اللہ کا پیغام ، بندوں کے نام

اہم عناصر :
❄ درگزر اختیار کریں ❄ نیکی کا حکم دیں ❄ جاہلوں سے کنارہ کش ہوجائیں
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ [الاعراف: 199]
ذی وقار سامعین!
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو اللہ تعالی کا پسندیدہ مذہب ہے ، اسلام ایسا مذہب ہے جو صرف عبادات کے طریقے ہی نہیں بتاتا بلکہ معاشرے میں رہنے کا طریقہ بھی بتاتا ہے. اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ معاشرے کے ساتھ کیسے چلنا ہے اور معاشرے میں رہتے ہوئے لوگوں کے ساتھ رویہ کیسا رکھنا ہے اور اسلام یہ بھی بتاتا ہے کہ لوگوں میں مل جل کر کیسے رہنا ہے۔اللہ تعالی نے قران مجید کی ایک آیت میں تین باتیں بیان فرمائی ہیں اور وہ تینوں باتیں تین معاشرتی اصول ہیں جن کو اپنا کر ہر بندہ بہت سکون سے زندگی گزار سکتا ہے اور اگر ان تین اصولوں کو مد نظر نہ رکھا جائے تو بہت سارا معاشرتی بگاڑ بھی سامنے آتا ہے اور بندہ بے سکون بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ [التوبہ: 199]
"درگزر اختیار کریں اور نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہوجائیں”
یہ تین معاشرتی اصول اس طرح ہیں کہ اگر آپ کو کوئی تنگ کرتا ہے ، تکلیف دیتا ہے تو آپ اس سے درگزر کریں اور دوسرا اصول یہ ہے کہ اس کو نیکی کا حکم دینا نہ چھوڑیں. مناسب وقت میں اور مناسب حد تک اس کو نیکی کا حکم دیتے رہیں اور تیسرا اصول یہ ہے کہ اگر وہ باز نہیں آتا، آپ کی بات نہیں مانتا تو وہ بندہ جاہل ہے اور اس سے کنارہ کش ہو جائیں۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم قران کریم کی اس آیت کو سمجھیں گے۔
1۔ درگزر اختیار کریں
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلی بات یہ کہی کہ خُذِ الْعَفْوَ درگزر اختیار کریں۔
"معاف کرنا” قرآن کی روشنی میں:
❄ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [النور: 22]
"اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔”
❄ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [آل عمران: 134] "جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔”
❄ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
"اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے، پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔” [الشوری: 40]
❄ وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ
"اور وہ لوگ جو بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور جب بھی غصے ہوتے ہیں وہ معاف کردیتے ہیں.” [الشوری: 37]
"معاف کرنا” احادیث کی روشنی میں:
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ [مسلم: 6592]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔”
❄ عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُخَيِّرَهُ اللَّهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ مَا شَاءَ [ابوداؤد: 4777] ترجمہ: جناب سہل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جو شخص غصہ پی جائے جبکہ وہ اس پر عمل درآمد کی قدرت رکھتا ہو تو اﷲ اسے قیامت کے دن برسر مخلوق بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جنت کی حورعین میں سے جسے چاہے منتخب کر لے۔“
❄ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ [ابوداؤد: 4800]
ترجمہ: سیدنا ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”میں ذمہ دار ہوں ایک محل کا ‘ جنت کی ایک جانب میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھگڑا چھوڑ دے ‘ اگرچہ حق پر ہو۔ اور ایک محل کا ‘ جنت کے درمیان میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے ‘ اگرچہ مزاح ہی میں ہو ‘ اور جنت کی اعلی منازل میں ایک محل کا ‘ اس شخص کے لیے جو اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے۔“
❄عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ يَقُولُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَمْ نَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَصَمَتَ ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ الْكَلَامَ فَصَمَتَ فَلَمَّا كَانَ فِي الثَّالِثَةِ قَالَ اعْفُوا عَنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً [ابوداؤد: 5164]
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم خادم کو کس قدر معاف کریں؟ تو آپ ﷺ خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال کیا ، تو آپ ﷺ خاموش رہے۔ پھر جب تیسری بار پوچھا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اسے ہر روز ستر بار معاف کرو۔

"معاف کرنا” مستند واقعات کی روشنی میں:
❄ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا ، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے (اسلام کو قبول نہیں کیا اور ) میری دعوت کو رد کر دیا ۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا ، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا ، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں ، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی ، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد ﷺ! پھر انہں نے بھی وہی بات کہی ، آپ جو چاہیں ( اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہوجائیں) نبی کریم ﷺ نے فرمایا ؛
بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
” مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔” [بخاری: 3231]
❄ سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) قریش کے سرداروں اور بڑے بڑے لوگوں نے کعبہ میں پنا لی، رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، بیت اللہ کا طواف کیا اور ان (۳۶۰) بتوں کے پاس سے گزرتے ہوئے انھیں کمان کے کنارے کے ساتھ ٹھوکا مارتے گئے اور یہ فرماتے گئے : ﴿جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا ﴾ [ بنی إسرائیل : ۸۱ ] جب فارغ ہوئے اور نماز پڑھ لی تو آکر دروازے کی چوکھٹ کے دونوں کناروں کو پکڑا، پھر فرمایا : ’’اے معشر قریش! (بولو) کیا کہتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’ہم کہتے ہیں (آپ) رحیم و کریم بھتیجے اور چچا زاد (بھائی) ہیں۔‘‘ آپ نے پھر ان کے سامنے اپنی بات دہرائی، انھوں نے وہی جواب دیا، تو آپ نے فرمایا : ’’پھر میں وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا : ﴿ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ﴾ چنانچہ وہ سب نکل کر آئے اور آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی۔ [ السنن الکبریٰ للنسائي :6؍382، ۳۸۳ح : ۱۱۲۹۸ ]
❄ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوا ر بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے ( سردار وں میں سے ) ایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑکر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ حضور اکرم ﷺ با ہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے؟ ( میں تیرے ساتھ کیا کروں گا ) انہوں نے کہا محمد! میرے پاس خیر ہے ( اس کے باوجود ) اگر آپ مجھے قتل کردیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے ، اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارااور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو ( احسان کرنے والے کا ) شکر اداکر تا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ وہاں سے چلے آئے ، دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا ثمامہ اب تو کیا سمجھتا ہے؟ انہوں نے کہا ، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں ، کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر اداکر تا ہے ۔ آنحضرت ﷺ پھر چلے گئے ، تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایاکہ ثمامہ کو چھوڑ دو ( رسی کھول دی گئی ) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کرکے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا ” اشھد ان لا الٰه الا الله واشھد ان محمد ا رسول الله “ اور کہا اے محمد! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لئے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لئے محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میر ا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا۔ اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بشارت دی اور عمر ہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بے دین ہوگئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد ﷺ کے ساتھ ایما ن لے آیا ہوں اور خدا کی قسم! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم ﷺ اجازت نہ دے دیں۔ [بخاری: 4372]
❄ سیدنا ثمامہ بن اثال نے واپس یمامہ جا کر مکہ والوں کا اناج بند کردیا. یمامہ ، اہل ِ مکہ کے لیے کھیت کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے وطن واپس جاکر مکہ کے لیے غلہ کی روانگی بند کردی۔ جس سے قریش سخت مشکلات میں پڑ گئے۔ اور رسول اللہ ﷺ کو قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے لکھا کہ ثمامہ کو لکھ دیں کہ وہ غلے کی روانگی بند نہ کریں ، رسول اللہ ﷺ نے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مکہ والوں کا اناج بند نہ کرو۔(الرحیق المختوم)
نوٹ: آپ ﷺ نے ان اسّی (۸۰) آدمیوں کو معاف کر دیا جو کوہِ تنعیم سے آپ پر حملہ آور ہونے کے لیے اترے تھے۔ جب آپ ﷺ نے ان پر قابو پا لیا تو قدرت کے باوجود ان پر احسان فرما دیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے غورث بن حارث کو معاف کر دیا، جس نے آپ کو اچانک قتل کرنے کا ارادہ کیا، جب آپ ﷺ سوئے ہوئے تھے تو اس نے آپ کی تلوار میان سے نکال لی، آپ بیدار ہوئے تو وہ ننگی اس کے ہاتھ میں تھی، آپ ﷺ نے اسے جھڑکا تو اس نے تلوار نیچے رکھ دی، رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو بلا کر ساری بات بتائی اور اسے معاف کر دیا۔ (بخاری : ۴۱۳۶) اسی طرح لبید بن اعصم کو معاف کر دیا جس نے آپ پر جادو کیا تھا، اس سے باز پرس بھی نہیں فرمائی۔ ( بخاری : ۵۷۶۵) اسی طرح اس یہودی عورت زینب کو معاف فرما دیا جو خیبر کے یہودی مرحب کی بہن تھی، جسے محمد بن مسلمہ نے قتل کیا تھا، جس نے خیبر کے موقع پر بکری کے بازو میں زہر ملا دیا تھا، بکری کے اس بازو نے آپ کو اس کی اطلاع دے دی، آپ ﷺ نے اس عورت کو بلایا تو اس نے اعتراف کر لیا۔ آپ نے اس سے کہا کہ تمھیں اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا، میرا ارادہ یہ تھا کہ اگر آپ نبی ہوئے تو یہ آپ کو نقصان نہیں دے گی اور اگر نبی نہ ہوئے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ آپ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا، مگر جب اس زہر کی وجہ سے بشر بن براء فوت ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان کے قصاص میں اسے قتل کر دیا۔ (بخاری : ۳۱۶۹۔ ابو داود : ۴۵۰۹، ۴۵۱۱) ایسی احادیث اور بھی بہت ہیں۔ (و للہ الحمد) یہ تمام واقعات بخاری و مسلم دونوں میں یا ان میں سے ایک میں موجود ہیں۔
2۔ نیکی کا حکم دیں
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دوسری بات یہ کہی کہ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ اور نیکی کا حکم دیں.
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت:
❄ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [آل عمران: 110]
"تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو.”
❄ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وصیت فرماتے ہوئے کہا؛
يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [لقمان: 17]
"اے میرے چھوٹے بیٹے! نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور اس (مصیبت) پر صبر کر جو تجھے پہنچے، یقیناً یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔”
❄ وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [آل عمران: 104]
"تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنْ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا [مسلم: 6804]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہو گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔”
❄ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ»[مسلم: 4898]
ترجمہ: جس نے بھلائی پر رہنمائی کی اس کے لئے بھلائی کرنے والے کے مانند اجر ہے.
❄حضرت ابو زر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے کچھ ساتھیوں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کی:اے اللہ کے رسول ﷺ !زیادہ مال رکھنے والے اجر وثواب لے گئے وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں اور ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور اپنے ضرورت سے زائد مالوں سے صدقہ کرتے ہیں(جو ہم نہیں کرسکتے) آپ ﷺ نے فرمایا:”کیا اللہ تعالیٰ نے تمھارے لئے ایسی چیز نہیں بنائی جس سے تم صدقہ کرسکو؟بے شک ہر دفعہ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے،ہر دفعہ الله اكبر کہنا صدقہ ہے۔ہر دفعہ الحمد لله کہنا صدقہ ہے،ہردفعہ لا الٰه الا اللهکہنا صدقہ ہے،نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور بُرائی سے ر وکنا صدقہ ہے اور(بیوی سے مباشرت کرتے ہوئے) تمھارے عضو میں صدقہ ہے۔”صحابہ کرام نے پوچھا:اے اللہ کے رسول ﷺ !ہم میں سے کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو کیا ااس میں بھی اجر ملتا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:”بتاؤ اگر وہ یہ(خواہش) حرام جگہ پوری کرتا تو کیا اسے اس گناہ ہوتا؟اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پوری کرتا ہے تو اس کے لئے اجر ہے۔”[مسلم: 2329]
❄ سیدنا نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے اور اس میں مبتلا ہوجانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی ( پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں ) قرعہ اندازی کی۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا ( تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے ) اب اوپر والے آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کررہے ہو ؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو ( میرے اوپر آنے جانے سے ) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا ۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی ۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہوگئے۔ [بخاری: 2686]
❄ قَالَ رَسُولَ اللهِ ﷺ: «مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ». [مسلم: 177]
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام) دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے بدل دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘
❄ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنْ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ [ترمذی: 2169]
ترجمہ : سیدنا حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم معروف (بھلائی) کا حکم دو اورمنکر(برائی) سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرواورتمہاری دعاء قبول نہ کی جائے’۔
❄ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایسا عظیم عمل ہے جسکی وجہ سے اللہ کی خاص نصرت و مدد حاصل ہوتی ہے. ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو باہلہ کی طرف بھیجا، تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں، لیکن لوگوں نے انکار کردیا اور انھیں کھانا پینا بھی نہیں دیا، حالانکہ وہ اس وقت سخت بھوکے تھے۔ پھر وہ (تھکاوٹ کی وجہ سے) سوگئے تو خواب میں آپ کو کھلایا پلایا گیا اور جب بیدار ہوئے تو بھوک پیاس کے اثرات ختم ہوچکے تھے۔ یہ دیکھ کر قبیلے کے سارے لوگ مسلمان ہوگئے۔
[المعجم الکبیر للطبرانی: 8099 سندہ حسن]
3۔ جاہلوں سے کنارہ کش ہوجائیں
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تیسری بات یہ کہی کہ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ جاہلوں سے کنارہ کش ہوجائیں۔
❄ اللہ تعالیٰ نے عبادالرحمن (رحمان کے خاص بندوں) کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ؛
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
"اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔”[الفرقان: 63]
سلام سے مراد یہاں اعراض اور ترکِ بحث و مجادلہ ہے۔ یعنی اہل ایمان جو ہیں وہ اہل جہالت و اہل سفاہت سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ ایسے موقعوں پر اعراض و گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بے فائدہ بحث نہیں کرتے۔
❄ وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ [القصص: 55]
"اور جب بیہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے عمل ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، تم پر سلام ہو ہم جاہلوں سے (الجھنا) نہیں چاہتے۔”
یہاں لغو سے مراد وہ سب وشتم ( گالی گلوچ ) اور دین کے ساتھ استہزا ہے جو کفار ومشرکین کرتے تھے۔ اور سلام سے یہاں مراد سلام تحیہ نہیں بلکہ سلام متارکہ (جدائی کا سلام) یعنی ہم تم جیسے جاہلوں سے بحث اور گفتگو کے روادار ہی نہیں، جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں کہ جاہلوں کو دور ہی سے سلام، ظاہر ہے ایسے سلام سے مراد ترکِ مخاطبت ہی ہے ( یعنی بات چیت کو ترک کرنا ہے)۔
❄ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حر بن قیس کے یہاں آکر قیام کیا۔ حر ، ان چند خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت عمر اپنے بہت قریب رکھتے تھے جو لوگ قرآن مجید کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے۔ حضرت عمر کی مجلس میں انہیں کو زیادہ نزدیکی حاصل ہوتی تھی اور ایسے لوگ آپ کے مشیر ہوتے۔ اس کی کوئی قید نہیں تھی کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔ عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ تمہیں اس امیر کی مجلس میں بہت نزدیکی حاصل ہے۔ میرے لیے بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا کہ میں آپ کے لیے بھی اجازت مانگوں گا۔ حضرت ابن عباس نے بیان کیا۔ چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لیے بھی اجازت مانگی اور حضرت عمر نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ مجلس میں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے ، اے خطاب کے بیٹے! خدا کی قسم! نہ تو تم ہمیں مال ہی دیتے ہو اور نہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی اس بات پر بڑا غصہ آیا اور آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حر بن قیس نے عرض کیا یا امیر المؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے خطاب کر کے فرمایا ہے ؛
خُذْ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنْ الْجَاهِلِينَ
” معافی اختیار کر اور نیک کام کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جایا کیجئے “
اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! کہ جب حر نے قرآن مجید کی تلا وت کی تو حضرت عمر بالکل ٹھنڈے پڑ گئے اور کتاب اللہ کے حکم کے سا منے آپ کی یہی حالت ہوتی تھی۔[بخاری: 4642]
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ، فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ: «دَعُوهُ، فَإِنَّ لِصَاحِبِ الحَقِّ مَقَالًا»، وَقَالَ: «اشْتَرُوا لَهُ سِنًّا، فَأَعْطُوهَا إِيَّاهُ» فَقَالُوا: إِنَّا لاَ نَجِدُ سِنًّا إِلَّا سِنًّا هِيَ أَفْضَلُ مِنْ سِنِّهِ، قَالَ: «فَاشْتَرُوهَا، فَأَعْطُوهَا إِيَّاهُ، فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ أَحْسَنَكُمْ قَضَاءً» [بخاری: 2606]
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرض تھا ( اس نے سختی کے ساتھ تقاضا کیا ) تو صحابہ اس کی طرف بڑھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو، حق والے کو کچھ نہ کچھ کہنے کی گنجائش ہوتی ہی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے لیے ایک اونٹ اسی کے اونٹ کی عمر کا خرید کر اسے دے دو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس سے اچھی عمر کا ہی اونٹ مل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی کو خرید کر دے دو کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو قرض کے ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔
❄ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺوَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الحَاشِيَةِ، فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَذَبَهُ جَذْبَةً شَدِيدَةً، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ النَّبِيِّ ﷺقَدْ أَثَّرَتْ بِهِ حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَذْبَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ، ثُمَّ «أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ» [بخاری: 3149]
ترجمہ: سیدنا انس بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا ، آپ پر موٹے کنارے والی نجرانی چادر تھی ، اتنے میں ایک اعرابی آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپ ﷺ کی چادر کے ساتھ آپ کو اتنے زور سے کھینچا کہ نبی ﷺ اس اعرابی کے سینے کے قریب پہنچ گئے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کے کندھے پر دیکھا تو زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے کے نشانات کندھے مبارک پر پڑ چکے تھے ، پھر اس نے کہا محمد اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے میرے لیے بھی حکم فرمائیے ، رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور ہنس دیے ، پھر اسے کچھ دینے کا حکم فرمایا.
❄ أَنَّ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺفَقَالَ: «ائْذَنُوا لَهُ، بِئْسَ أَخُو العَشِيرَةِ، أَوِ ابْنُ العَشِيرَةِ» فَلَمَّا دَخَلَ أَلاَنَ لَهُ الكَلاَمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ الَّذِي قُلْتَ، ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الكَلاَمَ؟ قَالَ: «أَيْ عَائِشَةُ، إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ، أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ، اتِّقَاءَ فُحْشِهِ» [بخاری: 6054]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ اسے اجازت دے دو ، فلاں قبیلہ کا یہ برا آدمی ہے جب وہ شخص اندر آیا تو آپ نے اس کے ساتھ بڑی نرمی سے گفتگو کی ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ کو اس کے متعلق جو کچھ کہنا تھا وہ ارشاد فرمایا اور پھر اس کے ساتھ نرم گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا ، عائشہ! وہ آدمی ہے بد ترین جسے اس کی بد کلامی کے ڈر سے لوگ چھوڑ دیں۔