے حق میں دعائیں کرتے رہتے تھے
لیکن آج ہم کس طرح رسول اللہﷺ کی دعائیں لیں؟ اللہ رب العزت نے بعد میں آنے والوں کے لیے بھی انتظام فرما دیا کہ رسول اللہﷺ نے بعض اعمال کرنے والوں کے حق میں دعائیں فرما دیں، آج ہم وہ اعمال کر کے رسول اللہ ﷺ کی دعا لے سکتے ہیں۔
صحیح البخاری میں ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(رَحِمَ اللهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعٌ وَإِذَا اشْتَرَى وَإِذَا اقْتَضَى) [صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب السهولة والسماحة في الشراء والبيع ومن طلب حقا فليطلبه في عفاف (2076) و این ماجه (2203)]
’’اس شخص پر اللہ رحم فرمائے جو بیچتے خریدتے اور (اپنے حق کا) مطالبہ کرتے وقت آسانی کرتا ہے۔‘‘
یہ تین موقع ایسے ہیں کہ ان موقعوں پر اکثر نرم دل لوگ بھی سخت ہو جاتے ہیں اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کے لیے رحمت کی دعا دی ہے جو ان تین اہم موقعوں پر نرمی کرتا ہے۔
بخاری و مسلم میں ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوادع میں یہ دعا کی:
(اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ)
’’اے اللہ! سر کے بال منڈانے والوں پر رحم کر۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا:
(وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟)
’’اور سر کے بالوں کو ترشوانے والوں کے لیے کیا ہے؟۔‘‘
آپ مسلم نے (اس کے باوجود) دعا فرمائی:
(اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحْلِقِينَ)
’’اے اللہ اسر کے بال منڈانے والوں پر رحم کر۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا:
وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟
’’اور سر کے بالوں کو ترشوانے والوں کے لیے کیا ہے؟۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:
(وَالْمُقَصِّرِينَ) [صحيح البخاري، كتاب الحج، باب الحلق والتقصير عند الإحلال (1728) ومسلم (1302) و ابن ماجه (3043)]
’’اور سر کے بالوں کے ترشوانے والوں پر بھی رحم فرما۔‘‘
اس دعا سے معلوم ہوا کہ حج یا عمرہ کے موقع پر سر کے بال منڈھوانا زیادہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے سرمنڈھوانے والوں کے حق میں دو بار دعا فرمائی۔
اور صیح مسلم میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَاشْفَقْ عَلَيْهِ، وَمَنْ وَلِي مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ، فَارُفُقْ بِهِ) [صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل و عقوبة الجائر (1828) و احمد (62/6) و ابن حبان (553)]
’’جو شخص میری امت کی کسی ذمہ داری پر متعین ہوا پھر اس نے میری امت کو مشقت میں ڈالا تو اے اللہ تو اس کو مشقت میں ڈال دے اور جو شخص میری امت کے کسی کام پر سرفراز ہوا اور اس نے میری امت سے فراخی کا برتاؤ کیا پس تو اس پر نرمی فرما۔‘‘
معلوم ہوا رعایا اور ماتحتوں پر نرمی اور احسان کرنا اس قدر عظیم الشان عمل ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس پر عظیم الشان دعا دی ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(رَحِمَ اللهُ امْرَءً صَلَّى قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا) [سنن أبی داود، كتاب الصلاة، باب الصلاة قبل العصر (1371) والترمذی (30) حسن]
’’اس شخص پر اللہ رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعت (سنتیں) ادا کیں۔‘‘
غور کیجئے! مختصر سا عمل ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیغمبر ﷺ کی دعاء رحمت مل سکتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نوافل ادا کرتا ہے اور اپنی بیوی کو بیدار کرتا ہے وہ بھی نفل ادا کرتی ہے اگر وہ انکار کرتی ہے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے۔ اللہ اس عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھتی ہے نماز پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو (نیند سے بیدار کرتی ہے) وہ تہجد ادا کرتا ہے اگر انکار کرتا ہے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔‘‘[ابو داؤد (1308) صحیح و نسائی قیام اللیل باب الترغيب في قيام الليل (1619)]
سبحان اللہ! رات خود بھی تہجد پڑھنا اور بیوی کو تہجد کے لیے بیدار کرنا کتنا عظیم الشان عمل ہے کہ اس پر نبی الرحمۃ ﷺ نے رحمت کی دعا دی ہے۔
اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(نَضَّرَ اللهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا) [جامع الترمذي كتاب العلم باب ما جاء في الحث على تبليغ السماع رقم: 3658]
’’اللہ تعالی اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے میری بات کو سنا اس کو محفوظ کیا اس کو یاد رکھا اور اس کو (لوگوں تک) پہنچایا۔‘‘
حدیث پڑھنا سننا یاد کرنا اور اس کی نشر و اشاعت کرنا وہ عظیم عمل ہے جس پر ناطق وحیﷺ نے ہمیشہ خوش و خرم اور تروتازہ رہنے کی دعا دی ہے۔
اور سنن ترمذی، ابوداؤد اور دارمی میں حدیث ہے حضرت صخر بن وداعہ غامدی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(اللَّهُمَّ بَارِكْ لِاُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا)[سنن ابی داؤد، كتاب الجهاد، باب في الابتكار في السفر(2606)]
’’اے اللہ! میری امت کے لیے اس کے شروع دن میں برکت عطا فرما۔‘‘
اور جب آپ کسی چھوٹے یا بڑے لشکر کو بھیجتے تو شروع دن میں بھیجتے اور صخر تاجر انسان تھا وہ اپنا تجارتی مال شروع دن میں بھیجتا۔ اسے بہت فائدہ ہوتا چنانچہ وہ بہت مال دار ہو گیا۔
لیکن آج ہم ان تمام امور میں سستی اور غفلت کا شکار ہیں ہمیں رسول اللہﷺ کی دعا کا مقام و مرتبہ بھول گیا اس لیے ہم یہ سارے کام چھوڑے بیٹھے ہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہﷺ کی دعا لینے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!
یوں آج ہم ہر کسی کی دعا کے طلب گار بنے ہوئے ہیں اشتہار بینر اور پوسٹر پر لکھا ہوتا ہے آپ کی دعاؤں کا طلبگار ایک دوسرے کو ملتے وقت درخواست کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی مخلصانہ دعاؤں میں ضرور یاد رکھنا، لیکن ہمیں رسول اللہﷺ کی دعا لینے کا کوئی شوق اور جذبہ ہی نہیں؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔