احسان کیا ہے؟
61-سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: مجھے
احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ((أَنْ تَعْبُدَ اللَهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)) (أخرجه مسلم:8)
’’(احسان) یہ (ہے) کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔“
62۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں (رسول اللہ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کے سوال کے جواب میں احسان کا یہ مطلب بیان کیا) ہے:
((أَنْ تَخْشَى اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)) (أخرجه البخاري:50، 4777) ومسلم:10، واللفظ له)
’’تم اللہ تعالی سے اس طرح ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے دیکھ نہیں رہے تو وہ یقینًا تمھیں دیکھ رہا ہے۔ ‘‘
63۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے جسم کے کسی ایک حصے کو پکڑ کر
فرمایا: ((أُعْبُدِ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاہُ)) ( أخرجه أحمد:6156)
’’تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ ‘‘
توضیح و فوائد: دین اسلام میں پہلا درجہ اسلام ہے، دوسرا ایمان اور تیسرا کامل ترین درجہ احسان ہے۔ احسان کی دو قسمیں ہیں:٭مخلوق کے ساتھ احسان ٭اللہ تعالٰی کی عبادت میں احسان۔ یہاں دوسری قسم کا بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان شعوری طور پر اللہ کی عظمت، بڑائی اور کبریائی اپنے دل میں پیدا کرے۔ اس سے انسان کے دل میں اللہ تعالی کا خوف وخشیت پیدا ہو گا اور خوف کا لازمی نتیجہ رجا اور امید ہے۔ جب یہ تینوں چیزیں مل جاتی ہیں تو اللہ کی محبت، معصیت اور برے کام کی رغبت و رجحان پر غالب آجاتی ہے، پھر انسان خلوت و جلوت میں گناہ سے بچتا ہے اور اپنے اور خالق کے مابین حائل ہونے والی ہر چیز کو حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے۔ یہی مقام احسان ہے۔
……………..