علی ،فاطمہ اور ان کے بیٹوں حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان
بنو ہاشم ،اللہ تعالیٰ کا چنیدہ گھرانہ ہے
صحیح مسلم میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
” إنَّﷲَ اصْطَفیٰ کَنَانَۃَ مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِیْلَ وَاصْطَفٰی قُرَیْشًا مِّنْ کَنَانَۃَ وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِیْ ہَاشِمٍ وَاصْطَفَانِيْ مِنْ بَنِيْ ہَاشِمٍ ” [صحيح مسلم 2276]
"بے شک اللہ نے اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو چن لیا
اورکنانہ سے قریش کوچن لیا
اور قریش سے اولادہاشم کو چن لیا
اورمجھے اولاد ہاشم سے چن لیا”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علی، فاطمہ اور ان کے بیٹوں حسنین کریمین کو اہل بیت میں شامل کرتے ہیں
آیت تطہیر سے استدلال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں :
[ نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : « اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا » [الأحزاب : ۳۳]
فِيْ بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ اَللّٰهُمَّ هَؤُلاَءِ أَهْلُ بَيْتِيْ فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِيْرًا
قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَ أَنَا مَعَهُمْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟
قَالَ ، أَنْتِ عَلٰی مَكَانِكِ وَ أَنْتِ إِلٰی خَيْرٍ ]
[ترمذي، المناقب، باب في مناقب أھل بیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ۳۷۸۷، و قال الألباني صحیح ]
’’جب یہ آیت :
« اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا »
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور انھیں ایک چادر کے اندر کر لیا اور علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کے پیچھے تھے، تو انھیں ایک چادر کے اندر کر لیا، پھر کہا :
’’اے اللہ! یہ میرے اہل بیت (گھر والے) ہیں، سو ان سے گندگی دور کر دے اور انھیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا۔‘‘
ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے کہا :
’’اے اللہ کے رسول! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’تو اپنی جگہ پر ہے اور تو بھلائی کی طرف ہے۔‘‘
آیت مباہلہ سے استدلال
نجران کے عیسائیوں کے وفد کے متعلق مشہور آیت مباہلہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ [آل عمران : 61]
پھر جو شخص تجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے، اس کے بعد کہ تیرے پاس علم آ چکا تو کہہ دے آئو! ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمھاری ورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمھیں بھی، پھر گڑگڑا کر دعا کریں ، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :
«فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ …»
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا،
پھر فرمایا :
[ اَللّٰهُمَّ هٰؤُلاَءِ اَهْلِيْ ] [مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ : ۳۲؍۲۴۰۴ ]
’’اے اللہ ! یہ میرے اہل ہیں۔‘‘
اہل بیت کا خیال رکھنے کا حکم
اہل بیت کے متعلق نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیرخم کے موقع پر فرمایا تھا کہ
أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ” فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» (مسلم، كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم، بَاب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،6225)
اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حج کے موقع پر عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ اپنی اونٹنی قصواء پر بیٹھے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي.
[سلسلۃ الأحاديث الصحیحۃ 2504]
اے لوگو! میں نے تم میں ایسی چیز چھوڑی ہے جسے تم پکڑ لو گے تو گمراہ نہیں ہوگے وہ ہے اللہ کی کتاب اور میرے گھر والے میرے اہل بیت۔
اہل بیت سے بغض، جہنم کا راستہ
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه! لَا يُبْغِضُنَا أَهَلَ الْبَيْتِ أَحَدٌ إِلَّا أَدْخَلَه اللهُ النَّار [السلسلۃ الصحیحۃ 3611، صحیح ابن حبان وسندہ حسن]
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو کوئی اہل بیت سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے آگ میں داخل کرے گا ۔
دوسری روایت میں ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
لو ان رجلا بین الرکن والمقام فصلی وصام ثم لقی اللہ و ھو مبغض لاہل بیت محمد دخل النار [المستدرک للحاکم وسندہ حسن]
اگر کوئی شخص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا ہو لیکن مرتے وقت دل میں اہل بیت سے بغض ہوا، تو جہنم میں جائے گا
علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ خیر
علی رضی اللہ عنہ کا پسندیدہ نام
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا
مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ بِهِ إِذَا دُعِيَ بِهَا [بخاری ،كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ 6280]
کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوئی نام ” ابو تراب “ سے زیادہ محبوب نہیں تھا۔ جب ان کو اس نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔
سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ
سنن الترمذي 3735
سب سے پہلے اسلام لانے والے علی رضی اللہ عنہ ہیں
نوٹ :اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ
أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ.
سنن الترمذي 3735
یعنی سب سے پہلے اسلام لانے والے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں
تو اس میں تطبيق یہ ہوگی کہ بچوں میں سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ اور جوانوں میں سے سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تھا
نیز عورتوں میں سب سے پہلے خدیجہ رضی اللہ عنھا
آزاد کردہ غلاموں میں سب سے پہلے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ
اور غلاموں میں سب سے پہلے بلال رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا
حب علی ایمان ہے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے متعلق فرمایا ہے
« وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ»
(صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب الدليل على أن حب الأنصار وعلى:رقم 78)
’’ مجھ سے مؤمن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ کے لیے جنت کی دعا کرتے ہیں
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ امْرَأَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ صَنَعَتْ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” يَدْخُلُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ". فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَهَنَّيْنَاهْ، ثُمَّ قَالَ : ” يَدْخُلُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ". فَدَخَلَ عُمَرُ فَهَنَّيْنَاهْ، ثُمَّ قَالَ : ” يَدْخُلُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ". فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْخِلُ رَأْسَهُ تَحْتَ الْوَدِيِّ فَيَقُولُ : ” اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ جَعَلْتَهُ عَلِيًّا ". فَدَخَلَ عَلِيٌّ فَهَنَّيْنَاهْ.
مسند أحمد 14550
علی جنتی ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ
(ترمذی ،بَاب مَنَاقِبِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،3747)
علی جنت میں ہیں
علی مجھ سے ہیں
اسی طرح نبیﷺ نے سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں بھی فرمایا:
«أَمَّا عَلَيٌّ فَهُوَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْهُ»
[ المستدرك للحاکم: ۳؍۱۳۰]
’’رہے علی! تو وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔‘‘
علی کی دوستی اللہ اور اسکے رسول کی دوستی
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ
ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ 3713
‘ جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں
علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِىٌّ مَوْلَاهُ اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»
[مسند أحمد بن حنبل: ۱؍۱۱۹]
’’جس جس کا میں دوست ہوں، علی بھی اس کے دوست ہیں۔ اے اللّٰهَ جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھى اس سے دشمنی رکھ۔‘‘
علی کی تکلیف نبی کی تکلیف
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ آذَى عَلِيًّا فَقَدْ آذَانِي
السلسلۃ الصحیحۃ 3577، والحاكم ولہ شاہد عند ابن حبان.
جس نے علی رضی اللہ عنہ کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی
علی کو گالی نبی کو گالی
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي
مسند أحمد 26748 صحیح
جس نے علی رضی اللہ عنہ کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی
نبی کو علی کے ساتھ بھائی کی طرح محبت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ
کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں ؟
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي
بخاری ،كِتَابُ المَغَازِي 4416
کیا تم اس پر خوش نہیں ہوکہ میرے لیے تم ایسے ہوجیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے علی رضی اللہ عنہ کے جسم سے مٹی صاف کرتے ہیں
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ علیہا السلام کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہیں پایا تو فرمایا کہ بیٹی تمہارے چچا کے لڑکے ( اور شوہر ) کہاں گئے ہیں ؟
انہوں نے کہا :
میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی وہ مجھ پر غصہ ہوکر باہر چلے گئے اور میرے یہاں ( گھر میں ) قیلولہ نہیں کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہاکہ دیکھو وہ کہاں ہیں ۔
وہ صحابی واپس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ تو مسجد میں سوئے ہوئے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر آپ کے پہلو سے گرگئی تھی اور گرد آلود ہوگئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے :
«قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَابٍ»
بخاری ،كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ 6280
ابو تراب ! ( مٹی والے ) اٹھو، ابو تراب ! اٹھو
خیبر کا جھنڈا علی کو دیا
سہل بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا:
«لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ»
کل میں ایسے شخص کے ہاتھ میں اسلامی جھنڈادوں گا جس کے ہاتھ پر اسلامی فتح حاصل ہوگی‘ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور جس سے اللہ اوراس کا رسول بھی محبت رکھتے ہیں ۔
رات بھر سب صحابہ کے ذہن میں یہی خیال رہا کہ دیکھئے کہ کسے جھنڈا ملتا ہے ۔ جب صبح ہوئی تو ہر شخص امیدوار تھا
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا :
«أَيْنَ عَلِيٌّ؟»
کہ علی کہاں ہیں
عرض کیا گیا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہو گیا ہے ۔
فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ
بخاري ،كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ 3009
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک تھوک ان کی آنکھوں میں لگایا اور ان کے لیے دعا کی ۔ اور اس سے انہیں صحت ہو گئی‘ کسی قسم کی بھی تکلیف باقی نہ رہی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو جھنڈا عطا فرمایا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ کی کوئی شکایت گوارا نہیں کیا کرتے تھے
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
(ایک واقعہ کی وجہ سے) چار آدمیوں نے طے کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی اللہ عنہ کی شکائت کریں گے
چنانچہ ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اورا س نے عرض کیا:
اللہ کے رسول ! کیا آپ کومعلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے؟
تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا
پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی توآپ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا
پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیر لیا
پھر چوتھا شخص کھڑا ہواتو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔
آپ نے فرمایا:
مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي (ترمذی ،أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ 3712)
تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیاچاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیاچاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ۱؎ اور وہ دوست ہیں ہراس مومن کاجو میرے بعدآئے گا
اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کوئی شکایت کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” أَيُّهَا النَّاسُ، لَا تَشْكُوا عَلِيًّا، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأُخَيْشِنٌ فِي ذَاتِ اللَّهِ "، أَوْ : ” فِي سَبِيلِ اللَّهِ ".
[مسند أحمد 11817 والحاكم وسندہ حسن]
علی کی شکایت نہ کرو وہ اللہ کی ذات کے معاملے میں اور اللہ کی راہ میں بہت سخت ہیں
بریدہ نے علی رضی اللہ عنہ کی شکائت لگائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل
عَنْ بُرَيْدَةَ ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ، فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ عَلِيًّا فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ، فَقَالَ : ” يَا بُرَيْدَةُ، أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ؟ ” قُلْتُ : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ".
[مسند احمد حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط الشيخين 22945]
علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پشین گوئی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پہاڑ پر تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود
ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
عثمان رضی اللہ عنہ
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
تو چٹان(جس پر یہ سب تھے) ہلنے لگی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اهْدَأْ، فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ ". [صحيح مسلم 2417]
” ٹھہرجاؤ ،تجھ پر نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ اور کو ئی نہیں ۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کا قاتل بدبخت ترین شخص قرار دیا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قاتل کو بدبخت ترین قرار دیا۔
آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
يا أبا تراب! ألا أحدثكما بأشقى الناس رجلين؟ قلنا: بلى يا رسول الله! قال: أحيمر ثمود الذي عقر الناقة، والذي يضربك على هذه (يعني قرن علي) حتى تبتلّ هذه من الدم – يعني لحيته .[السلسلة الصحیحة :1743]
’’کیا میں تمہیں دو انتہائی بدبخت لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں اے رسول اللہ !…اور دوسرا شخص وہ ہے ( پھر آپﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے سرکی چوٹی پر ہاتھ رکھا) اور فرمایا: جو یہاں ضرب لگائے گا اور جس سے یہ داڑھی خون سے تر ہو جائے گی۔ ‘‘
ایک روایت میں ہے
مرض عليُّ بنُ أبي طالبٍ مرضًا شديدًا حتى أدنفَ وخفنا عليه ثم إنه برأ ونقِهَ فقلنا هنيئًا لك أبا الحسنِ الحمدُ للهِ الذي عافاك قد كنا تخوَّفنا عليك قال لكني لم أخفْ على نفسِي أخبرني الصادقُ المصدوقُ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أني لا أموتُ حتى أُضربَ على هذه وأشار إلى مقدمِ رأسِه الأيسرِ فتُخضَبُ هذه منها بدمٍ وأخذ بلحيتِه وقال يقتلُك أشقَى هذه الأمةِ كما عقر ناقةَ اللهِ أشقَى بني فلانٍ من ثمودَ [رواہ ابو یعلی 569]وحسنه الھیثمی فی المجمع]
وکتبہ حسن ابو احمد محمد عبداللہ الاعظمی
حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کی فضیلت و منقبت
دونوں شہزادوں کے نام حسن اور حسین اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکھے گئے*
حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ جب (حضرت)حسن (رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام حمزہ رکھا اور جب (حضرت)حسین(رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام ان کے چچاکے نام پہ ’’جعفر‘‘رکھا- آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے بلایا اور ارشاد فرمایا:
’’إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أُغَيِّرَ اسْمَ ابْنَيَّ هَذَيْنِ‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں اپنے ان دونوں بیٹوں کے نام تبدیل کروں‘‘-
(حضرت علی المرتضیٰ( رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ) مَیں نے عرض کی: ’’اَللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ‘‘-’’اللہ اوراس کارسول بہتر جانتے ہیں‘‘- پھر آپ (ﷺ) نے ان کے نام مبارک حسن اورحسین رکھے-
حوالہ:( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،كِتَابُ الْأَدَبِ)
اس روایت کی سند کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (رقم: 2709) میں حسن کہا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو پھول
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا ". [صحيح البخاري،3753]
دونوں ( نواسے حسن وحسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے دوپھول ہیں
فداهما ابی وامی
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كان النَّبيُّ ﷺ يُصلِّي والحسَنُ والحُسَيْنُ يَثِبانِ على ظَهرِه فيُباعِدُهما النّاسُ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ حسنین آپ کی کی کمر مبارک پر چڑھ رہے تھے لوگ انہیں پیچھے ہٹانے لگے
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(دعوهما بأبي هما وأمِّي مَن أحَبَّني فلْيُحِبَّ هذَيْنِ)
[شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج صحيح ابن حبان ٦٩٧٠ • إسناده حسن]
میرے ماں باپ ان پر قربان، انہیں چھوڑ دو، جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ ان دونوں سے بھی محبت کرے
منبر سے اتر کر حسنین کو اٹھا لیا
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اورحسین رضی اللہ عنہما دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آرہے تھے ، آپ نے منبرسے اتر کر ان دونوں کو اٹھالیا، اور ان کو لاکر اپنے سامنے بٹھالیا ، پھر فرمایا:
” صَدَقَ اللَّهُ، { إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ }، نَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِيثِي وَرَفَعْتُهُمَا ". [ترمذي ،حكم الحديث: صحيح،3774]
‘ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے
{إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ }
(تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزئش ہیں) میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھالیا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن کو چومتے ہیں
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَمُصُّ لِسَانَہُ، أَوْ قَالَ: شَفَتَہُ یَعْنِی الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، وَإِنَّہُ لَنْ یُعَذَّبَ لِسَانٌ أَوْ شَفَتَانِ مَصَّہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۷۳)
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی زبان کو یا ہونٹ کو چوس رہے تھے اور جس زبان یا ہونٹوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چوما ہو، اسے عذاب نہیں ہوگا
حسین مجھ سے ہیں
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
«حُسَیْنُ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَیْن» [جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخِي عَلِيٍّ)، رقم 3775]
’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘
حسن مجھ سے ہیں
معاویۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا :
” هَذَا مِنِّي، وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ ” [سنن أبي داود،،صحیح، 4131]
یہ مجھ سے ہے اور حسین علی سے ہے
حسنین سے محبت اللہ تعالیٰ سے محبت
حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«أَحَبَّ اللّٰـهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا» [جامع الترمذي: أبواب المناقب، باب: رقم3775، حسن]
’’اللّٰہ اس سے محبت کرے جو حسین رضی اللّٰہ عنہ سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
«إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُمَا» [جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخِي عَلِيٍّ)، رقم 3769]
’’بے شک میں ان دونوں (حسن و حسین رضی اللّٰہ عنہما) سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا اے اللّٰہ! تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کرے۔‘‘
حسنین سے محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي [ابن ماجة ،حسن،143]
جس نے حسنین سے محبت کی تو گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے حسنین سے بغض رکھا تو اس نے مجھ سے بغض رکھا
جنت کے جوانوں کے سردار
سیدنا حسنین کریمین رضی اللّٰہ عنہماکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ» [جامع الترمذي، أبواب المناقب، باب مناقب أبي محمد الحسن بن على بن أبي طالب…:رقم ۳۷۶۸16]
’’حسن اورحسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
حسنین کریمین کے لیے آسمان کی روشنی رک گئی
سیدنا ابوہریرہ رضى الله عنه بیان کرتے ہیں ہم نے رسول الله صلی الله عليه وسلم کے ساتھ عشاءکی نماز ادا کی تو جب بھی آپ صلی الله عليه وسلم سجدہ فرماتے تو سیدنا حسن وحسین رضی الله عنھما آپ صلی الله عليه وسلم کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے سو جب آپ صلی الله عليه وسلم سجدے سے سر اٹھاتے تو آپ صلی الله عليه وسلم ان دونوں کو اپنے ہاتھ مبارک سے نرمی واحتیاط سے پکڑ کر زمین پر رکھ دیتے اور جب بھی وہ دونوں دوبارہ ایسا کرتے تو رسول الله صلی الله عليه وسلم بھی اسی طرح کرتے حتی کہ جب نماز مکمل ہو گئی تو آپ صلی الله عليه وسلم نے دونوں کو اپنی ران پر بٹھا لیا سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کہتے ہیں میں نے ان کی طرف کھڑے ہو کر عرض کی اے الله کے رسول صلی الله عليه وسلم کیا میں ان دونوں کو ان کی ماں کے پاس نہ لوٹا دوں
( فضائل صحابہ وغیرہ میں ہے تب آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا نہیں ادھر ہی رہنے دو) اسی اثنا میں آسمان پر بجلی چمکی تو آپ صلی الله عليه وسلم نے حسنین کریمین سے فرمایا تم دونوں جلدی سے اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کہتے ہیں وہ دونوں اس روشنی میں چلتے ہوئے گھر جا داخل ہوئے اور تب تک وہ روشنی آسمان پر رکی اور باقی رہی ۔
[مسند احمد، حكم الحديث: إسناده حسن 10659]
ابو بکر رضی اللہ عنہ کا حسن رضی اللہ عنہ سے پیار
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے پیار سے حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھا رکھا تھا اور کہہ رہے تھے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مشابہ ہیں [بخاری 375]
تابعی کلیب بن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں :
میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ میں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کو دیکھا ہے۔
ابن عباس فرمانے لگے :
”ان کا حلیہ بیان کرو۔“
میں نے کہا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنمہا بالکل ان کے جیسے ہیں۔
فرمایا :
”پھر تم نے واقعی دیکھا ہے۔“
(فتح الباري : ٣٧٤/١٢ ، قال الحافظ : سنده جيد)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حسن رضی اللہ عنہ سے والہانہ محبت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حسن رضی اللہ عنہ سے ملے تو انہیں کہا کہ آپ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھائیں تاکہ میں وہاں آپ کو بوسہ دوں جہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا تھا تو انہوں نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کو ناف پر بوسہ دیا [المستدرک للحاكم، إسناده صحیح]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حسین رضی اللہ عنہ سے محبت
ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ جنازہ پڑھا کر واپس آ رہے تھے اور سیدنا حسین (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ تھے۔ راستے میں جناب حسین کو تھکاوٹ کا احساس ہوا تو وہ کچھ دیر کے لیے بیٹھ گئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ آگے بڑھے اور اپنی چادر کے پلو سے حسین(علیہ السلام) کے جوتوں سے گرد صاف کرنے لگے۔ حسین علیہ السلام نے فرمایا:
ابوہریرہ! آپ ایسا کر رہے ہیں؟
ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ جوابا کہنے لگے:
مجھے چھوڑ دیجیے، آپ کے (مقام و مرتبے) کے متعلق جو میں جانتا ہوں، اگر لوگوں کو پتا چل جائے تو آپ کو اپنی گردنوں پہ اٹھا کر پھرا کریں!!
[طبقات ابن سعد، 6: 409؛ تاریخ دمشق لابن عساکر]
عمرو بن العاصؓ حسین رضی اللہ عنہ کی مدح سرائی کرتے ہیں
سیدنا عمرو بن العاصؓ کعبے کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے کہ حسین بن علی ؓ کو آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے فرمایا :“ھذا احب أھل الأرض إلیٰ أھل السماء الیوم” یہ شخص آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ (تاریخ دمشق ۱۸۱/۱۴ و سندہ حسن، یونس بن ابی اسحاق بریٔ من التدلیس کما فی الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ۲/۶۶ ص ۴۸)
فاطمہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ خیر
فاطمہ نبی کا جگر گوشہ
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے فرمایا :
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّى [ صحیح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب مناقب فاطمة رضي الله عنها:رقم 3714]
فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے
فاطمہ کی ناراضگی نبی کی ناراضگی
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّى، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي» [ صحیح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب مناقب فاطمة رضي الله عنها:رقم 3714]
’’فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ، اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَنَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ". [سنن الترمذي،3781،صحیح]
یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے انپے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان )کے سردار ہیں