اللہ کے ڈر سے رونا

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاۙ۝۱۰۷
وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا۝۱۰۸
وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعً﴾ [بنی اسرائیل: 107 تا 109]
’’کہہ دیجئے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلا شک و شبہ پورا ہو کر رہنے والا ہی ہے۔ وہ اپنی تھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے۔‘‘
اس دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی انداز سے روتا ضرور ہے، کوئی انسان رونے سے، آہ و بکاء کرنے سے اور گریہ زاری کرنے سے مستثنٰی نہیں ہے۔ ہاں رونے کی قسمیں، اسباب اور انداز مختلف ہیں۔
امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب زاد المعاد میں رونے کی دس قسمیں بیان فرمائی ہیں:
1۔ کسی پر ترس کھاتے ہوئے رونا:
عموماً کوئی نرم دل انسان جب کسی شخص کو کسی بڑی مصیبت تکلیف یا پریشانی میں دیکھتا ہے تو اس پر ترس کھاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو نہ آتے ہیں، اور وہ رونے لگتا ہے۔
2۔ ڈر اور خوف کی وجہ سے رونا:
اکثر کمزور دل لوگ جب کوئی مصیبت اترتی دیکھتے ہیں یا کسی قسم کے ڈر اور خوف میں مبتلا ہوتے ہیں تو رونے لگتے ہیں، یہ خوف و خطرے کا روتا ہے۔
3۔ محبت اور شوق کی وجہ سے رونا:
عزیز واقارب، دوست احباب اور باہم محبت رکھنے والے جب بچھڑتے ہیں تو رونے لگتے ہیں، یہ محبت اور الفت کا روتا ہے۔
4۔ خوشی سے روتا:
ایک دفعہ امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے جناب ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:
’’اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ کو سورۃ البینہ پڑھ کر سناؤں۔‘‘
تو ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: کیا میرے رب نے عرش پہ میرا نام لیا ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ہاں تیرے رب نے عرش پہ تیرا نام لیا ہے۔‘‘
تو ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ خوشی سے رونے لگے (یہ رونا خوشی کا رونا ہے) [صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب ابی ؓ (3809) و مسلم (1895)]
5۔ صدے اور تکلیف کی وجہ سے رونا:
جب امام الانبیاء سید الرسل جناب محمد رسول اللہﷺ کے لخت جگر ابراہیم نے وفات پائی، آپﷺ نے اسے اپنے مبارک ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔[صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب قول الله تعالى ﴿انا بك لمحزونون﴾ (1303)]
یہ (صدے کی وجہ سے رونا تھا) اور یہ رونا اگر آواز اور جاہلی پکار کے بغیر ہو تو جائز ہے ورنہ ناجائز اور حرام ہے۔
6۔ غم اور دکھ کی وجہ سے رونا:
بسا اوقات انسان کو ایسا غم اور دکھ پہنچتا ہے کہ انسان اسے یاد کر کے وقتًا فوقتًا روتا ہے یہ غم اور دکھ کا رونا ہے اس کے ساتھ اگر جاہلی پکار اور آواز شامل نہ ہو تو اس کی بھی اجازت ہے۔
7۔ بے بسی پر رونا:
کئی دفعہ انسان کو اپنی یا کسی کی بے بسی پر رونا آتا ہے۔
8۔ منافقت کا رونا
(یعنی آنکھوں میں تو آنسو ہوں لیکن دل خشیت الہی سے خالی ہو) جس طرح ریا کار قسم کے لوگ اس قسم کے آنسو بہاتے ہیں۔ اس قسم کا رونا نمود و نمائش اور منافقت کا رونا ہے جو قطعاً جائز نہیں۔
9۔ کرائے پر رونا:
( جس طرح ماتمی لوگ پیسے لے کر روتے ہیں) آج ایک گروہ جب اہل بیت کا جعلی علم اٹھائے ہوئے وہ ہر سال واقعہ کربلا کو غلط رنگ دے کر ماہ محرم میں نوحہ و ماتم کرتے ہیں اور رونے پیٹنے والے افراد کرائے پر بلاتے ہیں، یہ رونے کی بدترین قسم ہے کیونکہ یہ نوحہ و ماتم بھی ہے اور منافقت بھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بدعت بھی ہے۔
10۔ کسی کی موافقت کرتے ہوئے رونا:
(یعنی کسی کو دیکھ کر روتا) کئی دفعہ انسان کسی دوسرے کو روتا دیکھ کر رونے لگ جاتا ہے یہ رونا کسی کی موافقت میں رونا ہے۔
یہ رونے کی مختلف قسمیں ہیں جو امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمائی ہیں، جن میں سے بعض جائز اور بعض ناجائز ہیں۔
لیکن رونے کی ان تمام اقسام میں سے افضل ترین قسم اللہ کے ڈر اور خوف کی وجہ سے روتا ہے۔ یہ وہ رونا ہے جو انبیاء صلحاء اور اتقیاء والا عمل ہے۔ اس رونے کی بے انتباء شان و فضیلت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں موجود ہے، اور اس کی رحمت موجزن ہو جاتی ہے۔
اللہ رب العزت نے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا:
﴿وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا﴾ [بنی اسرائیل: 109]
’’وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی، خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے۔‘‘
اور رب ارض و سماء نے سورہ مریم میں انبیاء کرام علیہم السلام کی یہ خصلت بیان فرمائی ہے:
﴿ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا﴾ [مريم: 58]
’’ان کے سامنے جب اللہ رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی یہ سجدہ کرتے اور روتے گڑگڑاتے گر پڑتے تھے۔‘‘
اور اللہ تعالی نے سورۃ المائدہ میں اعلان فرمایا:
﴿ وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰۤی اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ﴾ [المائدة:83]
’’اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے ہیں تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
اللہ رب العزت نے یہاں ان لوگوں کی فضیلت و منقبت بیان فرمائی ہے، جو اللہ کی آیتیں سن کر خشیت الہی سے روتے اور گڑگڑاتے ہیں، اور ان کی اس خوبی کو قرآن میں جگہ دے کر قیامت تک کے لیے نمونہ بنا دیا ہے۔
اور سورہ نجم میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ۝۵۹ وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَ﴾ [النجم:59،60]
’’پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو؟ اور ہنس رہے ہو؟ روتے نہیں؟۔‘‘
ان آیات بینات میں رب ارض و سماوات نے ان لوگوں کو جھنجھوڑا اور ڈانٹا ہے جو قرآن سن کر رونے اور گڑ گڑانے کی بجائے ہنستے اور کھیلتے ہیں۔
اور ایک خطبے میں نبیﷺ نے فرمایا:
(لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيْلًا وَ لَبَكَيْتُمْ كَثِيْرًا) [صحیح البخاري، كتاب الرفاق (6485)]
’’اگر تم وہ کچھ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ،‘‘
تو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے چہرے ڈھانپ لیے اور ان کے رونے کی آواز آنے لگی۔
جناب حضرت سیدہ اسماء بنت ابی بکررضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ خطبہ ارشاد فرمایا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
(ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً) [صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر (1373)]
’’مسلمان اس قدر روئے کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہ چیخ چیخ کر رونے لگے۔‘‘
غور فرمائیے! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم خشیت الہی سے کس قدر رونے والے لوگ تھے،
اور رسول اللہﷺ نے خشیت الہی سے رونے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
(أَمْلِكَ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعُكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ) [جامع الترمذی، ابواب الزهد، باب ماجاء في حفظ اللسان (2406) واحمد (259/5) والصحيحة (890)]
’’اپنی زبان کی حفاظت کرو، تمہارے لیے تمہارا گھر ہی وسیع اور کشادہ ہو (یعنی گھر سے باہر فضول بیٹھک کی بجائے اپنے گھر میں وقت گزارو) اور اپنی غلطیوں پر ندامت کے آنسو بہایا کرو۔‘‘
یہ نصیحت رسول اللہﷺ نے اپنے اس پیارے صحابی کو کی تھی جس نے آپ سے اخروی نجات کا ذریعہ اور طریقہ پوچھا تھا۔
ایک اور انداز میں آپ ﷺ نے خوف الہی سے رونے کی ترغیب دی کہ سات خوش قسمتوں (عرش کا سایہ پانے والوں) میں ایک وہ شخص ہے:
(وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ) [صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب الصدقة باليمين (1423)]
’’جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔‘‘
سبحان اللہ! خلوت میں خشیت الہی سے ٹپکنے والے آنسوؤں کے قطرات کی قدر قیمتی ہیں (کیونکہ یہ ریاء ونمود کے شائبے سے محفوظ ہیں)۔
اور امام الانبیاء نے ایک اور انداز میں اس رونے کی فضیلت بیان فرمائی:
(لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكٰى مِنْ خَشْيَتِ اللَّهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الْقُرْحِ الضَّرْعِ) [جامع الترمذي، كتاب فضائل الجهاد، باب ماجاء في فضل الغبار في سبيل الله (1633) و ابن ماجه (2774)]
’’وہ شخص آگ میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ کے ڈر سے رویا۔ حتی کہ دودھ تھنوں میں لوٹ جائے۔ (یعنی جس طرح دودھ کا تھنوں میں لوٹنا محال ہے اسی طرح اللہ کے ڈر سے رونے والے کا آگ میں داخل ہونا محال ہے۔)‘‘
اللہ اکبر! کیسی فضیلت ہے اور کیسا انعام واکرام ہے، پھر رسول اللہ نے ایک اور انداز میں اس عمل کی شان بیان فرمائی:
’’دو قطروں سے بڑھ کر کوئی قطرہ اللہ کو پیارا اور محبوب نہیں؛ ایک وہ قطرہ خون جو شہادت کے وقت مجاہد کے بدن سے لپکتا ہے اور ایک وہ قطرہ آب جو خوف الہی اور خشیت الہی سے مؤمن کی آنکھ سے ٹپکتا ہے۔‘‘[جامع الترمذي، فضائل الجهاد، باب ماجاء في فضل المرابط حسن (1669)]
ماشاء اللہ! خشیت الہی سے ٹپکنے والا ایک ایک آنسو اللہ کو کتنا پیارا اور محبوب ہے۔ ناطق وحی نے مزید فرمایا:
’’دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوٹے گی ان میں سے ایک
(عَيْنُ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ الله) [ترمذی، فضائل الجهاد، باب ما جاء في فضل الحرس في سبيل الله (1639)]
’’وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے رو پڑے۔‘‘
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ اللہ قیام میں صبح تک یہی آیت پڑھتے رہے اور روتے رہے:
﴿اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ﴾ [المائدة: 118]
یوں سمجھئے رسول اللہﷺ نے خشیت الہی سے رونے کا عملی نمونہ پیش فرمایا۔[سنن ابن ماجه، الصلاة، باب ما جاء في القراءة في صلاة الليل (1350) صحيح]
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: ہم ایک جنازے میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شریک تھے آپ قبر کے کنارے پر بیٹھ کر رونے لگے حتی کہ مٹی آپ کے آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا:
(يَا إِخْوَانِي لِمِثْلِ هَذَا فَأَعِدُّوا) [سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب الحزن والبكاء (4195) حديث صحيح.]
’’اے میرے ساتھیو! اس گڑھے کے لیے تیاری کر لو۔‘‘
آج لوگ قبرستانوں میں تدفین کے وقت سیاسی تبصرے کرتے، کاروباری گپ شپ کرتے ہیں اور قبروں پہ میلے مناتے اور تاش کھیلتے ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ کا نمونہ کیا تھا ؟
اور خشیت الہی سے آنسو بہانا ایسا عظیم عمل ہے کہ اگر کسی نے دنیا میں یہ آنسو نہ بہائے تو اسے جہنم میں بہت رونا پڑے گا۔ حدیث میں ہے:
(إِنَّ أَهْلَ النَّارِ لَيَبْكُونَ حَتَّى لَوْ اُجْرِيَتِ السُّفْنُ فِي دُمُوعِهِمْ فَجَرَتْ وَإِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ الدَّمَ يَعْنِي مَكَانَ الدَّصْعِ)[شرح السنة كتاب الفتن باب صفة النار و اصلها) رقم: (4314)]
یہ خشیت الہی اور خوف الہی سے رونے کی دس فضیلتیں ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں، لیکن آج ہم دنیا وی دکھوں، صدموں اور تکلیفوں پر تو مہینوں آنسو بہا لیتے ہیں اور اللہ کے ڈر سے ہماری آنکھوں سے ایک قطرہ بھی جلدی کیے نہیں نکلتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔