رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل ومعجزات اور آپ کی خصوصیات
اہم عناصر خطبہ
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض معجزات
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات
پہلا خطبہ
برادرانِ اسلام ! سید الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل بن حضرت ابراہیم علیہم السلام کی نسل سے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے آخری رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی سلسلۂ نبوت کا اختتام ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء علیہم السلام پر فضیلت اور برتری حاصل ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا مرتبہ بھی دوسری تمام امتوں سے زیادہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کو لازم قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ خصوصیات حاصل ہیں جو کسی اور نبی کو حاصل نہیں۔بنا بریں آئیے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل ومعجزات اور آپ کی بعض خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور آپ کے فضائل
(۱) اعلی نسب
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نسب ( خاندان ) کے اعتبار سے اعلی وارفع مقام رکھتے ہیں۔
جیسا کہ حضرت واثلۃ بن الأسقع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی کِنَانَةَ مِنْ وَّلَدِ إِسْمَاعِیْلَ،وَاصْطَفٰی قُرَیْشًا مِّنْ کِنَانَةَ، وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِیْ ہَاشِمٍ،وَاصْطَفَانِیْ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ))
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کو چنا ، پھر کنانہ سے قریش کو چنا ، پھر قریش سے بنو ہاشم کو چنا اور بنو ہاشم سے اس نے مجھے منتخب فرمایا۔ ‘‘
اسی طرح جب بادشاہِ روم ( ہرقل )نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے ( جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ونسب کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا تھا:
(ھُوَ فِیْنَا ذُوْ نَسَبٍ)
وہ ہم میں اعلی حسب ونسب والے ہیں ۔ تو ہرقل نے کہا:
(کَذٰلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِیْ نَسَبِ قَوْمِہَا)
کہ ایسے ہی پیغمبرانِ عظام علیہم السلام اپنی قوموں میں عالی نسب ہوتے ہیں ۔
ان نصوص سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے اعلی نسب والے تھے ۔
(۲) انسانیت پر احسانِ عظیم
یوں تو انسانیت پر اللہ تعالیٰ کے احسانات بے شمار ہیں، لیکن ان میں سب سے بڑا احسان ‘ جسے اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے ، وہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت۔
فرمان الٰہی ہے:
﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎﴿١٦٤﴾
’’ بے شک مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے ۔ نیز انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے ۔ یقینا یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانیت گمراہ تھی اور جہالت کی انتہائی تاریک گھاٹیوں میں بھٹک رہی تھی جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ یقینا یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ پھراللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں مبعوث فرما کر انھیں تاریکی سے نکالا اور آپ کے ذریعے صراطِ مستقیم کی طرف ان کی راہنمائی کی ۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کیلئے باعث ِ رحمت تھے ۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ‎﴿١٠٧﴾
’’ اور ہم نے یقینا آپ کو جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُہْدَاۃٌ))
’’ اے لوگو ! بے شک میں رحمت ہوں جسے لوگوں کو بطور ہدیہ پیش کیا گیا ۔ ‘‘
(۳) روشن چراغ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے ’’ روشن چراغ ‘‘ قرار دیا ہے۔ چنانچہ جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہوتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کفرو شرک کی تاریکیاں دور ہوئیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ‎﴿٤٥﴾‏ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ‎﴿٤٦﴾
’’ اے نبی ! ہم نے ہی آپ کو گواہیاں دینے والا ، خوشخبریاں سنانے والا ، آگاہ کرنے والا ، اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے ۔ ‘‘
(۴) مشفق ومہربان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت پر مشفق اور مہربان ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض صفات عالیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ‎﴿١٢٨﴾
’’ تمھارے پاس ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمھاری ہی جنس سے ہیں ، جن کو تمھارے نقصان کی بات نہایت گراں گذرتی ہے ، جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں ، ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار عظیم صفات ذکر کی ہیں :
پہلی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس ِ بشرسے ہیں ۔ دوسری آیت میں فرمایا:
‎﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ﴾‏
’’ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔(ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے ۔ ‘‘
اور فرمایا:
﴿ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا
’’ آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب پاک ہے ، میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں ۔ ‘‘
دوسری یہ کہ اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر تمھاری ہر قسم کی تکلیف ومشقت گراں گذرتی ہے۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین میں آسانی کو پسند فرماتے تھے اور جس کام میں امت پر مشقت محسوس فرماتے اسے چھوڑ دیتے ۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں ، ان میں سے ایک یہ کہ معراج کے موقعہ پر جب اللہ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کیں تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے ان میں بار بار تخفیف کی درخواست کی حتی کہ یہ پانچ رہ گئیں۔ دوسری یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح تین راتیں باجماعت ادا کی ، پھر چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کردیا اور فرمایا: مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تم پر فرض نہ کردی جائے ۔ اور تیسری یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر مجھے امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہو تا تو میں امت کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔‘‘
یہ تینوں مثالیں ( اور ان کے علاوہ اور کئی مثالیں ) اس بات کی دلیل ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کی مشقت برداشت نہیں تھی۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( أَحَبُّ الْأَدْیَانِ إِلیَ اللّٰہِ تَعَالیٰ اَلْحَنِیْفِیَّةُ السَّمْحَةُ))
’’ اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب دین ‘ دین ِ حنیفی ہے جوکہ آسان ہے ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ،وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ،فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا،وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَةِ وَشَیْئٍ مِّنَ الدُّلْجَةِ ))
’’بے شک دین آسان ہے اور جو آدمی دین میں تکلف کرے گا اور اپنی طاقت سے بڑھ کر عبادت کرنے کی کوشش کرے گا دین اس پر غالب آ جائے گا۔ لہٰذا تم اعتدال کی راہ اپناؤ ، اگر کوئی عبادت مکمل طور پر نہ کر سکو تو قریب قریب ضرور کرو ، عبادت کے اجر وثواب پر خوش ہو جاؤ اور صبح کے وقت ، شام کے وقت اور رات کے آخری حصہ میں عبادت کرکے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو ۔‘‘

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ کو دعوتِ اسلام کیلئے یمن کی طرف روانہ فرمایا تو آپ نے انھیں حکم دیاکہ
(( یَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا ، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا،وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا))
’’ لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرنااور انھیں سختی اور پریشانی میں نہ ڈالنا اور ان کوخوشخبری دینا ، دین سے نفرت نہ دلانا ۔ اور دونوں مل جل کر کام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا ۔ ‘‘
اور تیسری صفت یہ کہ رسول اللہ تمھاری ہدایت اور دنیوی واخروی منفعت کے خواہشمند رہتے ہیں اور تمھارا جہنم میں جانا پسند نہیں کرتے ۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّمَا مَثَلِیْ وَمَثَلُ النَّاسِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اِسْتَوْقَدَ نَارًا،فَلَمَّا أَضَائةُ مَا حَوْلَہُ جَعَلَ الْفِرَاشُ وَہٰذِہِ الدَّوَابُّ الَّتِیْ تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْہَا ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَزَعُہُنَّ وَیَغْلِبْنَہُ، فَیَقْتَحِمْنَ فِیْہَا،فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَأَنْتُمْ تَقْتَحِمُوْنَ فِیْہَا))
’’ بے شک میری اور لوگوں کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو آگ جلائے ، پھر جب آگ اپنے ارد گرد کو روشن کردیتی ہے تو پتنگے اور یہ جانور جو کہ آگ میں کود پڑتے ہی وہ آگ میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ آگ جلانے والا آدمی انھیں آگ سے پرے ہٹاتا ہے لیکن وہ اس پر غالب آکر آگ میں کود پڑتی ہیں ۔ اور میں بھی تمھیں تمھاری کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں تاکہ تم جہنم کی آگ میں نہ چلے جاؤ لیکن (تم مجھ سے دامن چھڑا کر ) زبردستی جہنم کی آگ میں داخل ہوتے ہو ۔ ‘‘
اور چوتھی صفت یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت مشفق اور بڑے ہی مہربان ہیں ۔ اِس ضمن میں بھی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ یہاں ہم صرف تین احادیث پر اکتفاء کریں گے :
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( إِنِّیْ لَأقُوْمُ فِیْ الصَّلاَۃِ وَأَنَا أُرِیْدُ أُطِیْلُہَا،فَأَسْمَعُ بُکَاءَ الصَّبِیِّ فَأَتَجَوَّزُ فِیْ صَلاَتِیْ مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ وَّجْدِ أُمِّهِ عَلَیْہِ مِنْ بُکَا ئِهِ))
’’ میں نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہوں اور میری نیت یہ ہوتی ہے کہ میں اسے لمبی کروں گا لیکن جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کردیتا ہوں ، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس کے رونے کیوجہ سے اس کی ماں اس پر ترس کھاتی ہے ۔ ‘‘
2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ کچھ دیہاتی لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : کیا آپ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں ؟ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : ہاں ۔ تو وہ کہنے لگے : اللہ کی قسم ! ہم اپنے بچوں کو بوسہ نہیں دیتے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَوَ أَمْلِكُ إِنْ کَانَ اللّٰہُ نَزَعَ مِنْکُمُ الرَّحْمَةَ))
’’ اگر اللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوں سے رحمت کو کھینچ لیا ہے تو میں کیا کروں ؟ ‘‘
3۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی:

﴿رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎﴿٣٦﴾
’’ اے میرے رب ! انھوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے ، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تُو بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘
اور حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہ آیت بھی تلاوت کی :
﴿إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎﴿١١٨﴾
’’ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تُو سب پر غالب اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور فرمانے لگے :
(( اَللّٰہُمَّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ))
’’ اے اللہ میری امت ، میری امت ! ‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’ اے جبریل ! جاؤ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس ۔ اور تیرا رب اگرچہ خوب جانتا ہے لیکن جاکر ان سے پوچھو کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ لہٰذا حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہا تھا وہ انھیں بتایا۔ اور جب حضرت جبریل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو بتایا(حالانکہ وہ تو پہلے ہی جانتا تھا ) تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو دوبارہ بھیجا اور فرمایا :
(إِنَّا سَنُرْضِیْكَ فِیْ أُمَّتِكَ وَلاَ نَسُوْئُكَ )
’’ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور آپ کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے ۔ ‘‘
یہ تینوں احادیث ِ مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی مشفق اور مہربان تھے ۔
(۵) تورات وانجیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات عالیہ کا تذکرہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات عالیہ کا ذکر نہ صرف قرآن مجید میں ہے بلکہ تورات وانجیل میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی گئی ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿١٥٧﴾
’’ جو لوگ رسول اور نبی ٔ امی کی اتباع کرتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انھیں نیک باتوں کا حکم دیتے اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں ، پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اوران لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں ۔ لہذا جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ، ان کی حمایت اور مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان پر اتارا گیا ہے ایسے ہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں ۔ ‘‘
(۶) دعائے ابراہیم علیہ السلام اور بشارتِ عیسی علیہ السلام کے مصداق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت کے مصداق ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( أَنَا دَعْوَۃُ إِبْرَاہِیْمَ،وَکَانَ آخِرُ مَنْ بَشَّرَ بِیْ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ))
’’ میں ابراہیم ( علیہ السلام ) کی دعا ہوں ۔ اور سب سے آخر میں میری آمد کی بشارت عیسی بن مریم ( علیہ السلام ) نے دی ۔ ‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو آپ نے متعدد دعائیں فرمائیں۔ ان میں سے ایک دعا یہ تھی :
﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎﴾
’’ اے ہمارے رب ! ان میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان پر تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور انھیں پاک کردے ۔بے شک تو سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے ۔ ‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔
اور حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ﴾‏
’’ اور جب مریم ( علیہا السلام ) کے بیٹے عیسی ( علیہ السلام ) نے کہا : اے بنی اسرائیل ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ مجھ سے پہلے نازل شدہ کتاب توراۃ کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوشخبری سنانے والا ہوں جس کا نام احمد ہے ۔ ‘‘
اورکسی نے کیا خوب کہا ہے :
بَشَارَۃُ عِیْسٰی وَوَعْظُ الْکَلِیْمِ دُعَاءُ إِبْرَاہِیْمَ عِنْدَ الْحَطِیْمِ
جَمِیْعُ النَّبِیِّیْنَ وَالْمُرْسَلِیْنَ بِهِ بَشَّرُوْا مُنْذُ عَصْرٍ قَدِیْمِ
’’ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت ، کلیم اللہ ( حضرت موسی علیہ السلام ) کی نصیحت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حطیمِ کعبہ کے پاس دعا ہیں ۔ اور قدیم زمانے سے تمام انبیاء ورسل علیہم السلام آپ کی بشارت دیتے رہے ہیں ۔ ‘‘
(۷) اللہ کے ذکر کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ عظیم عطا کیا ہے۔ چنانچہ جہاں اللہ کا ذکر آتا ہے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بھی آتاہے، کلمہ ٔ شہادت ، اذان ، اقامت ، خطبہ ، تشہد اور دیگر کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ کے نام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جاتا ہے۔انبیاء علیہم السلام اور فرشتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کیا اوردنیا وآخرت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا چرچا کیا ۔۔۔ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان کی دلیل ہے ۔
فرمان الٰہی ہے:
﴿أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ‎﴿١﴾‏ وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ ‎﴿٣﴾‏ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ‎﴿٤﴾
’’ اے پیغمبر ! کیا ہم نے آپکا سینہ نہیں کھولا ؟ اور ہم نے آپکا بوجھ آپ پر سے اتارا جس نے آپ کی کمر کو جھکا رکھا تھا ، اور ہم نے آپکا نام بلند کیا ۔ ‘‘
حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کیا خوب کہا ہے !
وَضَمَّ الْإِلٰہُ اِسْمَ النَّبِیِّ مَعَ اسْمِهِ إِذَا قَالَ فِیْ الْخَمْسِ الْمُؤَذِّنُ أَشْہَدُ
وَشَقَّ لَہُ مِنِ اسْمِهِ لِیُجِلَّہُ فَذُوْ الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَہٰذَا مُحَمَّدُ
’’ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اپنے نام کے ساتھ ملا دیا ہے جب مؤذن پانچ مرتبہ اذن کہتے ہوئے (أشہد) کہتا ہے ۔ اور اس نے اپنے نام سے آپ کا نام نکالا تاکہ آپ کو عزت دے ، چنانچہ عرش والا محمود ہے اور یہ محمد ہے۔ ‘‘
(۸) انبیائے کرام علیہم السلام سے عہد
اللہ تعالی نے تمام انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور ان کی تائید ونصرت کریں گے۔اس لئے اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک کے زمانے میں مبعوث کر دئیے جاتے تو ان کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہ ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
‎﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ‎﴿٨١﴾‏ فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿٨٢﴾
’’ اور ( وہ وقت بھی یاد کرو ) جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ اگر میں تمہیں کتاب وحکمت عطا کروں ، پھرتمہارے پاس وہ رسول آئے جو اُس چیز کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے توتمہیں لازماً ایمان لانا ہو گا اور اس کی نصرت کرنا ہوگی ۔اللہ نے پوچھا : کیا تم اقرار کرتے ہو اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو ؟ تو انبیاء نے کہا: ہم اقرار کرتے ہیں ۔فرمایا : گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔ پھر اس کے بعد جو بھی اس عہد سے پھر جائے تو ایسے لوگ نافرمان ہیں۔ ‘‘
اس عہد کے ذریعے اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر برتری ثابت کردی ۔
(۹) معجزۂ معراج
اللہ تعالی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسراء ومعراج کے معجزہ سے نوازا جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر تمام انبیاء ورسل علیہم السلام پر برتری ثابت کردی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی میں انبیاء علیہم السلام کی امامت کرائی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کے اوپر ‘ جہاں تک اللہ نے چاہا ‘ لے جایا گیا اور بابرکت سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کرائی گئی ۔ آپ کو جنت کی سیر کرائی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں ۔۔۔۔۔ یہ پورا سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت واہمیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کی دلیل ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض معجزات
اللہ رب العزت نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی معجزات عطا کئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ عظیم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم معجزہ قرآنِ مجید ہے جو فصاحت وبلاغت اور جامعیت کے اعتبار سے دنیا کے تمام ادباء وفصحاء کیلئے ایک عاجز کردینے والے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔ چنانچہ تمام جن وانس مل کر بھی قیامت تک اس جیسی ایک سورت بھی نہیں لا سکتے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ‎﴿٨٨﴾
’’ آپ کہہ دیجئے ! اگر جن وانس سب مل کر قرآن جیسی کوئی چیز بنا لائیں تو نہ لا سکیں گے ، خواہ وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں ۔ ‘‘
اس کے علاوہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چند دیگر معجزات کا تذکرہ بھی سن لیجئے ۔
عن أنس رضی اللہ عنہ قَالَ:حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ فَقَامَ مَنْ کَانَ قَرِیْبَ الدَّارِ مِنَ الْمَسْجِدِ یَتَوَضَّأُ وَبَقِیَ قَوْمٌ،فَأُتِی النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَۃٍ فِیہِ مَاءٌ ، فَوَضَعَکَفَّہُ،فَصَغُرَ الْمِخْضَبُ أَنْ یَبْسُطَ فِیہِ کَفَّہُ،فَضَمَّ أَصَابِعَہُ فَوَضَعَہَا فِی الْمِخْضَبِ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا،قُلْتُ: کَمْ کَانُوا؟ قَالَ: ثَمَانُونَ رَجُلاً۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ نماز کا وقت ہوا تو جن لوگوں کے گھر مسجد کے قریب تھے انھوں نے تو جا کر وضو کر لیا لیکن بہت سارے لوگ باقی بچ گئے جن کے پاس وضو کرنے کیلئے پانی نہ تھا ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پتھر کا ایک پیالہ لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا پورا ہاتھ ڈالنا چاہا لیکن پیالہ اس قد چھوٹا تھا کہ اس میں آپ کا پورا ہاتھ نہ آسکا ۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں اکٹھی کیں اور انھیں پیالے میں داخل کیا ۔ پھر تمام لوگوں نے وضو کیا ۔ میں نے پوچھا : وہ کتنے تھے ؟ انھوں نے کہا : وہ اسی افراد تھے ۔
• اسی طرح کا ایک اور معجزہ حضرت انس رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں :
وعنہ أیضا أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم وَأَصْحَابَہُ بِالزَّوْرَائِ ( قَالَ : وَالزَّوْرَاءُ بِالْمَدِیْنَةَ عِنْدَ السُّوقِ وَالْمَسْجِدِ فِیْمَا ثَمَّہْ)،دَعَا بِقَدَحٍ فِیْہِ مَاءٌ،فَوَضَعَ کَفَّہُ فِیْہِ،فَجَعَلَ یَنْبُعُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِه، فَتَوَضَّأَ جَمِیْعُ أَصْحَابِه،قَالَ،قُلْتُ: کَمْ کَانُوا یَا أَبَا حَمْزَۃَ ؟ قَالَ:کَانُوا زُہَاءَ الثَّلاَثِمِائَة۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم الزوراء پر تھے جو کہ مدینہ منورہ میں بازار کے پاس اور مسجد کے قریب ایک مقام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا دست مبارک رکھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹنا شروع ہو گیا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وضو کیا ، راوی ( قتادۃ )کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا : وہ کتنے تھے ؟ تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : وہ تین سو کے قریب تھے ۔
• حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو شدید پیاس لگی اور ان کے پاس پینے کیلئے پانی نہ تھا ، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پانی کا ایک برتن تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنا شروع کیا ۔ چنانچہ لوگ گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ہمارے پاس پینے اور وضو کیلئے پانی نہیں ہے اوراس وقت یہاں صرف وہی پانی ہے جو آپ کے سامنے ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست ِ مبارک اس برتن میں رکھ دیا جس سے آپ کی انگلیوں کےدرمیان سے چشموں کی طرح پانی پھوٹنے لگا ، لہذا ہم نے پانی خوب پیا اور وضو بھی کیا ۔میں نے (راوی نے) پوچھا : تم کتنے تھے ؟ تو انھوں (حضرت جابر رضی اللہ عنہ ) نے کہا : اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو پانی کافی ہو جاتا تاہم اس دن ہم ایک ہزار پانچ سو افراد تھے ۔
عن عبد اللہ قَالَ : کُنَّا نَعُدُّ الآیَاتِ بَرَکَةٌ وَأَنْتُمْ تَعُدُّوْنَہَا تَخْوِیْفًا،کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم فِی سَفَرٍ فَقَلَّ الْمَاءُ،فَقَالَ:(اُطْلُبُوْا فَضْلَةً مِنْ مَّاءٍ)، فَجَاؤُا بِإِنَاءٍ فِیْہِ مَاءٌ قَلِیْلٌ،فَأَدْخَلَ یَدَہُ فِی الْإِنَاءِ، ثُمَّ قَالَ : (حَیَّ عَلَی الطَّہُوْرِ الْمُبَارَكَ وَالْبَرَکَةُ مِنَ اللّٰہِ )،فَلَقَدْ رَأَیْتُ الْمَاءَ یَنْبُعُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم ،وَلَقَدْ کُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِیْحَ الطَّعَامِ وَہُوَ یُؤْکَلُ۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم معجزاتِ نبویہ کو باعث ِ برکت سمجھتے تھے جبکہ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ صرف (کفار کو ) ڈرانے کیلئے تھے۔ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ پانی کم ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بچا ہوا پانی لے آؤ۔ ‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک برتن لے آئے جس میں تھوڑا سا پانی تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا ، پھر فرمایا : آؤ بابرکت پانی کی طرف اور برکت تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے ۔ ‘‘ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹ رہا ہے۔ اور بعض اوقات جب کھانا کھایا جا رہا ہوتا تو ہم اس سے تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے ۔
• حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا : میں نے آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میں کمزوری محسوس کی ہے اور شاید ایسا بھوک کی وجہ سے ہے ! تو کیا تمھارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں ہے ۔ پھر انھوں نے جَو کی کچھ روٹیاں نکالیں ۔ اس کے بعد اپنی چادر کے ایک حصہ میں ان روٹیوں کو لپیٹااور انھیں میرے ہاتھوں میں پکڑا دیا اور چادر کا بقیہ حصہ مجھے اوڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کردیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں مسجد میں پہنچا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی موجود ہیں ، میں جا کر ان کے پاس کھڑا ہو گیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے پوچھا :
کیا تمھیں ابو طلحہ نے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کھانا دے کر بھیجا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے تمام لوگوں سے کہا : کھڑے ہو جاؤ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سمیت چل پڑے ۔
میں ان سب سے آگے چلتے ہوئے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آمد کی اطلاع دی ۔ تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ام سلیم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں کو لے کر پہنچ گئے ہیں اور ہمارے پاس انھیں کھلانے کیلئے کچھ بھی نہیں ! ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ تعالیٰ جانے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانیں !
پھر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا اور انھیں دیگر لوگوں سمیت گھر میں لے آئے۔ [ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا :اے اللہ کے رسول ! کھانا تو بہت تھوڑا ہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ہَلُمَّہْ،فَإِنَّ اللّٰہَ سَیَجْعَلُ فِیْہِ الْبَرَکَةَ )
’’ جو کچھ ہے لے آؤ ، اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا‘‘

گھر میں داخل ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(ہَلُمِّیْ یَا أُمَّ سُلَیْمٍ مَا عِنْدَكَ)
’’ اُم سلیم ! تمھارے پاس جو کچھ ہے لے آؤ۔ ‘‘
چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنہا وہی روٹیاں لے آئیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ان کے ٹکڑے توڑے گئے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ان پر گھی ڈال دیا ، اب وہ گویا کہ سالن تھا ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کچھ پڑھا جو اللہ نے چاہا ۔ [ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھانے کو ہاتھ لگایا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی ]اور فرمایا : (إِئْذَنْ لِعَشَرَۃٍ) ’’ دس آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دو ۔ ‘‘ تو انھوں نے دس آدمیوں کو اندر بلایا۔[ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(کُلُوْا وَسَمُّوا اللّٰہَ) ’’ بسم اللہ پڑھو اور کھانا شروع کردو ‘‘ ] انھوں نے خوب سیر ہو کر کھایااور اٹھ کر چلے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرفرمایا : (إِئْذَنْ لِعَشَرَۃٍ ) ’’دس آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دو ۔ ‘‘ تو انھوں نے مزید دس آدمیوں کو اندر بلایا ، انھوں نے بھی خوب سیر ہو کر کھایا اور اٹھ کر چلے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرفرمایا :(إِئْذَنْ لِعَشَرَۃٍ ) ’’ دس آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دو۔‘‘ تو انھوں نے مزید دس آدمیوں کو اندر بلایا ، انھوں نے بھی خوب سیر ہو کر کھایا اور اٹھ کر چلے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرفرمایا : (إِئْذَنْ لِعَشَرَۃٍ) ’’ دس آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دو ۔ ‘‘ اس طرح تمام لوگوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور وہ کوئی ستریا اسی افراد تھے ۔ [ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور گھر کے باقی افراد نے کھانا کھایا ، اب بھی کھانا بچا ہوا تھا تو انھوں نے پڑوسیوں کو بھیج دیا۔]
• حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں خندق کھودی جا رہی تھی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت بھوک کی حالت میں دیکھا ، میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس سے کہا : کیا تمھارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ شدید بھوک کی وجہ سے لاغر ہو چکے ہیں ! تو اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع ( تقریبا اڑھائی کلو ) جَو تھے ۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس بکری کا ایک پالتو بچہ بھی تھا جسے میں نے ذبح کر دیا۔ میری بیوی جب آٹا گوندھ کر فارغ ہوئی تو میرے پاس آئی ، میں نے گوشت کے ٹکڑے کئے اور اسے اس کی ہنڈیا میں ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہو گیا ۔ میری بیوی نے جاتے وقت مجھ سے کہا کہ ( چونکہ کھانا کم ہے اس لئے ) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے سامنے رسوا نہ کرنا ۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور راز داری کے انداز میں گذارش کی : اے اللہ کے رسول ! ہمارے پاس بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا جسے ہم نے ذبح کیا ہے اور میری بیوی نے ایک صاع جَو کا آٹا تیار کیا ہے ، لہذا آپ اپنے چند ساتھیوں سمیت ہمارے گھر میں تشریف لائیں ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچی آواز میں فرمایا:
(( یَا أَہْلَ الْخَنْدَقِ،إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ لَکُمْ سُوْرًا،فَحَیَّہَلاَ بِکُمْ))
’’ اے اہلِ خندق ! بے شک جابر رضی اللہ عنہ نے تمھارے لئے کھانا تیار کیا ہے ، لہذا تم سب چلو۔ ‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا :
(( لاَ تَنْزِلَنَّ بُرْمَتَکُمْ ، وَلاَ تَخْبِزَنَّ عَجِیْنَتَکُمْ حَتّٰی أَجِیْئَ ))
’’ تم اپنی ہنڈیا نہ اتارنا اور روٹی پکانا شروع نہ کرنا یہاں تک کہ میں آ جاؤں ۔ ‘‘
اب میں واپس اپنے گھر کو لوٹ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لوگوں کو اپنے ساتھ لئے تشریف لے آئے ، میں سیدھا اپنی بیوی کے پاس آیا تو اس نے کہا : آج تم ہی رسوا ہو گے ! میں نے کہا : میں نے تو وہی کیا ہے جو تم نے کہا تھا ۔
پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آٹا لے کرگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا لعابِ دہن ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ہنڈیا کی طرف متوجہ ہوئے ، اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ دہن ڈالا اور برکت کی دعا کی ۔ اس کے بعد فرمایا :
(( اُدْعِیْ خَابِزَۃً فَلْتَخْبِزْ مَعَكَ ، وَاقْدَحِیْ مِنْ بُرْمَتِکُمْ،وَلاَ تُنْزِلُوْہَا))
’’ ایک اور روٹی پکانے والی عورت کو بلا لو جو تمھارے ساتھ روٹی پکائے اور اپنی ہنڈیا سے پیالوں میں سالن ڈالتے جاؤ اور اسے نیچے نہ اتارنا ۔‘‘
لوگوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ ان سب نے کھانا کھایا اور پھر بھی کھانا بچا ہوا تھا ، اور وہ جب واپس لوٹے تو ہماری ہنڈیا ابھی پہلے کی طرح جوش مار رہی تھی اور روٹی بدستور پکائی جا رہی تھی ۔ (یعنی نہ سالن ختم ہوا ا ور نہ آٹا )
• حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن ایک درخت یا ایک کھجور کی طرف کھڑے ہوتے تھے ۔ ایک انصاری عورت یا ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کیلئے منبر نہ تیار کردیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اگر تمھارا دل چاہتا ہے تو ٹھیک ہے ۔‘‘
چنانچہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے منبر تیار کردیا اور جب جمعہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمانے کیلئے اسی منبر کی طرف متوجہ ہوئے ، لیکن کھجور کا وہ درخت چھوٹے بچوں کی طرح رونے لگ گیا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے اور اسے اپنے سینے سے لگالیا ۔ اس پر وہ اِس طرح سسکیاں بھرنے لگا جیسے روتا ہوا بچہ ُاس وقت سسکیاں بھرتا ہے جب اسے خاموش کرایا جا رہا ہو ۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( کَانَتْ تَبْکِیْ عَلٰی مَا کَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّکْرِ عِنْدَہَا))
’’ یہ اس بات پر رو رہا تھا کہ اپنے قریب جو ذکر سنا کرتا تھا (اب اس سے دور ہو گیا ہے ) ۔ ‘‘
• حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنِّیْ لَأعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّةَ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَیَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ،إِنِّیْ لَأعْرِفُہُ الْآنَ ))
’’ بے شک میں مکہ مکرمہ میں اس پتھر کو جانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کہا کرتا تھا ۔ اور میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں ۔ ‘‘
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فضائل ومعجزات ذکر کئے ہیںاور ظاہر ہے کہ اس مختصر سے خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فضائل ومعجزات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کو پہچاننے کی توفیق دے۔آمین
دوسرا خطبہ
عزیزان گرامی ! پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فضائل سماعت کرنے کے بعد آئیے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض خصوصیات بھی سماعت فرما لیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ خصوصیات حاصل ہیں جو اور کسی کو حاصل نہیں ، ان میں سے بعض خصوصیات یہ ہیں :
(۱) خاتم النبیین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کیلئے نبی اور رسول ہیں اور آپ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ، سو آپ پوری نسلِ انسانیت کیلئے ہادی اور راہنما ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ‎﴿٢٨﴾
’’ ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ، مگر لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔‘‘
نیز فرمایا :
﴿قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعًا
’’ کہہ دیجئے ! اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ ‘‘
نیز فرمایا:
﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أبَا أَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَبِیِّیْنَ
’’ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ، لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ۔ ‘‘
یعنی آپ پرنبوت ورسالت کا خاتمہ کردیا گیا ہے ، اب آپ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ یقینی طور پر کذاب اور دجال ہو گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( إِنَّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْأنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَأَحْسَنَہُ وَأَجْمَلَہُ ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِهِ وَیَعْجَبُوْنَ لَہُ وَیَقُوْلُوْنَ : ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَةُ ؟ قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَةُ،وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ))
’’میری اور مجھ سے پہلے آنے والے انبیاء کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص مکان بنائے ، اس کی تعمیر نہایت خوبصورتی سے کرے اور اسے خوب سجائے لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دے ۔ پھر لوگ اس کا چکر لگائیں اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر حیران ہوں ۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہیں کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی ! تو میں در اصل وہ آخری اینٹ ہوں اور اسی لحاظ سے خاتم النبیین ہوں ۔ ‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قصرِ نبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری اینٹ کی حیثیت رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس قصر میں کسی اضافے کی گنجائش نہیں رہی ۔
(۲) اُمت محمدیہ سب سے افضل امت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سابقہ تمام امتوں کی نسبت سب سے افضل اور بہترین امت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‎﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
’’ اور اسی طرح ہم نے تم کو افضل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو ۔ ‘‘
نیز فرمایا :
﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾‏ 
’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے پیدا کی گئی ہے ( کیونکہ ) تم نیکی کاحکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہو ، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ تمھاری مدت سابقہ امتوں کی مدت کے مقابلے میں اتنی ہے جتنی نمازِ عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک ہوتی ہے ۔ اور تمھاری اور یہود ونصاری کی مثال ایسے ہے جیسا کہ ایک آدمی کچھ مزدور لے آئے اور کہے : صبح سے دوپہر تک ایک قیراط پر کون مزدوری کرے گا ؟ تو یہودیوں نے ایک قیراط پر دوپہر تک مزدوری کی ۔ پھر اس نے کہا : اب دوپہر سے نمازِ عصر تک ایک قیراط پر کون مزدوری کرے گا ؟ تو نصاری نے دوپہر سے نمازِ عصر تک ایک ایک قیراط پر مزدوری کی ۔ پھر اس نے کہا : اب نمازِ عصر سے غروبِ آفتاب تک دو قیراط پر کون مزدوری کرے گا ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خبردار ! وہ تم ہی ہو جنہوں نے نمازِ عصر سے غروبِ آفتاب تک دو قیراط پر مزدوری کی، خبردار ! تمھارا اجر دوگنا ہے ۔ چنانچہ یہود ونصاری غضبناک ہو کر کہنے لگے : ہم نے زیادہ مزدوری کی تھی لیکن ہمیں اجر کم ملا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا میں نے تمہارا حق مار ا اور تم پر ظلم کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں اسے عطا کروں ۔ ‘‘
(۳) چھ خصوصیات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض خصوصیات کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں :
(( فُضِّلْتُ عَلَی الْأنْبِیَاءِ بِسِتٍّ :أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ،وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ،وَجُعِلَتْ لِیَ الْأرْضُ طَہُوْرًا وَّمَسْجِدًا،وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً،وَخُتِمَ بِی النَّبِیُّوْنَ))
’’ مجھے چھ چیزوں کے ساتھ دوسرے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے : ایک یہ کہ مجھے جامع کلمات دئے گئے ہیں ، دوسری یہ کہ رعب ودبدبہ کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے ، تیسری یہ کہ میرے لئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا ہے ، چوتھی یہ کہ زمین کو میرے لئے پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ اور مسجد بنایا گیا ہے ، پانچویں یہ کہ مجھے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور چھٹی یہ کہ میرے ذریعے سلسلۂ نبوت کو ختم کیا گیا ہے ۔‘‘
دوسری روایت میں فرمایا :
(( أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِیْ : کَانَ کُلُّ نَبِیٍّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِهِ خَاصَّةٌ ، وَبُعِثْتُ إِلٰی کُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ ، وَلَمْ تُحَلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ، وَجُعِلَتْ لِیَ الْأرْضُ طَیِّبَةٌ طَہُوْرًا وَّمَسْجِدًا،فَأَیُّمَا رَجُلٍ أَدْرَکَتْہُ الصَّلَاۃُ صَلّٰی حَیْثُ کَانَ،وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ بَیْنَ یَدَیْ مَسِیْرَۃِ شَہْرٍ، وَأُعْطِیْتُ الشَّفَاعَةَ ))
’’ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں : پہلی یہ کہ ہر نبی کو اس کی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جبکہ مجھے ہر گورے اور کالے کی طرف بھیجا گیا ہے ۔ دوسری یہ کہ میرے لئے غنیمتوںکا مال حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی کیلئے حلال نہیں کیا گیا تھا ۔تیسری یہ کہ زمین کو میرے لئے پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ اور مسجد بنایا گیا ہے ۔ لہذا جہاں کہیں نماز کا وقت ہو جائے انسان وہیں نماز ادا کر لے ۔ چوتھی یہ کہ میں جب ایک ماہ کی مسافت پر دشمن سےدور ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ دشمن کے دل میں میرا رعب ودبدبہ بٹھا دیتا ہے ۔ پانچویں یہ کہ مجھے ( روزِ قیامت ) شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔‘‘
(۴) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ پر جھوٹ بولنا ‘ یعنی کسی من گھڑت بات یا جھوٹے عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا انتہائی سنگین جرم اور کبیرہ گناہ ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
(( إِنَّ کَذِبًا عَلَیَّ لَیْسَ کَکَذِبٍ عَلٰی أَحَدٍ ، فَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ))
’’ مجھ پر جھوٹ بولنا کسی عام آدمی پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے ۔اور جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے ۔ ‘‘
لہٰذا کسی حدیث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے سے پہلے اس کے متعلق تحقیق کر لینا ضروری امر ہے ، اگر وہ صحیح سند سے ثابت ہو تو اسے بیان کیا جائے ورنہ اسے بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ خاص طور پر اس دور میں تو اس بات کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ جھوٹی اور من گھڑت احادیث زباں زدِ عام وخاص ہو چکی ہیں حتی کہ بعض کم علم لوگ فضائل اعمال میں ضعیف اورجھوٹی روایات کو بیان کرنا جائز تصور کرتے ہیں اور بڑے زور شور سے انھیں بیان کرتے ہیں ۔
(۵) معصوم
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں اور تبلیغ ِ رسالت میں غلطی سے پاک ہیں ۔
فرمان الٰہی ہے :
﴿وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ‎﴿١﴾‏ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ‎﴿٢﴾‏ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ‎﴿٣﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ‎﴿٤﴾‏
’’ قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے کہ تمھارے ساتھی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ گمراہ ہیں اور نہ ٹیڑھی راہ پر ۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ۔ ‘‘
ان آیات سے ثابت ہوا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ ِ رسالت میں معصوم ہیں اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور ثابت شدہ تمام فرامین اللہ تعالیٰ کی وحی ہیں اور ان کی اتباع بھی اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ قرآن مجید کی اتباع ضروری ہے ۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث بھی سنتا اسے حفظ کرنے کی نیت سے لکھ لیا کرتا تھا ، لیکن قریش نے مجھے اس سے منع کیا اور انھوں نے کہا : تم جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے ہو اسے لکھ لیتے ہو حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک انسان ہیں ۔ اور کبھی آپ خوشی میں بات کرتے ہیں اور کبھی غصے میں ! تو میں نے لکھنا بند کردیا ، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت مبارک سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
(( اُکْتُبْ،فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا یَخْرُجُ مِنْہُ إِلَّا حَقٌّ))
’’ تم لکھتے رہو کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس منہ سے حق بات کے علاوہ کوئی اور بات نہیں نکلتی ۔ ‘‘
(۶) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ خصوصیات جن کا تعلق روزِ قیامت سے ہے ان میں سے چند ایک کا ذکراحادیث مبارکہ میں سماعت فرمائیے ۔
۱۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ، وَأَوَّلُ مَنْ یَّنْشَقُّ عَنْہُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ ، وَأَوَّلُ مُُشَفَّعٍ)
’’ میں قیامت کے دن اولادِ آدم ( علیہ السلام ) کا سردار ہو نگا ۔اور سب سے پہلے میری قبر کا منہ کھولا جائے گا۔ سب سے پہلے میں شفاعت کرونگا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی ۔ ‘‘
۲۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا فَخْرَ،وَبِیَدِیْ لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ،وَمَا مِنْ نَّبِیٍٍّ یَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِیْ،وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ،وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ،وَلَا فَخْرَ))
’’ میں روزِقیامت اولادِ آدم کا سردار ہو نگا اور اس میں کوئی فخر کی بات نہیں ہے ۔ میرے ہاتھ میں ’’ الحمد ‘‘ کا جھنڈا ہو گا اور اس میں بھی کوئی فخر کی بات نہیں ہے ۔ اس دن حضرت آدم ( علیہ السلام ) اور ان کے علاوہ دیگر تمام انبیاء میرے جھنڈے تلے جمع ہو نگے ۔ سب سے پہلے میں شفاعت کرونگا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی اور اس میں بھی کوئی فخر کی بات نہیں ہے ۔ ‘‘
۳۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَنَا أَکْثَرُ الْأنْبِیَاءِ تَبِعًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ یَّقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ ))
’’ قیامت کے دن دوسرے تمام انبیاء کی نسبت سب سے زیادہ پیروکار میرے ہو نگے اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ ‘‘
۴۔ مقامِ محمود … تمام اہلِ محشر کیلئے شفاعت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہو ںگااور کیا تمھیں پتہ ہے کہ ایسا کس طرح ہو گا؟ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کرے گا جہاں ایک منادی ( پکارنے والے ) کی آواز کو سب سن سکیں گے اور سب کو بیک نظر دیکھا جا سکے گا ۔ سورج قریب آجائے گا اور لوگوں کے غم اور صدمے کا یہ عالم ہو گا کہ وہ بے بس ہو جائیں گے اور اپنی پریشانیوں کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔ چنانچہ وہ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم سب کی حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟ تو کیا تم کسی ایسے شخص کو نہیںڈھونڈتے جو تمہارے رب کے ہاں تمھارے حق میں شفاعت کر ے ؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے : چلو آدم ( علیہ السلام ) کے پاس چلتے ہیں ، پھر ان کے پاس جاکر ان سے کہیں گے:
اے آدم ! آپ ہمارے اور تمام انسانوں کے باپ ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی روح سے روح پھونکی اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا تووہ آپ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے، آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا کیا عالم ہے ؟
حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھااور نہ ہی پھر کبھی ہو گا ۔ اور اس نے مجھے درخت کے قریب جانے سے منع کیا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی ۔
(نَفْسِیْ نَفْسِیْ ) آج تو مجھے اپنی ہی فکر لاحق ہے ، تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ اور میری رائے یہ ہے کہ تم نوح ( علیہ السلام ) کے پاس چلے جاؤ ۔چنانچہ وہ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے : اے نوح ! آپ زمین پر اللہ کے پہلے رسول تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے شکر گزار بندہ قرار دیا، آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو رہی ہے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا کیا عالم ہے ؟
حضرت نوح علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھا اور نہ ہی پھر کبھی ہو گا۔ اور میں نے اپنی قوم پر بددعا کی تھی اس لئے ( نَفْسِیْ نَفْسِیْ ) آج تو مجھے اپنی ہی فکر لاحق ہے ، تم ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے :
اے ابراہیم ! آپ اللہ کے نبی اور تمام اہلِ زمیں میں سے آپ ہی اس کے خلیل تھے ، آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی تھا اور نہ پھر کبھی ہو گا ۔ اور وہ (ابراہیم علیہ السلام ) اپنی تین غلطیاں یاد کریں گے اور کہیں گے: (نَفْسِیْ نَفْسِیْ) آج تو مجھے اپنی ہی فکر لاحق ہے ، تم موسی ( علیہ السلام )کے پاس چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ موسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے:
اے موسی !آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے ساتھ اور آپ کے ساتھ کلام کرکے دوسرے لوگوں پر فضیلت دی ، آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟
حضرت موسی علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھا اور نہ ہی پھر کبھی ہو گا ۔ اور میں نے ایک ایسی جان کو قتل کردیا تھا جسے قتل کرنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا ۔ ( نَفْسِیْ نَفْسِیْ) آج تو مجھے اپنی ہی فکر لاحق ہے ، تم عیسی( علیہ السلام ) کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ وہ عیسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے :
اے عیسی ! آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ نے ماں کی گود میں لوگوں سے بات چیت کی ، آپ اللہ کے کلمۂ (کن ) سے پیدا شدہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے مریم ( علیہا السلام ) کی طرف ڈال دیا تھااور آپ اللہ تعالیٰ کی روح سے ہیں ۔ توآپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے؟
حضرت عیسی علیہ السلام جواب دیں گے : بے شک میرارب آج اتنا غضبناک ہے جتنا پہلے کبھی نہ تھا اور نہ ہی پھر کبھی ہو گا۔اور انھیں اپنی کوئی غلطی یاد نہیں آئے گی ( مگر پھر بھی وہ کہیں گے): (نَفْسِیْ نَفْسِیْ ) آج تو مجھے بس اپنی ہی فکر لاحق ہے ، تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس چلے جاؤ ۔ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور کہیں گے : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الأنبیاء ہیں اور آپ کی اگلی پچھلی خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف کردی ہیں، آپ اپنے رب کے ہاں شفاعت کریں ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کیا ہو رہی ہے ؟ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری پریشانی کا عالم کیا ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، پھر اللہ تعالیٰ مجھے شرحِ صدر عطا کرے گا اور مجھے اپنی حمد وثنا ء کے ایسے ایسے الفاظ الہام کرے گا جو مجھ سے پہلے کسی پر اس نے الہام نہیں کئے تھے ، پھر کہے گا :
(( یَا مُحَمَّدُ ، اِرْفَعْ رَأْسَكَ،سَلْ تُعْطَہْ، اِشْفَعْ تُشَفَّعْ))
اے محمد ! اپنا سر اٹھاؤ اور سوال کرو آپ کا مطالبہ پورا کیا جائے گا ۔ اور آپ شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا :( یَا رَبِّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ) اے میرے رب ! میری امت ( کو معاف کردے ) میری امت ( کو جہنم سے بچا لے ۔)
کہا جائے گا :
(( أَدْخِلِ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَّا حِسَابَ عَلَیْہِ مِنَ الْبَابِ الْأیْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَہُمْ شُرَکَاءُ النَّاسِ فِیْمَا سِوَی ذٰلِكَ مِنَ الْأبْوَابِ))
اے محمد ! اپنی امت کے ہر اس شخص کو جو حساب وکتاب سے مستثنیٰ ہے جنت کے دائیں دروازے سے جنت میں داخل کردیں ، یہ لوگ جنت کے باقی دروازوں سے بھی آنے جانے کے مجاز ہو نگے ۔
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! بے شک جنت کے ہر دو کواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا جتنا مکہ مکرمہ اور ہجر کے درمیان یا مکہ مکرمہ اور بُصری کے درمیان ہے۔‘‘ (بخاری کی روایت میں مکہ مکرمہ اور حمیر کا ذکر ہے ۔)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہونگے ، ہر امت اپنے نبی کے پیچھے جائے گی اور کہے گی : اے فلاں ! شفاعت کریں ، اے فلاں! سفارش کریں یہاں تک کہ شفاعت کیلئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا۔ اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا ۔ ‘‘
اورحضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’… لوگ تین مرتبہ شدید گھبراہٹ میں مبتلا ہو نگے ۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے : آپ ہمارے باپ ہیں ، لہذا آپ اپنے رب کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں ۔ تو وہ کہیں گے : میں نے ایک گناہ کیا تھا جس کی وجہ سے مجھے ( جنت سے ) زمین کی طرف اتار دیا گیا تھا ، تم نوح ( علیہ السلام ) کے پاس چلے جاؤ ۔ ( تو وہ ان کے پاس جائیں گے اور ان سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں گے لیکن ) وہ کہیں گے : میں نے اہلِ زمیں کے خلاف بد دعا کی تھی جس کی وجہ سے انھیں ہلاک کردیا گیا تھا۔ لہٰذا تم ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس چلے جاؤ ۔ تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے (اور ان سے سفارش کرنے کی التجا کریں گے لیکن ) وہ کہیں گے : میں نے تین جھوٹ بولے تھے اس لئے تم موسی( علیہ السلام ) کے پاس جاؤ ۔ تو وہ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ کہیں گے : میں نے ایک جان کو قتل کیا تھا ، لہذا تم عیسی ( علیہ السلام) کے پاس جاؤ ۔ تو وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ کہیں گے :اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر میری عبادت کی گئی تھی اس لئے تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس چلے جاؤ۔ تو وہ میرے پاس آجائیں گے او رمیں ان کے ساتھ چل پڑوں گا۔
ابن جدعان کا بیان ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں گویا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا تھا جب آپ فرما رہے تھے :
’’ میں جنت کے دروازے پر آ کر دروازہ کھٹکھٹاؤں گا ، پوچھا جائے گا : کون ہے ؟ تو کہا جائے گا : محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ، لہٰذا وہ میرے لئے دروازہ کھول دیں گے اور مجھے خوش آمدید کہیں گے ، پھرمیں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤںگااوراللہ تعالیٰ مجھے حمدوثناء کے الفاظ الہام کرے گا،پھر کہا جائے گا:(اِرْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَ،وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ،وَقُلْ یُسْمَعْ لِقَوْلِكَ )
اپنا سر اٹھائیے اور سوال کیجئے آپ کا مطالبہ پورا کیا جائے گا ۔اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبو ل کی جائے گی ۔ اور آپ بات کیجئے آپ کی بات سنی جائے گی ۔
اور یہی ہے وہ مقامِ محمود جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے:
﴿عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : لوگوں میںسب سے زیادہ وہ کون خوش نصیب ہو گا جس کے حق میں روزِ قیامت آپ شفاعت کریں گے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :
(( لَقَدْ ظَنَنْتُ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ،أَنْ لَّا یَسْأَلَنِیْ عَنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَحَدٌ أَوْلٰی مِنْكَ لِمَا رَأَیْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَی الْحَدِیْثِ،أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ:مَنْ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ خَالِصًا مِّنْ قِبَلِ نَفْسِهِ))
’’ اے ابو ہریرہ ! مجھے یقین تھا کہ اس بارے میں تم ہی سوال کرو گے کیونکہ تمھیں احادیث سننے کا زیادہ شوق رہتاہے۔( تو سنو ) قیامت کے دن میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہو گا جس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے لا إلہ إلا اللہ کہا ۔‘‘
۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حوض
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ روزِ قیامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حوضِ کوثر عطا کیا جائے گا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے امتیوں کو پانی پلائیں گے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اونگھ طاری ہو گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا۔ ہم نے پوچھا : آپ کیوں مسکرا رہے ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت پڑھی :
﴿إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ‎﴿١﴾‏ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ‎﴿٢﴾‏ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ‎﴿٣﴾‏
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ الکوثر کیا ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) زیادہ جانتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ ایک نہر ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ، اس پر خیرِ کثیر موجود ہے۔ اور وہ ایسا حوض ہے جس پر میری امت کے لوگ قیامت کے دن آئیں گے ، اس کے برتنوں کی تعداد ستاروں کے برابر ہے۔ پھر کچھ لوگوں کو پیچھے دھکیلا جائے گا ۔ میں کہوں گا : اے میرے رب ! یہ تو میرے امتی ہیں ! کہا جائے گا : آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئے کام ایجاد کئے تھے ۔
اورحضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! حوض کے برتن کیا ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَآنِیَتُہُ أَکْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُوْمِ السَّمَاءِ وَکَوَاکِبِہَا فِیْ اللَّیْلَةِ الْمُظْلِمَةِ الْمُصْحِیَةِ،آنِیَةُ الْجَنَّةِ مَنْ شَرِبَ مِنْہَا لَمْ یَظْمَأْ آخِرَ مَا عَلَیْہِ،یَشْخَبُ فِیْہِ مِیْزَابَانِ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْ شَرِبَ مِنْہُ لَمْ یَظْمَأْ ،عَرْضُہُ مِثْلُ طُوْلِهِ،مَا بَیْنَ عَمَّانَ إِلٰی أَیْلَةَ،مَاؤُہُ أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ الثَّلْجِ وَأَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ))
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! اس کے برتن ان ستاروں سے زیادہ ہیں جو تاریک اور بے ابر ( صاف ) رات میں ہوتے ہیں ، وہ جنت کے برتن ہیں ، جو شخص ان سے پئے گا اسے پھر کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔اس میں جنت کے دو میزاب بہہ رہے ہوں گے ۔ جو شخص ایک بار اس پانی کو پی لے گا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابرہے جو اتنی ہے جتنی (عمان ) اور ( ایلہ ) کے درمیان ہے ۔ اس کا پانی برف سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا ۔ ‘‘
اورحضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( حَوْضِیْ مَسِیْرَۃُ شَہْرٍ،وَزَوَایَاہُ سَوَاءٌ،وَمَاؤُہُ أَبْیَضُ مِنَ الْوَرِقِ،وَرِیْحُہُ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْكَ،کِیْزَانُہُ کَنُجُوْمِ السَّمَاءِ،فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَا یَظْمَأُ بَعْدَہُ أَبَدًا))
’’ میرا حوض ایک ماہ کی مسافت کے برابر لمبا ہے اور اس کے کنارے برابر ہیں ( یعنی اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے ۔) اس کا پانی چاندی سے زیادہ سفید ہے اور اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ اچھی ہے۔ اور اس کے آبخورے ( برتن ) آسمان کے ستاروں کی طرح بہت زیادہ ہیں۔ جو شخص اس پر آئے گا اور ایک بار اس میں سے پی لے گا وہ اس کے بعد کبھی پیاسا نہیں ہو گا ۔ ‘‘
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اَلْکَوْثَرُ نَہْرٌ فِیْ الْجَنَّةِ حَافَتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ،وَمَجْرَاہُ عَلیَ الدُّرِّ وَالْیَاقُوْتِ،تُرْبَتُہُ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْكِ،وَمَاؤُہُ أَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ وَأَبْیَضُ مِنَ الثَّلْجِ))
’’ الکوثر جنت میں ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے اور اسکے بہنے کے راستے موتیوں اور یاقوت کے ہیں، اس کی مٹی کستوری سے زیادہ اچھی ہے اور اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے۔ ‘‘
یہ تھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض خصوصیات ۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ روزِ قیامت پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہمیں حوضِ کوثر کا پانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین