امر بالمعروف ونہی عن المنکر
اہم عناصرِ خطبہ :
01. امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہمیت
02. امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فضائل وفوائد
03. امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی شروط
04. انکار ِ منکر کے مراتب
05. امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو چھوڑنے کے خطرناک نتائج
06. امر بالمعروف ونہی عن المنکرکیلئے قدوۂ حسنہ کی اہمیت
پہلا خطبہ
محترم حضرات !
اگر ہم معاشرے پر سرسری سی نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت ساری خرابیاں موجودہیں اور لوگوں میں بہت زیادہ بد عملی پائی جاتی ہے ۔ ہمارے خیال میں اس کے دو بنیادی اسباب ہیں :
01. ایمان کی کمزوری اور اس کے مقابلے میں شر اور برائی کا پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہونا ۔
02. امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا خاطر خواہ اہتمام نہ کرنا ۔
یہی دوسرا سبب آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے ۔
٭ امر بالمعروف اور نہی المنکر دین اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے ۔
٭ اگر تمام لوگ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اِس ذمہ داری کو پورا کریں تو معاشرے میں برائیاں بہت حد تک کم ہو سکتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر اسلامی حکومت بھی اس سلسلے میں اپنا کر دار ادا کرے تو معاشرہ بہت حد تک برائیوں سے پاک ہو سکتا ہے ۔
٭ ’معروف‘ کا حکم دینے سے نیکی کا جذبہ پیدا ہو تا ہے ۔ اور ’ منکر ‘ سے منع کرنے سے برائیوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے ۔
٭ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے سنتیں زندہ اوربدعات ختم ہوتی ہیں ۔ اور اچھے لوگوں کو تقویت ملتی ہے اوربرے لوگ کمزور پڑ جاتے ہیں۔
٭ اور اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیا جائے تو اہل ایمان کمزور پڑ جاتے ہیں اور اہل ِ شر (مجرم پیشہ لوگ ) طاقتور ہو جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرے میں بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
٭ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ویسے تو فرمان ِنبوی ( کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ ) کی بناء پر ہر شخص کی ذمہ داری ہے ، تاہم ہر معاشرے میں اہل ِ علم اور اربابِ دانش کی ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے جو معروف ومنکر کا علم رکھتے ہوں اور اس کی شروط وغیرہ سے آگاہ ہوں ، یہ اہل ِ علم لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دیں ، اچھے کاموں کی تلقین کریں اور برے کاموں سے روکیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ آل عمران3 :104
’’ اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دے ، نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے ۔ اور ایسے ہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت الی الخیر ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں تو ایسے ہی لوگ دنیا وآخرت میں کامیاب ہیں ۔ اللہم اجعلنا منہم
٭ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت ِ محمدیہ کے بہترین امت ہونے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ﴾ آل عمران3 :110
’’ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو ۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ ‘‘
لہٰذا یہ امت جس وجہ سے بہترین امت ہے ، اس کا اسے اہتمام کرنا چاہئے ۔ اور وہ ہے : امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ۔
٭ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی ایک جماعت کی بھی تعریف فرمائی جو نیکی کا حکم دیتی تھی اور برائی سے منع کرتی تھی ۔ اور اس جماعت کے لوگوں کو صالحین میں سے قرار دیا ۔ اس کا فرمان ہے :
﴿ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآئَ الَّیْلِ وَ ھُمْ یَسْجُدُوْن٭ یُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَاُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾ آل عمران3 :-113 114
’’ اہل کتاب کا ایک گروہ حق پر قائم ہے ۔ ( اس گروہ کے لوگ ) رات کی گھڑیوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔ اور خیر کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں ۔ اور یہی لوگ صالحین میں سے ہیں ۔ ‘‘
میرے بھائیو اور بہنو ! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے اجتماعی فرائض میں شامل فرمایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ یَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَـئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ التوبۃ9 :71
’’ مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے ( مدد گار ومعاون اور ) دوست ہوتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔ نماز قائم کرتے ، زکاۃ اداکرتے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرے گا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ غالب ، حکمتوں والا ہے۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جن مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو اپنی رحمت کا مستحق ٹھہرایا ہے ان کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنے کیلئے تمام مومنوں کو اِس پر عمل کرنا چاہئے ۔
٭ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مومنوں کی اچھی صفات میں سے ایک ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَ بَشِّرِ الْمُؤمِنِیْنَ ﴾ التوبۃ9 :112
’’ وہ ( مومن ) توبہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے ، اللہ کی تعریف کرنے والے ، ( اللہ کے دین کی خاطر) زمین پر چلنے والے ( یا روزہ رکھنے والے ) ، رکوع وسجود کرنے والے ، نیکی کا حکم دینے والے ، برائی سے منع کرنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ اور آپ ( ایسے ہی ) مومنوں کو بشارت دے دیجئے ۔ ‘‘
٭ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی جنا ب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکما فرمایا کہ ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ ﴾ الأعراف7 :199
’’در گزر کیجئے ، نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے اعراض کیجئے ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کا یہ حکم در حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کیلئے بھی ہے ۔ لہٰذا امت کو اس پر عمل کرتے ہوئے نیکی کا حکم دینا چاہئے ۔ اور اگر کوئی شخص اِس سلسلے میں انھیں اذیت پہنچائے تو وہ اس سے در گزر کریں اور جاہلوں کی باتوں کو خاطر میں نہ لائیں ۔
٭ عام طور پر لوگ مجلسوں میں بیٹھ کر فضول وبے ہودہ گفتگو کرتے ہیں ۔ اور آداب ِ مجلس کے تقاضوں سے صرف ِ نظر کرتے ہیں۔ اس لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلسوں میں بیٹھنے والے لوگوں کو خاص طور پراِس بات کی تاکید کی کہ وہ ایک دوسرے کو اچھائی کی تلقین کریں اور برائی سے منع کریں ۔
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِیَّاکُمْ وَالْجُلُوسَ فِی الطُّرُقَاتِ))
’’ تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو ۔‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : (یَا رَسُولَ اللّٰہ ! مَا لَنَا بُدٌّ مِن مَّجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِیْہِ )
یا رسول اللہ ! ہمارے لئے مجلسوں میں بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں جہاں ہم باہم گفتگو کرتے ہیں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَإِذَا أَبَیْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِیْقَ حَقَّہٗ))
’’اگر تم نے ضرور مجلس میں بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کیا کرو ۔‘‘
انھوں نے کہا 🙁 مَا حَقُّہٗ ؟ ) اس کا حق کیا ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( غَضُّ الْبَصَرِ ، وَکَفُّ الْأَذَی ، وَرَدُّ السَّلَامِ ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ )) صحیح البخاری : 2465، صحیح مسلم :2121
’’ نظر کو جھکانا ، کسی کو تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ۔ ‘‘
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فضائل وفوائد
٭امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جہنم سے دوری کا ایک سبب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّہُ خُلِقَ کُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ عَلٰی سِتِّیْنَ وَثَلَاثِمِائَۃِ مِفْصَلٍ ، فَمَنْ کَبَّرَ اللّٰہَ ، وَحَمِدَ اللّٰہَ ، وَہَلَّلَ اللّٰہَ وَسَبَّحَ اللّٰہَ ، وَاسْتَغْفَرَ اللّٰہَ ، وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِیْقِ النَّاسِ، أَوْ شَوْکَۃً أَوْ عَظْمًا عَنْ طَرِیْقِ النَّاسِ ، وَأَمَرَ بِمَعْرُوفٍ ، أَوْ نَہٰی عَنْ مُنْکَرٍ ، عَدَدَ تِلْکَ السِّتِّیْنَ وَالثَّلَاثِمِائَۃِ السُّلَامیٰ ، فَإِنَّہُ یَمْشِیْ یَوْمَئِذٍ وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَہُ عَنِ النَّارِ )) صحیح مسلم :1007
’’ بنو آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں پر پیدا کیا گیا ہے ۔ لہٰذا جو شخص ان کے بقدر اللہ اکبر ، الحمد للہ ، لا إلہ إلا اللہ ، سبحان اللہ ، أستغفر اللہ کہے اور لوگوں کے راستے سے پتھر یا کانٹا یا ہڈی ہٹادے ، نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے تو وہ یقین کرلے کہ اس دن اس نے اپنے آپ کو جہنم سے دور کر لیا ۔‘‘
٭نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگوں نے آپ سے کہا : اے اللہ کے رسول ! (( ذَہَبَ أَہْلُ الدُّثُورِ بِالْأجُورِ،یُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّی،وَیَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ ، وَیَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِہِمْ ))
یعنی ’’ مال ودولت والے لوگ اجر وثواب لے گئے ، وہ ہماری طرح نمازیں بھی پڑھتے ہیں ، روزے بھی رکھتے ہیں ، اور اپنے بچے ہوئے مالوں کے ساتھ صدقہ بھی کرتے ہیں ۔‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَوَ لَیْسَ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مَا تَصَدَّقُونَ ؟))
’’ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بھی صدقہ کرنے کا ذریعہ نہیں بنا دیا ؟‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ بِکُلِّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃً)) ’’بے شک ہر (سبحان اللہ ) صدقہ ہے ۔‘‘
((وَکُلِّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃً)) ’’اورہر (اللہ اکبر ) صدقہ ہے‘‘
(وَکُلِّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃً ) ’’ اور ہر (الحمد للہ ) صدقہ ہے ۔‘‘
(( وَکُلِّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃً )) ’’اور ہر ( لا إلہ إلا اللہ ) صدقہ ہے ۔‘‘
(( وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَۃ)) ’’نیکی کا ہرحکم صدقہ ہے۔‘‘
(( وَنَہْیٌ عَنْ مُنْکَرٍ صَدَقَۃٌ )) ’’ اور ہر برائی سے روکنا صدقہ ہے ۔۔۔‘‘ صحیح مسلم :1006
٭ امر بالمعروف ونہی عن المنکر گناہوں کی بخشش کا ایک ذریعہ
حضرت حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا :
((فِتْنَۃُ الرَّجُلِ فِی أَہْلِہٖ وَمَالِہٖ وَوَلَدِہٖ وَجَارِہٖ ، یُکَفِّرُہَا الصِّیَامُ وَالصَّلَاۃُ وَالصَّدَقَۃُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ )) صحیح البخاری:1435،3586 ، 7096 وصحیح مسلم:144
’’ آدمی اپنے گھر والوں ، اپنے مال ، اپنی اولاد اور اپنے پڑوسی کی آزمائش میں پڑ کر ( جن گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے انھیں) روزہ ، نماز ، صدقہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے نیک اعمال مٹا دیتے ہیں ۔ ‘‘
٭ امر بالمعروف اجر عظیم کے حصول کا ذریعہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰھُمْ اِلاَّ مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ فَسَوْفَ نُؤتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ النساء4 :114
’’ان کی بہت سی سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہے ، سوائے اس آدمی کے جو صدقہ یا نیکی یا لوگوں کے ما بین اصلاح کا حکم دے ۔ اور جو شخص یہ کام اللہ کی خوشنودی کیلئے کرے گا تو ہم عنقریب اسے اجر عظیم عطا کریں گے ۔ ‘‘
٭ امر بالمعروف ونہی عن المنکر بہترین جہاد ہے
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَفْضَلُ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِر )) سنن ابن ماجہ :4011 ۔ وصححہ الألبانی
’’ بہترین جہادظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق وانصاف کہنا ہے ۔ ‘‘
ایک اور روایت میں اس کے الفاظ یہ ہیں :
(( إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِر)) جامع الترمذی :2174۔ وصححہ الألبانی
’’ سب سے بڑے جہاد میں سے یہ بھی ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ عدل وانصاف کہا جائے ۔ ‘‘
جبکہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جمرۂ اولی ( جس کو لوگ چھوٹا شیطان کہتے ہیں) کے
پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ !
(( أَیُّ الْجِہَادِ أَفْضَلُ)) ’’ کونسا جہاد سب سے افضل ہے ؟ ‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ۔
پھر جب اسی آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے جمرہ ( جس کو لوگ درمیانہ شیطان کہتے ہیں) کے پاس دیکھا تو وہی سوال کیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ۔
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے جمرہ ( جس کو لوگ بڑا شیطان کہتے ہیں) کو کنکریاں مار لیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہونے لگے تو آپ نے پوچھا :
(( أَیْنَ السَّائِل ؟ )) ’’ سائل کہاں ہے ؟ ‘‘
تو اس نے کہا : یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِر )) سنن ابن ماجہ : 4012۔ وصححہ الألبانی
’’ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا سب سے افضل جہاد ہے ۔ ‘‘
عام طور پر لوگ کسی ملک کے صدر یا وزیر اعظم یا وزیر یا کسی بڑے افسر کے پاس ہوتے ہیں تو ان کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے گھبراتے ہیں ۔
جبکہ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
(( أَ لَا لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلًا ہَیْبَۃُ النَّاسِ أَن یَّقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَہٗ )) سنن ابن ماجہ : 4007۔ وصححہ الألبانی
’’ خبر دار ! کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت کلمۂ حق کہنے سے نہ روکے جب وہ اُس کا علم رکھتا ہو ۔ ‘‘
عزیز القدر بھائیو اور بہنو ! امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہمیت اور اس کے فضائل وفوائد جاننے کے بعد اب آئیے یہ بھی جان لیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط کیا ہیں ؟
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی شرائط
نیکی کی تلقین کرنے اور برائی سے منع کرنے والے شخص کیلئے چند اہم شرطیں ہیں اور وہ یہ ہیں :
پہلی شرط : علم ،یعنی ’ معروف ‘ کی تلقین کرنے اور ’ منکر ‘ سے منع کرنے والے شخص کو اس بات کا علم ہو کہ فلاں کام شریعت کی نظر میں واقعتا ’ معروف ‘ ہے کہ جس کا حکم دینا ہے اور فلاں کام شریعت کی نظر میں واقعتا
’منکر ‘ ہے کہ جس سے منع کرنا ہے ۔ کیونکہ ’معروف‘ یا ’منکر ‘ وہ نہیں جو عام لوگوں کی نظر میں ’معروف ‘ یا ’ منکر ‘ ہو ۔
بلکہ ’ معروف ‘ وہ ہے جس کا حکم یا جس کی ترغیب قرآن وحدیث میں دی گئی ہو ،
یا اس پر عمل کرنے والے لوگوں کی تعریف کی گئی ہو ،
یا اس کے بارے میں قرآن وحدیث میں ذکر کیا گیا ہو کہ اس کام کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس کے کرنے والے شخص کو اجر وثواب دیتا ہے ۔ گویا’ معروف ‘ میں ہر وہ عمل ِ خیر شامل ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو ۔
اور ’ منکر ‘ وہ ہے جس سے کتاب وسنت میں منع کیا گیا ہو ،
یا اس سے ڈرایا گیا ہو اور دنیا وآخرت میں اس کے نقصانات کے متعلق آگاہ کیا گیا ہو ،
یا اس کے کرنے والے شخص کی مذمت کی گئی ہو یا اسے وعید سنائی گئی ہو ، یا اس پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہو ۔
گویا ’ منکر ‘ میں تمام گناہ شامل ہیں ، خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے ، خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ہو ۔
خلاصہ یہ ہے کہ معروف ومنکر کی پہچان کا معیار شریعت ہے نہ کہ لوگوں کا مزاج یا اپنی خواہش نفس ۔
لہٰذا معروف کی تلقین کرنے والے شخص کو ’ معروف ‘ کے متعلق شرعی علم ہونا چاہئے کہ یہ کام واقعتا معروف ہے ۔ اسی طرح منکر سے منع کرنے والے آدمی کو ’ منکر ‘ کے متعلق شرعی علم ہونا چاہئے کہ یہ کام واقعتا منکر ہے ۔ اگر اسے علم ہو تو وہ یہ فریضہ سرانجام دے ورنہ بغیر علم کے ایسا کرنے سے باز رہے ، کیونکہ اس میں فائدے کی نسبت نقصان زیادہ ہونے کا امکان ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ﴾ یوسف 12:108
’’ آپ کہہ دیجئے کہ یہی ہے میرا راستہ ، میں دلیل وبرہان کی روشنی میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرا ہر پیروکار بھی ۔ ‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ’صحیح ‘میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے : ( بَابُ الْعِلْمِ قَبْلَ الْقَولِ وَالْعَمَل ) اور اس کے تحت یہ آیت بطور دلیل ذکر کی ہے :
﴿ فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنٰتِ ﴾ محمد47 :19
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے علم کا ذکر پہلے اور استغفار کا ذکر بعد میں کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے
کہ علم قول وعمل سے پہلے ہے ۔
اس شرط سے یہ بھی معلوم ہواکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر علماء کی بہت بڑی ذمہ داری ہے جو انھیں پوری کرنی چاہئے اور اس سلسلے میں انھیں کوتاہی نہیں برتنی چاہئے ۔ کیونکہ اگر وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہونگے تو برائی اور برے لوگوں کو منع کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ، جس سے برائی اور زیادہ منتشر ہوگی ۔
اللہ تعالیٰ بنو اسرائیل میں سے بہت سارے لوگوں کی حالت یوں بیان کرتے ہیں :
﴿ وَتَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ المائدۃ5 : 62
’’ ان میں سے اکثر کو آپ دیکھیں گے کہ گناہ اور زیادتی کے کاموں اور حرام خوری میں تگ ودو کرتے پھر رہے ہیں ۔ جو کام یہ کر رہے ہیں یقینا بہت برے ہیں ۔ ‘‘
اس کے بعد علماء کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ﴾ المائدۃ5 :63
’’ ان کے مشائخ اور علماء انھیں گناہ کی بات کرنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے ؟ یقینا بہت برا ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی برائیوں پر خاموش رہنا بہت بڑا گنا ہ ہے ۔
اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: (وَدَلَّتِ الآیَۃُ عَلَی أَنَّ تَارِکَ النَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ کَمُرْتَکِبِ الْمُنْکَرِ ، فَالْآیَۃُ تَوْبِیْخٌ لِلْعُلَمَائِ فِی تَرْکِ الْأمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ ) تفسیر القرطبی: 237/6
’’ اور یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ برائی سے نہ روکنے والا شخص ایسے ہی ہے جیسے وہ خود برائی کا ارتکاب کر رہا ہو ۔ لہٰذا اس آیت میں سخت تنبیہ ہے ان علماء کو جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرتے ہیں۔ ‘‘
دوسری شرط : نرم رویہ
یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے والا شخص اس فریضے کی ادائیگی کے دوران نرم رویہ اختیار کرے اور سخت رویہ اپنانے سے بچے۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے جب موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو
فرعون کی طرف بھیجا تو انھیں حکم دیا کہ
﴿اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی ٭ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی﴾ طہ20 :43 ۔44
’’ تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ وہ سرکشی اختیار کر چکا ہے ۔ لہٰذا تم دونوں اس سے نرم بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے ۔ ‘‘
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر فرعون جیسے سرکش انسان سے نرم بات کرنے کا حکم ہے تو مسلمانوں کیلئے تو اُس سے بھی زیادہ نرمی اختیار کرنے کا حکم ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ دعوت الی اللہ کا اسلوب ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
﴿ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ﴾ النحل16 : 125
’’ آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقے سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو ۔ ‘‘
عمدہ نصیحت سے مراد یہ ہے کہ آپ ان سے اتنے اچھے انداز سے بات کریں کہ انھیں یقین ہو جائے کہ آپ ان کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی اسلوب واضح ہوتا ہے۔
مثلا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے مسجد میں پیشاب کرنا شروع کردیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس کی طرف لپکے اور کہا : ٹھہر جاؤ ، ٹھہر جاؤ ۔ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( لَا تُزْرِمُوہُ دَعُوہُ )) ’’ اسے مت کاٹو اور چھوڑ دو ۔ ‘‘
چنانچہ انھوں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلاکر فرمایا : (( إِنَّ ہٰذِہِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَیْیٍٔ مِّنْ ہٰذَا الْبَولِ وَلَا الْقَذَرِ ، إِنَّمَا ہِیَ لِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَالصَّلَاۃِ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ ))
’’ یہ مساجد یقینا اِس پیشاب اور گندگی کیلئے نہیں بنائی گئی ہیں ۔ بلکہ یہ تو صرف اللہ عز وجل کا ذکر کرنے، نمازپڑھنے اور تلاوتِ قرآن کیلئے بنائی گئی ہیں ۔ ‘‘
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول منگوا کر اس کے پیشاب پر بہا دیا ۔ صحیح مسلم : 285
اسی طرح معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا
کہ ایک شخص کو چھینک آئی۔ تو میں نے کہا : ( یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ) اِس پر لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ میں نے کہا : میری ماں مجھے گم پائے ! تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ مجھے اِس طرح دیکھتے ہو ! چنانچہ انھوں نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے شروع کردئیے ۔ میں نے جب دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں :
((مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہُ وَلاَ بَعْدَہُ أَحْسَنَ تَعْلِیْمًا مِنْہُ ، فَوَ اللّٰہِ مَا کَہَرَنِی وَلاَ ضَرَبَنِی وَلاَ شَتَمَنِی))
میں نے آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد آپ سے بہتر تعلیم دینے والا کبھی نہیں دیکھا ، اللہ کی قسم ! آپ نے نہ مجھے ڈانٹا ، نہ مجھے مارا ا ور نہ مجھے برا بھلا کہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((إِنَّ ہَذِہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ ، إِنَّمَا ہُوَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَائَ ۃُ الْقُرْآنِ)) صحیح مسلم : 537
’’ بے شک یہ نماز ایسی عبادت ہے کہ اس میں لوگوں کی بات چیت درست نہیں ہے ۔ اس میں تو بس تسبیح وتکبیر اور قراء ت ِ قرآن ہی ہے ۔‘‘
تیسری شرط : صبر
یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکرکے نتیجے میں اگر کوئی شخص آپ کو تکلیف پہنچائے تو آپ اس پر صبر کریں اور اسے اللہ کی رضا کیلئے برداشت کریں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ وَالْعَصْرِ٭ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ٭إِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ سورۃ العصر
’’ زمانے کی قسم ! بلا شبہ انسان گھاٹے میں ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ ‘‘
اور حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: ﴿ یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْروْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ﴾ لقمان31 :17
’’ میرے پیارے بیٹے ! نماز قائم کرنا ، نیکی کا حکم دینا ، برائی سے منع کرنا اور تمھیں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرنا ۔ یہ یقینا ہمیت والے کاموں میں سے ہے۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
﴿یٰٓاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ٭ قُمْ فَاَنْذِرْ ٭ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ٭ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ٭ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ ٭ وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ ٭ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ﴾ المدثر 74: 1۔7
’’ اے چادر اوڑھنے والے ! اٹھئے اور لوگوں کو ڈرائیے ۔ اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے ۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھئے ۔ اور بتوں سے کنارہ کش ہو جائیے ۔ اور احسان اس لئے نہ کیجئے کہ اس سے زیادہ حاصل کیجئے ۔ اور اپنے رب کیلئے صبر کیجئے ۔ ‘‘
سامعین کرام ! یہ تھیں وہ تین شرائط ، جن کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے خیال رکھنا ضروری ہے ۔ اب آئیے اِس کے ساتھ ہی یہ بھی جان لیں کہ انکار ِ منکر کے مراتب کونسے ہیں ؟
انکارِ منکر کے مراتب
انکار منکر کے تین مراتب ہیں جو اس حدیث میں ذکر کئے گئے ہیں :
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( مَنْ رَأَی مِنْکُم مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ، فَإِن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ، فَإِن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ، وَذَلِکَ أَضْعَفُ الْإِیْمَانِ )) صحیح مسلم :49
’’ تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ ( کی طاقت ) سے روکے ۔ اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے منع کرے ۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے ( اسے برا جانے ) اور یہ کمزور ترین ایمان ہے ۔ ‘‘
اِس حدیث سے ثات ہوتا ہے کہ انکارِ منکر ہر شخص پر حسب استطاعت واجب ہے ۔ لہٰذا ہر شخص حدیث میں ذکر کئے گئے تین مراتب میں سے جس کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس پر عمل کرے اور برائیوں سے منع کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((مَا مِن نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی أُمَّۃٍ قَبْلِی إِلَّا کَانَ لَہٗ مِنْ أُمَّتِہٖ حَوَارِیُّونَ وَأَصْحَابٌ ، یَأْخُذُونَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُونَ بِأَمْرِہٖ ، ثُمَّ إِنَّہَا تَخْلُفُ مِن بَعْدِہِمْ خُلُوفٌ یَقُولُونَ مَا لَایَفْعَلُونَ ، وَیَفْعَلُونَ مَا لَا یُؤْمَرُونَ ، فَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِیَدِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِلِسَانِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنٌ ، وَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِقَلْبِہٖ فَہُوَ مُؤْمِنٌ ، َولَیْسَ وَرَائَ ذَلِکَ مِنَ الْإِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ )) صحیح مسلم :50
’’مجھ سے پہلے ہر امت میں اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس کے کچھ نہ کچھ انصار ومدد گار اور ساتھی ضرور ہوتے تھے ۔ جو اس کے طرز عمل کو اختیار کرتے اور اس کے حکم پر عمل کرتے ۔ ( اسی طرح میری امت میں بھی میرے انصار واصحاب موجود ہیں ) پھر ان کے بعد ایسے نالائق لوگ آئیں گے کہ جو وہ بات کہیں گے جس پر خود عمل نہیں کریں گے اور وہ کام کریں گے جس کا انھیں حکم نہیں دیا جاتا ۔ لہٰذا جو شخص ان سے اپنے ہاتھ کے ساتھ جہاد کرے گا وہ مومن ہوگا ۔ اور جو ان سے اپنی زبان کے ساتھ جہاد کرے گا وہ بھی مومن ہوگا ۔ اور جو ان سے اپنے دل کے ساتھ جہاد کرے گا وہ بھی مومن ہوگا ۔ اور اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان باقی نہیں بچتا ۔ ‘‘
ان دونوں حدیثوں میں انکار منکر کے تین مراتب ذکر کئے گئے ہیں :
پہلا مرتبہ : ہاتھ کی طاقت کے ساتھ منکر سے منع کرنا
اور یہ وہ شخص کر سکتا ہے جس کو اس کا اختیار حاصل ہو ۔ مثلا حاکم ، قاضی ، پولیس اور دیگر ذمہ دار ادارے ۔ اسی طرح گھر کے اندر گھر کا ذمہ دار ، کسی کمپنی میں اس کا ذمہ دار وغیرہ جو اپنے ماتحت افراد کو زورِ بازو کے ساتھ برائی سے منع کر سکتے ہیں ۔
قرآن وحدیث سے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ مثلا
01. ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے بتوں کو پاش پاش کردیا ۔ اور انھوں نے اپنی قوم سے کہا :
﴿وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ ﴾ الأنبیاء21 :57
’’ اور اللہ کی قسم ! جب تم لوگ پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمھارے بتوں کے خلاف کاروائی کروں گا ۔ ‘‘
اس کے بعد انھوں نے وہ کر دکھایا جو کہا تھا :
﴿ فَجَعَلَھُمْ جُذٰذًا اِلَّا کَبِیْرًا لَّھُمْ لَعَلَّھُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ ﴾ الأنبیاء21 :58
’’ پھر انھوں نے ان کے بڑے بت کو چھوڑ کر باقی بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ، تاکہ وہ لوگ اس کے پاس واپس جا سکیں ۔ ‘‘
02. حضرت موسی علیہ السلام نے سامری کے بنائے ہوئے معبود کے بارے میں کہا تھا :
﴿ وَانْظُرْ اِلٰٓی اِلٰھِکَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ﴾ طہ20 :97
’’ اور اپنے معبود کو دیکھو جس کی عبادت پر تم جمے رہے تھے ، ہم اسے یقینا جلا دیں گے ، پھر اس کی راکھ
سمندر میں بکھیر دیں گے ۔ ‘‘
چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا ۔ معبود کو جلا ڈالا اور اس کی راکھ کو سمندر برد کر دیا ۔
03.اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتحِ مکہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے اور اس وقت بیت اللہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ بت گاڑھے ہوئے تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اپنی چھڑی کے ساتھ نیچے گراتے اور ارشاد فرماتے :
﴿جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا﴾ الإسراء17 :81
’’ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، بے شک باطل تو مٹنے کی چیز ہی ہوتی ہے ۔ ‘‘
04. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ہاتھ سے اتارا اور پھینک دیا ۔ بعد ازاں ارشادفرمایا :
(( یَعْمِدُ أَحَدُکُمْ إِلٰی جَمْرَۃٍ مِنْ نَّارٍ فَیَجْعَلُہَا فِیْ یَدِہٖ ))
’’ کیا تم میں سے ایک شخص جہنم کا ایک انگارہ اٹھا کر اپنے ہاتھ میں رکھ لیتا ہے ! ‘‘
پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو اس آدمی سے کہا گیا : اپنی انگوٹھی اٹھا لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ ۔
اس نے کہا : لاَ وَاللّٰہِ،لاَ آخُذُہُ أَبَدًا وَقَدْ طَرَحَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم !
اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے میرے ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا ہے تو اللہ کی قسم ! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا۔ صحیح مسلم :2090
05. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں رہنے دیتے تھے جس میں تصویریں ہوتیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایسی چیز کو توڑ دیتے تھے ۔ صحیح البخاری : 5952
06. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لائے اور میں نے گھر کے ایک مچان کو ایسے پردے سے ڈھک رکھا تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پردہ دیکھا تو اسے پھاڑ ڈالا ، پھر ارشاد فرمایا : (( أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الَّذِیْنَ یُضَاہُونَ خَلْقَ اللّٰہِ ))
’’ قیامت کے روز سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا جو اللہ کی تخلیق سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ۔ ‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم نے اس پردے کے ایک یا دو تکیے بنا لئے ۔ صحیح البخاری:5954، وصحیح مسلم :2107
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر کا ذمہ دار آدمی اپنے گھر میں جو بھی برائی دیکھے اسے بزور بازو منع کرے
دوسرا مرتبہ : زبان کے ساتھ منع کرنا
اکر کوئی شخص ہاتھ کی طاقت سے برائی کو روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے منع کرے ۔ تاہم اسے اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ نرم لہجے میں بات کرے نہ کہ سخت لہجے میں ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ (( إِنَّ الرِّفْقَ لَا یَکُونُ فِی شَیْیٍٔ إِلَّا زَانَہٗ ، وَلَا یُنْزَعُ مِنْ شَیْیٍٔ إِلَّا شَانَہٗ )) صحیح مسلم :2594
’’ بے شک جس چیز میں نرمی ہوتی ہے اسے وہ خوبصورت بنا دیتی ہے ۔ اور جس میں نرمی نہیں ہوتی اسے وہ بد صورت بنا دیتی ہے ۔ ‘‘
زبان کے ساتھ برائی سے منع کرنے کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ مثلا
01. سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( کُلْ بِیَمِیْنِکَ )) ’’ دائیں ہاتھ سے کھاؤ ۔ ‘‘
تو اس نے کہا : میں استطاعت نہیں رکھتا ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا اسْتَطَعْتَ)) ’’ تمھیں کبھی استطاعت نہ ملے ۔ ‘‘ اسے تکبرنے ہی منع کیا ہے۔
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص اپنا دایاں ہاتھ اپنے منہ کی طرف کبھی نہ اٹھا سکا ۔ صحیح مسلم :2021
02. حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پرورش پا رہا تھا ، اور میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں اِدھر اُدھر جاتا تھا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یَا غُلَامُ ! سَمِّ اللّٰہَ ، وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ،وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ)) صحیح البخاری:5376، وصحیح مسلم :2022
’’ اے بچے ! بسم اللہ پڑھو ، دائیں ہاتھ کے ساتھ کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ ‘‘ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کے مطابق ہی کھاتا رہا ۔
03. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور میرا تہہ بند لٹک رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( یَا عَبْدَ اللّٰہ ! اِرْفَعْ إِزَارَک )) صحیح مسلم :2086 ’’ عبد اللہ ! اپنے تہہ بند کو اوپر اٹھاؤ ۔ ‘‘ چنانچہ میں نے اسے اوپر اٹھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اور اوپر اٹھاؤ ۔ ‘‘ لہٰذا میں نے اور اوپر اٹھایا ۔ اس کے بعد سے میں اس کا مسلسل خیال رکھتا ہوں ۔ چند لوگوں نے پوچھا : کہاں تک اوپر اٹھانا چاہئے ؟ تو انھوں نے کہا : دونوں پنڈلیوں
کے درمیان تک ۔
تیسرا مرتبہ : دل کے ساتھ برائی کو برا ماننا
جب ایک انسان اپنے ہاتھ اور اپنی زبان کے ساتھ برائی سے منع کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہوتو جو چیز اس پر کم از کم واجب ہے وہ یہ ہے کہ وہ برائی کو اپنے دل سے برا جانے اور اس سے نفرت کرے ۔ یہ ایسی چیزہے کہ اگر یہ بھی نہ ہو تو اس کے بعد حدیث کے مطابق رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان باقی نہیں رہتا ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ زندوں میں مردہ کون ہوتا ہے ؟ تو فرمایا :
( اَلَّذِیْ لَا یَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلَا یُنْکِرُ مُنْکَرًا ) الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر لابن تیمیہ :ص9
’’ جو نیکی کو نیکی نہیں سمجھتا اور برائی کو برا نہیں سمجھتا ۔ ‘‘
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو ترک کرنے کے خطرناک نتائج
01. اللہ رب العزت کا عذاب !
جب معاشرے میں برائیاں پھیل رہی ہوں ، ہر آئے دن فساد بڑھتا ہی چلا جا رہا ہو اور جن لوگوں کو نیکی کی تلقین اور برائیوں سے منع کرنا چاہئے وہ بھی خاموش ہوں تو جب اللہ کا عذاب آتا ہے ( والعیاذ باللہ ) تو اس کی زد میں نہ صرف فاسق وفاجر لوگ آتے ہیں بلکہ وہ بھی اس کی زد میں آتے ہیں جنھوں نے ان کے جرائم اور معاشرتی برائیوں پر چپ سادھ رکھی ہو ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ الأنفال8 :25
’’ اور تم لوگ اس فتنے سے ڈرتے رہو جس کا اثر تم میں سے صرف ظالموں تک ہی محدود نہیں رہے گا ۔ اور جان لو کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوتا ہے ۔ ‘‘
شیخ محمد شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں کہتے ہیں :
’’ یہ فتنہ جس سے ظالم اور غیر ظالم سب دوچار ہوتے ہیں ، اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ جب اپنی سوسائٹی میں برائی کو دیکھیں ، پھر اس سے منع نہ کریں تو اللہ کا عذاب ان سب پر نازل ہوتا ہے ۔ نیک لوگوں پر بھی اور برے لوگوں پر بھی ۔ ‘‘ تفسیر أضواء البیان :171/1
اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے : ﴿ فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ أَنجَیْْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوئِ وَأَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیْسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ﴾ الأعراف7:165
’’ پھر جب وہ لوگ ان باتوں کو بھول گئے جن کی انھیں نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے صرف ان لوگوں کو عذاب سے بچا لیا جو برائی سے منع کرتے تھے ۔ اور ظالموں کو ان کے گناہوں کے سبب سخت عذاب میں گرفتار کر لیا ۔ ‘‘
یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ رب العزت نے صرف ان لوگوں کو اپنے عذاب سے بچایا جو برائی سے منع کرتے تھے ۔ رہے وہ لوگ جو برائی کا ارتکاب کرتے تھے اور وہ جو ان کی برائی پر خاموش رہتے تھے تو وہ سب اس کے عذاب کی زد میں آگئے ۔ والعیاذ باللہ
اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
( أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنَّکُمْ تَقْرَؤُنَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ : ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ﴾ وَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُولُ : إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ یَأْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ أَوْشَکَ أَن یَّعُمَّہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابٍ مِّنْہٗ )
’’ اے لوگوا ! تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو : ( جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ) اے ایمان والو ! تم اپنے بچاؤ کی فکر کرو، اگر تم خو د راہِ راست پر چلتے رہو گے تو کسی کی گمراہی تمھیں نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے ارشاد فرمایا :
’’ بے شک لوگ جب ظالم کو دیکھیں ، پھر اسے ظلم سے منع نہ کریں تو بہت قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان سب کو عذاب میں مبتلا کردے۔‘‘ سنن أبی داؤد :2168۔ وصححہ الألبانی
02. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنے کے نتیجے میں دعائیں قبول نہیں ہوتیں !
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَوا عَنِ الْمُنْکَرِ قَبْلَ أَنْ تَدْعُو فَلَا یُسْتَجَابَ لَکُمْ ))
’’ تم نیکی کی تلقین کرتے رہو اور برائی سے منع کرتے رہو ، اِس سے پہلے کہ تم دعا کرو ، پھر تمھاری دعاؤں کو قبول نہ کیا جائے ۔ ‘‘ سنن ابن ماجہ :4004۔ وحسنہ الألبانی
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ،أَوْ لَیُوشِکَنَّ اللّٰہُ أَن یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عِقَابًا مِّنْہُ ، ثُمَّ تَدْعُونَہُ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ ))
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دیتے رہنا اور برائی سے منع کرتے رہنا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے بہت جلد تمھارے اوپر عذاب بھیجے گا ، پھر تم اسے پکارو گے تو تمھاری پکار کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ ‘‘ جامع الترمذی : 2169 ۔ وصححہ الألبانی
03.تباہی وبربادی !
جس معاشرے میں اِس فریضہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، وہ بہت جلد تباہی کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے ۔
جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مثال یوں بیان فرمائی کہ جیسے کچھ لوگ ایک بحری جہاز میں سوار ہوں ۔ ان میں سے کچھ لوگ نچلے طبقے میں اور کچھ لوگ اوپر والے طبقے میں ہوں ۔ نچلے طبقے کے لوگوں کو پانی لینے کیلئے بارباراوپر جانا پڑتا ہے ۔ جس سے اوپر والے طبقے کے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ چنانچہ نچلے طبقے کے لوگ سوچتے ہیں کہ بجائے اوپر جانے اور اوپر والے لوگوں کو بار بار تکلیف دینے کے ہم نیچے سے ہی سوراخ کر لیں !! اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو اس سے منع نہ کریں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ جہاز میں سوار سب لوگ ڈوب جائیں گے اور اگر وہ انھیں ایسا کرنے سے منع کریں تو خود بھی بچ جائیں گے اور جہاز میں سوار دیگر لوگ بھی نجات پا جائیں گے۔ صحیح البخاری :2493
اسی طرح اگر معاشرے میں برائیوں سے منع کرنے والا کوئی نہ ہو اور سب لوگ فاسقوں اور فاجروں کے متعلق چب سادھ لیں تو اس میں بسنے والے تمام لوگ اللہ کے عذاب کی زد میں آجاتے ہیں ۔ لیکن اگر انھیں منع کرنے والے لوگ موجود ہوں تو وہ خود بھی نجات پا جاتے ہیں اور معاشرے کے دیگر باسیوں کی نجات کا بھی سبب بن جاتے ہیں ۔
04. برائی سے منع نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی لعنت کا موجب بنتا ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ٭ کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ﴾ المائدۃ5 :78 ۔ 79
’’ بنی اسرائیل کے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد ( علیہ السلام ) اور عیسی بن مریم ( علیہ السلام ) کی زبانی لعنت بھیجی
گئی ۔ وہ اس لئے کہ وہ نافر مانی کرتے تھے اور اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے تھے ۔ وہ لوگ جس گناہ کا ارتکاب کرتے تھے اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے ۔ یقینا وہ جو کچھ کرتے تھے وہ بہت بُرا تھا ۔ ‘‘
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں کہتے ہیں :
( أَیْ کَانَ لَا یَنْہٰی أَحَدٌ مِّنْہُمْ أَحَدًا عَنِ ارْتِکَابِ الْمَآثِمِ وَالْمَحَارِمِ،ثُمَّ ذَمَّہُمْ عَلٰی ذَلِکَ،لِیُحَذِّرَ أَن یُّرْتَکَبَ مِثْلُ الَّذِی ارْتَکَبُوہُ ، فَقَالَ : لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَفْعَلُونَ) تفسیر ابن کثیر: /3 205
’’ یعنی ان میں سے کوئی شخص کسی کو گناہوں اور حرام کاموں سے منع نہیں کرتا تھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی تاکہ وہ اس بات سے ڈرائے کہ ان کے گناہ جیسے گناہ کا ارتکاب کیا جائے ۔ چنانچہ اس نے فرمایا :
﴿لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾ ’’ یقینا بہت برا ہے جو وہ کرتے تھے ۔ ‘‘
اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ( قَالَ ابْنُ عَطِیَّۃَ : وَالْاِجْمَاعُ مُنْعَقِدٌ عَلٰی أَنَّ النَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرْضٌ لِمَنْ أَطَاقَہُ وَأَمِنَ الضَّرَرَ عَلٰی نَفْسِہٖ وَعَلَی الْمُسْلِمِیْنَ ، فَإِنْ خَافَ فَیُنْکِرُ بِقَلْبِہٖ وَیَہْجُرُ ذَا الْمُنْکَرِ وَلَا یُخَالِطُہُ ) تفسیر قرطبی:253/6
’’ ابن عطیہ کہتے ہیں : اس بات پر اجماع ہے کہ برائی سے منع کرنا اس شخص پر فرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو اور اسے اپنے اور مسلمانوں کے نقصان کا اندیشہ نہ ہو ۔ اور اگر اسے اندیشہ ہو تو اپنے دل سے اسے برا جانے اور برائی کرنے والے سے دور رہے اور اس کے ساتھ میل جول نہ رکھے ۔ ‘‘
05. جو شخص لوگوں کی برائیوں پر خاموش رہتا ہے اور انھیں ان سے منع نہیں کرتا تو در حقیقت وہ مداہنت کا شکار ہو کر لوگوں کی رضا مندی کیلئے اللہ کو ناراض کر بیٹھتا ہے ۔ یعنی وہ انھیں اس لئے منع نہیں کرتا کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں ۔ اور اسے اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اس کے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو رہاہے ۔ جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
((مَنِ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ اللّٰہِ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَأَسْخَطَ عَلَیْہِ النَّاسَ ، وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَا اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضٰی عَنْہُ النَّاسَ)) صحیح الترغیب والترہیب :2250
’’ جو آدمی اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کی رضامندی کا طلبگار ہوتا ہے تواس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں کو بھی اس سے ناراض کردیتا ہے ۔ اور جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں کی ناراضگی کومول لے لیتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کردیتا ہے ۔ ‘‘
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو یہ فریضہ انجام دینے کی توفیق دے ۔ آمین
دوسرا خطبہ
امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں قدوۂ حسنہ کی اہمیت
محترم حضرات ! امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے فضائل وفوائد اور اس کو چھوڑنے کے نقصانات اور خطرناک نتائج جاننے کے بعد اب آخر میں یہ بھی جان لیجئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں قدوۂ حسنہ کی بڑی اہمیت ہے ۔ یعنی جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے ، لوگوں کو نیکی کی تلقین کرے اور برائی سے منع کرے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی بہترین نمونہ پیش کرے ۔ جس نیکی کی تلقین کرے خود بھی اس پر عمل کرے اور جس برائی سے منع کرے خود بھی اس سے اجتناب کرے ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا :
﴿وَ مَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَکُمْ اِلٰی مَآ اَنْھٰکُمْ عَنْہُ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ﴾ ہود11 :88
’’میں نہیں چاہتا کہ جس بات سے تمھیں منع کروں خود ہی اس کے خلاف کروں ۔ میں تو جہاں تک ہو سکے اصلاح ہی چاہتا ہوں ۔ ‘‘
اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اسی طرح بہترین نمونہ پیش کیا ۔ لہٰذا ان کے اِس طرز عمل کو اختیار کرنا چاہئے اور اس کے برعکس نہیں کرنا چاہئے کہ وہ جس نیکی کی تلقین کرے خود اس پر عمل نہ کرے ، یا جس برائی سے منع کرے خود اس سے اجتناب نہ کرے ۔
باری تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :44
’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو جبکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو ؟ کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟ ‘‘
لوگوں کو نیکی کا حکم دے کر خود اس پر عمل نہ کرنا یا لوگوں کو برائی سے منع کرکے خود اس سے نہ بچنا ایسا عمل ہے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ ٭ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ ﴾ الصف61 :3-2
’’ اے ایمان والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے ؟ یہ بات اللہ کے ہاں بہت ہی زیادہ نا پسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر تم خود عمل نہ کرو ۔ ‘‘
لوگوں کو نیکی کی تلقین کرکے خود اس پر عمل نہ کرنا اور برائی سے روک کر خود اس سے اجتناب نہ کرنا نہایت سنگین جرم ہے ۔ اور اس کی سزا بہت سخت ہے ۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((یُجَائُ بِالرَّجُلِ یَومَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ،فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُہُ فِی النَّارِ،فَیَدُورُ کَمَا یَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاہُ ، فَیَجْتَمِعُ أَہْلُ النَّارِ عَلَیْہِ فَیَقُولُونَ : أَیْ فُلَانُ ! مَا شَأْنُکَ ؟ أَلَیْسَ کُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہٰی عَنِ الْمُنْکَرِ ؟ قَالَ : کُنْتُ آمُرُکُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِیْہِ ، وَأَنْہَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیْہِ)) صحیح البخاری : 3267
’’قیامت کے روز ایک آدمی کو لایا جائے گا ، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ چنانچہ اس کی انتڑیاں تیزی سے باہر آجائیں گی ۔ پھر وہ ایسے گھومے گا جیسے گدھا اپنی چکی کے ارد گرد گھومتا ہے ۔ لہٰذا اہل جہنم اس کے پاس جمع ہو کر اس سے کہیں گے : اے فلاں آدمی ! تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ کیا تم ہی نہ تھے جو نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے منع کرتے تھے ؟ وہ کہے گا : میں تمھیں نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود وہ نیک کام نہیں کرتا تھا ۔ اور تمھیں برائی سے منع کرتا تھا لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ میں نے شب ِ معراج میں دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ۔ میں نے کہا: جبریل ! یہ کون ہیں؟ انھوں نے عرض کیا :
((ہٰؤُلَائِ خُطَبَائُ مِنْ أُمَّتِکَ،یَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَیَنْسَوْنَ أَنْفُسَہُمْ وَہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ ، أَفَلَا یَعْقِلُوْنَ ؟))
’’ یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہیں حالانکہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت بھی کرتے ہیں۔ تو کیا انھیں عقل نہیں ہے ؟ ‘‘ الألبانی : أخرجہ أحمد والبغوی ، وقال البغوی : حدیث حسن وہو کما قال أو أعلی
لہٰذا امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے والے لوگوں کو چاہئے کہ وہ خود بھی اُس نیکی پر عمل کریں جس کا وہ لوگوں کو حکم دیں ۔ اسی طرح وہ خود بھی اُس برائی سے اجتناب کریں جس سے وہ لوگوں کو منع کریں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔ آمین