امن و سلامتی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً ۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۲۰۸ فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْكُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ (البقرة: 207 تا 209)
اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے اگر تم باوجود تمہارے پاس دلیلیں آجانے کے بھی پھسل جاؤ تو جان لو کہ اللہ تعالی غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
اسلام سلم سے مشتق ہے جس کے معنی صلح سلامتی اور امن کے ہیں۔ یعنی اسلام قبول کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امن و سلامتی میں داخل ہو جاتا ہے اور اسلام لانے والا دوسروں کو بھی اسی صلح اور امن کی طرف دعوت دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لفظ اسلام ایک ایسا لفظ ہے جس کے اندر ہر قسم کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ گویا ایک سایہ دار اور پھل دار درخت ہے جس کے امن کے سائے تلے تمام دنیا نہایت امن و عافیت کی زندگی بسر کر سکتی ہے۔ یہی اسلام صراط مستقیم ہے انسانی نجات اور فلاح و بہبودی کا اگر کوئی مذہب سچا ضامن ہے تو یہی اسلام ہے اخلاق حسنہ اور راستبازی کے لحاظ سے اگر کوئی اکمل ترین مذہب ہے تو وہ اسلام ہی ہے۔ تہذیب اور سیاست مدنیہ اور تدبیر منزل وغیرہ کی حقیقی برکات اگر کسی مذہب میں ہیں تو وہ صرف اسلام ہی میں ہیں۔ لطافت و طہارت اور پاکیزگی صرف مذہب اسلام ہی میں ہے۔ دوسرے مذاہب اسلامی محاسن کا مقابلہ نہیں کر سکتے کامل تو حید اور خدا شناسی صرف اس میں ہے۔
غرض اسلام تمام محاسن کا مجموعہ ہے اس لئے یہ مذہب خالق کائنات کو سب سے زیادہ محبوب اور پیارا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:
﴿إِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ﴾ (آل عمران:19)
’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پیارا مذہب امن و سلامتی والا اسلام ہی ہے۔‘‘
اور سب سے زیادہ برگزیدہ اور خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت تک پہنچانے والا صرف اسلام ہی ہے۔
اس لیے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿اُدْخُلُوا فِي السَّلْمِ كَافَّةً﴾
’’تم خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘
یہی مذہب توحید الہی اور محاسن انسانی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اور یہی مذہب خدا کے تمام نبیوں اور رسولوں کا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ تک سارے نبی خدا اور رسول کی اطاعت کی طرف بلاتے رہے۔ اور امن و سلامتی و صلح کی طرف دعوت دیتے رہے۔ تو صحیح امن اور کامل سلامتی کا داعی صرف اسلام ہی ہے۔ اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد ہر داخل ہونے والا ہر قسم کے شروفساد، جنگ اور جدال وغیرہ سے امن میں ہو جاتا ہے۔ اور نڈر ہو کر قوم وملت کی خدمت کرتا ہے۔ اسلام کے ہر ہر رکن اور حکم میں امن و سکون صلح اور اطمینان مضمر ہے۔
اسلام سے پہلے دنیا میں جنگ و جدال، قتل و غارت گری، شر وفساد اور بدامنی ہر جگہ تھی دنیا کا کوئی خطہ صحیح طور پر امن واطمینان سے نہیں تھا اور عرب کا حصہ تمام دنیا سے خصوصاً مخرب اخلاق کاموں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اور ہر قسم کی سیاسی اقتصادی تمدنی برائیاں تھیں۔
ریگستان عرب میں انسانی خون کے جو طوفان برپا ہوئے اور اس میں باہمی جنگ و جدال کی جو تلاطم خیز لہریں اٹھی تھیں۔ انہوں نے اہل عرب کے جذبات و احساسات میں ایک عام ہیجان پیدا کر دیا تھا۔ اور اس کا اثر عموما رہرنی اور غارت گری کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا۔ جس سے عرب کا امن و سکون غارت ہو کر رہ گیا تھا۔ جان و مال کا تحفظ ختم ہو گیا تھا۔
ان حالات میں کہ تمام اقوام عالم عرب اور عجم کے ساتھ اسلام ہی نے ہمدردی کی جس نے ان کو قعر مذالت سے نکال کر حسن معاشرت اور امن عامہ کے تخت پر جلوہ افروز کیا۔ سچ ہے۔
﴿وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانبياء: 107)
’’تمام دنیا والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا تھا۔‘‘
جو اس سایہ رحمت کے تلے آ گیا وہ امن میں آ گیا اور جو اس سے الگ رہا وہ زحمت ہی زحمت کے ظلمت کدہ میں بھٹکتا ر ہا۔ دراصل اسلام اور امن ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اسلام کے امن کا دروازہ ہر شخص کے لئے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ اس نے بتایا جو اسلام میں داخل ہوا وہ ہر اعتبار سے امن میں آگیا۔ اور
(مَنْ الْقَى السَّلَاحَ فَهُوَ اٰمِنْ)[1]
’’جو جنگ و جدال سے الگ ہو کر ہتھیار پھینک دے وہ امن میں ہے۔‘‘
جو ظلم و تعدی نہ کرے اس کے لئے امن ہے۔ جو زنا و بدکاری نہ کرے اس کے لئے امن ہے اس کی صدا صرف یہ ہے کہ
﴿اُدْخُلُوْا فِي السَّلْمِ كَافَّةً﴾ ’’یعنی صلح و امن میں سب کے سب داخل ہو جاؤ۔‘‘
اسلام ہی نے دنیا میں امن قائم کیا ہے۔ اس کی تائید حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
(كُنتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا يَشْكُو الْعَيْلَةَ وَالْآخَرُ يَشْكُو قَطَعَ السَّبِيلَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا قَطْعُ السَّبِيلِ فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكَ إِلَّا قَلِيْلٌ حَتَّى تَخْرُجَ الْعِيْرُ إِلَى مَكَّةَ بِغَيْرِ خَفِيرٍ وَإِمَّا الْعَيْلَةُ فَإِنَّ السَّاعَةَ لَا تَقُوْمُ حَتَّى يَطْوْفَ أَحَدُكُمْ بِصَدَقَتِهِ فَلَا يَجِدُ مَنْ يَّقْبَلُهَا مِنْهُ ثُمَّ لَيَقِفَنَّ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ حِجَابٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمَ لَهُ ثُمَّ لَيَقُولَنَّ لَهُ الَمْ أُوْتِكَ مَالاً؟ فَلَيَقُولَنَّ بَلٰى ثُمَّ لَيَقُولَنَّ اللهُ اَلَمْ أُرْسِلْ إِلَيْكَ رَسُولًا؟ فَلْيَقُولَنَّ بَلٰى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ ثُمَّ يَنظُرُ إِلَى شِمَالِهِ فَلَا يَرِى إِلَّا النَّارَ فَلْيَتَّقِيَنَّ أَحَدُكُمُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقٍ تَمْرَةٍ فَإِنْ لَمْ يَجِدُ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ)[2]
’’میں آنحضرت ﷺ کے پاس تھا اتنے میں دو آدمی آپﷺ کے پاس آئے۔ ایک تو محتاجی کا شکوہ کرتا تھا دوسرا راستہ کی بے امنی کا شکوہ کرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ راستہ کی بے امنی تو تھوڑے ہی دنوں کی ہے جبکہ مکہ تک قافلہ روانہ ہوگا اور کوئی ضمانت کے طور پر ساتھ نہ ہوگا۔ رہی محتاجی تو قیامت اس وقت تک برپا نہ ہو گی کہ تم میں سے کوئی اپنی خیرات لئے ہوئے گھومتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجهاد، باب فتح مكة (104/2)
[2] بخاري: کتاب الزكاة، باب الصدقة قبل الرد (1413) و كتاب المناقب باب علامات النبوة في الإسلام (3595)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہے گا اور کوئی ایسا نہ ملے گا جو وہ خیرات قبول کرے پھر قیامت کے دن تم میں کوئی اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا۔ اس میں اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا۔ اور نہ کوئی درمیانی ترجمان ہوگا۔ پھر اللہ تعالی اس سے فرمائے گا: کیا میں نے دنیا میں تجھ کو مال نہ دیا تھا؟ وہ عرض کرے گا: کیوں نہیں بیشک تو نے دیا تھا۔ پھر فرمائے گا: کیا میں نے دنیا میں رسول نہیں بھیجے تھے؟ وہ عرض کرے گا: کیوں نہیں۔ تو نے رسول بھیجے تھے۔ پھر اپنے داہنے طرف دیکھے گا تو آگ اور بائیں طرف دیکھے گا تو آگ۔ تم میں سے ہر شخص کو آگ سے بچنا چاہئے۔ اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات میں دے اگر یہ بھی نہ ملے تو اچھی بات ہی کہے۔‘‘
اس کے بعد حضرت عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
(فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيْرَةِ حَتَّى تَطْوْفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللهَ وَكُنتُ فِيمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرُ مُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِيُّ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرِجُ مِلَٔا كَفِّهِ)[ صحیح بخاری]
’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ حیرہ سے ایک پردہ نشیں عورت بلا خوف آتی ہے اور خانہ کعبہ کا طواف کر کے چلی جاتی ہے۔ کسری بن ہرمز کا خزانہ کھولا گیا اور اس کے کھولنے والوں میں بھی شریک تھا۔ آنحضرت ﷺ کی تیسری بشارت یعنی اللہ تعالی اس قدر دولت عطا فر مائے گا کہ صدقہ لینے والے مسکین نہ ملیں گے۔ تو عدی رضی اللہ تعالی عنہ کہا کہ جو لوگ زندہ رہیں گے وہ اس بات کو بھی دیکھ لیں گے۔‘‘
چنانچہ اس دور کے بعد جو لوگ آئے انھوں نے اس چیز کو بھی اپنی آنکھوں میں دیکھ لیا یہ بشارت تھی جو اسلام نے اس قوم کو دی تھی جو ریگستان کے صحرائی خیموں میں سوتی خشک کھجوریں کھاتی اور اونٹوں کو چراتی تھی مگر اس نے یقین کیا اور اس کا پھل پایا۔ پھر آہ موجودہ عہد کے وہ مسلمان جو محلوں میں رہ کر ریشمی بستروں پر سو کر آج اسلام کے وعدہ پر یقین نہیں لاتے اور اس کے لیے اپنے اندر کوئی یقین نہیں رکھتے اور اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے بدامنی اور خوف ہراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں امن اسی لئے ہوا کہ اسلام کی نظر میں سب انسان بھائی بھائی ہیں اور کسی کو سی پر فضیلت نہیں ہے، بجز مکارم اخلاق، حسن اخلاق اور تقوی کے۔
حسب و نسب کوئی چیز نہیں ہے اور نہ باعث فخر ہے۔ کیونکہ سب کی اصلیت خاک اور مٹی ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جو لوگ اپنے مرے ہوئے باپ دادوں پر فخر و شیخی کرتے ہیں انہیں اس سے باز آ جانا چاہئے کیونکہ وہ دوزخ میں جل بھن کر کوئلے ہو گئے ہیں تو اب ان پر فخر کی کونسی بات ہے اگر یہ فخر اور شیخی سے باز نہیں آئے تو اللہ کے نزدیک اس کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ٹھہریں گے جو اپنی ناک سے پلیدی کو الٹ پلٹ کرتا ہے یعنی اس گوبر کے کیڑے سے جو اپنے منہ سے گوبر کی گولی بنا کر اپنی ناک سے لڑھکاتا پھرتا ہے۔ اللہ تعالی نے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادوں کے ساتھ فخر کرنے کو دور کر دیا ہے۔ آدمی تو دو ہی طرح کے ہیں۔ مومن پرہیز گار یا بد بخت بد کار۔ ورنہ انسانیت کے لحاظ سے سبھی برابر ہیں سب اولاد آدم علیہ السلام ہیں۔ اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے ہیں۔‘‘
اور مٹی میں غرور ونخوت اور شیخی نہیں ہے۔ تو تم لوگوں میں بھی غرور شیخی اور نخوت نہیں ہونا چاہئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’لوگو! خدائے تعالی نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تم تو اضع اور فروتنی اختیار کرو حتی کہ کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے اور ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی نہ کرے۔[2]
آپ ﷺ نے صرف زبان ہی سے یہ اعلان نہیں کیا بلکہ ان الفاظ کو اسلام زندگی کا دستور العمل بنا دیا۔ خود بھی اس پر ساری زندگی عمل کیا اور اپنے پیروؤں کو بھی اس پر عمل کرنے کی تاکید کی۔ آپ ﷺ نے ان کے سامنے اپنے عمل کا ایک ایسا واضح نمونہ قائم کیا کہ انسانیت کی وحدت کا تصور بھی ان کے دل سے نہ نکل سکا۔ اس طرح آپ ﷺ نے عداوت و دشمنی اور افتراق و انتشار کی سب سے بڑی بنیاد ڈھا دی۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے دلوں میں توحید کا عقیدہ پختہ کرنے کے لئے انتہائی محنت کی کیونکہ انسانی وحدت کا تصور اس وقت تک پورے طور پر ذہن نشین نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ وحدت معبود کا عقیدہ دل نشین نہ ہو جائے۔ جب تک کہ ہر قبیلہ کا خدا الگ اور ہر قوم کا خالق جدا سمجھا جائے گا اس وقت تک ناممکن ہے کہ سب انسان کسی ایک مرکز پر جمع ہو سکیں۔ نفسیات اجتماعی کے علاوہ مشاہد و فطرت اور مطالعہ کائنات بھی اس نتیجے تک پہنچاتے ہیں اور خلاق عالم کی یکتائی کا یقین دلاتے ہیں۔ ایک خدا نے تمام انسان کو بنایا ہے اور سب آدمی ایک ہی اصل کی شاخیں اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ان ان بنیادی حقیقتوں پر انسانیت کی تعمیر ہوسکتی ہے۔ اور نزاعوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب المناقب باب في فضل الشام (382/4)
[2] مسلم: كتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها، باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس لیے آپﷺ نے ان دو اصولوں پر بہت زور دیا۔ رسول اللہﷺ نے ہم کو جو تعلیم دی ہے اس کا اصل منشا یہ ہے کہ ہم دنیا میں امن سے رہیں اور لوگوں کو بھی امن سے رہنے دیں اور دنیا ہی میں امن و اطمینان سے جنت کی زندگی بسر کر سکیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا تَقَاطَعُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوْا وَكُوْنُوْا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا وَلَايَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَّهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلٰثٍ)[1]
’’آپس میں مقاطعہ مت کرو اور نہ ملاقات کے وقت منہ موڑو۔ نہ کینہ بغض رکھو اور نہ حسد کرو۔ اللہ کے بندے بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔‘‘
ان بنیادی باتوں کے بعد تفرقہ کی چند اور باتیں بھی ہیں۔ لوگ ذاتوں اور پیشوں کی بناء پر بھی الگ الگ خاندانوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اسلام نے کسی پیشہ کو نہ خاندانی قرار دیا اور نہ انہیں عزت وذلت اور معیار تعلیم کیا۔ بلکہ ہر شخص کو پوری آزادی دی کہ وہ اپنے حالات، ضروریات، مزاجی مناسبت اور طبعی مناسبت کی بناء پر اپنے لئے جو پیشہ مناسب سمجھے اختیار کرلے۔ کسی پیشے کی بناء پر کوئی شریف یا رذیل نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اپنے اعمال کی بنیاد پر عزت یا ذلت کا مستحق ہوگا اگر سلیقہ دانشمندی اور ایمان داری کے ساتھ کام کرے گا تو عزت کی نظر سے دیکھا جائے گا لیکن بدسلیقگی، فریب اور بد دیانتی سے کام کرنے والا برا سمجھا جائے گا۔ خواہ کتنا ہی اہم پیشہ کیوں نہ اختیار کرے۔
اسلام در اصل دنیا میں امن وسلامتی کی اشاعت ہی کے لئے ہے۔ جتنی زیادہ سلامتی ہوگی اتنا ہی زیادہ امن ہوگا اور اتنا ہی زیادہ ایمان کامل ہوگا۔ یہ رسول اللہﷺ کی زبان فیض ترجمان سے سنئے کہ فرمایا:
(لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰی تُؤْمِنُوا وَلا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمُ اَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ)[2]
’’تم لوگ جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ گے اور تم اس وقت تک ایماندار نہیں ہو سکتے۔ جب تک آپس میں محبت نہ کرو اور میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرنے لگو گے تو آپس میں محبت پیدا ہو جائیگی۔ وہ یہ ہے کہ تم باہمی سلام اور سلامتی پھیلاؤ اور اس کی اشاعت کرو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب، باب ما ينهى عن التفاسد و التدابر.
[2] مسلم: كتاب الإيمان، باب بيان أنه لا يدخل الجنة الا المؤمنون.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر آشنا اور غیر آشنا کو سلام کیا جائے کسی چھوٹے بڑے امیر و غریب کی کوئی تخصیص نہ ہو۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے جو سب سے پہلے خطبہ دیا وہ اسی افشاء سلام اور سلامتی کے بارے میں تھا وہ یہ ہے:
(یٰايُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَاطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ)[ترمذی: کتاب صفة القيامة(313/3)]
’’اے لوگو! تم آپس میں سلام پھیلاؤ اور غریبوں کو کھانا کھلاؤ اور جب سب لوگ سو رہے ہوں تو اس وقت تم نماز پڑھو جب یہ کام کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
اخروی جنت تو آخرت ہی میں ملے گی لیکن دنیاوی جنت امن و سلامتی سے ملتی ہے۔ موجودہ زمانے میں امن امن کی پکار ہے کہ امن قائم کرو۔ لیکن اصل امن کے صحیح اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش نہیں ہے اللہ تعالی ہم سب کو صحیح امن اور سکون عطا فرمائے اور سچے ایمان کی توفیق دے۔ آمین!
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ وَجَمِيْعِ الْأَنْبِيَاءِ وَعِبَادَ اللَّهِ الصَّلِحِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔