آلاتِ موسیقی اور گانا بجانا ۔۔۔۔ ایک بہت بڑی لعنت !
اہم عناصرِ خطبہ :
01. حرمت ِ آلاتِ موسیقی وگانا بجانا
02. قرآن وحدیث میں حرمت ِ موسیقی کے دلائل
03. موسیقی کے بارے میں ائمۂ اربعہ کا موقف
04. موسیقی کے نقصانات
05. کیا موسیقی روح کی غذا ہے !
06. موسیقی کے جواز کا فتوی دینے والے لوگوں کے بعض شبہات اور ان کا جواب
07.’ دف ‘ کے استعمال کی شرعی حدود وقیود
08. موسیقی کے متعلق اہلِ ایمان کا موقف کیا ہونا چاہئے ؟
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! جیسے جیسے ہم عہدِ نبوت سے دور ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے دین کی اجنبیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور لوگ دین اسلام سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ اس کا اہم سبب یہ ہے کہ لوگ دینی علم کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے ، ان کی پوری توجہ دنیاوی علم اور اعلی سے اعلی ڈگریوں کے حصول پر مرکوز ہے ۔ ان کا مطمع ِ نظر زیادہ سے زیادہ دنیاوی آسائشوں کو حاصل کرنا اور اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے مستقبل کو زیادہ سے زیادہ ’محفوظ ‘ بناناہے ۔ ان کی تمنا ہے کہ ’بنک بیلنس ‘ اتنا ہو جائے کہ آنے والی نسل کی ضرورتوں کیلئے پورا ہو جائے ! وہ اپنی اِن بڑی بڑی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے جو جد وجہد اور تگ ودو کر رہے ہیں اور جس طرح دن رات محنت کر رہے ہیں اس کی وجہ سے وہ دین سے مکمل طور پر یا کافی حد تک غافل ہو چکے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہ اور ان کے اہل وعیال دین کے بنیادی مسائل اور حلال وحرام کے بارے میں بالکل جاہل ہیں ۔
اِس پر مستزاد یہ کہ منبر ومحراب کے متولی حضرات میں سے بہت سارے لوگوں نے اپنے خطبات وغیرہ میں سامعین کرام کو قصوں ،کہانیوں کا عادی بنا دیا ہے اور دین کے بنیادی اور اہم ترین مسائل پر بہت کم گفتگو فرماتے ہیں ۔ اور ان میں سے کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو حق گوئی سے کام نہیں لیتے اور لوگوں کی خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے مزاج اور شوق کے مطابق ہی بات کرتے ہیں ۔ اور چونکہ پیٹ بھی ساتھ لگا ہوا ہے اور بیوی بچوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ سامعین کے مزاج کے خلاف بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے !! انہی حضرات کے ’ کتمان ِ حق ‘ کی وجہ سے گمراہی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ۔ طوفان بد تمیزی ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ! اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ انہی میں سے کئی لوگ حرام کو حرام کہنے کی بجائے حرام کو حلال کہنے کی بھی جسارت کر جاتے ہیں ! یوں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی بھی گمراہی کا سبب بنتے ہیں ۔
اِس کے علاوہ ’میڈیا ‘آج کل اتنی ترقی کر چکا ہے کہ ایک ہی ملک میں بیسیوں چینل مختلف ناموں کے ساتھ زہر افشانی کر رہے ہیں۔ اور ملکی چینلز کے علاوہ غیر ملکی چینلز بھی بہت زیادہ ہیں جن کے ذریعے مغربی ثقافت کی تباہ کن یلغار ہے اور اخلاق وکردار کا جنازہ نکل رہا ہے ! اور نہایت دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ملکی وغیر ملکی ٹی وی چینلز تک رسائی بھی بہت آسان کردی گئی ہے ۔ چنانچہ دور دراز کے علاقوں میں بھی ’کیبل ‘ اور ’ سیٹلائٹ ‘ کے ذریعے ان کی نشریات نہایت آسانی کے ساتھ پہنچ رہی ہیں ۔ چوبیس گھنٹے ’نیوز چینلز‘ ’ انٹر ٹینمنٹ چینلز ‘ ’سپورٹس چینلز ‘ وغیرہ کے ذریعے بے حیائی کا وہ سیلِ رواں ہے کہ اللہ کی پناہ ! نیوز ہوں ، ٹاک شوز ہوں ، میچز ہوں ، انٹرٹینمنٹ کے مختلف پروگرامز ہوں ۔۔۔۔ ہر ایک میں یہ چینلز کسی نہ کسی طرح بے حیائی اور بے غیرتی کو خوب ہوا دے رہے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں لوگ بڑی تیزی کے ساتھ دین سے برگشتہ ہو رہے ہیں ، فرائضِ اسلام نَسْیًا مَّنْسِیًّا ہو رہے ہیں اور حرام کام رفتہ رفتہ حلال اور ناجائز امور آہستہ آہستہ جائز ہوتے جا رہے ہیں !
اسی طرح جدید وسائل مثلا موبائل فون ، ایم پی تھری (mp3 ) ، ایم پی فور (mp4 ) اور سی ڈی پلیر وغیرہ جو آج کل تقریبا ہر شخص کے پاس موجود ہیں ، ان کے ذریعے مزید آسانیاں ہو گئی ہیں اور ’ انٹر ٹینمنٹ ‘ کے نام پر بہت ساری چیزیں جنھیں کچھ عرصہ قبل ہمارے بزرگوں کے دور میں بہت بڑا گناہ تصور کیا جاتا تھا ، وہ آج کل جائز ہی نہیں بلکہ اِس دور کی اہم ترین ضرورت تصور کی جانے لگی ہیں !
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے 🙁 لَتُنْقَضُنَّ عُرَی الْإِسْلَامِ عُرْوَۃً عُرْوَۃً ، فَکُلَّمَا نَقَضَتْ عُرْوَۃٌ تَشَبَّثَ النَّاسُ بِالَّتِی تَلِیْہَا ، فَأَوَّلُہَا نَقْضًا الْحُکْمُ وَآخِرُہَا الصَّلَاۃُ ) [ رواہ أحمد بسند حسن ]
’’اسلام کے کڑوں کو ایک ایک کرکے توڑ دیا جائے گا ۔ جب ایک کڑا ٹوٹے گا تو لوگ دوسرے کے پیچھے پڑ جائیں گے ۔ جو کڑا سب سے پہلے ٹوٹے گا وہ ہے : فیصلہ ۔ اور سب سے آخری کڑا ہے : نماز ‘‘
اسلام کے جن کڑوں کو توڑ دیا گیا ہے انہی میں سے ایک حلال وحرام کا کڑا بھی ہے جس کو لوگوں نے چُور چُور کردیا ہے ۔ حالانکہ تحلیل وتحریم کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے ۔ وہ جس چیز کو چاہے حلال قرار دے اور جس کو چاہے حرام قرار دے ۔ اور کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی منشاء کے مطابق کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے ۔ جو شخص ایسے کرے گا وہ یقینا اللہ تعالی کی حدود کو پھلانگنے والا ہو گا ۔ جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ [البقرۃ :۲۲۹]
’’ اور جو شخص اللہ کی حدود کو پھلانگے گا تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔ ‘‘
حلال وحرام کا ایک مسئلہ جس کو اِس دور میں کھلونا بنا لیا گیا ہے اور جو آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے وہ ہے آلات ِ موسیقی اور گانے بجانے کا مسئلہ ! چنانچہ بہت سارے لوگ نہ صرف ان چیزوں کو سرے سے حرام ہی نہیں سمجھتے بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ کئی نام نہاد ’’ روشن خیال ‘‘ لوگوں نے ان کے جواز کے فتوے بھی جاری کر دئیے ہیں ! ان سے پوچھا جائے کہ کیا انھوں نے کسی دلیل کی بناء پر ان چیزوں کو حلال قرار دیا ہے ؟ تو اگرچہ ان کی طرف سے جواب یہ ملے گا کہ ہاں فلاں فلاں دلیل کی بناء پر یہ فتوی جاری کیا گیا ہے ، لیکن حقیقت میں ان کے یہ دلائل خود ساختہ ہیں اور وہ قطعا اِس چیز پر دلالت نہیں کرتے کہ موسیقی حلال ہے ۔ تو انھوں نے یہ فتوی کیوں جاری کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان لو گوں نے ایسا عام لوگوں کا رجحان دیکھ کر اور اپنی خواہشِ نفس کی تسکین کی خاطر کیا ہے ۔ جبکہ قرآن وحدیث میں آلاتِ موسیقی اور گانے بجانے کے حرام ہونے کے دلائل بالکل واضح ہیں اور ان میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے ۔ ان دلائل کو ذکر کرنے سے پہلے ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ قرآن مجید کی جو آیات موسیقی کی تحریم پر دلالت کرتی ہیں وہ سب مکی آیات ہیں ۔ جبکہ شراب کو مدینہ منورہ میں حرام کیا گیا ۔ یعنی موسیقی کی تحریم شراب کی تحریم سے قبل نازل ہوئی ، جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جس دل میں گانوں کی محبت ہو وہ اللہ رب العزت کی وحی کو سننے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کے قابل نہیں رہتا ۔ اس لیے اللہ تعالی نے دین کے متعدد احکامات کو نازل کرنے سے قبل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو موسیقی وغیرہ کی محبت سے پاک کرنا چاہا تاکہ جب اس کے احکامات نازل ہوں تو ان کے دل انھیں قبول کرنے کیلئے بالکل تیار ہوں ۔
آئیے اب ان دلائل کا تذکر ہ کرتے ہیں ۔
قرآن مجید میں موسیقی کے حرام ہونے کے دلائل
پہلی آیت :
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُوًا اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ ٭ وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا کَاَنَّ فِیْٓ اُذُنَیْہِ وَقْرًا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ [ لقمان : ۶۔ ۷ ]
’’ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کرنے والی بات خرید لیتا ہے تاکہ بغیر علم کے اللہ کے بندوں کو اس کی راہ سے بھٹکائے اور اس راہ کا مذاق اڑائے ۔ ایسے ہی لوگوں کیلئے رسوا کن عذاب ہے ۔ اور جب اس کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو مارے تکبر کے اس طرح منہ پھیر لیتا ہے کہ گویا اس نے انھیں سنا ہی نہیں ، گویا کہ اس کے دونوں کان بہرے ہیں ۔ لہذا آپ اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے ۔ ‘‘
ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ’اللہ سے غافل کرنے والی بات ‘ کو اِس لیے خرید لیتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین سے دور رکھیں اور دین ِ الٰہی کا مذاق اڑائیں ، تو اِن جیسے لوگوں کو اللہ تعالی نے توہین آمیز عذاب کی وعید سنائی ہے ۔
آیت کریمہ میں ﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾ ’’ اللہ سے غافل کرنے والی بات ‘‘سے مراد گانا بجانااور موسیقی ہے ۔ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے ۔
01. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جوکہ اولیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، علماء صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور فتوی دینے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک جلیل القدر صحابی تھے ، ان سے جب اِس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : ( اَلْغِنَائُ وَاللّٰہِ الَّذِیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ ) یُرَدِّدُہَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ [ تفسیر ابن جریر ۔ ج ۲۱ ص ۷۲ ، ابن ابی شیبہ ۔ ج ۶ ص ۳۰۹ ۔ وسندہ حسن]
’’ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! اس سے مراد گانا ہے ۔ ‘‘انھوں نے تین مرتبہ اسی طرح کہا ۔
02.٭ ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی کہ (اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ التَّأْوِیْلَ وَفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ) ’’ اے اللہ ! اسے قرآن کی تفسیر کا علم دے اور اسے دین کی سمجھ نصیب فرما ۔ ‘‘ [ تفسیر ابن جریر ۔ ج ۲۱ ص ۷۲ ، ابن ابی شیبہ ۔ ج ۶ ص ۳۱۰ ]
وہ بھی اس آیت کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ ﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ ﴾ سے مراد گانے گانا اور ان کا سننا ہے ۔
03. حضرت جابر بن عبد اللہ الأنصاری رضی اللہ عنہ نے بھی﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ ﴾کی تفسیر یہی کی ہے کہ اس سے مراد گانے گانا اور ان کا سننا ہے ۔ [ تفسیر ابن جریر ۔ ج ۲۱ ص ۷۳ وإسنادہ حسن]
اسی طرح تابعین عظام رحمہ اللہ بھی اس کی تفسیر یہی کرتے تھے ۔ چنانچہ امام مجاہد بن جبر المکی ، جو علم تفسیر کے مشہور عالم تھے اور ان کے بارے میں امام سفیان رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ ( إِذَا جَائَ کَ التَّفْسِیْرُ عَنْ مُّجَاہِدٍ فَحَسْبُکَ بِہِ)
’’ جب تمھارے پاس مجاہد رحمہ اللہ کی تفسیر آئے تو بس وہی تمھارے لئے کافی ہے ۔ ‘‘
کیونکہ مجاہد رحمہ اللہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے اور انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر انہی سے سیکھی تھی ، وہ کہتے تھے کہ ﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ ﴾سے مراد گانے اور ہر بے ہودہ کلام کو سننا ہے ۔
ایک روایت میں ان کے الفاظ یہ ہیں :
( اِشْتِرَائُ الْمُغَنِّی وَالْمُغَنِّیَۃِ بِالْمَالِ الْکَثِیْرِ ، أَوِ اسْتِمَاعٌ إِلَیْہِ أَوْ إِلٰی مِثْلِہِ مِنَ الْبَاطِلِ )
’’ ﴿ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾ کو خریدنے سے مراد گانا گانے والے مرد یا گانا گانے والی عورت کو مالِ کثیر کے بدلے خریدنا ، یا گانے سننا یا اس جیسے کسی اور باطل امر کی طرف متوجہ ہونا ہے ۔ ‘‘ [ تفسیر ابن جریر ۔ ج ۲۱ ص ۷۳ بإسناد صحیح ]
اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک اور قابل قدر شاگرد جناب عکرمہ رحمہ اللہ بھی یہی کہتے تھے کہ اس سے مراد گانا ہے ۔ [ تفسیر ابن جریر ۔ ج ۲۱ ص ۷۴]
امام ابن جریر الطبری اپنی تفسیر میں یہ سارے اقوال ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہر وہ بات ہے جو اللہ کے دین سے غافل کرنے والی ہو ، جس کو سننے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا ہے ۔۔۔۔ اور گانا اور شرک بھی اسی میں سے ہے ۔ [ تفسیر ابن جریر ۔ ج ۲۱ ص ۷۴]
لہذا جو شخص بھی گانے سنتا اور سناتا ہو یا رقص وسرور کی محفلوں میں شرکت کرتا ہو یا گھر میں بیٹھ کر ایسی محفلوں کا نظارہ کرتا ہو تو اس کیلئے اِس آیت کے مطابق رسوا کن عذاب ہے۔والعیاذ باللہ
دوسری آیت :
اللہ تعالی نے ابلیس کو جنت سے نکالتے ہوئے فرمایا تھا :
﴿ وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَ عِدْھُمْ وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ﴾ [الإسراء:۶۴]
’’ اور ان میں سے جس پر تیرا زور چلے اپنی آواز کے ساتھ اسے بہکا لے ۔ اور ان پر اپنے سوار وپیادہ لشکر کو دوڑا لے ۔ اور ان کے مالوں اور اولاد میں شریک ہو لے اور ان سے وعدے کر لے ۔ اور شیطان ان سے جو وعدے کرتا ہے وہ سراسر دھوکہ ہے ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں ( بِصَوْتِک ) ’’ اپنی آواز ‘‘ سے مراد موسیقی کی آواز ہے جس کے ساتھ شیطان انسانوں کو بہکاتا ہے ۔اور وہ انھیں اللہ تعالی کے دین سے دور رکھنے اور انھیں اس کے ذکر سے غافل کرنے کیلئے انھیں اپنی سریلی آوازوں میں مگن کردیتا اورراگ گانوں کا دلدادہ بنا دیتا ہے ۔
امام مجاہد بن جبر المکی رحمہ اللہ ( بِصَوْتِک ) کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں : ( بِاللَّہْوِ وَالْغِنَائِ ) ’’بے ہودہ کلام اور موسیقی کے ساتھ ‘‘ یعنی اے ابلیس ! تو انسانوں میں سے جس پر قدرت حاصل کرلے اسے ہر قسم کے بے ہودہ کلام اور موسیقی وغیرہ کے ساتھ بہکا لے ۔ [ تفسیر ابن جریر ۔ ج ۱۵ ص ۱۳۶ وإسنادہ صحیح ]
تیسری آیت : اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَفَمِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ ٭ وَتَضْحَکُوْنَ وَلاَ تَبْکُوْنَ ٭ وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ﴾ [ النجم : ۵۹۔ ۶۱ ]
’’کیا تم لوگ اِس بات ( قرآن مجید ) کو سن کر تعجب کرتے ہو ؟ اور ہنستے اور روتے نہیں ہو ؟ اور غفلت میں مبتلا ہنس کھیل رہے ہو ؟ ‘‘
اِس آیت کریمہ میں کفار کو توبیخ ہو رہی ہے کہ تم قرآن مجید کو سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہو اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے ہنستے رہتے ہو ؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تم اسے سن کر اس سے متاثر ہوتے اور رو دیتے ۔ لیکن تم اس کے برعکس ہنس کھیل رہے ہو اورتمھارے اوپر اس کا ذرا سا بھی اثر نہیں ہوتا ؟
﴿سٰمِدُوْنَ﴾ کا معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ کرتے ہیں کہ ’’ تم گانے سنتے رہتے ہو ‘‘ کیونکہ کفار مکہ جب قرآن سنتے تھے تو گانا بجانا شروع کردیتے تھے اور کھیل تماشے میں مگن ہو جاتے تھے ۔ اہلِ یمن کی زبان میں سَمَد گانے کو کہتے ہیں ۔ [ تفسیر ابن جریر الطبری ۔ ج ۲۷ ص ۹۶ بإسناد صحیح ]
تو اللہ تعالی نے اِس پر انھیں سختی سے ڈانٹا ۔ اور اس کے بعد اہل ایمان کو حکم دیا کہ ﴿ فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا﴾ ’’ پس تم اللہ ہی کیلئے سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو ۔ ‘‘ یعنی تم اُن کافروں کی طرح نہ بنو جو قرآن کو سن کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں،بلکہ تم قرآن مجید کو سن کر اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہو جایا کرو اور اس کی عبادت میں مشغول رہا کرو ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالی نے کفار کو قرآن مجید کو چھوڑ کرگانے سننے پر سختی سے ڈانٹا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ گانے سننا اللہ کے نزدیک حرام ہے ۔ اگر یہ حرام نہ ہوتا تو اللہ تعالی انھیں اِس فعل پر نہ ڈانتا ۔
سامعین کرام ! یہ تو تھے قرآنی دلائل جن سے ثابت ہوتا ہے کہ گانے گانا اور سننا حرام ہے ۔
اب آئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیقی اور اس کے آلات کے متعلق کیا ارشاد فرمایا ۔اور احادیث ذکر کرنے سے پہلے آپ کی معلومات کیلئے آپ کو بتاتے چلیں کہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ گانوں کی حرمت کے متعلق جو احادیث مروی ہیں وہ متواتر درجہ کی ہیں اور انھیں روایت کرنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد تیرہ ہے ۔
حدیث نبوی میں موسیقی کے حرام ہونے کے دلائل
پہلی حدیث : حضرت ابو عامر ۔ یا ابو مالک ۔اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ ، وَالْحَرِیْرَ ، وَالْخَمْرَ ، وَالْمَعَازِفَ) [ البخاری : ۵۵۹۰ ]
’’ میری امت میں ایسے لوگ یقینا آئیں گے جو زنا ، ریشم کا لباس ، شراب اور آلاتِ موسیقی کو حلال تصور کر لیں گے۔ ‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ کئی لوگ ان چار چیزوں کو حلال تصور کر لیں گے حالانکہ یہ چاروں چیزیں دین ِ اسلام میں حرام ہیں ۔ چنانچہ اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو ان چیزوں کو حلال تصور کرتے ہیں۔ اور اس کیلئے انھوں نے بعض اہل علم کے کمزور اقوال کا سہارا لینے کی کوشش اور ابن حزم کی تقلید کرتے ہوئے صحیح بخاری کی اِس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کی سعی نا مشکور کی ہے ۔ حالانکہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے جیسا کہ ہم بعد میں اس پر بات کریں گے ۔ ان شاء اللہ
اِس حدیث میں ایک بات نہایت ہی قابل توجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آلاتِ موسیقی کا ذکر زنا ، ریشم کا لباس اور شراب نوشی جیسے کبیرہ گناہوں کے ساتھ کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح زنا کاری ، مردوں کیلئے ریشم کا لباس پہننا اور شراب نوشی کرناحرام ہے اسی طرح آلات موسیقی بھی حرام ہیں ۔ اور جس طرح زناکاری اور شراب نوشی کرنے سے اور مردوں کو ریشم کا لباس پہننے سے بہت بڑا گناہ ہوتا ہے اسی طرح گانا گانے اور سننے سے بھی بہت بڑا گناہ ہوتا ہے۔
دوسری حدیث : حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( لَیَشْرَبنَّ أُناَسٌ مِنْ أُمَّتِی الْخَمْرَ وَیُسَمُّونَہَا بِغَیْرِ اسْمِہَا ، یُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوسِہِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّیَاتِ، یَخْسِفُ اللّٰہُ بِہِمُ الْأرْضَ وَیَجْعَلُ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ ) [ ابن ماجہ : ۴۰۲۰۔ وصححہ الألبانی ]
’’ میری امت کے کچھ لوگ ضرور بالضرور شراب نوشی کریں گے اور شراب کا نام کوئی اور رکھ لیں گے ۔ ان کے سروں کے پاس آلاتِ موسیقی بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی ۔ اللہ تعالی انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور انہی میں سے کئی لوگوں کو بندر اور سور بنا دے گا۔‘‘ [ ابن ماجہ : ۴۰۲۰۔ وصححہ الألبانی ]
اِس حدیث میں نہایت سخت وعید ہے ان لوگوں کیلئے جو رقص وسرور کی محفلوں میں شریک ہو تے یا ایسی محفلوں کو ٹی وی یا کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھتے ہیں۔ اور اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس طرح کی محفلیں بپا کرنا کہ جن میں گانے والیاں گانے گائیں اور شرکائے محفل شراب نوشی کریں ، بہت بڑا گناہ ہے ۔ اور ایسا کرنا یقینی طور پر حرام ہے ۔ اگر یہ حرام نہ ہوتا تو اتنی بڑی وعید نہ ہوتی کہ ایسا کرنے والوں اور اس عمل کو حلال تصور کرنے والوں کو اللہ تعالی زمین میں دھنسا دے گا اور ان کی شکلوں کو بندروں اور سوروں کی شکل میں تبدیل کر دے گا ۔
تیسری حدیث : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
﴿ إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوْبَۃَ وَقَالَ : کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ ﴾ [ ابو داؤد : ۳۶۹۶۔ وصححہ الألبانی ]
’’ بے شک اللہ تعالی نے تم پرشراب ، جوا اور ڈھول کو حرام کردیا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ ‘‘
اِس حدیث میں پوری صراحت کے ساتھ ڈھول وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔
چوتھی حدیث : حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( سَیَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَمَسْخٌ ، قِیْلَ : وَمَتٰی ذَلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : إِذَا ظَہَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالقَیْنَاتُ وَاسْتُحِلَّتِ الْخَمْرُ ) [ صحیح الجامع للألبانی : ۳۶۶۵ ]
’’ آخری زمانے میں لوگوں کو زمین میں دھنسایا جائے گا ، ان پر پتھروں کی بارش کی جائے گی اور ان کی شکلیں مسخ کی جائیں گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایسا کب ہو گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے ، گانے والیاں عام ہو جائیں گی اور شراب کو حلال سمجھا جائے گا ۔‘‘
اِس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے ، گانے عام ہو جائیں گے اور شراب نوشی کو حلال تصور کر لیا جائے گا تو اُس وقت تین صورتوں میں اللہ تعالی کا سخت عذاب نازل ہو گا ۔
پہلی صورت :لوگوں کو زمین میں دھنسایا جائے گا ۔ یعنی زلزلوں کے ساتھ لوگ اپنے گھروں اور بڑی بڑی عمارتوں کے ساتھ زمیں بوس ہوجائیں گے ۔
دوسری صورت : ان پر پتھروں کی بارش کی جائے گی۔
تیسری صورت : ان کی شکلوں کو مسخ کیا جائے گا ۔
پانچویں حدیث :
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( صَوْتَانِ مَلْعُونَانِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ : مِزْمَارٌ عِنْدَ نِعْمَۃٍ وَرَنَّۃٌ عِنْدَ مُصِیْبَۃٍ ) [ صحیح الجامع للألبانی : ۳۶۹۵ ]
’’ دو آوازیں دنیا وآخرت میں ملعون ہیں : خوشی کے وقت گانے بجانے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز ۔ ‘‘
اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے بجانے کی آواز کو ملعون قرار دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ آواز حر ام ہے تو تبھی ملعون ہے ! اگر یہ حرام نہ ہوتی تو ملعون بھی نہ ہوتی۔ لہذا اِس ملعون آواز سے بچنا اور اس سے اپنے کانوں کو دور رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
معزز سامعین ! ان واضح ترین دلائل کے بعد اب کسی کے ذہن میں شک نہیں رہنا چاہئے اور اِس بات پر یقین کر لینا چاہئے کہ گانے گانا او ران کا سننا حرام ہے ۔
موسیقی کے بارے میں ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا موقف
ائمہ ٔ اربعہ رحمہم اللہ اس بات پر متفق ہیں کہ گانے گانا اور موسیقی سننا حرام ہے ۔اور جو شخص گانے گاتا یا سنتا ہو وہ فاسق وفاجر ہے ۔
1۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ: امام صاحب کے مقلدین (احناف علماء )نے اپنی کتب میں ثابت کیا ہے کہ گانے سننا فسق ہے اور گانوں کے ذریعے لذت حاصل کرنا کفر ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سب سے بڑے شاگرد امام ابو یوسف رحمہ اللہ جو ہارون الرشید کے زمانے میں قاضی القضاۃ
( چیف جسٹس ) تھے وہ کہتے ہیں کہ اگر میں کسی گھر کے پاس سے گزرتے
ہوئے گانوں کی آواز سن لوں تو میں اس گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہو جاتا ہوں اور گھروالوں کو اس سے منع کرتا ہوں کیونکہ برائی سے روکنا واجب ہے ۔ اور گانے سننا بھی ایک برائی ہے ۔
اور یہی وہ قاضی ابو سف ہیں جنھوں نے یہ حکم دیا تھا کہ ملک میں موجود ذمی لوگوں کو سازو سوز ، آلات ِ موسیقی اور ڈھول وغیرہ سے منع کیا جائے ۔
میرے بھائیو ! جب ذمی لوگوں کیلئے ان کا یہ حکم تھا تو اس سلسلے میں مسلمانوں کیلئے ان کا حکم کتنا سخت ہو گا !
2۔ امام مالک رحمہ اللہ: امام صاحب سے گانوں کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا :
( إِنَّمَا یَفْعَلُہُ الْفُسَّاقُ عِنْدَنَا )
’’ ہمارے ہاں ( مدینہ منورہ میں ) یہ کام صرف فاسق لوگ ہی کرتے ہیں ۔ ‘‘
اور ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے موسیقی کے متعلق سوال کیا تو آپ نے کہا : تمھارا کیا خیال ہے کہ یہ گانے قیامت کے روز باطل کے ساتھ ہوں گے یا حق کے ساتھ ؟ تو اس نے کہا : باطل کے ساتھ ہونگے ۔ تب امام صاحب نے کہا : باطل کہاں جائے گا ؟ جنت میں یا جہنم میں ؟ اس نے کہا : جہنم میں ۔ تو امام صاحب نے کہا : ( اِذْہَبْ فَقَدْ أَفْتَیْتَ نَفْسَکَ ) ’’ جاؤ ، تم نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دے دیا ۔ ‘‘
اور القاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ( اَلْغِنَائُ بَاطِلٌ وَالْبَاطِلُ فِی النَّارِ ) ’’ گانا باطل ہے اور باطل جہنم میں ہے ۔ ‘‘
3۔ امام شافعی رحمہ اللہ: موصوف جب بغداد سے مصر کی طرف گئے تو انھوں نے کہا : میں بغداد سے نکل آیا ہوں اور میں اپنے پیچھے ایک چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جسے چند زندیقوں نے اس لئے ایجاد کر لیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کو قرآن سے دور کرنا چاہتے ہیں ، وہ اس کا نام ’ تغبیر ‘ رکھتے ہیں ۔ اور ’ تغبیر ‘ موسیقی کا ایک آلہ تھا ۔
04. امام احمدرحمہ اللہ: امام صاحب کے صاحبزادے ’ عبد اللہ ‘ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے گانے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا : مجھے اچھا نہیں لگتا ۔ اور گانا دل میں نفاق کو اُگاتا ہے جیسا کہ پانی سبزی کو اُگاتا ہے ۔
اِس سے ثابت ہوا کہ چاروں ائمۂ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک گانا بجانا اور گانے سننا حرام ہے ۔
موسیقی اور گانوں کے نقصانات :
ویسے تو موسیقی اور گانوں کے نقصانات بہت سارے ہیں ، لیکن ہم یہاں ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں :
01. موسیقی نفاق پیدا کرتی ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ( اَلْغِنَائُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَائُ الزَّرْعَ ) قال الألبانی فی تحریم آلات الطرب ص ۱۳: إسنادہ جید ]
’’ گانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو پیدا کرتا ہے ۔ ‘‘
اور آج ہم خود اِس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ گانوں کے دلدادہ مسلمانوں میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن میں منافقت پائی جاتی ہے ۔ ان کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور ہوتا ہے ۔
02. موسیقی اللہ کے دین سے دور کرتی ہے ۔ کیونکہ موسیقی کی آواز شیطانی آواز ہے اور جس شخص کے کان موسیقی کے گرویدہ ہوتے ہیں وہ شیطان کا قیدی بن جاتا ہے ۔ اور جوشخص شیطان کا قیدی ہوتا ہے وہ یقینی طور پر دین ِ الٰہی سے غافل ہوتا ہے ۔ اسی لئے آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو گانے اور موسیقی وغیرہ سننے کے اِس قدر شوقین ہوتے ہیں کہ انھیں گانے سنے بغیر نیند ہی نہیں آتی ، ان میں سے اکثر لوگ فجر کی نماز سے خصوصا اور باقی نمازوں سے عموما غافل رہتے ہیں اور دین کے اس بہت بڑے فریضے کی بالکل پر وا ہی نہیں کرتے ۔ اسی طرح دین کے باقی فرائض کے متعلق بھی وہ مجرمانہ غفلت برتتے ہیں ۔ یہ غفلت کس بات کا نتیجہ ہے ؟ یقینی طور پر یہ اِس بات کا نتیجہ ہے کہ شیطانی آوازیں سن سن کر شیطان ان پر غالب آچکا ہے اور اس نے انھیں رب العزت کے دین سے بالکل غافل کردیا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿اِسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰہُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلَآ اِِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ ﴾ [ المجادلۃ : ۱۹ ]
’’ شیطان ان پر مسلط ہو گیا ہے اور اس نے انھیں اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے ۔ یہی لوگ شیطان کی پارٹی ہیں ۔ خبردار ! شیطان کی پارٹی کے لوگ ہی خسارہ پانے والے ہیں ۔ ‘‘
03. موسیقی انسان کے شہوانی جذبات کو بھڑکاکر اسے بدکاری کی طرف لے جاتی ہے ۔کیونکہ موسیقی آج کل کے دور میں صرف گانوں کی آواز تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس سے کہیں آگے چلی گئی ہے ۔ چنانچہ گانے والے اور گانے والیاں سب ایک ساتھ گاتے بھی ہیں اور ننگا ناچ بھی کرتے ہیں ۔ فحش اور بے ہودہ حرکات کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اور کھلے عام بے حیائی وبے غیرتی کی دعوت بھی دیتے ہیں ۔ نیم برہنہ مغنّیات ( گانے والیاں ) گانے کے ساتھ ساتھ رقص بھی کرتی ہیں اور اس کے ذریعے دیکھنے والوں کو بہکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہیں۔ اسی لئے الفضیل رحمہ اللہ کہا کرتے تھے:
( اَلْغِنَائُ رُقْیَۃُ الزِّنَا ) ’’ گانا بدکاری کا زینہ ہے ۔ ‘‘
یعنی بدکاری کی ابتداء گانوں سے ہوتی ہے ۔ کیونکہ عام طور پر موسیقی کے ساتھ جو کچھ گایا اور کہا جاتا ہے وہ عشق ومحبت کے میٹھے میٹھے بولوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ معشوق یا معشوقہ کی وفا یا بے وفائی کا تذکرہ ہوتا ہے ۔اگر سننے والا آدمی عشق میں ناکامی کا منہ دیکھ چکا ہو تو گانے اس کے زخموں کو تازہ کر دیتے ہیں۔اگر موسیقی اور گانوں کو سننے والا شخص بے حیائی
پر مشتمل مناظر کو بھی دیکھ رہا ہو تو وہ اور زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔اور اگر وہ ان چیزوں کو سننے اور دیکھنے کا عادی بن جائے تو سازو سوز کا نشہ اس کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اسے انتہائی اقدام پر آمادہ کرتا ہے ۔ جب گانے سن کر اور حیا باختہ مناظر دیکھ کر اس کی شہوت بیدار ہوتی ہے تو وہ اسے پورا کرنے کیلئے اِدھر اُدھر کوشش کرتا ہے اورآخر کار بے حیائی کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کرتا ۔
04. جس محفل میں گانے والے اور گانے والیاں اکٹھے ہوتے ہیں وہاں بے دریغ پیسہ برباد کیا جاتا ہے ۔ چونکہ گانے والوں اور گانے والیوں کی طرف سے زر کثیر کا مطالبہ کیا جاتا ہے اس لئے ان کی محفلوں میں شرکت کے خواہشمند لوگوں کیلئے باقاعدہ ٹکٹ رکھا جاتا ہے اور بے بہا مال جمع کرکے منتظمین بھی اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور فنکاروں کو بھی راضی کیا جاتا ہے۔صرف گانے سننے اور فنکاروں کے رقص کا مشاہدہ کرنے کی خاطرلوگ اپنا سرمایہ ضائع کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آڈیو اور ویڈیوکیسٹس اور سی ڈیز وغیرہ خرید کر بھی پیسہ برباد کیا جاتا ہے ۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ﴾ [ الإسراء : ۲۷ ]
’’ بے شک تبذیر ( ناجائز کاموں میں پیسہ ضائع )کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ۔ ‘‘
05. موسیقی فارغ اوقات کی بربادی کا بہت بڑا سبب ہے ۔ جبکہ فارغ اوقات انسان کی زندگی کا ایک قیمتی حصہ ہیں اور ان کے بارے میں قیامت کے روز انسان سے پوچھ گچھ کی جائے گی کہ انہیں اللہ کی اطاعت میں لگایا تھا یا اس کی نافرمانی میں ضائع کردیا تھا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( لاَ تَزَالُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ : عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ ؟ وَعَنْ عِلْمِہٖ مَا فَعَلَ فِیْہِ ؟ وَعَن مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ ؟ وَعَنْ جِسْمِہٖ فِیْمَ أَبْلاَہُ ) [الترمذی ۔ بحوالہ صحیح الجامع للألبانی : ۷۳۰۰]
’’ کسی بندے کے قدم اس وقت تک نہیں ہل سکیں گے جب تک اس سے چار سوالات نہیں کر لئے جائیں گے : اس نے اپنی عمر کو کس چیز میں ختم کیا ؟ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟ اور اس نے اپنا مال کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا ؟ اور اس نے اپنے جسم کو کس چیز میں بوسیدہ کیا ؟ ‘‘
لہذا جو شخص موسیقی سنتے ہوئے اور موسیقی پر مشتمل متعدد پروگرام دیکھتے ہوئے روزانہ کئی کئی گھنٹے برباد کردیتا ہو وہ یہ سوچ لے کہ قیامت کے روز اس سوال کا جواب کیا دے گا کہ تم نے اپنی عمر کو کس چیز میں ختم کیا ؟
’فارغ وقت ‘ اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے جس کی قدر وقیمت صرف وہ شخص جانتا ہے جو اِس نعمت سے محروم ہوتا
ہے ۔ لیکن بہت سارے لوگ اِس عظیم الشان نعمت کی قدر نہیں کرتے اور وہ اسے فضول وبے ہودہ کاموں میں ضائع کردیتے ہیں ۔ اور اِس لحاظ سے وہ یہ نعمت پاکر بھی خسارے میں رہتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْہِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ : اَلصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ ) [ البخاری ۔ الرقاق باب الصحۃ والفراغ : ۶۴۱۲ ]
’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سارے لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں : تندرستی اور فارغ وقت ۔ ‘‘
لہذا فار غ اوقات کو موسیقی وغیرہ میں برباد کرنے کی بجائے انھیں دینی لحاظ سے نفع بخش اور فائدہ مند کاموں میں مشغول کرنا چاہئے ۔
دل کو بہلانے اور فارغ اوقات کو مشغول کرنے کا ذریعہ !
نام نہاد ’’ روشن خیال ‘‘ لوگوں کے فتوے کی بناء پر آج کل بہت سارے لوگ موسیقی کو دل بہلانے اور فارغ اوقات کو مشغول کرنے کا بہترین ذریعہ تصور کرتے ہیں ! حالانکہ موسیقی دلوں کو مردہ کرتی اور فارغ اوقات کو برباد کرتی ہے ۔ اسلام میں دلوں کو سکون پہنچانے اور فارغ اوقات کو مشغول کرنے کا بہترین ذریعہ قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور وفکر کرنا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ [الرعد : ۲۸]
’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں ۔ ‘‘
اللہ کے ذکر سے مراد صرف تسبیحات پڑھنا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع لفظ ہے جس میں بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والا اور اس کے قریب کرنے والا ہر لفظ شامل ہے ، چاہے علم کا حصول ہو، تعلیم ہو، امر بالمعروف ہو یا نہی عن المنکر ہو ۔
اور شیخ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب ’ ذکر اللہ ‘ کہا جائے تو اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ کے قریب کردے ، چاہے اس کا تعلق عقیدے سے ہو یا سوچ وفکر سے ہو ۔ چاہے وہ دل کا عمل ہو یا بدن کا ۔ خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف ہو یا حصولِ علمِ نافع ہو ۔ اور اس جیسی باقی ساری عبادات اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہیں ۔
لہذا یہ تصور کرنا غلط ہے کہ ذکر صرف تسبیحات میں ہی منحصر ہے ، ذکر ہر وہ عمل ہے جو قرآن وحدیث کے مطابق ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے انجام دیا جائے ۔
کیا موسیقی روح کی غذا ہے ؟
معزز سامعین ! موسیقی کے دلدادہ لوگ موسیقی کو روح کی غذا تصور کرتے ہیں ! حالانکہ موسیقی روح کی غذا نہیں بلکہ اس کو بیمار کرنے والی چیز ہے ۔ آپ ذرا غور کریں کہ
٭ اگر موسیقی دل میں نفاق پیدا کرتی ہے تو یہ روح کی بیماری ہوئی یا اس کی غذا ؟
٭ اور اگر موسیقی شیطانی آواز ہے اور سننے والے شخص کو شیطان کا قیدی بناتی ہے تو یہ روح کی بیماری ہے یا اس کی غذا ؟
٭ اور اگر موسیقی اللہ کے دین سے دوری کا سبب بنتی ہے تو یہ روح کی بیماری ہوئی یا اس کی غذا ؟
٭ اور اگر موسیقی بے حیاء اور بے غیرت بناتی ہے تو یہ روح کی بیماری ہوئی یا اس کی غذا ؟
٭ اور اگر موسیقی انسان کو بدکاری پر اکساتی اور اس کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے تو یہ روح کی بیماری ہوئی یا اس کی غذا ؟
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو اس بیماری سے دور رکھے اور اِس بہت بڑی لعنت سے بچائے ۔
دوسرا خطبہ
معزز سامعین ! موسیقی اور گانوں کی حرمت کے دلائل اور ان کے متعلق ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ کے موقف کا تذکرہ کرنے اور گانوں کے نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد اب ہم ان لوگوں کے ’ شبہات ‘ کا جائزہ لیتے ہیں جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ گانے گانا اور سننا جائز ہے ۔
پہلا شبہہ : یہ لوگ گانوں کے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ کے موقف کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ۔ جنھوں نے صحیح بخاری کی اُس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جس کو ہم نے تھوڑی دیر پہلے ذکر کیا ہے اور اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ میری امت میں ایسے لوگ یقینا آئیں گے جو بدکاری ، ریشم کا لباس ، شراب اور آلاتِ موسیقی کو حلال تصور کر لیں گے۔ ‘‘ [ البخاری : ۵۵۹۰ ]
ابن حزم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کے شیخ ( ہشام بن عمار ) کے درمیان انقطاع پایا جاتا ہے ۔ اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ( قال ہشام بن عمار ) کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے!
اِس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اپنے شیخ ( ہشام بن عمار ) سے ملاقات اور ان سے ان کا سماعِ حدیث
ثابت ہے ۔ لہذا اس میں انقطاع نہیں پایا جاتا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر امام بخاری رحمہ اللہ مدلس راوی ہوتے تو ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف درست مانا جاتا ، لیکن کسی نے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کو مدلس نہیں کہا ۔اس لئے ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف غلط ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر ابن حزم رحمہ اللہ کی بات کو درست بھی مان لیا جائے تو اسی حدیث کو امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے متصل سند کے ساتھ روایت ہے ۔ لہذ۱ یہ حدیث یقینی طور پر صحیح ہے ۔
دوسرا شبہہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اُس وقت تشریف لائے جب میرے پاس انصار کی نوخیز لڑکیوں میں سے دو لڑکیاں ان اشعار کے ساتھ گا رہی تھیں جو ’ بعاث ‘ کے دن انصار نے پڑھے تھے ۔ اور حقیقت میں وہ گانے والی نہ تھیں ۔ یہ عید کا دن تھا ۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : (أَمَزَامِیْرُ الشَّیْطَانِ فِی بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ )
’’ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کی آواز گونج رہی ہے ؟ ‘‘
تو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( یَا أَبَا بَکْر ، إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْدًا وَہٰذَا عِیْدُنَا ) [ البخاری : ۴۵۴ ، مسلم : ۸۹۲ ]
’’ ابو بکر ! ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے اور یہ ہمارا تہوار ہے ۔ ‘‘
صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جن دنوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں ٹھہرے ہوئے تھے اُسی دوران حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور اُس وقت دو نو خیز لڑکیاں دف بجاتے ہوئے گا رہی تھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چادر لپیٹ کر لیٹے ہوئے تھے ۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹ ڈپٹ کی ۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرۂ انور سے چادر کو ہٹایا اور فرمایا : ( دَعْہُمَا یَا أَبَا بَکْرٍ فَإِنَّہَا أَیَّامُ عِیْدٍ )
’’ ابو بکر ! انھیں چھوڑ دو ( اور مت روکو ) کیونکہ یہ عید کے ایام ہیں ۔ ‘‘
اِس حدیث کو بھی موسیقی کو جائز قرار دینے والے لوگ بطور دلیل پیش کرتے ہیں ۔ حالانکہ اِس میں ان کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے ۔ کیونکہ اِس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ دو نو خیز لڑکیاں جو اصلا ً گانے والی نہیں تھیں ، جنگی اشعار دف بجاتے ہوئے گا رہی تھیں ۔ تو بتلائیے اِس میں مروجہ گانے اور موسیقی کا جواز کہاں سے ملتا ہے ؟
01. جنگی اشعار جن میں شجاعت وبہادری کا اظہار اور فتح ونصرت کا تذکرہ کیا جاتا ہے ، وہ کہاں اور عشق ومحبت کے متعلق اور شہوت کو بھڑکانے والے اشعار کہاں !
02. دو نو خیز لڑکیاں جو پیشہ ورانہ طور پر گانے والی نہیں تھیں ، وہ کہاں اور اِس دور میں بے پردہ نوجوان لڑکیاں اور پیشہ ور گانے والی ادا کارائیں کہاں !
03. وہ بچیاں دف بجا رہی تھیں ، آلاتِ موسیقی نہیں بجا رہی تھیں ! دف اور آلات ِ موسیقی میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔
04. وہ عید کا موقعہ تھا جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہارِ فرحت ومسرت سے منع نہیں کیا ۔ لہذا ایک خاص موقعہ پر گائے جانے والے جنگی اشعار کوعام طور پر موسیقی اور گانوں کے جواز کی دلیل کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟
05. وہ دونوں بچیاں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گا رہی تھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چادر لپیٹ کرسو رہے تھے ۔ وہاں پر مردو زن کا اختلاط قطعا نہیں تھا ۔ لہذا اسے رقص وسرور کی اُن محفلوں کے جواز کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا جن میں مرد وزن کا اختلاط ہوتا ہے اور حسن کی نمائش کے ذریعے بے حیائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔
سامعین کرام ! یہاں ہم آپ حضرات کی معلومات کیلئے عرض کرتے چلیں کہ ’دف ‘ بجاتے ہوئے اشعار پڑھنے یا گانے کی اسلام میں کچھ شروط وقیود ہیں جن کا خیال رکھنا لازم ہے :
01.’ دف ‘ بجانا اور اس کے ساتھ اشعار پڑھنا صرف دو مواقع پر ثابت ہے : عیدین اور شادی بیاہ ۔ جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک ایک تیسراموقعہ بھی ہے جس میں دف بجائی جا سکتی ہے اور وہ ہے : سفر کے بعد واپس لوٹنے والے شخص کے استقبال کے وقت ۔ ان تین مواقع کے علاوہ کسی اور موقعہ پر ایسا ثابت نہیں ہے ۔ واللہ اعلم
عیدین کے حوالے سے ہم حدیث ذکر کر چکے ہیں ۔ شادی بیاہ کے متعلق حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری شادی کے موقعہ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھ گئے ۔ چنانچہ چھوٹی چھوٹی بچیاں دف بجانے لگیں اور بدر کے دن میرے آباء میں سے جو شہید ہوئے تھے ان کے متعلق اشعار پڑھنے لگیں ۔ اسی دوران ان میں سے ایک نے کہا : وَفِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِی غَدِ [ البخاری : ۴۸۵۲ ]
’’ ہم میں وہ نبی ہے جو ( آنے والی ) کل کی بات کو بھی جانتا ہے ۔ ‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اِس کو چھوڑو اور پہلے والے شعر پڑھو ۔ ‘‘
اور جہاں تک استقبال کے موقعہ پر دف بجانے کا تعلق ہے تو بعض اہل علم نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ کیلئے نکلے ، پھر جب واپس لوٹے تو ایک کالے رنگ
کی بچی آئے اور کہنے لگی : یا رسول اللہ ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر آپ کو اللہ تعالی صحیح سالم واپس لوٹا دے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گاؤں گی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اگر تم نے نذر مانی تھی تو دف بجا سکتی ہو ورنہ نہیں ۔ ‘‘
چنانچہ وہ دف بجانے لگی ۔ اسی دوران ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ دف بجاتی رہی ۔ پھر علی رضی اللہ عنہ آئے ، اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو وہ بدستور دف بجاتی رہی ۔ بعد ازاں عمر رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے فورا دف کو اپنے پیچھے چھپایا اور اس پر بیٹھ گئی ۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ عمر ! تم سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے ۔ یہ بچی میرے سامنے دف بجا رہی تھی ، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو یہ بجاتی رہی ، پھر علی رضی اللہ عنہ آئے تو یہ بجاتی رہی ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو یہ بجاتی رہی ، پھر جب تم آئے تو اس نے اسے پھینک دیا ۔ ‘‘ [ الترمذی : ۳۶۹۰ ۔ وصححہ الألبانی ]
بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ اِس حدیث میں مطلقا اِس بات کا جواز نہیں ہے کہ جو بھی سفر کے بعد واپس لوٹے تو اس کا استقبال کرتے ہوئے دف بجائی جا سکتی ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس بچی کو صرف نذر کی وجہ سے اجازت دی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر نذر نہیں مانی تو پھر دف مت بجاؤ ۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ استقبال کے موقعہ پر دف بجانا مشروع نہیں ہے ۔ واللہ اعلم
یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ بعض لوگ اِس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تھے تو اُس وقت مدینے کی بچیوں نے ’دف‘ بجاتے ہوئے یہ اشعار پڑھے تھے:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعِ
تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ اگرچہ سیرت کی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے ، لیکن اس کی سند ضعیف ہے ۔ کیونکہ اس میں تین یا اس سے زیادہ راوی ساقط ہیں اور اِس طرح کی روایت کو محدثین کی اصطلاح میں ’ معضل ‘ کہا جاتا ہے جو ضعیف کی اقسام میں سے ایک قسم ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس کو سند کے اعتبار سے درست بھی مان لیا جائے تو اس کا تعلق ہجرت کے واقعہ سے نہیں ہے کیونکہ ایک تو اس میں ہجرت کا ذکر ہی نہیں ہے ، دوسرا اس میں یہ جو کہا گیا ہے کہ ( طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ ) تو ’ثنیات الوداع ‘ مکہ سے مدینہ کی طرف آتے ہوئے نہیں بلکہ شام سے مدینہ کی طرف آتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ تبوک کے بعد مدینہ منورہ کو واپس لوٹے تو شاید اُس وقت ان کے استقبال میں یہ اشعار پڑھے گئے ۔ لیکن ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اِس کی سند ضعیف ہے ۔ لہذا یہ ناقابل حجت ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں ’ دف ‘ کا تو سرے سے ذکر ہی
نہیں ہے ! تو یہ واقعہ آج کل ’دف ‘ کے ساتھ پڑھی جانے والی نعتوں کے جواز کی دلیل کیسے بن سکتا ہے !!! [ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ : ۵۹۸ ، زاد المعاد : ج۳ ص۱۳]
02. ’ دف ‘ ڈھول کو نہیں کہتے بلکہ اس کو کہتے ہیں جس میں جلد لگی ہوتی ہے اور وہ ایک طرف سے بند اور دوسری طرف سے کھلی ہوتی ہے ۔ اور اسے ایک ہی جانب سے بجایا جاتا ہے ۔
03. جو اشعار پڑھے جائیں وہ بے حیائی اور جھوٹ پر مبنی نہ ہوں ۔
04. پڑھنے یا گانے والی نو خیز لڑکیاں ہوں اور ان کے پاس صرف عورتیں ہوں ۔ مردوں کیلئے دف بجانا جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے عورتوں کے ساتھ ان کی مشابہت ہوتی ہے جو کہ ممنوع ہے ۔
05. مرد وزن کا اختلاط نہ ہو ۔
معزز سامعین ! ’ دف ‘ کے متعلق جو شرعی شروط وقیود ہم نے ذکر کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے استعمال کی اجازت نہایت ہی محدود ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِس دور میں اس کا استعمال اِس قدر وسیع ہو گیا ہے کہ کوئی نعت یا کوئی نظم اس کے بغیر نہیں پڑھی جاتی ۔ بلکہ اب تو بعض ٹی وی چینلز کے ذریعے اس رجحان کو خوب ہوا دی جا رہی ہے اور بہت سارے لوگوں کو قرآن مجید سے دور کرکے انہی نعتوں کا ہی گرویدہ بنا دیا گیا ہے۔ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ
نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل ’دف ‘ کے ساتھ جس طرح نعتیں پڑھی جارہی ہیں اور اِس میں نوجوان وبے پردہ لڑکیاں بھی شامل ہوتی ہیں ، یہ اِس دور کا بہت بڑا فتنہ ہے کیونکہ ایک طرف نوجوان نسل کی بہت بڑی تعداد اگر گانوں اور موسیقی کی دلدادہ ہے تو دوسری طرف بہت سارے لوگ ، جن میں ہر عمر کے مردوخواتین شامل ہیں ‘ ان میں اب انہی نعتوں کا رجحان بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ یوں قرآن مجید ایک سائیڈ پر رکھ دیا گیا ہے جس کو اللہ تعالی نے اس لئے اتارا کہ اس کے ماننے والے اس کی تلاوت کریں ، اس میں غور وفکر کریں اور اسے اپنا دستورِ حیات بنائیں ۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد اسے صرف رمضان المبارک میں ہاتھ لگاتی ہے۔ پھر سارا سال اسے غلافوں میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے اور اسے پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی ، چہ جائیکہ اس میں تدبر کیا جاتا اور اس کے احکامات کو سمجھ کر ان پر عمل کیا جاتا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گانوں اور موسیقی کے ذریعے قرآن مجید سے دور رکھنے کی کوششیں تو پہلے بھی ہوتی تھیں ، اب بھی ہو رہی ہیں ، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اب ایک نیا اندازایجاد کر لیا گیا ہے اور وہ ہے ’ دف ‘ کے ساتھ نعتیں پڑھنا اور انھیں’اسلامی موسیقی ‘ کا نام دے کر گھر گھر تک پہنچانا ۔ حالانکہ ’موسیقی ‘ اور اسلام دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ ہم اِن لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی طرح ’دف ‘ کے ساتھ نعتیں پڑھا کرتے تھے ؟ اور
کیا وہ بھی ’ محفل نعت ‘ منعقد کیا کرتے تھے ؟ اور کیا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بیٹیاں بھی اسی طرح نعتیں پڑھا کرتی تھیں ؟ اگر یہ سب کچھ اُس دور میں نہیں ہوتا تھا تو آج کیوں ہو رہا ہے ؟ اگر یہ سب کچھ قرونِ اولی میں دین کا حصہ نہیں تھا تو آج کیوں اسے دین کا حصہ بنایا جا رہا ہے؟
موسیقی کے متعلق اہلِ ایمان کا موقف کیا ہونا چاہئے ؟
موسیقی اور گانوں کے متعلق اہل ِ ایمان کا موقف وہی ہونا چاہئے جو ہم نے کتاب وسنت اور اقوالِ ائمہ کی روشنی میں ذکر کیا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ گانے گانا اور سننا حرام ہے اور ہر قسم کی موسیقی سے اپنے کانوں کو دور رکھنا ضروری ہے ۔ اور اسی لئے ہم آپ اور دیگر تمام اہل ِ ایمان کو دعوت دیتے ہیں کہ
01. گانوں اور موسیقی وغیرہ سے فورا توبہ کریں اور ان چیزوں کو قطعی طور پر ترک کردیں ۔ اگر آپ نے اپنے گھروں میں آلات ِ موسیقی رکھے ہوئے ہیں تو انھیں نکال باہر پھینکیں ۔ اور اگر آپ نے اپنے گھر میں یا اپنی گاڑی میں گانوں اور موسیقی پر مشتمل آڈیو یا وڈیو کیسٹس یا سی ڈیز رکھی ہوئی ہیں تو انھیں ضائع کردیں ۔ اور آئندہ کیلئے ان چیزوں کے قریب نہ جانے کا پختہ عزم کریں ۔
02. گانے والوں اور گانے والیوں سے سخت نفرت کریں کیونکہ یہ لوگ کھلم کھلا حرام کام کا ارتکاب کرتے ہیں، خود بھی بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور سننے اور دیکھنے والوں کو بھی اِس پر آمادہ کرتے ہیں ۔ معاشرے میں بے راہ روی اور بے غیرتی کو پھیلانے میں ان لوگوں کا بہت بڑا کردار ہے ۔ اس کے علاوہ یہ حرام کماتے بھی ہیں اور حرام کھاتے بھی ہیں ۔ اور ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے کہ
﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ﴾ [ النور : ۱۹]
’’وہ لوگ جو یہ پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے تو ان کیلئے یقینا دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے ۔ اور اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ ‘‘
لہذا ان جیسے لوگوں سے اللہ کی رضا کیلئے بغض رکھیں، نہ یہ کہ انھیں آئیڈیل تصور کرتے ہوئے ان کے بول بولیں ، ان کے ڈائیلاگ یاد کریں اور ان کے گن گائیں ۔ اِن جیسے لوگوں کے ساتھ عقیدت ومحبت رکھنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ لہذا انھیں اور وہ جوکچھ گاتے ہیں اسے نا پسندیدہ نگاہوں سے دیکھیں اور اپنے کانوں کو ان کے حرام گانوں سے پاک رکھیں۔
ہم خاص طور پر نوجوان نسل کو تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ اِن سنگرز کو آئیڈیل سمجھنے کی بجائے نوجوان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو آئیڈیل سمجھیں جو اِس طرح کی تمام چیزوں سے اپنے آپ کو درو رکھتے تھے ۔
نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ انھوں نے ایک چرواہے کی آواز کو سنا جو کسی آلۂ موسیقی کے ساتھ گا رہا تھا ۔ انھوں نے فورا اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں ۔ آگے جا کر پوچھا : نافع ! کیا تم ابھی وہ آواز سن رہے ہو ؟ تو میں جب تک یہ کہتا رہا کہ ہاں ابھی آواز آ رہی ہے تب تک وہ چلتے رہے اوراپنی انگلیوں کو اپنے کانوں سے نہ ہٹایا ۔ جب میں نے کہا کہ اب آواز نہیں آرہی ، تب انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے الگ کرلیں اور فرمایا : اسی طرح میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ آپ نے ایک چرواہے کی آواز کو سنا جو اپنے آلۂ موسیقی کے ساتھ گا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا جس طرح میں نے کیا ہے ۔ [ أحمد : ۴۵۳۵ ۔ وحسنہ الأرناؤط ، وأبو داؤد: ۴۹۲۴۔ وصححہ الألبانی ]
03. اگر آپ کے گھر والوں میں سے کوئی شخص موسیقی اور گانے وغیرہ سنتا ہو تو اسے سختی سے منع کریں ۔ اسی طرح آپ جہاں کہیں ہوں اور وہاں موسیقی چل رہی ہو یا گانے سنے جا رہے ہوں یا حیا باختہ مناظر دیکھے جا رہے ہوں تو آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس حدیث پر ضرور عمل کریں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
( مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ ، فَإِن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ ، فَإِن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ ، وَذَلِکَ أَضْعَفُ الْإِیْمَانِ ) [ مسلم : ۴۹ ]
’’ تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے ۔ اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے منع کرے ۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل میں اسے برا جانے ۔ اور یہ کمزور ترین ایمان ہے ۔ ‘‘
ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کو موسیقی اور گانوں کی لعنت سے بچنے کی توفیق دے اور ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔