امانت کی ادائیگی
الحمد لله أهل الحمد ومستحقه، العالم بجليل الأمر ودقه، لا يخفى عليه خافية من خلقه، يعلم خائنة الأعين وما تخفي الصدور، أحمده سبحانه على كل حال، وأعوذ به من أحوال أهل النار، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله الموصوف بالأمانة والخلق العظيم، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو ہر قسم کی حمد و ثنا کا سزاوار اور ہر چھوٹے بڑے امر کا جانکار ہے، مخلوق میں سے کسی کی کوئی بھی پوشیدہ بات اس سے چھپ نہیں سکتی اوہ آنکھوں کی دزدیدہ نگاہی اور دلوں کے اسرار سے بخوبی واقف ہے میں ہر حال میں اس اللہ سبحانہ کی تعریف کرتا اور اہل جہنم کے حالات سے پناہ مانگتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس ذات پاک کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں ’’امین“ اور صاحب ’’خلق عظیم‘‘ کے اوصاف سے متصف فرمایا۔ اے اللہ! تو اپنے بندے و رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
بندگان الهی! ظاہر و باطن ہر حال میں اللہ کا تقوی اختیار کرو اللہ تعالی سے کوئی بھی پوشیدہ چیز چھپ نہیں سکتی وہ ہر راز سر بستہ سے واقف ہے جو تم ظاہر کرتے ہوا سے بھی جانتا ہے اور جو کچھ چھپاتے ہو اس کی بھی خبر رکھتا ہے لہٰذا ہمہ وقت دہر لحظہ اپنے رب سے ڈرتے رہو اور ہر اس کام سے اجتناب کرو جو اس کی ناراضگی اور عذاب کا سبب ہو انبیاء کرام اور ان اہل ایمان و اصحاب صفا کے اوصاف اختیار کرو جن کی اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے اندر تعریف فرمائی ہے:
﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ۱ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ۲ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ۳ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ۴ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ۵ اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ6 فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ7 وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ۸﴾ (المومنون: 1تا8)
’’بے شک ایمان والے فلاح پا گئے۔ جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں اور جو زکوۃ ادا کرتے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں یا کنیزوں سے اور جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ ان سے مباشرت کرنے پر انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ اللہ کی مقرر کردہ حد سے نکل جانے والے ہیں اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔‘‘
دینی بھائیو! امانت ایک نہایت ہی اہم اور نازک شئے ہے یہ وہی امانت ہے جو اللہ رب العالمین کے نزدیک بڑی ہی اہمیت و عظمت کی حامل ہے اور جسے رب پاک نے اپنی بڑی بڑی مخلوقات پر پیش فرمایا تو سب نے اس بوجھ کو اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس کی ذمہ داریوں سے ڈر گئے لیکن نا تواں انسان نے اپنے ظلم کے سبب اور امانت کی اہمیت سے غافل اور اس کی ذمہ داریوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے امانت کا بار گراں قبول کر لیا۔‘‘
امانت سید البشر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خاص صفت تھی ایسی وجہ تھی کہ اہل مکہ نبوت سے پیشتر آپ کو ’’امین‘‘ کہہ کر پکارتے تھے ہمارے لوگوں کے نزدیک ہر معاملہ میں آپ نہایت با اعتماد تھے وہ اگر امانت رکھنا چاہتے تو آپ سے بڑھ کر کسی کو امانت کا محافظ نہ پاتے اگر انصاف چاہتے تو آپ سے زیادہ باانصاف انہیں اور کوئی نہ ملتا کسی معاملہ میں جب ان کے اندر آپس میں اختلاف ہو جاتا تو آپ ہی کے فیصلہ سے وہ راضی ہوتے۔
اللہ تعالی نے امانت کبری در سالت عظمٰی کی ذمہ داریاں ڈالنے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے پہلے بچپن ہی میں امانت و صداقت اور دیگر خصائل حمیدہ و اوصاف عالیہ سے متصف فرما دیا تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب تعمیر کعبہ کے وقت قریش مکہ کے درمیان حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کرنے کے بارے میں شدید اختلاف ہوا تو سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا حکم اور فیصل ماننے پر راضی ہو گئے اور جب صبح کے وقت آپ مسجد کے دروازہ پر پہنچے تو لوگ بیک زبان پکار اٹھے ’’هذا محمد، هذا الأمين، رضينا به، رضينا به‘‘ لو یہ محمد آگئے امین آگئے آپ جو فیصلہ کر دیں گے ہم اس سے راضی ہیں۔
اس کے بعد جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر انسانوں کو نجات دینے کے لئے مذہب اسلام عطا کیا تو اس عظیم خصلت یعنی امانت کی مزید تاکید فرمائی اور اس کی عظمت و اہمیت کو بیان کیا کیونکہ امانت کا تعلق دنیا کے سارے معاملات سے ہے خواہ وہ معاملات خاص ہوں یا عام، چھوٹے ہوں یا بڑے۔ اور یہی امانت کسی بھی دینی یاد نیادی عمل کی اساس و بنیاد ہے چاہے اس عمل کا تعلق بندے اور اسکے خالق سے ہو یا بندے کا کسی دوسرے بندے سے ہو یا سو سائٹی اور معاشرہ سے ہو۔ اور میں امانت اساس ایمان بھی ہے ایمان باللہ میں سچاو صادق وہی شخص ہے جو امانت کا می سا ہے جو امانت کا محافظ ہو اور جو شخص امانت کی حفاظت کے بجائے اس میں خیانت کرے وہ منافق اور اللہ کو دھوکہ دینے والا ہے۔
امانت کو ضائع کر دینا نفاق کی ایک نشانی اور منافقین کی ایک صفت ہے۔ امانت کو جملہ عبادات کے اندر ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے، مثلاً وضو اور غسل جنابت میں امانت یہ ہے کہ کامل طور پر اور سنت نبوی کے مطابق کئے جائیں، نماز میں امانت یہ ہے کہ نماز اوقات کی رعایت کرتے ہوئے اور اس کے تمام شروط و ارکان کی تکمیل کے ساتھ ادا کر میں اسی طرح روزہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک امانت ہے زکوۃ بھی ایک امانت ہے اور اللہ تعالٰی اس کی ادائیگی سے باخبر ہے کہ وہ کامل طور پر ادا ہوئی ہے یا نا قص و نا تمام طور پر۔ اسی طرح قسمیں، عهد و پیمان اور وعدہ و اقرار بھی امانت ہیں، ہمارے کان ہمارے پاس امانت ہیں، نگاہیں امانت ہیں زبان اور دل امانت ہیں اور ان سب کے بارے میں قیامت کے دن باز پرس ہو گی:
﴿إنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولا﴾ (الاسراء: 36)
’’بیشک ناک، کان اور آنکھ اور دل ان سب جوارح سے ضرور باز پرس ہو گی۔‘‘
لیکن آہ! نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ یہ ساری امانتیں بہتوں کی نزدیک ضائع ہو کر رہ گئی ہیں، ضعف ایمان کے سبب لوگوں کے دلوں میں امانت کی ذمہ داری کا احساس کمزور ہو گیا ہے اور دین سے غفلت کی وجہ سے امانت دار خال خال ہی نظر آتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له)[ مسند احمد:154/3 (12568)]
’’جس کے اندر امانت نہیں اس کے پاس ایمان بھی نہیں اور جس میں ایفاء عہد نہیں اس کے اندر دین بھی نہیں۔‘‘
برادران اسلام! ہم دیکھتے ہیں کہ آج بہت سے لوگ ایسے ہیں جو امانت کا خیال نہیں رکھتے؟ ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ایک ذمہ دار اپنے کام کو کما حقہ اور امانت کے ساتھ انجام نہیں دیتا۔ مقررہ وقت کی پابندی نہیں کرتا، مستحق تک اس کا حق پہنچانے میں امین نہیں، دیگر عملہ اور کام کرنے والوں کا خیر خواہ نہیں۔
آج دھوکہ بازی بکثرت ہونے لگی ہے رشوت عام ہے، جھوٹی گواہی اور حق تلفی کا کوئی شمار نہیں اور یہ سب چیز میں خلاف امانت بلکہ عین خیانت ہیں۔
آج حالت یہ ہے کہ سخت مشقت و پریشانی اور تگ ودو کے بعد ہی کسی مستحق کو اس کا حق مل پاتا ہے یا اس کے حق میں سے ناحق طور پر بھاری حصہ وضع کر کے اسے دیا جاتا ہے ایسی صورت میں بھلا ہمارے دلوں میں اللہ کا خوف کہاں رہا؟ اس عالم الغیب والشہادہ کے مراقب و نگراں ہونے کا احساس کہاں رہا؟ ہمارے سامنے قرآن کریم کے زجر و توبیخ اور ڈراوے کہاں رہے؟ اور اللہ کا وہ فرمان ہمیں کہاں یاد رہا جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے:
﴿ وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ۴۲ مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَ اَفْـِٕدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ۴﴾ (ابراهيم: 43،42)
’’یہ مت خیال کرو کہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں اللہ ان سے بے خبر ہے وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جبکہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور لوگ سر اٹھائے ہوئے (میدان قیامت کی طرف) دوڑ رہے ہوں گے ان کی نگا ہیں ان کی طرف لوٹ نہ سکیں گی اور ان کے دل ( مارے خوف کے ) ہوا ہو رہے ہوں گے۔‘‘
یقینًا اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن دنیا کی محبت و لالچ اور لمبی آرزوئیں ہم پر غالب آچکی ہیں۔
بندگان الہی! اللہ سے ڈرو اور ان لوگوں کے زمرہ میں نہ آؤ جن کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے:
﴿ذَرْهُمْ يَأْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ﴾ (الحجر: 3)
’’اے محمد! ان کو ان کے حال پر رہنے دو کہ کھائیں اور فائدے اٹھا لیں اور لمبی امید و آرزو ان کو (دنیا میں) مشغول کئے رہے، عنقریب ان کو (اس کا انجام ) معلوم ہو جائے گا۔‘‘
بھائیو! خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ اور اپنے ذمہ جو امانتیں ہوں انہیں پوری کرو ان کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی یا خیانت نہ ہونے پائے دنیا کی یہ زندگی بہت ہی مختصر اور چند روزہ ہے جس کے پیچھے ایک شدید ہولناکی لگی ہوئی ہے اس کے ختم ہوتے ہی ایک خوفناک سماں ہو گا ایک تنگ و تاریک اور ڈراونی قبر ہو گی۔ قرآن کریم کے اندر پروردگار عالم فرماتا ہے:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۠﴾ (الانفال: 27،28)
’’اے ایمان والو ا نہ تو اللہ اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم ان باتوں کو جانتے ہو اور جان رکھو کہ تمہار امال اور اولاد بڑی آزمائش ہیں اور یہ کہ اللہ کے پاس ( نیکیوں کا) بڑا ثواب ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبه ثانیه
الحمد لله دائم الفضل والإحسان، أشكره على ترادف إنعامه والامتنان، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمدًا عبده ورسوله المصطفى المختار، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
حمدوثنا اس اللہ رب العزت کیلئے ہے جو مسلسل فضل و احسان کرنے والا ہے، میں اس کے بے پایاں انعام و احسان پر اس کا شکر ادا کرتا اور اس کی وحدانیت کی شہادت دیتا ہوں اور اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے منتخب و برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کا بے شمار درود و سلام ہو ہمارے رسول برحق محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر۔
اللہ کے بندو! امانت ان اہم ترین بنیادوں میں سے ایک ہے جن پر معاشرہ میں امن کا دارو مدار ہے اور جن کے ذریعہ جماعتوں کے درمیان اتفاق و اتحاد قائم ہوتا اور محبت و عقیدت اعتماد و بھروسہ اور عزت و احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح امانت معاشرہ کے فساد اور بگاڑ، جرائم اور گناہوں کی جڑ اکھاڑ پھینکے کا ایک اہم ذریعہ ہے کیونکہ یہ زندگی کے جملہ شعبہ جات کو شامل اور ان تمام تصرفات کو محیط ہے جن سے معاشرہ کا کوئی بھی مسلمان مستغنی نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ ایک حاکم کے اوپر امانت کا جو بار ہے وہ کسی اور کے اوپر نہیں۔ وزیر کی جو ذمہ داری ہے وہ اس کے ماتحت لوگوں پر نہیں، ایک امیر یا قاضی جس نوعیت کی امانت اٹھائے ہوئے ہے دوسرے لوگ اس کے مسئول نہیں، اسی طرح ہر شخص اپنی اپنی جگہ ذمہ دار اور امین ہے یہاں تک کہ ایک بیوی اپنے شوہر کے گھر میں اس کے مال اور خود اپنے نفس کی امین اور نگہبان ہے۔ ایک خادم اپنے مالک کی ان تمام چیزوں کا نگراں اور ذمہ دار ہے جو مالک کی جانب سے اسے سونپی گئی ہیں اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری اور امانت کی بابت باز پرس ہو گی اور حساب لیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔