علو باری تعالیٰ اور اس کے عرش پر مستوی ہونے کا اثبات اور اس میں تحریف کی مذمت
628۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
((يَا أَبَا هُرَيْرَةَ إِنَّ اللهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِينَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سَتَّةِ أَيَّامٍ، ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ)) ((أَخْرَجَهُ النسائي في التفسير:161/2، برقم: 409، في تفسير سورة السجدة، والذهبي في مختصر العلو :111)
’’ابو ہریرہ! اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے مجھے دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔“
توضیح و فوائد: اللہ تعالی سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ عرش اس کی مخلوق ہے اور اللہ تعالی اس کا محتاج نہیں وہ اپنی مخصوص شان کے مطابق اس پر مستوی ہے۔ اس کی کیفیت اور نوعیت کیا ہے؟ یہ حقیقت وہ خود ہی جانتا ہے۔ وہ اپنے شایان شان طریقے سے قریبی آسمان پر نزول بھی فرماتا ہے۔
629۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالٰى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقٰى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ، وَمَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، وَمَنْ يَسْتَغْفِرْ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ)) (أخرجه البخاري: 1145، 6321، 7494، و مسلم:758)
’’ہمارا بزرگ و برتر پروردگار ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے تو وہ آواز دیتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اسے قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کر دوں ؟
630۔ سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لَمَّا قَضَى اللهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ: إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي)) ((أخرجه البخاري: 3194، 7453، ومُسْلِمٌ:2751)
’’جب اللہ تعالی سب مخلوق کو پیدا فرما چکا تو اس نے اپنی کتاب (لوح محفوظ) میں، جو اس کے پاس عرش پر ہے، یہ لکھا: بلا شبہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘
631۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمٰنُ، إِرْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ)) (أَخْرَجَهُ أحمد:6494، وأبو داود:4941، والترمذي:1924، وابن أبي شيبة:526/8، والحميدي:591 والبيهقي في السنن: 241/9)
’’رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرمائے گا۔ تم اہل زمین پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘
632۔ سیدنا معاویہ بن ن حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی ؟ جو اُحد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریاں چراتی تھی۔ ایک دن میں اس طرف جا نکلا تو بھیڑیا اس کی بکریوں میں سے ایک بکری لے جاچکا تھا۔ میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں، مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح انھیں ہوتا ہے (مجھے صبر کرنا چاہیے تھا)، لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ اس کے بعد میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط) حرکت قرار دیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں اسے آزاد نہ کردوں؟ آپ اللہ نے فرمایا: ((إئتني بها)) ’’ تم اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘
میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے اس سے پوچھا: ((أين الله؟)) ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا: آسمان میں۔
آپ ﷺنے پوچھا: ((من أنا؟)) ’’میں کون ہوں؟“
اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تو آپ نے فرمایا:
((أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ)) ’’اسے آزاد کر دو، بلاشبہ یہ مومنہ ہے۔“ (أخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:537)
633۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((أَلَا تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيُّ:4351، وَمُسْلِمٌ:1064
’’تم لوگ مجھ پر اعتماد نہیں کرتے، حالانکہ اس پروردگار کو مجھ پر اعتماد ہے جو آسمانوں پر ہے اور صبح شام میرے پاس آسمانی خبر (وحی) آتی رہتی ہے۔“
634۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَّدْعُوا امْرَأَتَهُ إِلٰى فِرَاشِهَا، فَتَأْبٰي عَلَيْهِ إِلَّا كَانَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتّٰى يَرْضَى عَنْهَا)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1064)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے تو وہ (اللہ ) جو آسمان میں ہے اس سے ناراض رہتا ہے یہاں تک کہ وہ (شوہر) اس سے راضی ہو جائے۔“
635۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيْبٍ، وَلَا يَصْعَدُ إِلَى اللَّهِ إِلَّا الطَّيِّبُ، فَإِنَّ اللهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهَا كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتّٰى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 1410، 7430، وَمُسْلِمٌ:1014)
’’جو شخص اپنی پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے، اور اللہ تعالی پاکیزہ کمائی سے کیا ہوا صدقہ وخیرات ہی قبول فرماتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر وہ اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح بڑھاتا ہے جیسے تم میں۔ میں سے کوئی اپنی گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ (کھجور برابر صدقہ) پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔“
توضیح وفوائد: مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی اوپر ہے، ہر جگہ موجود نہیں، تاہم عرش پر موجود ہوتے ہوئے وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ کائنات کا ایک ذرہ بھی اس سے اوجھل نہیں۔ اللہ تعالی پر ایمان لانے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس ذات عالی کو عرش پر مستوی مانا جائے۔