اللہ تعالیٰ کی رحمت
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ [الأعراف:56]
یوں تو اللہ رب العزت ہر وقت اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور ان کی عبادات کو شرف قبولیت سے نوازتا ہے لیکن اس نے اپنے بندوں پر خصوصی رحمت کرنے کے لیے چند خصوصی مواقع بھی مہیا فرمائے ہیں، جن میں اللہ ارحم الراحمین کی رحمت خصوصی طور پر موجزن ہوتی ہے اور جو لوگ ان سنہری مواقع میں اللہ کی بارگاہ میں دعاء ومناجات اور عبادت کرتے ہیں انہیں اللہ احکم الحاکمین کا خصوصی قرب حاصل ہوتا ہے اور ان پر رحمت الہی کی برکھا برستی ہے۔
قبولیت دعا اور قرب الہی کے یہ سنہری مواقع کچھ یومیہ کچھ ہفتہ وار اور کچھ سالانہ ہیں اور بعض مواقع وقتًا فوقتًا ہیں۔
1۔ یومیه مواقع:
ہر اذان اور نماز کے درمیان: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں نبیﷺ نے فرمایا:
(الدُّعَاءُ بَيْنَ الْآذَانِ وَالْإِقَامَةِ مُسْتَجَابٌ فَادْعُوا)[جامع الترمذي، كتاب الصلاة، باب ماجاء في أن الدعاء لا يرد بين الأذان والإقامة (212) و ابوداؤد (534) حديث صحيح]
’’اذان اور اقامت کے درمیان دعا قبول ہوتی ہے اس لیے اس وقت دعا کیا کرو۔‘‘
2۔ فرض نماز کے بعد:
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ) [جامع الترمذي، كتاب الدعوات، باب ماجاء في عقد التسبيح باليد (3499) و صحيح الترغيب (1648)]
’’اور فرض نمازوں کے بعد دعا ضرور سنی جاتی ہے۔‘‘
(لیکن یاد رہے یہ دعا انفرادی ہے اجتماعی نہیں ہے۔ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کسی ایک صحیح حدیث سے بھی ثابت نہیں) یہ دونوں مواقع روزانہ پانچ مرتبہ میسر آتے ہیں۔
3۔ رات کے پچھلے پہر:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(يَنزِلُ رَبُّنَا كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا) [صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب الدعاء في الصلاة من آخر الليل (15) ومسلم (758)]
’’ہمارا رب ہر رات پچھلے پہر آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) اور اعلان کرتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی دعا قبول کروں کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطاء کروں کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں۔‘‘
4۔ رات کو جب بھی آنکھ کھلے بشرطیکہ وضوء کر کے سویا ہو:
سنن ابی داؤد کتاب الادب میں حدیث ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: ’’جو مسلمان رات باوضوہ ہو کر ذکر اذکار کر کے سوتا ہے اگر رات کو کسی وقت اچانک اس کی آنکھ کھل جائے تو اس وقت وہ اللہ رب العزت سے دنیا و آخرت کی جو بھلائی بھی مانگے گا اللہ اسے ضرور وہ بھلائی عطاء کر دیں گے۔[سنن ابی داؤد، كتاب الأدب، باب في النوم على طهارة، رقم: 5042]
ہمیں چاہیے کہ یہ سنہری موقع حاصل کرنے کے لیے رات با وضوء ہو کر ڈار کا ر کر کے سویا کریں۔
5۔ جب اذان ہو رہی ہو:
(الدُّعَاءُ عِنْدَ الْنِّدَاءِ) [صحيح الجامع (3079) و سنن أبي داؤد، كتاب الجهاد، باب الدعاء عند اللقاء (2540)]
اذان کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ حدیث کے راوی حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔
ہفتہ وار مواقع: جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں کوئی مسلمان بندہ اپنے رب سے بھلائی کا سوال کرے تو اللہ تعالی اس کو دے دیتا ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب الساعة التي في يوم الجمعة (935) ومسلم (852)]
اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں وضاحت ہے کہ یہ گھڑی امام کے منبر پر چڑھنے سے لے کر نماز جمعہ مکمل ہونے تک ہے۔[صحیح مسلم، کتاب الجمعة، باب الساعة التي في يوم الجمعة، رقم: 1975]
سوموار اور جمعرات کا روزہ:
صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے سوموار کے دن کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’اس دن میں پیدا ہوا اور اس دن مجھ پر وحی نازل کی گئی۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب ثلاثة أيام من كل شهر … (1162)]
اور جامع ترمذی میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’سوموار اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش ہو تو میرا روزہ ہو۔‘‘[جامع الترمذى، كتاب الصوم، باب صوم يوم الاثنين والخميس (747) وصحيح الترمذي (596)]
یہ روزے قرب الہی اور قبولیت دعا کا ذریعہ ہیں ۔ نیز معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ نے اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھ کے ثابت کر دیا کہ یہ روزے کا دن ہے عید اور جشن کا دن نہیں ہے۔
ماہانہ مواقع: ایام بیض کے روزے:
یعنی ہر اسلامی مہینے کی13،14،15 تاریخ کو روزہ رکھنا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے ابوذر! اگر آپ مہینے میں تین روزے رکھنا چاہیں تو (قمری مہینے کی) 13،14 اور 15 کا روزہ رکھیں۔‘‘[جامع الترمذي، كتاب الصوم، باب في صوم ثلاثة من كل شهر (608)]
یہ روزے بھی قرب الہی اور قبولیت دعا کا ذریعہ ہیں یہ سنہری موقع ماہانہ مواقع میں سے ہے۔
وقتًا فوقتًا مواقع: 1۔ نزولِ بارش کے وقت دعا و مناجات:
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(وَتَحْتَ الْمَطَرِ) [صحيح الجامع (3078) و الصحيحة (1469)]
’’اور بارش کے دوران دعا رد نہیں کی جاتی ۔‘‘
در اصل قرآن کریم میں بارش کو رحمت کہا گیا ہے لیے بارش کے وقت اللہ کی رحمت جوش مارتی ہے تو اس وقت دعا رد نہیں ہوتی۔
2۔ جہاد و قتال میں جب میدان کارزار گرم ہو:
جب اہل ایمان غلبہ اسلام کے لیے اہل کفر سے قتال کرتے ہیں اور جان ہتھیلی پہ رکھ کر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے لڑتے ہیں تو اللہ کی رحمت موجزن ہوتی ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔[صحيح الجامع الصغير (3079) و صحيح الترغيب والترهيب (266)]
3۔ آب زم زم پیتے وقت دعا قبول ہوتی ہے:
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ) [مسند احمد (357/3) و ابن ماجه (3062)]
’’آب زمزم جس نیت سے پیا جائے اللہ تعالیٰ وہ پوری کر دیتے ہیں۔‘‘
معلوم ہوا آب زمزم پیتے وقت جو دعا کی جائے ضرور قبول ہوتی ہے اس لیے اس سنہری موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
سالانه مواقع: عشرة ذوالحجہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’کسی دن کا کوئی عمل صالح اللہ کو انتا محبوب اور پیارا نہیں جتنا ان دس دنوں کا عمل صالح اللہ کو محبوب اور پیارا ہے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
’’جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ البتہ وہ شخص مستملی ہے جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور کچھ واپس نہ لایا (بلکہ شہید ہو گیا اور اس کا مال بھی لوٹ لیا گیا۔‘‘[سنن أبي داؤد، كتاب الصيام، باب في صوم العشر (2434) والترمذي (158/2)]
2۔ یوم عرفه
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’عرفہ کے دن سے بڑھ کر کوئی دن نہیں جس میں اللہ اپنے بندوں کو دوزخ سے نجات عطا کرتے ہیں اللہ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتے ہیں پھر ان کے ساتھ فرشتوں پر فخر کرتے ہیں اور فخریہ انداز میں فرماتے ہیں کہ یہ حجاج کیا چاہتے ہیں۔‘‘[صحیح مسلم، الحج، باب في فضل الحج والعمرة و يوم عرفة (1378)]
3۔ ایام تشریق
حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ایام تشریق (11،12،13 ذو الحجہ کے دن) کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔‘‘[صحیح مسلم، الصيام، باب تحريم صوم أيام التشريق (1141) (1142)]
معلوم ہوا ایام تشریق بھی حصول رحمت الہی کے ایام ہیں۔
ماه رمضان
یہ سالانہ مواقع میں سب سے بڑا سنہری موقع ہے کیونکہ یہ بہت سارے مواقع پر مشتمل ہے اور ان کے فضائل بہت زیادہ ہیں۔ متفق علیہ روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیطان جکڑے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب هل يقال رمضان أو شهر رمضان؟ ومن رأى كله واسعا (1899) و مسلم (1079)]
سبحان اللہ رمضان کی آمد پر کیسا اہتمام کیا جاتا ہے؟۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تمہارے پاس رمضان کا برکت والا مہینہ آگیا ہے اللہ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیتے ہیں اس ماہ میں دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اللہ کے لیے اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس کی خیر و برکت سے محروم ہوا وہ ہر قسم کی خیر و برکت سے محروم رہا۔‘‘[سنن ابن ماجه، كتاب الصيام، باب ماجاء في فضل شهر رمضان (1644) و صحیح ابن ماجه (1333)]
1۔ روزے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ) [صحيح البخاري، كتاب الصيام، باب من صام رمضان…. (1901)]
’’جس نے ایمان کے ساتھ اللہ سے اجر لینے کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جائیں گئے۔‘‘
روزے کے مزید فضائل:
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازے کا نام ’’ریان‘‘ (سیراب کرنے والا) ہے اس دروازے سے صرف روزے داروں کا داخلہ ہو گا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الصيام، باب الريان للصائمين (1896) ومسلم (1152) و الترمذی (765)]
اور صحیحین میں ہی ایک اور حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’آدم کے بیٹے کے تمام نیک اعمال کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک دیا جائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے یعنی حدیث قدسی ہے کہ
’’سوائے روزہ کے بلاشبہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘
انسان اپنی شہوت اور کھانے پینے کو میری رضا مندی کے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک خوشی جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی جب اس کی اس کے پروردگار سے ملاقات ہو گی اور روزے دار کے منہ کی مہک اللہ کے ہاں ہا کستوری کی مہک سے بہتر ہے اور روزہ (گناہوں سے) محفوظ رکھتا ہے۔ اور جب تم نے روزہ رکھا ہو تو فخش گفتگو سے احتراز کیا جائے اور نہ جھگڑا کیا جائے۔ اگر کوئی شخص اسے گالیاں دے یا اس سے لڑائی کرے تو اسے (معذرت کرتے ہوئے) کہے، میں روزے سے ہوں۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الصيام، باب هل يقول اني صائم اذا شتم (1904)]
قرآن اور روزہ سفارش کریں گے:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’روزہ اور قرآن مومن انسان کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس کو دن بھر کھانے پینے اور شہوت رانی سے روکے رکھا اس لیے اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا: کہ رات کو میں نے اسے نیند سے باز رکھا اس لیے اس کے بارے میں میری سفارش کو شرف قبولیت عطا فرما چنانچہ دونوں کی سفارش قبول ہوگی۔‘‘[صحيح الترغيب والترهيب، كتاب الصوم (984) و احمد (174/2)]
قیام رمضان:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ) [صحيح البخاري، كتاب الصيام، باب من صام رمضان إيماناً واحتسابا (1901) و مسلم (759) و احمد (7792)]
’’جس نے ایمان کے ساتھ اللہ سے اجر لینے کی نیت سے رمضان کا قیام کیا اس کے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جائیں گئے۔‘‘
3۔ قيام ليلة القدر:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ) [صحيح البخاري، كتاب فضل ليلة القدر، باب فضل ليلة القدر (2014)]’’جس نے ایمان کے ساتھ اجر کی نیت سے لیلۃ القدر کا قیام کیا اس کے تمام گذشتہ (صغیره) گناہ معاف کر دیئے جائیں گئے۔‘‘
4۔ اعتکاف:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ نبی ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو فوت کر لیا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں۔[صحيح البخاري، كتاب الاعتكاف، باب الاعتكاف في العشر الأواخر، ومسلم (1172)]
آپ ﷺ کا ہر سال اعتکاف کرنا اعتکاف کی فضیلت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اور قرآن کریم میں بھی بکثرت اعتکاف کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے اس کی مزید شان و عظمت ثابت ہوتی ہے۔
5۔ صدقة الفطر:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے صدقۃ الفطر اس لیے فرض قرار دیا کہ ایک تو روزہ لغویات اور لغزشوں سے پاک ہو جائے اور دوسرا مسکینوں کی (عید کے موقع پر) ضرورت پوری ہو انہیں کھانا میسر آ جائے۔[سنن أبی داؤد، كتاب الزكاة، باب زكاة الفطر (1909) و این ماجه (1827)]
سبحان اللہ! یہ کیسا عظیم عمل ہے جس سے روزے کی آلائش اور لغزشیں ختم ہو جاتی ہیں۔
رمضان تو حقیقت میں نیکیوں کی بہار ہے:
رسول اللہ ﷺ تو اس کی بڑی قدر کرتے اور اس میں خوب عبادت کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بھلائی کے لحاظ سے سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ سب سے زیادہ رمضان میں سخاوت کرتے تھے جبرائیل رمضان میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے تو آپﷺ انہیں قرآن سناتے۔ جب آپﷺ سے جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات کرتے تو آپﷺ نیکی میں تیز آندھی سے زیادہ بھی ہوتے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب أجود ماكان النبي ما يكون في رمضان (1902) و مسلم (2308) و ابن حبان (3440)]
اور آپﷺ نے نیکیوں کی اس بہار کو ضائع کرنے والے کی شدید مذمت فرمائی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی ﷺ نے فرمایا:
(رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ) [جامع الترمذي، كتاب الدعوات، باب رغم انف رجل.. الخ رقم: 3545]
’’اس شخص کا ناک خاک آلود ہو جس پر رمضان آیا اور اس کے گناہ معاف ہونے سے پہلے رمضان ختم ہو گیا۔‘‘
غور فرمائیے! رسول اللہﷺ نے ایسے شخص پر کس قدر غصے کا اظہار فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں کہ وہ شخص ذلیل و رسوا ہو جائے اس کی ناک مٹی میں مل جائے جسے رمضان جیسا سنہری موقع ملا اور اس نے بکثرت نیکیاں کر کے اپنی بخشش کا انتظام نہیں کیا۔
آئیں! عزم بالجزم اور پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس نیکیوں کی بہار کو ضائع نہیں کریں گئے بلکہ اس کی قدر کریں گئے دن کو روزہ رکھیں گے رات کو قیام کریں گئے بکثرت قرآن کریم کی تلاوت کریں گئے بکثرت صدقہ و خیرات کریں گے اور ہر قسم کی برائیاں، (فلمیں، ڈرامے، ناول، افسانے، کھیل تماشے، حرام کمائی، ممنوعہ تجارتیں اور دیگر شیطانی کام) چھوڑے رکھیں گے۔ تاکہ ہمارا رب ہم پر راضی ہو کر ہمیں معاف فرمادے اور اپنی جنت میں جگہ دے دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔