اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تقدیر پر صبر کرنا فرض ہے

877۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک عورت کے پاس آئے جو اپنے بچے ( کی موت) پر رو رہی تھی تو آپ نے اس سے فرمایا:

((اِتَّقِى اللهَ وَاصْبری)) ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صبر کرو‘‘(أخرجه البخاري: 1252، 1283، 1302، 7154، ومسلم: 926)

اس نے کہا: آپ کو میری مصیبت کی کیا پروا؟ جب آپ چلے گئے تو اسے بتایا گیا کہ وہ (تمھیں صبر کی تلقین کرنے والے) اللہ کے رسول ﷺ تھے تو اس عورت پر موت جیسی کیفیت طاری ہوگئی، وہ آپ کے دروازے پر آئی تو اس نے آپﷺ کے دروازے پر کوئی دربان نہ پایا۔

اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے (اس وقت) آپ کو نہیں پہچانا تھا۔

آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ))

’’(حقیقی) صبر صدے کے آغاز ہی میں ہوتا ہے۔‘‘

878۔ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:

((لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمُ الْخَدُودَ، وَشَقَّ الْجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ)) (أخرجه البخاري: 1294، 1297، 1298، 3519)

’’جو شخص اپنے رخسار پیٹے اور گریبان پھاڑے، نیز عہد جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے، وہ نام میں سے نہیں۔‘‘

878۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَرِءَ مِنَ الصَّالِقَةِ وَالْحَالِقَةِ وَالشَّاقَةِ)) (أخرجه البخاري: 1296، ومسلم: 104)

’’ یقینًا رسول اللہ اللہ نے مصیبت کے وقت چلا کر رونے والی، سرمنڈوانے والی اور گریبان پھاڑنے والی عورت سے اظہار براءت فرمایا ہے۔‘‘

880۔  سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَلَا تَسْمَعُونَ؟ إِنَّ اللهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ، وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ، وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهٰذَا، وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ، أَوْ يَرْحَمُ، وَإِنَّ الْمَيْتَ يُعَذِّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ)) (أخرجه البخاري: 1304، و مُسلم:924)

’’کیا تم سنتے نہیں ہو؟ اللہ تعالی آنکھ کے رونے اور دل کے غمزدہ ہونے سے عذاب نہیں دیتا، بلکہ آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اس کی وجہ سے عذاب یا رحم کرتا ہے، بے شک میت کو اس کے عزیزوں کے چلا کر گریہ وزاری کرنے سے عذاب دیا جاتا ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: آزمائش پیش آ جانے کی صورت میں اسے تقدیر کا حصہ سمجھنا چاہیے اور اس پر صبر کرنا چاہیے۔ واویلا کرنا یا اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرنا بہت بری بات ہے، البتہ دلی صدمہ ہونا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جانا تقدیر پر ناراضی کا اظہار نہیں بلکہ انسانی فطرت ہے۔ جہاں تک زبان سے واویلے کا تعلق ہے تو اگر مرنے والا خود رونے پیٹنے کا قائل ہو اور اس نے کسی کو رونے پیٹنے سے منع بھی نہ کیا ہو تو اسے اس کے ورثاء کے واویلے، رونے پیٹنے اور نوحہ کرنے کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔‘‘

881۔ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:

((أَخَذَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ عِنْدَ الْبَيْعَةِ أَنْ لَا نَنُوحَ)) (أخرجه البخاري: 1306، ومسلم:936)

’’نبی اکرم ﷺنے بیعت لیتے ہوئے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی۔‘‘

توضیح وفوائد: چلا چلا کر میت کے کارنامے بیان کرنا اور یوں کہنا کہ تو کتنا اچھا آدمی تھا۔ تو خود تو مر گیا ہے مگر ہمیں برباد کر گیا ہے، مرنے والے کے غم میں کپڑے پھاڑنا، رونا پیٹنا وغیرہ، جس طرح خواتین کرتی ہیں، بالکل حرام اور ناجائز ہے۔

882۔ اسید بن ابواسید ایک ایسی خاتون سے بیان کرتے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺسے بیعت کی تھی، وہ کہتی کہ سول اللہﷺ نے ہم سے جو عبد لیے تھے کہ نیکی کے کاموں میں ہم آپﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گی اس میں یہ بھی تھا:

((أَن لَّا نَخْمِشَ وَجْهًا وَلَا نَدْعُوَ وَيْلًا، وَلَا نَشُقَّ جَيْبًا، وَلَا نَنْشُرَ شَعْرًا)) (أخرجه أبو داود: 3131)

’’ہم چہرہ نہیں نوچیں گی، ہائے وائے نہیں کریں گی، گریبان نہیں پھاڑیں گی اور بال نہیں بکھیریں گی۔‘‘

883۔ سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يَتْرُكُونَهُنَّ: الْفَخْرُ فِي الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِي الْأَنْسَابِ، وَالْإِسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّيَاحَةُ)) (أخرجه مسلم: 934)

’’جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں جنھیں میری امت کے لوگ ترک نہیں کریں گے: حسب و نسب اور خاندانی شرف و فضیلت پر فخر کرتا، دوسروں کے نسب اور خاندان میں نقص اور عیب نکالنا طعن کرتا ، ستاروں کے اثر سے بارش برسنے کا عقیدہ رکھنا اور نوحہ کرنا۔‘‘

اور فرمایا:

((النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ عَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِعُ مِنْ جَرْبٍ‘‘

’’نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے پہلے نوحے سے تو بہ نہ کرے تو قیامت کے دن اسے اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس (کے بدن) پر تارکول کا لباس اور خارش کی قمیص ہوگی۔‘‘

توضیح و فوائد: جاہلیت کے کاموں کو ترک نہیں کریں گے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کام جائز ہیں بلکہ ان کی مذمت مقصود ہے۔

884۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ  بجلی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

((كُنَّانَعُدَّ الْإِجْتِمَاعَ إِلٰى أَهْلِ الْمَيِّتِ، وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ))  (أخرجه أحمد: 6905، وابن ماجه:1612)

’’ہم تدفین کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور کھانا بنانے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔‘‘

 توضیح و فوائد: اہل میت کے گھر اکٹھا ہونا اور وہاں کھانا پینا جائز ہے یا ناجائز؟ اس بارے میں علماء کی دو رائے:

1۔ اگر کوئی غیر شرعی کام نہ ہو تو تعزیت کے لیے میت کے گھر اکٹھا ہونا جائز ہے اور دور سے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے کھانا کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یاد رہے کہ یہ کھانا ہمسایوں یا رشتہ داروں کو تیار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ترغیب بھی دی ہے۔

2۔ اس کے برعکس بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ میت کے گھر تعزیت کے لیے جمع ہونا اور وہاں کھانا کھانا جائز نہیں کیونکہ یہ بھی نوحہ گری ہی کی ایک صورت ہے۔ ہمارے نزدیک پہلی رائے زیادہ قابل ترجیح ہے۔ واللہ اعلم

885۔ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کی خبر آئی تو نبی ﷺنے فرمایا: ((اِصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ)) (أخرجه أبو داود: 3132، والترمذي:998)

’’آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو، بلاشبہ انھیں ایک ایسا معاملہ در پیش ہے جس نے انھیں مشغول کر دیا ہے۔ (ان کے پاس سیدنا جعفر ہی اللہ کی شہادت کی خبر آئی تھی)۔‘‘

886۔ سیدنا  انس  بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابو سیف لوہار رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں گئے جو آپ کے لخت جگر ابراہیم کے رضاعی باپ تھے۔

رسول اللہ ﷺ نے ابراہیم کو ان سے لے کر بوسہ دیا اور پیار سے اس کے اوپر اپنا منہ رکھا۔

سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم دوبارہ ابوسیف کے ہاں گئے تو آپ کے لخت جگر ابراہیم حالت نزع میں تھے، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں، سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ بھی (روتے ہیں)؟

آپﷺ نے فرمایا: ((يَا ابْنَ عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمةٌ)) ’’ابن عوف! یہ تو ایک رحمت ہے۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے روتے ہوئے فرمایا:

((إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضٰى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ))   (أخرجه البخاري: 1303)

’’آنکھیں اشکبار اور دل غمزدہ ہے لیکن ہمیں زبان سے وہی کہتا ہے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقینًا غمگین ہیں۔‘‘

887۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((اَلْمَيِّتُ يُعَذِّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ)) (أخرجه البخاري: 1292، ومسلم: 927)

’’میت کو قبر میں اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘

888۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سامنے بیان کیا گیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:

((إِنَّ الْمَيْتَ لَيُعَذِّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ))

’’زندہ کے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہنے لگیں:

((يَغْفِرُ اللهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبُ، وَلٰكِنَّهُ نَسِيَ، أَوْ أَخْطَأَ))

’’اللہ ابو عبد الرحمن کو معاف فرمائے! یقینًا انھوں نے جھوٹ نہیں بولا لیکن وہ بھول گئے ہیں یا ان سے غلطی ہو گئی ہے۔‘‘

امر واقع یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت (کے جنازے) کے پاس گزرے جس پر آہ و بکا کی جارہی تھی تو آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذِّبُ فِي قَبْرِهَا)) (أخرجه البخاري: 1289، ومُسلِم:932)

’’یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں حالانکہ اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے واقعات مختلف ہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے اس وقت عذاب ہو گا جب اس نے اپنے اہل وعیال کے لیے نوحے کا طریقہ جاری یا پسند کیا ہو یایہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس پر نوحہ و ماتم کریں گے، انھیں اس کام سے باز رہنے کی وصیت نہ کی ہو۔