اہمیت حفظ لسان

اہمیت حفظ لسان

﴿یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝﴾( النور:24)
گذشتہ گفتگو میں بات سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ زبان ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اگر اس کا استعمال صحیح نہ ہو تو یہ انسان کی دنیا و آخرت کے لئے تباہ کن بھی ہے اور ادھر یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں کہ انسان زبان کا صحیح استعمال کم اور غلط زیادہ کرتا ہے۔ الا ماشاء اللہ
زبان کے صحیح اور غلط استعمال کی تفصیل تو بہت طویل ہے، مگر اس کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ
((كلامُ ابْنِ آدَمَ كُلُّهُ عَلَيْهِ لالَهُ، إِلَّا أَمْرًا بِمَعْرُوفِ، أَوْ نَهْيًا عَنْ مُنكَرٍ، أَوْ ذِكْرَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ)) (الجامع الصغير:6417)
’’آپ ﷺنے فرمایا: ابن آدم کی ہر بات اس کے خلاف ہے، اس کے حق میں نہیں ہے، سوائے اس کے کہ نیک بات کا حکم کرنا، برائی سے روکنا یا اللہ تعالی کا ذکر کرنا۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
(إِنَّكَ لَنْ تَزَالَ سَالِمًا مَا سَكَتَّ، فَإِذَا تَكَلَّمْتَ كُتِبَ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ)) (صحيح الترغيب للألباني:2866)
’’تم جب تک خاموش رہو گے سلامت رہو گے جو نہی تم نے کلام کیا تمہارے حق میں لکھا گیا یا تمہارے خلاف لکھا گیا۔ ‘‘
اور پھر اس خلاصے کا بھی خلاصہ اور لب لباب یہ بیان فرمایا کہ:
((مَنْ صَمَتَ نَجَا)) (ترمذي:2501)
’’جس نے خاموشی اختیار کی وہ نجات پا گیا۔‘‘
گویا کہ زبان کھولنا، گفتگو کرنا محتاط سے محتاط ترین آدمی کے لئے بھی خطرے سے خالی نہیں ہے، چہ جائیکہ کوئی شخص بے احتیاطی سے اور فری سٹائل میں بات کرے، وہبات کرتے ہوئے اصول وضوابط کی پابندی کرے، نہ شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھے، نہ اخلاق کی پرواہ کرے اور نہ آداب کا لحاظ رکھے، تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پھر اُس کی گفتگو کتنی خطر ناک اور کس قدر تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔
یقینًا بے احتیاط گفتگو انسان کی دنیا اور آخرت کے لئے نہایت ہی مہلک اور تباہ کن ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس حقیقت کو دل کی گہرائی سے سمجھنا اور اس کی سنگینی کو پورے یقین اور اعتقاد کے ساتھ ماننا شاید اتنا آسان نہیں ہے، کیونکہ دنیا کی رونقوں اور رعنائیوں کا ایک حد تک انحصار گفتگو پر ہی ٹھہرتا ہے، تاہم یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں ہے کہ کوئی متوسط درجے کی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص اس کو سمجھ نہ سکے۔
اصل بات یہ ہے کہ کوئی اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے دنیا کی رونقیں ختم ہو جائیں گی ، اس کی رعنائیاں جاتی رہیں گی ، شادی بیاہ کی تقریبات کی رونقیں ماند پڑ جائیں گے، شور شرابے، اوٹ پٹانگ، ناچ گانے اور ڈی جے کے مواقع میسر نہیں آئیں گے، سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں بے ہودگی ، ہلڑ بازی، الزام تراشی اور ڈانس اور بھنگڑوں سے لطف اندوز ہونا تو ایک خواب بن کر رہ جائے گا، بازار ہونے اور ویران ہو جائیں گے، ان میں کشش باقی نہیں رہے گی کہ آدمی محض گھومنے کی غرض سے وہاں جاسکے، حتی کہ دینی جلسوں میں بھی وہ چاشنی باقی نہ رہے گی، کیونکہ پھر نہ وہاں دشنام طرازی ہوگی، نہ کفر کے فتوے ہوں گے نہ طعن و تشنیع ہوگی اور نعرے بازی ہوگی۔
تو بیشتر لوگ زبان کے بے دریغ استعمال اور بے احتیاط گفتگو کی سنگینی کو سمجھتا ہی نہیں چاہتے ، مگر تجاہل عارفانہ سے نتائج تو بدلنے سے رہے، کوئی سمجھنا چاہے یا نہ چاہے، نتائج بدستور وہی رہیں گے۔
اور عقل مند انسان کی نظر ہمیشہ نتائج پر ہوتی ہے، لیکن لوگوں کی غالب اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ فوری حاصل ہونے والی لذت کی طرف لپکتی ہے، نتائج کی پرواہ کئے بغیر، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَۙ۝وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ۝﴾(القيامة:20۔21)
’’ ہرگز نہیں! اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
انسان کی یہ فطری کمزوری ہے کہ اخلاقی پابندیاں اسے ناگوار گزرتی ہیں، وہ فسق و فجور میں تسلسل چاہتا ہے۔
﴿ بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَهٗۚ۝﴾(القيامة:5)
’’انسان چاہتا ہے کہ وہ آگے بھی فسق و فجور اور بداعمالیاں کرتا رہے۔‘‘
تو زبان کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے لازمی ہے کہ انسان پہلے اس حقیقت کو دل و جان سے تسلیم کرے، پختہ یقین کے ساتھ اور دل کی گہرائیوں سے اس کو مانے کہ گفتگو میں بے احتیاطی انسان کو اس دنیا میں ذلیل و رسوا کرتی ہے، اس کی شخصیت کو مجروح کرتی ہے اور آخرت میں بھی اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔
اگر وہ اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے، اچھا انسان بنا چاہتا ہے، ان پریشانیوں، مصیبتوں اور نقصانات سے بچنا چاہتا ہے تو اس تسلیم و اعتراف اور یقین و اعتقاد کے بغیر وہ اپنا مقصود حاصل نہیں کر سکتا۔ یادر ہے کہ زبان کی اصلاح کی جانب یہ پہلا اور بنیادی قدم ہے، ورنہ اس کی اصلاح کی راہ میں رکاوٹ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں، بتدریج انہیں بھی دور کرتا ہوگا اس حقیقت سے انکار کی صورت میں کوئی اپنے آپ کو دھو کہ تو دے سکتا ہے مگر نقصان سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔
کوئی اپنی بے راہ روی کا الزام تو دوسروں کو دے سکتا ہے، ان کا مذاق اڑا کر، ان پر پھبتیاں کس کر لطف اندوز تو ہو سکتا ہے اور بزعم خویش اپنے طرز عمل کا جواز تو پیش کر سکتا ہے، مگر حقائق کو نہیں بدل سکتا، وہ اپنے رویے کی سند جواز پیش کرنے کے لئے دوسروں کا مذاق اڑ ا سکتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَكُوْنَؗۖ۝وَ اِذَا مَرُّوْا بِهِمْ یَتَغَامَزُوْنَؗۖ۝وَ اِذَا انْقَلَبُوْۤا اِلٰۤی اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِیْنَؗۖ۝وَ اِذَا رَاَوْهُمْ قَالُوْۤا اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَضَآلُّوْنَۙ۝﴾(المطففين:29۔32)
’’مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے، جب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارے کرتے تھے اور جب اپنے گھروں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے، اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں ۔ ‘‘
مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے بجائے دوسروں کا مذاق اڑا کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے اور اپنے رویے کو جائز اور درست ثابت کرنے کی یہ ایک ناکام کوشش ہے۔ حقیقت میں یہ روش تو کفار و مشرکین کی تھی مگر افسوس کہ آج یہ رویہ اس مسلم معاشرے میں بھی بڑے فخر کے ساتھ اپنایا جاتا ہے، دین دار لوگوں کا اور دین کا کام کرنے والوں کا مذاق اڑا کر خوش ہوا جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے۔
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ یا جہاں پر خدا نہ ہو
اور کوئی کہتا ہے۔
نشہ اگر شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
تو اس طرح کی ہرزہ سرائی کر کے وہ اپنے ہم نواؤں سے خوب داد وصول کرتے ہیں، مگر حقیقت میں دو بڑے نادان ہیں، وہ جسے کسی شخص کا مذاق اڑانا سمجھتے ہیں وہ در حقیقت دین کا مذاق اڑانا ہے، اور اس بارے میں قرآن وحدیث میں بڑی شدید وعید بیان کی گئی ہے، جو کہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ تو زبان کے بے احتیاط استعمال کے نقصانات کی بات کر رہے تھے، کہ یہ ایک بہت ہی حساس خطر ناک اور سنگین مسئلہ ہے اور اس کی تکلیفی کو سمجھنے کے لئے قرآن وحدیث کے بہت سے دلائل میں سے ہم نے چند ایک کا ذکر کیا ہے۔
اس مسئلے کی اہمیت اور حساسیت کو سمجھنے کے بعد زبان کی اصلاح کی جانب دوسرا سب سے اہم قدم ، تکبر نخوت اور غصے سے جان چھڑانا ہے، ان چیزوں کے ہوتے ہوئے زبان پر ضبط نہیں کیا جاسکتا، زبان کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ بے جا غصہ آدمی کو ظلم و زیادتی پر ابھارتا ہے، وہ زیادتی ہاتھ سے بھی ہو سکتی اور زبان سے بھی، اور زیادہ تر زبان سے ہی ہوتی ہے اور قصہ بہادری کی نہیں بلکہ کمزوری کی علامت ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: آپﷺ نے فرمایا:
((لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغضب)) (صحيح البخاري:5114)
’’ پہلوان اور طاقت ور وہ نہیں جو اکھاڑے میں اپنے مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو پائے۔‘‘
‘کوئی شخص جسمانی طور پر کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، لیکن اگر وہ غصے کی حالت میں اپنے آپ پر ضبط نہیں کر پاتا تو اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے، جسمانی طاقت کے حساب سے وہ پہلوانوں جیسا ہوتا ہے، مگر دماغ اس کا بچوں جیسا ہوتا ہے۔ جیسا کہ بچے کو جب غصہ آتا ہے تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا اور ضدی سا بن جاتا ہے، ایسے ہی وہ شخص جو غصے پر قابو نہ پاسکے تو اس کے ہوش ٹھکانے نہیں رہتے ، بسا اوقات اپنے آپ کو ہی گالیاں دینے لگتا ہے، بیوی کو طلاق دے دیتا ہے، برتن توڑتا ہے، چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتا ہے، اور جو منہ میں آئے کہتا چلا جاتا ہے، غصے میں لال پیلا ہو رہا ہوتا ہے، منہ سےجھاگ نکل رہی ہوتی ہے سر اور گردن کی رگیں یوں پھول رہی ہوتی ہیں لگتا ہے کہ بس پھٹنے ہی والی ہیں۔
تو غصے پر ضبط کرتا، برداشت کرنا اصل بہادری ہے، رستم زمان گاما پہلوان کا نام آپ نے یقینًا سن رکھا ہوگا ، ہندوستان کی تاریخ میں اس جیسا پہلوان آج تک پیدا نہیں ہوا، کہتے ہیں کہ کسی ایک کمزور سے شخص نے ایک بار اس کے سر پر کوئی چیز ماری، جس سے اس کے سر سے خون بہنے لگا، گاما نے اپنے سر پر کپڑا لپیٹا اور خاموشی سے گھر چلا آیا، کسی نے کہا:
تعجب ہے آپ نے اس کو کچھ بھی نہیں کہا: حالانکہ آپ اگر اس کو ایک تھپڑ بھی مار دیتے تو شاید اس کی جان ہی نکل جاتی ؟
تو گامے نے کہا مجھے میری طاقت نے پہلوان نہیں بنایا، میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے، اور میں اس وقت تک رستم زمان رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی۔
تو آدمی کی اصل طاقت اور اس کی عزت اس کی قوت برداشت میں ہے، اور یقینًا آدمی کی بڑی بڑی خوبیوں میں سے ایک بہت بڑی خوبی اور صفت اس کی قوت برداشت ہے۔
ہم لوگ ہڈیوں اور گوشت کے ڈھانچے کو انسان سمجھتے ہیں جبکہ روح کے بغیر انسان کا ڈھانچہ اگر چہ انسان ہی ہوتا ہے، مگر زندہ نہیں ہوتا اور جسم اور روح کے ساتھ انسان زندہ تو ہوتا ہے، مگر اس کے اچھے یا برے ہونے کا تعین ابھی باقی ہوتا ہے۔
اچھا انسان ہونے کے لئے کچھ مخصوص اچھی صفات کا ہونا ضروری ہے اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو کوئی انسان اچھا انسان نہیں کہلا سکتا۔ اچھی صفات کی فہرست تو بہت طویل ہے، جو کہ اس وقت ہمارا موضوع سخن نہیں ہے، ہم اس وقت صرف اس ڈھانچے کو اچھی صفات کا پیرہن پہنانے کی ضرورت واہمیت پر بات کر رہے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا ڈھانچہ رکھنے میں اچھا لگے، آدمی کی شخصیت پر وقار، پرکشش اور معتبر نظر آئے اور اس کے لئے وہ اچھے سے اچھا لباس زیب تن کرتا ہے، خوشبو لگاتا ہے اور دیر تک آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر بال سنوارتا ہے اور جب وو بن ٹھن کر گھر سے باہر قدم رکھتا ہے تو پھر اس کی گردن اکثر جاتی ہے سینہ تن جاتا ہے اور چال میں غرور آ جاتا ہے۔
وہ اپنی شخصیت کا مظہر خوشنما بنانے میں تو ایک حد تک کامیاب ہو جاتا ہے، مگر اس کا یہ ظاہری روپ اُس وقت تک بہروپ ہی ہوتا ہے جب تک وہ اپنے اندر کے انسان کو خوبصورت اور خوشنما لباس نہیں پہنا لیتا۔
اور اندر کے انسان کا لباس، لباس التقوی ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ۝﴾ (الاعراف: 26)
’’ اے اولا و آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے، کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھائے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زمانت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقوی کا لباس ہے۔‘‘
اور جب تک اندر کا انسان لباس تقوی زیب تن نہیں کر لیتا تو انسان کی شخصیت کا سنیلس مکمل نہیں ہوتا، پیڈ تک رہتا ہے، اور تب تک اس کا روپ بہروپ رہتا ہے، کہ جس سے دو لوگوں کو بھی دھوکہ دیتا ہے اور اپنے آپ کو بھی ۔
یہ ظاہری شان و شوکت اور یہ میک اپ انسان کا ڈھانچہ تو اچھا بنا دیتے ہیں مگر اسے ایک اچھا انسان ہرگز نہیں بنا سکتے ، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ انسانیت دولت سے نہیں ہوتی ، بت اگر سونے کا بھی بن جائے تو انسان نہیں کہلاتا۔
انسان ظاہر اور باطن کے تضاد سے آدھی اچھی اور آدھی بری شخصیت نہیں بنتا، بلکہ پوری مکروہ شخصیت بن جاتا ہے، جیسا کہ اگر کوئی شخص سوٹڈ بوٹڈ ہو کر نائی وائی لگا کر بال سنوار کر خوشبولگا کر اور پوز بنا کر مجسمے کی طرح کھڑا ہو، یا کوئی شخص چہرے پر ڈاڑھی سجا کر، جبہ و دستار بین کر، سر جھکا کر آنکھوں سے چند سوے بہا کر، شعلہ بیانی کے جوہر دکھا رہا ہو، مگر جاننے والا اس کے اندر کے انسان سے واقف ہو، اس نے اس کے اندر کے انسان کے جوہر بھی دیکھے ہوں جو اس کی زبان کے ذریعے باہر آئے ہوں، تو اس کی شخصیت کا تصور جو اس کے ذہن میں ثبت ہو گا وہ آپ جانتے ہیں۔
تو خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ زبان کی حفاظت اور زبان کی اصلاح انسان کی دنیوی اور اخروی کامیابی کے لئے نہایت ضروری اور اہم ہے۔
اور حفاظت کا مطلب اچھی بات کہنا اور غلط بات سے باز رہنا ہے اچھی باتوں کی یقینًا انواع و اقسام ہیں اور ہر اچھی بات کا ایک خاص اجر و ثواب ہے، قیامت کے دن جہاں انسان کے اعمال تو لے جائیں گے تو وہاں ان میں اس کی اچھی باتیں بھی تو لی جائیں گی اور اچھی باتوں کا ایک سے بڑھ کر ایک ثواب ہوگا مگر ایک اچھی بات ایسی بھی ہوگی کہ جو میزان میں سب سے زیادہ بھاری ہوگی اور وہ اچھی بات حسن اخلاق ہوگی ، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((مَا مِنْ شَيْءٍ اثْقَلُ فِي الْمِيزَانَ مِنْ حُسْنِ الْخُلْقِ)) (سنن ابی داؤد:1799)
’’حسن اخلاق سے بڑھ کر میزان میں اور کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی۔‘‘
اور حسن اخلاق کا ایک ایسا بہت بڑا اجر و انعام ہو گا جو کہ ہر سچے مسلمان کی اولیں خواہش ہے وہ اسے حاصل ہو اور وہ یہ کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِني مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا))
’’تم میں سے سب سے زیادہ میرے پسندیدہ اور قیامت کے دن مجلس میں میرے سب سے قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے اخلاق کے اچھے ہیں۔‘‘
دوسری طرف زبان کی بے احتیاطی کے نتیجے میں ہونے والے بڑے بڑے نقصانات میں سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((وَإِنَّ أَبْعَضَكُمْ إِلَى وَاَبْعَدكُمْ مِنِّى مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثرثارُونَ، وَالْمُتَشَدِّقُونَ والمُتَفَيْهِقُون )) (ترمذي: 2018)
’’اور تم میں سے مجھے سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے دور وہ لوگ ہوں گے جو باتونی ہیں، جو باچھیں بھر بھر کر اور رعونت بھرے لہجے میں بات کرنے والے ہیں ۔‘‘
بک بک کرنے والوں کا یہ انجام تو آخرت میں ہو گا جب کہ دنیا میں بھی اس کے نقصانات ہیں، جن میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ لوگ اس سے ڈرتے اور نفرت کرتے ہیں اور اس کے قریب نہیں ہونا چاہتے کہ کہیں زبان کے تیر و نشتر سے زخمی نہ کر دے اور جب وہ مرتا ہے تو لوگ سکھ کا سانس لیتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ کچھ اس حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے امام الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احفظ لِسَانَكَ أَيُّهَا الإنسان
لَا يَلْدَ عَنَّكَ إِنَّهُ ثُعْبانُ
كم في المقَابِرِ من قَتِيْلِ لسانهِ
كانت تَهَابُ لِقاء الأقرانُ
’’اے انسان اپنی زبان کو سنبھال کہ کہیں تمھیں ڈس نہ لے کہ وہ تو سانپ ہے، کتنے ہیں اپنی زبانوں کے گھائل اور زخم خوردہ اور اپنی زبانوں کی وجہ سے قتل کیے گئے آج قبروں میں پڑے ہیں، کہ جن کے ہمعصر ان کا سامنا کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں ہماری زبانوں کے شر سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين