اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم کی فضیلت

953۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع پانی (کے ایک جوہر) کے کنارے، جسے خم کیا جاتا تھا، ہمیں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ کی حمد وثنا کی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر فرمایا:

((أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ یُو شَكُ أَنْ يَأْتِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيْكُمْ ثَقَلَيْنِ أوَلُهُما كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدٰى وَالنُّورُ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ))

’’اما بعد، لوگو! میں ایک انسان ہوں، قریب ہے کہ اللہ کا قاصد (اس کا بلاوا لے کر) میرے پاس آئے اور میں لبیک کہوں۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے، لہٰذا تم اللہ کی کتاب کو لے لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔‘‘ آپﷺ نے کتاب اللہ پر بہت زور دیا اور اس کی ترغیب دلائی، پھر فرمایا:

((وَأَهْلُ بَيْتِی أُذّكِّرُكُمُ اللهُ فِي أَهْلِ بَيْنِي، أُذّ كِّرُكُمُ اللهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذّ كِّرُكُمُ اللهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي)) (أخرجه مسلم:2408)

’’اور میرے اہل بیت، میں اپنے اہل بیت کے معاملے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے معاملے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے معاملے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں۔‘‘

حصین نے ان سے کہا: زید! آپﷺ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواج آپ کے اہل بیت نہیں؟ انھوں نے کہا: آپ کی ازواج آپ کے اہل بیت میں سے ہیں لیکن آپ کے اہل بیت میں ہر وہ شخص شامل ہے جس پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے، اس نے کہا: وہ کون ہیں ؟ ( زید رضی  اللہ تعالی عنہ  نے) کہا: وہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔

اس نے پوچھا: یہ سب صدقے سے محروم رکھے گئے ہیں؟ کہا: ہاں۔

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ہم نے پوچھا کہ آپﷺ کے اہل بیت کون ہیں ؟ آپ ﷺکی بیویاں ہیں؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ آدمی کی بیوی چاہے کتنا عرصہ اپنے شوہر کے ساتھ گزار لے، جب وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے باپ اور قبیلے ہی کی طرف لوٹ آتی ہے۔ آپ ﷺ کے اہل بیت سے مراد آپ کے خاندان کے وہ لوگ ہیں جنھیں آپ کی وفات کے بعد صدقے سے محروم رکھا گیا۔

توضیح و فوائد: امہات المومنین کو اہل بیت میں شامل نہ کرنا سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ ذاتی رائے ہے ورنہ ان کا اہل بیت ہونا تو قرآنی نص سے ثابت ہے۔ آیت تطہیر نازل ہی امہات المومنین کے بارے میں ہوئی۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے مکرم خانوادے کو تو دعا کر کے آپ نے اس میں شامل فرمایا ہے۔ اس لیے اہل بیت سے مراد کی نبی ﷺ کی بیویوں کے علاوہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس تھا ہیں۔ ان سب پر صدقہ حرام ہے۔ غدیر خم کے واقعہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ نے حجتہ الوداع کا سفر شروع کرنے سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو  یمن سے مال غنیمت اور صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا اور وہاں سے سیدھا مکہ پہنچنے کا حکم دیا۔ سیدنا علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے مال غنیمت تقسیم کیا۔ خمس کے حصے میں آنے والی لونڈی کے ساتھ انھوں نے شب بسر کی۔  خمس رسول ﷺ اپنی منشائے مبارک سے تصرف فرماتے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ چونکہ رسول اللہﷺ کے نائب تھے اور وہ ان افراد میں سے بھی تھے جن پر رسول اللہ ﷺ خمس سے خرچ کرتے تھے، اس لیے انھوں نے خمس میں سے ایک لونڈی اپنے لیے مختص کر لی لیکن بعض صحابہ نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سیدناعلی  رضی اللہ ت عالی عنہ حج کے لیے مکہ گئے تو دیگر صحابہ بھی عازم سفر ہوئے۔ راستے میں ایک دو مسائل پر ساتھیوں سے اختلاف ہوا کہ آکر سیدنا بریدہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم سے بات کی اور اپنی ناراضی کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کوئی بات نہیں۔ اگر تم مجھ سے محبت اور دوستی رکھتے ہو تو علی  رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی محبت رکھو اور ان باتوں کی طرف توجہ نہ دو۔ آپ چونکہ حج میں مصروف تھے، اس لیے اس بات پر زیادہ توجہ نہ دی۔

حج سے واپسی کا سفر شروع ہوا تو غالباً یمن سے آئے ہوئے لوگوں نے اس موضوع پر دوبارہ گفتگو کی جسے آپ نے محسوس فرمایا اور اس کا تدارک کرنے کے لیے خم کے مقام پر مذکورہ بالا وعظ فرمایا اور لوگوں کو اہل بیت کی عزت وتوقیر کرنے اور ان سے محبت کرنے کی ترغیب دی۔ یہ ساری تفصیل مسند احمد، صحیح البخاری، دلائل النبوة (بیہقی) اور الہدایہ والنھایہ وغیرہ میں موجود ہے۔

954۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری: ﴿نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءكُمْ﴾ ’’(تو آپ کہہ دیں: آؤ) ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلا لیں۔‘‘ (آل عمران61:3) تو رسول اللہﷺ نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہم کو بلایا اور فرمایا:

((اَللّٰهُمَّ هٰؤُلاءِأهلي)) ’’اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔‘‘(أخرجه مسلم:2404)

100

955۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺصبح کے وقت نکلے، آپ کے جسد اطہر پر کجاووں کے نقوش والی کالی اون کی ایک موٹی چادر تھی، سیدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو آپ نے انھیں چادر کے اندر لے لیا، پھر حسین رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو وہ بھی اندر داخل ہو گئے، پھر فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آئیں تو انھیں بھی اندر لے لیا، پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو انھیں بھی اندر لے لیا، پھر فرمایا (یہ آیت پڑھی:

﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾ (أخرجه مسلم:2424)

’’اللہ یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے، اے (رسول ﷺ کے) گھر والوا اور تمھیں اچھی طرح سے پاک کر دے۔‘‘ (الأحزاب 33:33)

956۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((إِنِّي لَأَنقَلِبُ إِلٰى أَهْلِي فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلٰى فِرَاشِي، فَأَرْفَعُهَا لِأٰكُلَهَا، ثُمَّ أَخْشٰى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً فَأَلْقِيهَا)) (أخرجه البخاري: 2432، و مسلم:1070)

’’جب میں اپنے گھر آتا ہوں تو اپنے بستر پر گری پڑی کھجور پاتا ہوں تو اسے کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں لیکن پھر اس اندیشے کے پیش نظر کہ یہ صدقہ ہوگی اسے پھینک دیتا ہوں۔‘‘

957۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے صدقے کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے لی اور اسے اپنے منہ میں ڈال لیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((كِخْ كِخْ اِرْمِ بِهَا، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ)) (أخرجه البخاري:1485،1491، 3072، ومسلم:1069)

’’تھو تھو، پھینک دو اسے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے؟‘‘

958۔ ابن ابی ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ خالد بن سعد نے صدقے کی ایک گائے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس بھیجی تو انھوں نے اسے واپس کر دیا اور فرمایا:

((إنَّا آلَ مُحَمَّدٍ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ)) . (أخرجه ابن أبي شيبة:214/3)

’’ہم آل محمد ﷺ کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔‘‘

959۔ سیدنا عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث (بن عبد المطلب) رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہما اکٹھے ہوئے اور دونوں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم ان دونوں لڑکوں، یعنی مجھے اور فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجیں اور یہ دونوں آپﷺ سے بات کریں تو آپ ان دونوں کو ان صدقات کی وصولی پر مقرر کر دیں، جو کچھ (دوسرے) لوگ (لا کر) ادا کرتے ہیں یہ دونوں ادا کریں اور انھیں بھی وہی کچھ ملے جو (دوسرے) لوگوں کو ملتا ہے (تو کتنا اچھا ہو)۔

وہ دونوں اسی (مشورے) میں (مشغول) تھے کہ سیدنا علی  رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور ان کے پاس ٹھہر گئے۔ ان دونوں نے اس بات کا ان کے سامنے ذکر کیا تو سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: آپ دونوں ایسا نہ کریں، اللہ کی قسم! نبی ﷺ یہ کام کرنے والے نہیں۔ اس پر ربیعہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ ان کے درپے ہو گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم محض اس لیے ہمارے ساتھ ایسا کر رہے ہو تاکہ تم ہم پر اپنی برتری جتاؤ اللہ کی قسم! تمھیں رسول اللہﷺ کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہوا تو ہم نے تجھ سے حسد نہیں کیا۔

سیدنا   علیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تم ان دونوں کو بھیج دو۔ وہ دونوں چلے گئے اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ وہیں لیٹ گئے۔ ابن ربیعہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو ہم آپ سے پہلے حجرے کے قریب

کھڑے ہو گئے۔ جب آپ تشریف لائے تو (اظہار اپنائیت کے طور پر ) ہمارے کان پکڑ لیے۔ پھر فرمایا: ((أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ))

’’تم دونوں کے دل میں جو کچھ ہے اسے نکالو (اس کا اظہار کروں۔‘‘

پھر آپ اندر داخل ہوئے، ہم بھی ساتھ ہی داخل ہو گئے، اس دن آپ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں تھے، ہم میں سے ہر ایک چاہتا تھا کہ دوسرا کلام کرے، پھر ہم میں سے ایک نے گفتگو شروع کی کہا: اللہ کے رسول! آپ سب لوگوں سے بڑھ کر احسان کرنے والے اور سب لوگوں سے زیادہ صلہ بھی کرنے والے ہیں۔ ہم دونوں نکاح کی عمر کو پہنچ گئے ہیں، ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں بھی صدقات کی وصولی پر مقرر فرما دیں، جس طرح دوسرے صدقات جمع کر کے لاتے ہیں ہم بھی لاکر دیں گے اور جو کچھ انھیں ملتا ہے ہمیں بھی ملے گا۔ آپ خاصی دیر تک خاموش رہے حتی کہ ہم نے (دوبارہ) گفتگو کرنے کا ارادہ کیا تو سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہ پردے کے پیچھے سے اشارہ کرنے لگیں کہ تم دونوں رسول اللہﷺ سے بات نہ کرو۔ کچھ دیر بعد آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، أَدْعُوا لِي مَحْمِيَةَ وَكَانَ عَلَى الْخُمْسِ وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ))

’’ال محمد کے لیے صدقہ روا نہیں، یہ تو لوگوں (کے مال) کا میل پاکیل ہے، محمیہ جو کہ خمس (غنیمت کے پانچویں حصے) پر مامور تھے اور نوفل بن حارث بن عبد المطلب کو میرے پاس بلا لاؤ۔‘‘

 وہ دونوں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے محمیہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا۔

((اَنْكِحْ هٰذَا الغُلَامَ ابنتَكَ)).

’’اس لڑکے، یعنی فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دو۔‘‘

تو اس نے ان کا نکاح کر دیا اور آپ نے نوفل بن حارث ﷺ سے کہا۔

((أَنكِحْ هٰذَا الْغُلَامُ ابْنَتَك))

’’تم اس لڑکے، یعنی مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کر دو۔‘‘

تو اس نے میرا نکاح کر دیا اور آپﷺ نے محمیہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:

((أصْدِق عَنْهُمَا مِنَ الْخَمْسِ كَذَا وَكَذَا)) . (أخرجه مسلم:1072)

’’خمس (جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے تھا) میں سے ان دونوں کا اتنا اسے حق مہر ادا کر دو۔‘‘

960۔ سیدنا انس  بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنفُسِهِمْ )) (أخرجه البخاري: 6761)

’’کسی گھرانے کا آزاد کردہ غلام اس کا ایک فرد ہوتا ہے۔‘‘

961۔ سیدنا ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے ایک آدمی کو جو مخزوم سے صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا تو اس نے ابورافع سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو، تمہیں بھی کچھ مل جائے گا، اس نے کہا: میں تو پہلے رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر آپ سے پوچھوں گا، چنانچہ وہ آپ ان کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:

((مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَإِنَّا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ)) (أخرجه أحمد:23872، 27182، وأبو داود:1650، والترمذي:657، والنسائي في المجتبى:107/5،وفي الكبرى2394)

’’قوم کا مولی ( آزاد کردہ) انھی میں سے ہوتا ہے اور ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: آزاد کردہ غلام کو مولی کہتے ہیں۔ وہ آزاد کرنے والوں ہی کی قوم میں شمار ہوتا ہے، اس لیے رسول اکرمﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام کو صدقہ وصول کرنے سے منع کر دیا۔

962۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کچھ گوشت، جو اس پر صدقہ کیا گیا تھا، نبی اکرم ﷺ کو بطور ہدیہ پیش کیا تو آپﷺ نے فرمایا:

((هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ)) (أخرجه البخاري:1495، 2577، ومسلم: 1074)

’’وہ بریرہ کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی آزاد کردہ لونڈی تھیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر صدقہ اصلاً حرام نہ تھا بلکہ رسول اکرم ﷺکی بیوی ہونے کی وجہ سے حرام تھا، اس لیے ان کی آزاد کردہ لونڈی پر بھی صدقہ حرام نہ ہوا کیونکہ یہ فرح در فرح کا معاملہ ہے۔

963۔ نبی ﷺکے ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ مسلم یوں درود پڑھا کرتے تھے:

((اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى أَهْلِ بَيْتِهِ وَعَلٰى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى أَهْلِ بَيْتِهِ وَعَلٰى أَزْوَاجِهِ وَذَرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)) (أخرجه أحمد:23173)

’’اے اللہ! تو رحمت نازل فرما محمد (ﷺ) پر، آپ کے اہل بیت، آپ کی بیویوں اور اولاد پر جس طرح تو نے رحمت نازل فرمائی آل ابراہیم پر یقینًا تو تعریف و بزرگی والا ہے، اور برکت نازل فرما محمد (ﷺ) اور آپ کے اہل بیت پر، آپ کی بیویوں اور اولاد پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر، یقینًا تو تعریف و بزرگی والا ہے۔‘‘

964۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((يَنقَطِعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كُلِّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ إِلَّا سَبْبِي وَنَسْبِي)) (أخرجه الطبراني في الكبير:2635، والحاكم: 142/3، وأبو نعيم في الحلية:314/7، والبيهقي في السنن: 64/7)

’’قیامت کے دن میرے تعلق اور نسب کے سوا تمام اسباب اور رشتہ داریاں ختم ہو جائیں گی۔‘‘

توضیح و فوائد: نبیﷺ سے نسبی اور سسرالی ہر دو رشتے روز قیامت قائم رہیں گے بشرطیکہ ایمان موجود ہو۔ اس سے بھی اہل بیت کی فضیلت اُجاگر ہوتی ہے۔

965۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَٰى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ بِاللهِ، وَمِنِ ادّعٰی قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فيهِمْ نَسَبٌ، فَلْيَتَبُوأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ)) (أخرجه البخاري:3508،و مسلم:61)

’’جو شخص دانستہ طور پر اپنے آپ کو حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جو شخص ایسی قوم میں سے ہونے کا دعوی کرے جس میں اس کا کوئی رشتہ نہ ہو تو وہ اپنا ـھکانا دوزخ میں بنا لے۔‘‘

توضیح و فوائد: اس روایت سے جعلی سید زادوں کی تردید ہوتی ہے۔