اہل کتاب سے قسم لینے کا طریقہ
706۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی کو نبی ﷺ کے قریب سے گزارا گیا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا۔ اسے کوڑے لگائے گئے تھے۔ آپ نے انھیں (ان کے عالموں کو) بلایا اور پوچھا:
(هٰكَذَا تَجِدُونَ حَدَّ الزَّانِي فِي كِتَابِكُمْ))
’’کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد اسی طرح پاتے ہو؟‘‘
انھوں نے کہا: جی ہاں۔ (بعد ازاں آپ کے حکم سے تو رات منگوائی گئی۔ انھوں نے آیت رجم چھپالی لیکن وہ ظاہر ہوگئی۔ اس کے بعد) آپ نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور فرمایا:
((أَنْشُدُكَ بِاللهِ الَّذِي أَنزَلَ التَّوْرَاةَ عَلٰى مُوسَى: أَهٰكَذَا تَجِدُونَ حَدَّ الزَّانِي فِي كتابكم؟))(أخرجه مسلم:1700)
’’تمھیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی علیہ السلام پر تورات نازل کی! کیا تم لوگ اپنی کتاب میں زانی کی حد اسی طرح پاتے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا: نہیں اور اگر آپ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتاتا۔
(ہم اپنی کتاب میں) رجم (کی سزا لکھی ہوئی) پانے ہیں۔ لیکن ہمارے اشراف میں زنا بہت بڑھ گیا۔ (اس وجہ سے) ہم جب کسی معزز کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کسی کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد نافذ کر دیتے تھے۔ ہم نے (آپس میں) کہا: آؤ! کسی ایسی چیز (سزا) پر جمع ہو جائیں جسے ہم معزز اور معمولی آدمی (دونوں) پر لاگو کر سکیں تو ہم نے رجم کے بجائے منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کی سزا) بنالی۔
اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَوَّلَ مَنْ أَحْيَا أَمْرَاكَ إِذْ أَمَاتُوهُ))
’’اے اللہ! میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جبکہ انھوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔‘‘
پھر آپﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے رجم کر دیا گیا۔
توضیح و قوائد: اگر اہل کتاب سے قسم لینے کی ضرورت پیش آئے جب بھی اللہ تعالی ہی کی قسم لینی چاہیے۔