اللہ کے راستے میں صدقہ و خیرات کرنے کی فضیلت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ الله : مَا مِن يومٍ يُصْبِحُ العِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَان يَنزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنفِقًا خلفًا، وَيَقُولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمسِكًا تَلَفًا . (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الزكاة، باب قول الله تعالى فأما من أعطى والقى و صدق بالحسنی فسنیسره،
صحیح مسلم کتاب الزکاة، باب في المنفق والممسك)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہوں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! مال نہ خرچ کرنے والے بخیل کے مال کو تلف کر دے۔
عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ : مَا نَقَصَتُ صدَقَةٌ مِن مَالٍ، وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ الله (اخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: كتاب البر والصلة والآداب، باب استحباب العفو والتواضع)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: صدقہ دینے سے مال میں کمی نہیں ہوتی، اللہ تعالی بندے کے مقام کو عفوو در گذر کرنے کی وجہ سے بلند کرتا ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے تو اضع اختیار کی تو اللہ تعالی اسے بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِن كَسْبِ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ، وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِيْنِهِ ثُمَّ يُرَبِّيها لِصَاحِبِهِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فُلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ (متفق عليه).
(صحیح بخاری کتاب الزكاة، باب الصدقة من كسب طيب، صحيح مسلم: كتاب الزكاة، باب قبول
الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے اور اللہ تعالی صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے، تو اللہ تعالی اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے لئے اسے بڑھاتا رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے تا آنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : لا حَسَدَ إِلَّا فِي التَينِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلْطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الحَقِّ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب العلم، باب الاغتباط في العلم والحكمة، صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين
و قصرها، باب فضل من يقوم بالقرآن ويعلمه وفضل من تعلم حكمة من….)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص پر جسے اللہ تعالی نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالی نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔
تشریح:
اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم ﷺ نے صدقہ کرنے اور بھلائی کی راہوں میں خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے کیونکہ اس سے مال میں زیادتی اور برکت ہوتی ہے اور ایسے بندے کے لئے اللہ کے فرشتے صبح و شام دعائیں کرتے ہیں اور اس کے لئے بہترین بدلہ دینے کا اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالی حلال کمائی کے صدقات کو پسند فرماتا ہے اور نیکیوں میں شمار فرماتا ہے جو شخص حرام کمائی سے صدقات اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتا ہے اس کا اللہ تعالی کے یہاں کوئی تو اب نہیں ملتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ حلال کمائی کی کوشش کریں اور حلال کمائی میں سے صدقات و خیرات کریں۔
فوائد:
٭ اللہ کے راستے میں صدقات و خیرات کرنے کی کافی اہمیت ہے۔
٭ صدقہ صرف حلال کمائی کا قبول ہوتا ہے۔
٭ صدقہ مال میں برکت اور بڑھوتری کا سبب ہے۔
٭٭٭٭