اپنے دشمن کو پہچانئے !
اہم عناصرِ خطبہ :
01. شیطان کی انسان سے اعلانیہ دشمنی اور جنگ
02. شیطان کی اعلانیہ جنگ کا مقابلہ کیسے ؟
03. شیطان کے متعلق بعض اہم حقائق
04. شیطان کیا چاہتا ہے ؟
05. شیطان کی چالیں
06. شیطان کے شر سے بچنے کی تدبیریں
پہلا خطبہ
محترم حضرات !
کسی انسان سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے ۔
شیطان خودتو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن اس کی دشمنی اعلانیہ ہے ۔ یعنی اس نے اللہ تعالی کی قسم اٹھا کر کھلم کھلا اعلان کر رکھا ہے کہ میں بنو آدم کو ضرورگمراہ کروں گا ۔
چنانچہ جب اللہ تعالی نے اسے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس نے تکبر کرتے ہوئے انکار کردیا تھا تو اللہ تعالی نے اسے ہمیشہ کیلئے اپنی رحمت سے دور کردیا اور اسے ملعون قرار دیتے ہوئے جنت سے نکال دیا ۔ تب اس نے کہا تھا : ﴿ قَالَ اَرَئَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا ﴾ [الإسراء : 62 ]
’’ اس نے کہا : بھلا دیکھ جس کو تو نے مجھ پر فوقیت دی ہے اگر تو مجھے قیامت تک مہلت دے تو میں چند لوگوں کے سوا اس کی تمام تر اولاد کو لگام ڈالے رکھوں گا ۔ ‘‘
اس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا :
﴿قَالَ اذْھَبْ فَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ فَاِنَّ جَھَنَّمَ جَزَآؤُکُمْ جَزَآئً مَّوْفُوْرًا﴾ [الإسراء: 63]
’’ اللہ تعالی نے فرمایا : جا ، اولادِ آدم میں سے جو بھی تمھارے پیچھے لگے گا تو تم سب کیلئے جہنم ہی پورا پورا بدلہ ہے ۔ ‘‘
ان دونوں آیات کریمہ سے ثابت ہوا کہ شیطان کی انسان سے دشمنی ازلی اور اعلانیہ ہے ۔ اور یہ بھی کہ بنو آدم میں سے جو بھی اس کی پیروی کرے گا وہ اس کے ساتھ جہنم میں جائے گا ۔ والعیاذ باللہ
اور انسان سے شیطان کی دشمنی دائمی بھی ہے ۔ یعنی جب تک سورج اورچاند کا وجود رہے گا بنی نوع انسان سے اس کی دشمنی جاری رہے گی ۔
خود شیطان نے قیامت تک کیلئے مہلت طلب کی جو اللہ تعالی نے اسے دے دی ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ٭ قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ ٭ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ﴾ [ الحجر : ۳۶۔ ۳۸]
’’ وہ کہنے لگا : اے میرے رب ! پھر مجھے اس دن تک مہلت دے دے جب لوگ اٹھائے جائیں گے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا : تجھے مہلت دی جاتی ہے اُس دن تک جس کا وقت ( ہمیں) معلوم ہے ۔ ‘‘
عجیب بات یہ ہے کہ شیطان نے انسان سے اِس اعلانیہ جنگ کی اجازت اللہ تعالی سے مانگی تو اس نے اسے اجازت دے دی ۔ ظاہر ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی حکمت تھی ۔ پھر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اِس جنگ کا مقابلہ کرنے کیلئے تین امور کا حکم دیا :
01. شیطان کو انسان کا دشمن قرار دے کر انسانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ بھی اسے اپنا دشمن ہی تصور کریں ۔
اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ﴾ [فاطر: 6 ]
’’ شیطان یقینا تمھارا دشمن ہے لہذا تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو ۔ وہ اپنے پیروکاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے کہ وہ جہنمی بن جائیں ۔ ‘‘
اللہ تعالی کے اس واضح ترین حکم کے باوجود آج انسانوں نے شیطان کو اپنا دوست بنا رکھا ہے ۔ چنانچہ ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اللہ تعالی نے انھیں منع کیا ہے اور ہر وہ کام نہیں کرتے جس کا اللہ تعالی نے انھیں حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :
﴿اَفَتَتَّخِذوْنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِیْ وَ ھُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا﴾ [الکہف :50]
’’ کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمھارا دشمن ہے ؟ ظالموں کیلئے
برا بدلہ ہے ۔ ‘‘
02. اللہ تعالی نے شیطان سے براہِ راست ڈرایا اور اس کے نقش ِ قدم پہ چلنے سے منع فرمایا ۔
اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ ﴾ [ الأعراف : ۲۷]
’’ اے بنو آدم ! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں فتنہ میں مبتلا کردے جیسا کہ اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا ۔ ‘‘
اسی طرح اس نے فرمایا : ﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِِنَّہٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ ﴾ [ النور : ۲۱]
’’ اے ایمان والو ! تم شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو ۔ اور جو شخص شیطان کے نقشِ قدم پر چلے گا تو وہ بے حیائی اور برے کاموں کا حکم دے گا ۔‘‘
03. اللہ تعالی نے نہ صرف شیطان سے ڈرایا بلکہ اس کے شر اور فتنے سے بچنے کیلئے مختلف تدابیر سے بھی آگاہ کیا تاکہ انسان شیطان کی اِس اعلانیہ جنگ میں مسلح ہو کر اس کا مقابلہ کر سکے ۔ ان تدابیر کا تذکرہ ہم خطبہ کے آخر میں کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی
شیطان کے متعلق بعض اہم حقائق
01. شیطان انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِيْ مِنِ ابْنِ آدَمَ مَجْرَی الدَّمِ) [ البخاری: ۶۷۵۰، مسلم :۲۱۷۴]
’’بیشک شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ ‘‘
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کی انسان سے دشمنی نہایت شدید ہے اور وہ اس کیلئے بہت بڑا فتنہ ہے ۔ اتنا بڑا فتنہ کہ انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ اپنا کام کر جاتا اور اسے گمراہ کر ڈالتا ہے ۔
02. شیطان ہمار ایسا دشمن ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے ۔ اور یہ نہایت خطرناک بات ہے کیونکہ دشمن اگر سامنے ہو تو اُس سے انسان بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔لیکن اگر وہ چھپا ہوااور بہت شاطر اور مکار ہو تو اس سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔ إلا من رحم اللہ
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّہٗ یَرٰکُمْ ھُوَ وَ قَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ ﴾ [ الأعراف : ۲۷]
’’ بے شک وہ ( شیطان )اور اس کا قبیلہ تمھیں اُس جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھ سکتے ۔ ‘‘
03. شیطان اکیلا نہیں بلکہ جن وانس میں سے اس کا ایک بہت بڑا لشکر ہے جو اس کی مدد کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ﴾ [ الأنعام : ۱۱۲]
’’اوراسی طرح ہم نے شیطان صفت انسانوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا جو دھوکہ دینے کی غرض سے کچھ خوش آئند باتیں ایک دوسرے کو سجھاتے رہتے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ﴾ [ الأنعام : ۱۲۱ ]
’’بلا شبہ شیطان تو اپنے دوستوں کے دلوں میں ( شکوک وشبہات ) القاء کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑتے رہیں ۔ ‘‘
اِن دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان کے اعوان ومددگار بہت زیادہ ہیں ۔ وہ ان سے بہت سارے کام لیتا ہے ۔ انسان کو گمراہ کرنے کے مختلف طریقے آزماتا اور انھیں اللہ تعالی سے دور کرتا ہے ۔ اس کی تائید اِس حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ابلیس اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے، پھر اپنی فوجیں اِدھر اُدھر بھیج دیتا ہے اور ان میں سے سب سے زیادہ معزز اس کے لئے وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ بپا کرتا ہے ۔ چنانچہ ایک شیطان آتا ہے اور آکر اسے بتاتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا ہے ۔ تو ابلیس اسے کہتا ہے: تم نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ پھر ایک اور آتا ہے اور کہتا ہے:
( مَا تَرَکْتُہُ حَتّٰی فَرَّقْتُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ امْرَأَتِہِ ) ’’ میں نے آج فلاں آدمی کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی ۔ ‘‘
تو ابلیس اسے اپنے قریب کر لیتا ہے ( اور ایک روایت کے مطابق اسے اپنے گلے لگا لیتا ہے) اور پھر اسے مخاطب ہو کر کہتا ہے: تم بہت اچھے ہو۔‘‘ [مسلم :۲۸۱۳]
04. شیطان ہر وقت ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کو گمراہ کرنے یا اللہ کی عبادت سے دور کرنے کیلئے گھات لگا کر بیٹھا رہتا ہے ۔ اورجیسے ہی اسے موقعہ ملتا ہے تووہ اسے اپنے شکنجے میں پھنسا لیتا ہے ۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ﴿قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ٭ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ
وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِھِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ﴾ [ الأعراف : ۱۶۔ ۱۷]
’’ کہنے لگا : تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے لہذا اب میں بھی تیری صراط مستقیم پر ( ان کو گمراہ کرنے کیلئے ) بیٹھوں گا ۔ پھر ان کے آگے سے ، ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں بائیں سے ( غرض ہر طرف سے ) انھیں گھیر لوں گا ۔ اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گذار نہ پائے گا ۔ ‘‘
مفسر قرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ آگے ‘‘ سے مراد آخرت کے بارے میں شک ڈالنا ہے ۔ ’’پیچھے ‘‘ سے مراد انھیں دنیا پہ فریفتہ کرنا ہے ۔ ’’ دائیں ‘‘ سے مراد دین کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا ہے اور ’’ بائیں ‘‘ سے مراد گناہوں کی ترغیب دلانا ہے ۔ یا اِس سے مراد یہ ہے کہ میں کسی طرح بھی انھیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا بلکہ ورغلاتا ہی رہوں گا ۔
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ ﴾ [الزخرف:63]
’’ اورجو شخص رحمن کے ذکر سے آنکھیں بند کرتا ہے ہم اس پر شیطان کو مسلط کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے ۔ ‘‘
اِس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی کے ذکر سے غافل رہنے والے انسان پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے ۔ لہذا اس کے تسلط سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اللہ تعالی کو یاد رکھے ۔
اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( مَا مِنْکُم مِّنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُکِّلَ بِہِ قَرِیْنُہُ مِنَ الْجِنِّ وَقَرِیْنُہُ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ ) قَالُوا : وَإِیَّاکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! قَالَ : ( وَإِیَّایَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ أَعَانَنِی عَلَیْہِ فَأَسْلَمَ فَلَا یَأْمُرُنِی إِلَّا بِخَیْرٍ ) [ مسلم : ۲۸۱۴]
’’ ایک ساتھی جنوں میں سے اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے تم میں سے ہر شخص کے ساتھ لگا دیا گیا ہے ۔ ‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : آپ کے ساتھ بھی ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ ہاں میرے ساتھ بھی ہے ۔ لیکن اللہ تعالی نے میری مدد کی ہے اور میرا ساتھی مسلمان ہو چکا ہے ۔ چنانچہ وہ مجھے خیر کا ہی حکم دیتا ہے ۔ ‘‘
اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک رات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے تو مجھے ان پرغیرت آئی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو آپ نے وہ دیکھ لیا جو میں کر رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھیں کیا ہو گیا ہے ؟ عائشہ ! کیا تمھیں غیرت آگئی ہے ؟ تو میں نے کہا : مجھ جیسی عورت کو آپ جیسی شخصیت پر کیوں نہ غیرت آئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمھارے پاس تمھارا شیطان آگیا ؟ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا میرے ساتھ
بھی شیطان ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ہے ۔ میں نے پوچھا : کیا ہر انسان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے ۔ میں نے کہا : آپ کے ساتھ بھی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں میرے ساتھ بھی ہے لیکن میرے رب نے اس پرمیری مدد کی ہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے ۔ [ مسلم : ۲۸۱۵]
05. قیامت کے روز شیطان کسی کی فریاد رسی نہیں کرے گا
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ [إبراہیم: 22 ]
’’ اور جب تمام امور کا فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا : اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا سچا تھا اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا اس کی میں نے خلاف ورزی کی ۔ اور میرا تم پر کچھ زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمھیں ( اپنی طرف ) بلایا تو تم نے میری بات مان لی ۔ لہذا مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو کرو۔ میں تمھاری فریاد کر سکتا ہوں اور نہ تم میری کرسکتے ہو ۔اِس سے پہلے جو تم مجھے اللہ کا شریک بناتے رہے ہو میں اس کا انکار کرتا ہوں ۔ بلا شبہ ظالموں کیلئے المناک عذاب ہے ۔ ‘‘
اِس طرح شیطان قیامت کے روز بریٔ الذمہ ہو جائے گا اور انسان کی فریاد رسی سے بالکل انکار کردے گا ۔ لہذا اسے دوست بنانے اور اس کے احکامات کی بجا آوری کی بجائے اسے دشمن تصور کرتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کرنی چاہئے ۔
06. شیطان کی نافرمانی رحمن کی فرمانبرداری ہے کیونکہ ہر وہ عبادت جو اللہ تعالی کے ہاں محبوب ہوتی ہے وہ شیطان کے ہاں مبغوض ( نا پسندیدہ ) ہوتی ہے ۔ اسی لئے شیطان انسان کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اگر آپ اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اللہ تعالی کی فرمانبرداری کریں گے تو آپ یقینا کامیاب ہو جائیں گے ۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو گا تو آپ یقینا ناکامی سے دو چار ہو نگے ۔
اور رحمن کی ہرنافرمانی شیطان کو بڑی محبوب ہوتی ہے ۔ اسی لئے وہ گناہوں کو انسان کے سامنے مزین کرکے پیش کرتا رہتا ہے ۔ نہ صرف مزین کرکے پیش کرتا بلکہ ان تک پہنچنے والے راستے بھی آسان سے آسان تر بنا دیتا ہے ۔ اگر آپ اس کی چالوں پر متنبہ نہیں ہوتے اور اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں تو یقینا آپ خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے ۔ اور اگر آپ اس کی نافرمانی کرتے اور اللہ کے دین پر قائم رہتے ہیں تو یقینا آپ کامیابی سے ہمکنار
ہونے والے خوش نصیبوں میں شامل ہو جائیں گے ۔
شیطان کیا چاہتا ہے ؟
شیطان کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ جس طرح وہ خود جہنمی ہے اسی طرح انسان کو بھی جہنمی بنا دے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ﴾ [فاطر: 6 ]
’’ وہ ( شیطان )اپنے پیروکاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے کہ وہ جہنمی بن جائیں ۔ ‘‘
شیطان کو یہ پتہ ہے کہ انسانوں کو جہنم میں پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ انھیں اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرنے سے دور رکھا جائے اور انھیں اُس کی نافرمانیاں کرنے پر آمادہ کیا جائے ۔ چنانچہ وہ اِس کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتا اوراپنے اِس ہدف کے حصول کیلئے مختلف چالیں چلتا اور انسان کوجہنم تک پہنچانے کے متعدد وسائل اختیار کرتا ہے ۔ لہذا آئیے اس کی چالوں کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
شیطان کی چالیں
01. بندوں کو کفر وشرک میں مبتلا کرنا اللہ تعالی کا فر مان ہے : ﴿ کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِِذْ قَالَ لِلْاِِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِِنِّیْ بَرِیٓئٌ مِّنْکَ اِِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ [الحشر: 16 ]
’’ان ( منافقوں ) کی مثال شیطان جیسی ہے جو انسان سے کہتا ہے : کفر کر ۔ پھر جب وہ کفر کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں ۔ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فر مان ہے : ﴿ اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا٭ لَّعَنَہُ اللّٰہُ﴾ [ النساء : ۱۱۷ ۔ ۱۱۸]
’’ یہ مشرکین اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو پکارتے ہیں ، حقیقت میں وہ سرکش شیطان کو پکار رہے ہوتے ہیں ۔ جس پر اللہ نے لعنت کی ہے۔‘‘
’شیطان ‘ نے ہی بنو آدم کے سامنے شرک کو خوبصورت بنا کر پیش کیا اور انھیں ورغلاکر اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل میں کامیاب ہو گیا ۔ اِس کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے زمانے سے ہوا ، جب انھوں نے ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر نامی بتوں کی پوجا شروع کی ۔ یہ در اصل ان کی قوم کے بعض صلحاء کے نام تھے ۔
جب وہ فوت ہو گئے توشیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ وہ جن مجلسوں میں بیٹھا کرتے تھے وہاں تم بت
گاڑھ دو اور ان کے نام وہی رکھو جو ان صلحاء کے تھے ۔ انھوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کی پوجا نہ کی گئی۔ پھر جب وہ لوگ مر گئے اور بت گاڑھنے کی اصل وجہ کا بعد میں آنے والی نسل کو پتہ نہ رہا تو ان کی پوجا شروع کردی گئی ۔ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو کہ صحیح بخاری میں موجود ہے ۔ [ بخاری : ۴۹۲۰ ]
اور ابن جریر رحمہ اللہ نے محمد بن قیس رحمہ اللہ کا یہ قول روایت کیا ہے کہ وہ ( ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر ) بنو آدم کے کچھ نیک لوگ تھے اور ان کے پیروکار بھی موجود تھے جو ان کی اقتداء کرتے تھے ، پھر جب وہ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکار آپس میں کہنے لگے : ہم کیوں نہ ان کی تصویریں بنا لیں تاکہ انھیں دیکھ کر ہمارے دلوں میں عبادت کا شوق پیدا ہو ۔ چنانچہ انھوں نے ان کی تصویریں بنا لیں ، پھر جب یہ لوگ مر گئے اور دوسرے لوگ آگئے تو ابلیس چپکے سے ان کے پاس گیا اور کہنے لگا : وہ (تمہارے آباؤ اجداد ) تو ان ( تصویروں ) کی پوجا کیا کرتے تھے اور انہی کی وجہ سے ان پر بارش نازل ہوتی تھی ، سو انھوں نے ان کی پوجا شروع کردی ۔ [ تفسیر الطبری ۲۳/۶۳۹ ]
اس طرح شیطان کے ورغلانے پر ہی بنو آدم میں شرک کا آغاز ہوا ۔
آج بھی شیطان نے لوگوں کو مختلف شرکیہ کاموں میں لگا رکھا ہے ۔ مثلا قبروں پر چڑھاوے چڑھانا ، مزاروں پرنذرونیاز پیش کرنا ، غیر اللہ کے سامنے جھکنا ، فوت شدگان سے امیدیں وابستہ کرنا یا ان کا خوف کھانا ، انھیں حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرنا وغیرہ ۔ شیطان ان لوگوں کو سبزباغ دکھلاتا ہے کہ یہ بزرگان دین جن کے نام کی تم نذرونیاز دیتے ہو اور جن کی قبروں پر تم دیگیں پکاتے اور لنگر تقسیم کرتے ہو یہ قیامت کے روز تمھارے کام آئیں گے اور تمھیں اللہ کے عذاب سے چھڑائیں گے وغیرہ ۔ تو یہ بہت بڑا شیطانی فتنہ ہے جس سے انسانوں کو متنبہ رہنا چاہئے ۔
02. گناہوں اور برائیوں کو مزین کرکے پیش کرنا اور ان کی طرف دعوت دینا
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ٭ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ [الحجر:39]
’’اس نے کہا : اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے ورغلایا ہے تو میں بھی دنیا میں لوگوں کو ( ان کے گناہ ) خوش نما کرکے دکھاؤں گا اور ان سب کو ورغلا کے چھوڑوں گا ۔ ہاں ان میں سے تیرے چند مخلص بندے ہی (بچیں گے ) ‘‘
چنانچہ اس نے اس کا آغاز خود حضرت آدم علیہ السلام سے ہی کیا ۔ وہ آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کے پیچھے لگا رہا جنھیں جنت میں بسانے کے بعد اللہ تعالی نے ایک درخت کے قریب جانے سے روک دیا تھا ۔وہ وسوسہ پیدا کرکے اور ورغلا اور بہکا کر مختلف طریقوں سے کوششیں کرتا رہا یہاں تک کہ انھیں جنت سے نکلوانے میں کامیاب ہو گیا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿فَوَسْوَسَ لَھُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَھُمَا مَاوٗرِیَ عَنْھُمَا مِنْ سَوْاٰتِھِمَا وَ قَالَ مَا نَھٰکُمَا
رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ٭ وَ قَاسَمَھُمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْن ٭ فَدَلّٰھُمَا بِغُرُوْر ﴾ [ الأعراف :۲۰۔۲۱]
’’ چنانچہ شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں انھیں ان کے سامنے کھول دے ۔ اور اس نے کہا : تمھیں تمھارے رب نے اس درخت سے صرف اس لئے روکا کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ یہاں رہنے والے نہ بن جاؤ ۔ پھر ان کے سامنے قسم کھائی کہ میں تمھارا خیر خواہ ہوں ۔ چنانچہ انھیں دھوکے سے مائل کر لیا ۔ ‘‘
ان آیات میں اللہ تعالی نے شیطان کے طریقۂ واردات کے بارے میں آگاہ کیا ہے کہ وہ مسلسل آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ کو ورغلاتا رہا ۔ بلکہ اپنی طرف سے دلیل یہ گھڑ لی کہ اصل میں اللہ تعالی نے انھیں اس درخت کے قریب جانے سے اس لئے منع کیا ہے کہ وہ فرشتے نہ بن جائیں ۔ یا کہیں وہ ہمیشہ جنت میں رہنے والے نہ بن جائیں ۔گویا کہ شیطان نے انھیں سبز باغ دکھلائے کہ اگر وہ اِس درخت کے قریب چلے گئے تو وہ یا تو فرشتے بن جائیں گے یا پھر ہمیشہ ہمیشہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے والے بن جائیں گے ۔ پھر اس نے ان دونوں کو یقین دلانے کیلئے قسم بھی کھائی اور اپنے آپ کو ان دونوں کا خیر خواہ ظاہر کیا ۔بلکہ اس نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ﴿یٰٓاٰدَمُ ھَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَ مُلْکٍ لَّا یَبْلٰی﴾ [طہ : 20]
’’ ا ے آدم ! میں تمھیں ابدی زندگی اور لازوال سلطنت کا درخت نہ بتاؤں ؟ ‘‘
اِس طرح آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی دھوکے میں آ گئے ا ور انھوں نے وہ کام کر ڈالا جس سے انھیں اللہ تعالی نے منع کیا تھا۔
پھر اس نے ابن آدم کو اپنے بھائی کے قتل پر بھی آمادہ کر لیا جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کا یہ قصہ سورۃ المائدہ میں ذکر کیا ہے ۔ لیکن یہ بھی اس کیلئے کافی نہ تھا ۔ اس لئے اس نے ان کے سامنے شرک جیسا مہلک گناہ مزین کرکے پیش کیا اور انھیں اس میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔
جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر ارشاد فرمایا تھا :
( أَلاَ إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَن یُّعْبَدَ فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا أَبَدًا وَلٰکِنْ سَتَکُونُ لَہُ طَاعَۃٌ فِی بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُوْنَ مِنْ أَعْمَالِکُمْ فَیَرْضَی بِہَا ) [ ترمذی : ۲۱۵۹ ، ابن ماجۃ : ۳۰۵۵۔ صححہ الألبانی]
’’ خبردار ! شیطان یقینا اِس سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمھارے اِس ملک میں اس کی پوجا کی جائے گی ۔ لیکن ہاں ، تمھارے بعض اُن اعمال میں اُس کی اطاعت ضرور کی جائے گی جنھیں تم حقیر سمجھو گے اور وہ اسی پر راضی ہو جائے گا ۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہو چکی ہے ۔ چنانچہ آج بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جوشرک میں تو مبتلا نہیں لیکن اس کے علاوہ دیگر کئی گناہوں میں مبتلا ہیں جنھیں وہ انتہائی حقیر سمجھتے ہیں ۔ بلکہ ان میں سے کئی لوگ تو انھیں سرے سے گناہ ہی تصور نہیں کرتے ۔ مثلا نمازوں میں سستی کرنا ، زکاۃ ادا نہ کرنا ، موسیقی اور گانے وغیرہ سننا ، مختلف ناموں کے ساتھ سودی معاملات میں ملوث ہونا ، جوا کھیلنا ، شرا ب نوشی اور دیگر منشیات کا استعمال کرنا ، رشوت لینا اور دینا ، کاروبار میں دھوکہ اور فراڈ کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا وغیرہ ۔ یہ اور ان جیسے دیگر کئی گناہ جو آج ہمارے معاشرے میں بکثرت پائے جاتے ہیں ، انھیں لوگوں نے حقیر سمجھ لیا ہے اور وہ ان کا ارتکاب پوری دیدہ دلیری اور جسارت کے ساتھ کرتے ہیں حالانکہ شرعی لحاظ سے یہ بہت بڑے گناہ ہیں ۔
03. شراب اور جوے کے ذریعے لوگوں کے مابین عداوت پیدا کرنا اور انھیں اللہ کے دین سے روکنا
اللہ رب العزت فرماتے ہیں : ﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ ﴾ [المائدۃ:19 ]
’’ بلا شبہ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے ۔ تو کیا تم باز آتے ہو ؟ ‘‘
04. بندے کی عبادت کو خراب کرنا
جی ہاں ، شیطان بندے کی عبادت کو جہاں تک اس سے ہو سکے خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ چنانچہ عبادت کے آغاز سے ہی وہ اس کے دل میں وسوسہ اور وہم ڈال دیتا ہے ۔ پھر اسے پتہ ہی نہیں رہتا کہ اس نے کتنی عبادت کی ہے اور ابھی کتنی کرنی ہے ۔
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! شیطان میرے ، میری نماز اور میری قراء ت کے درمیان حائل ہو گیا ہے اور مجھے اس میں شک وشبہ میں مبتلا کر دیتا ہے ۔تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( ذَاکَ شَیْطَانٌ یُقَالُ لَہُ خِنْزِبٌ ، فَإِذَا أَحْسَسْتَہُ فَتَعَوَّذْ بِاللّٰہِ مِنْہُ وَاتْفُلْ عَلٰی یَسَارِکَ ثَلَاثًا ) [ مسلم : ۲۲۰۳]
’’ وہ شیطان ہے جسے ’ خنزب ‘ کہا جاتا ہے ۔ لہذا جب تم اسے محسوس کرو تو اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو
اور تین مرتبہ اپنے بائیں تھوک دو ۔ ‘‘
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی طرح کیا تو اللہ تعالی نے وہ چیز ختم کردی ۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( إِذَا نُودِیَ بِالصَّلَاۃِ أَدْبَرَ الشَّیْطَانُ وَلَہُ ضُرَاطٌ ، حَتّٰی لَا یَسْمَعَ الْأذَانَ ، فَإِذَا قُضِیَ الْأذَانُ أَقْبَلَ ، فَإِذَا ثُوِّبَ بِہَا أَدْبَرَ ، فَإِذَا قُضِیَ التَّثْوِیْبُ أَقْبَلَ حَتّٰی یَخْطِرَ بَیْنَ الْمَرْئِ وَنَفْسِہِ، یَقُولُ : اذْکُرْ کَذَا وَکَذَا مَا لَمْ یَکُنْ یَذْکُرُ حَتّٰی یَظَلَّ الرَّجُلُ إِن یَّدْرِی کَمْ صَلّٰی ) [ بخاری : ۱۲۳۱ ]
’’ جب اذان ہوتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلتا ہے حتی کہ اس کی ہوا بھی خارج ہوتی ہے ۔ اور وہ اتنا دور چلا جاتا ہے کہ اذان کی آواز اس کے کانوں میں نہیں پڑتی ۔ پھر اذان ختم ہونے کے بعد وہ واپس لوٹ آتا ہے ۔ پھر جب اقامت ہوتی ہے تو ایک بار پھر بھاگ جاتا ہے ۔ جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو دوبارہ لوٹ آتا ہے ۔ اور بندے کے دل میں وسوسے ڈال کر اسے کہتا ہے : فلاں چیز یاد کرو ، فلاں کام یاد کرو ۔ وہ وہ کام یاد کراتا ہے جو اسے ( نماز سے پہلے ) یاد نہیں ہوتے ۔ اور اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اسے یہ بھی پتہ نہیں رہتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے ۔ ‘‘
جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نماز پڑھی ۔ اس کے بعد فرمایا :
( إِنَّ الشَّیْطَانَ عَرَضَ لِی فَشَدَّ عَلَیَّ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ عَلَیَّ فَأَمْکَنَنِی اللّٰہُ مِنْہُ ) [ البخاری : ۳۲۸۴]
’’ بے شک شیطان میرے درپے ہوا ، پھر اس نے پوری کوشش کی کہ میری نماز میں خلل ڈالے ، لیکن اللہ تعالی نے مجھے اس پر قابو پانے کی توفیق دی ۔ ‘‘
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ شیطان اگر امام الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں خلل ڈالنے کی کوشش کر سکتا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی امتی کو اپنا شکار بنا سکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں کسی آدمی کے التفات (اِدھر اُدھر دیکھنے ) کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( ہُوَ اخْتِلَاسٌ یَخْتَلِسُہُ الشَّیْطَانُ مِنْ صَلَاۃِ أَحَدِکُمْ ) [ البخاری : ۳۲۹۱]
’’ وہ جب اِدھر اُدھر دیکھتا ہے تو عین اسی وقت شیطان اُس پر جھپٹا مار تا اوراس کی نماز میں سے کچھ حصہ اس سے چھین لیتا ہے ۔ ‘‘
05. تمناؤں اور آرزوؤں میں مگن رکھنا اوراللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنے پر اکسانا
اللہ تعالی کا فر مان ہے : ﴿وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا٭ وَّ لَاُضِلَّنَّھُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَ لِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا٭ یَعِدُھُمْ وَ یُمَنِّیْھِمْ وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا٭ اُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَلَایَجِدُوْنَ عَنْھَا مَحِیْصًا﴾ [ النساء : ۱۱۸۔ ۱۲۱ ]
’’اور اس (شیطان) نے اللہ سے کہا تھا : میں تیرے بندوں میں سے ایک مقررہ حصہ لے کر رہوں گا ۔ او ر میں انھیں گمراہ کرکے چھوڑوں گا ۔ انھیں آرزوئیں دلاؤں گا اور انھیں حکم دوں گا کہ وہ چوپایوں کے کان پھاڑ ڈالیں ۔ اور انھیں یہ بھی حکم دوں گا کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ صورت میں تبدیلی کر ڈالیں ۔ اور جس شخص نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا اس نے واضح نقصان اٹھایا ۔ شیطان ان سے وعدے کرتا اور امیدیں دلاتا ہے ۔ اور جو وعدے بھی کرتا ہے وہ فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتے ۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور جس سے نجات کی وہ کوئی صورت نہ پائیں گے ۔ ‘‘
ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شیطان آرزوئیں دلاتا اور تمناؤں میں مگن رکھتا ہے ۔ چنانچہ انسان لمبے لمبے پروگرام بناتا ہے ۔ پھر انھیں عملی جامہ پہنانے کیلئے دن رات محنت کرتا ہے ۔ تمناؤں اور آرزوؤں کی تکمیل کیلئے ہر وقت سرگرداں رہتا ہے ۔ اور یوں اللہ کے دین سے غافل ہو جاتا ہے ۔
اسی طرح ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی خلقت میں تبدیلی کرنا شیطانی چالوں میں سے ایک چال ہے ۔لہذا جو مرد حضرات اپنی داڑھیاں منڈواتے ہیں انھیں سوچنا چاہئے کہ وہ داڑھیاں منڈوا کر رحمان جو کہ ان کا خالق ومالک ہے اس کو راضی کر رہے ہیں یا شیطان جو ان کا دشمن ہے اس کو خوش کر رہے ہیں !
اسی طرح وہ خواتین جو اپنے چہروں کے بال زائل کراتی ہیں یا خوبصورتی کیلئے دانتوں میں کشادگی کراتی ہیں وہ بھی اللہ کی خلقت کو تبدیل کرکے یقینا شیطان کو راضی کرتی اور اس کی چالوں کا شکار ہو جاتی ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ( لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ ،وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ ، اَلْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ ) [ البخاری : ۴۸۸۶ ، مسلم : ۲۱۲۵ ]
’’ اللہ تعالیٰ نے گودنے والی اور گدوانے والی ، چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور اکھڑوانے والی اور خوبصورتی کیلئے دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے جو اس کی خلقت کو تبدیل کرتی ہیں ۔ ‘‘
اور جب بنو اسد کی ایک خاتون (جس کا نام ام یعقوب تھا ) نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کیسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے ؟ تو انھوں نے کہا : میں ان عورتوں پر کیوں نہ لعنت بھیجوں جن پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ! …
06. مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرنا
اللہ تعالی کا فر مان ہے : ﴿وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ﴾ [ الاسراء : ۵۳]
’’اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتو ں سے) اُن میں فساد ڈلوا دیتا ہے ۔کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔ ‘‘
07. اللہ تعالی کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( یَأْتِی الشَّیْطَانُ أَحَدَکُمْ فَیَقُولُ : مَنْ خَلَقَ کَذَا ؟ مَنْ خَلَقَ کَذَا ؟ حَتّٰی یَقُولُ : مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ ؟ فَإِذَا بَلَغَہُ فَلْیَسْْتَعِذْ بِاللّٰہِ وَلْیَنْتَہِ ) [ البخاری : ۳۲۷۶]
’’ تم میں سے کسی شخص کے پاس شیطان آتا ہے اور وہ کہتا ہے : اِس چیز کو کس نے پیدا کیا ؟ اُس چیز کو کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ وہ پوچھتا ہے : تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ لہذا جب وہ یہاں تک جا پہنچے تو اُسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے اور ایسا سوچنے سے باز آجائے ۔ ‘‘
08. رات کا سایہ پڑنے پر شیاطین زمین پر پھیل جاتے ہیں اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’ جب رات کا سایہ پڑے تو اپنے بچوں کو ( باہر نکلنے سے ) روکا کرو کیونکہ عین اسی وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں ۔پھر جب رات کی ایک ساعت گذر جائے تو انھیں چھوڑ دیا کرو ۔ اور تم بسم اللہ پڑھ کر اپنا دروازہ بند کیا کرو ، بسم اللہ پڑھ کر اپنا چراغ بجھایا کرو ، بسم اللہ پڑھ کر اپنے مشکیزے کو باندھ دیا کرو ۔ اور بسم اللہ پڑھ کر اپنے برتن کو ڈھانپ دیا کرو اگرچہ اس کی چوڑائی میں کسی لکڑی کو ہی رکھ دو ۔ ‘‘ [ البخاری : ۳۲۸۰]
09. ڈراؤنے خواب دکھا کر پریشان کرنا
جو شخص سونے سے پہلے کے اذکار وغیرہ نہیں پڑھتا اور ایسے ہی سو جاتا ہے تو بسا اوقات شیطان اسے ڈراؤنے
خواب دکھا کر پریشان کرتا ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( اَلرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ مِنَ اللّٰہِ ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّیْطَانِ ، فَإِذَا حَلَمَ أَحَدُکُمْ حُلْمًا یَخَافُہُ فَلْیَبْصُقْ عَنْ یَّسَارِہِ وَلْیَتَعَوَّذْ بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّہَا فَإِنَّہَا لَنْ تَضُرَّہُ ) [ البخاری : ۳۲۹۲]
’’اچھا خواب اللہ کی طرف سے اور نا پسندیدہ خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ۔ لہذا تم میں سے کوئی شخص جب ایسا نا پسندیدہ خواب دیکھے جس سے وہ خوف محسوس کرتا ہو تو وہ اپنی بائیں طرف ہلکا سا تھوک دے ۔ اور اس کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے ۔ وہ یقینا اس کیلئے نقصان دہ نہیں ہو گا ۔ ‘‘
10. پیدائش کے وقت بچے کے پہلو میں انگلیاں چبھونا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( کُلُّ بَنِی آدَمَ یَطْعَنُ الشَّیْطَانَ فِی جَنْبِہِ بِأُصْبُعَیْہِ حِیْنَ یُوْلَدُ ، غَیْرَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذَہَبَ یَطْعَنُ فَطَعَنَ فِی الْحِجَابِ ) [ البخاری : ۳۲۹۲]
’’ ہر انسان کی پیدائش کے وقت شیطان اس کے پہلو میں اپنی دو انگلیوں کوچبھوتاہے ۔ سوائے عیسی بن مریم کے جنھیں وہ انگلیاں چبھونے کیلئے گیا تھا لیکن اس نے حجابِ ( مریم ) کو ہی چبھو دیا ۔ ‘‘
11. غصہ دلانا اور ایک دوسرے سے لڑانا
حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ دو آدمیوں میں لڑائی ہو گئی ۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا ۔ ان میں سے ایک کا چہرہ لال سرخ ہو گیا اور اس کی رگیں پھول گئیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( إِنِّی لَأعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا ذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ ، لَوْ قَالَ : أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ ذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ ) [ البخاری : ۳۲۸۲]
’’ میں ایک کلمہ جانتا ہوں ، اگر یہ وہ کلمہ کہہ دے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا ۔ اگر یہ ( أعوذ باللہ من الشیطان ) ’’ میں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ‘‘ کہہ دے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا ۔ ‘‘
12. موسیقی وغیرہ میں مگن کرنا
شیطان انسان کو اللہ تعالی کے دین سے دور رکھنے اور اسے اس کے ذکر سے غافل کرنے کیلئے اس کو اپنی سریلی
آوازوں میں مگن کردیتا اورراگ گانوں کا دلدادہ بنا دیتا ہے ۔
اللہ تعالی نے ابلیس کو جنت سے نکالتے ہوئے فرمایا تھا :﴿ وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَ عِدْھُمْ وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ﴾ [الإسراء: 64]
’’ اور ان میں سے جس پر تیرا زور چلے اپنی آواز کے ساتھ اسے بہکا لے ۔ اور ان پر اپنے سوار وپیادہ لشکر کو دوڑا لے ۔ اور ان کے مالوں اور اولاد میں شریک ہو لے اور ان سے وعدے کر لے ۔ اور شیطان ان سے جو وعدے کرتا ہے وہ سراسر دھوکہ ہے ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں ( بِصَوْتِک ) ’’ اپنی آواز ‘‘ سے مراد گانا اور موسیقی کی آواز ہے جس کے ساتھ شیطان انسانوں کو بہکاتا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے شیطان کو اپنے سوار وپیادہ لشکر کے ساتھ انسان پر حملہ آور ہونے کا کہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قدر تجھ سے ہو سکے اس پر اپنا تسلط اور اقتدار جما لے ۔ اور مال میں شرکت سے مراد یہ ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالی کی نافرمانی میں اموال خرچ کرنے کی طرف مائل کر ۔ اور اولاد میں شرکت سے مراد یہ ہے کہ انھیں اولاد کے ناجائز نام مثلا عبد الحارث ، عبد الشمس وغیرہ رکھنے کا حکم دے یا انھیں زنا کاری کی ترغیب دے ۔ اور ان سے وعدے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انھیں خوب سبز باغ دکھا اور جھوٹی آرزوؤں اور ناجائز تمناؤں کے چکر میں ڈال دے کہ یہ ان سے نکل ہی نہ سکیں ۔ اور آج کے دور میں شیطان یہی کچھ کر رہا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شیطان مردو دکے شر سے محفوظ رکھے ۔
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! شیطان کس کس طرح سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ! اِس کا ذکر آپ نے پہلے خطبہ میں سنا ۔ آئیے اب یہ بھی جان لیجئے کہ شیطان کے شر سے بچنے کی تدبیریں کیا ہیں ۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تدابیر کے بارے میں آگاہ کردیا ہے ۔ اگر ہم ان تدبیروں کو اختیار کریں تو اللہ کے حکم سے شیطان کے شر سے بچ سکتے ہیں ۔
تاہم سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ شیطان کی چال کمزور ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا﴾ [النساء: 67 ]
’’ یقینا شیطان کی چال کمزور ہوتی ہے ۔ ‘‘
خاص طور پر جب مومن کا ایمان مضبوط ہو اور اللہ تعالی سے اس کا تعلق پختہ ہو تو اس کے سامنے شیطان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اور جس قدر مومن کا ایمان مضبوط ہو گا اسی قدر وہ شیطان سے محفوظ ہوگا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ٭ اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ﴾ [النحل:۹۹۔۱۰۰]
’’ اُس ( شیطان ) کا ان لوگوں پر کوئی بس نہیں چلتا جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں۔ اس کا بس تو صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا دوست اور سرپرست بناتے ہیں اوروہی لوگ اللہ کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں ۔ ‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلًا﴾ الإسراء: 65 ]
’’ بلا شبہ میرے بندوں پر قطعا تیرا بس نہیں چلے گا اور آپ کے رب کا کارساز ہونا کافی ہے ۔ ‘‘
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ کمزور ایمان والے لوگ ہی شیطان کے وسوسوں میں آجاتے اور اس کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں ۔ جبکہ مضبوط ایمان والوں پر اس کا کوئی بس نہیں چلتا ۔
رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا تھا : ( وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ قَطُّ سَالِکًا فَجًّا إِلَّا سَلَکَ فَجًّا غَیْرَ فَجِّکَ ) [ البخاری : ۳۲۹۴ ]
’’ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! شیطان تجھے جس راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اُس راستے کو چھوڑکر کسی اور راستے پر چلا جاتا ہے ۔ ‘‘
آئیے اب شیطان کے شر سے بچنے کی چند اہم تدابیر کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
شیطان کے شر سے بچنے کی تدابیر
01. شیطان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ٭ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ﴾ [ الأعراف : ۲۰۰ ۔ ۲۰۱]
’’ اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کیجئے ۔ یقینا وہ خوب
سننے والا اور سب سے زیادہ جاننے والاہے ۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں انھیں جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو وہ ( اللہ کو ) یاد کرنے لگتے ہیں، پھر وہ اچانک بصیرت والے بن جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں ، کیونکہ اس کے وسوسوں سے اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے ۔ اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے متقی لوگوں کی ایک صفت ذکر فرمائی ہے کہ جب انھیں شیطان کی طرف سے وسوسے لاحق ہوتے ہیں تو وہ فورا اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں جس سے ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ اس کے فتنوں سے بچ جاتے ہیں۔
02. اللہ تعالی کا ذکر کرتے رہنا
اللہ رب العزت نے شیطان کے دو وصف ذکر کئے ہیں : ﴿ اَلْوَسْوَاس الْخَنَّاسِ ﴾ یعنی ’’ وسوسے ڈالنے والا اور پیچھے ہٹ جانے والا ‘‘ اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شیطان ابن آدم کے دل پر ڈیرہ ڈالے رکھتا ہے ۔ جب وہ غافل ہو جائے تو یہ وسوسے ڈالتا ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگ جائے تو یہ پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔
اورحضرت حارث الأشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ وہ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنو اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں ۔ چنانچہ انھوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع ہونے کو کہا جس سے مسجد لوگوں سے بھر گئی اور جو لوگ مسجد سے باہر تھے وہ ٹیلوں پر چڑھ گئے۔ پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اپنا خطاب یوں شروع فرمایا:
اللہ نے مجھے اور آپ سب کو پانچ باتوں پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے…………
پھر فرمایا : ( وَآمُرُکُمْ أَنْ تَذْکُرُوْا اللّٰہَ تَعَالیٰ ، فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ الْعَدُوُّ فِی أَثَرِہٖ سِرَاعًا ، حَتّٰی إِذَا أَتیٰ عَلیٰ حِصْنٍ حَصِیْنٍ فَأَحْرَزَ نَفْسَہُ مِنْہُمْ ، کَذَلِکَ الْعَبْدُ لاَ یَحْرِزُ نَفْسَہُ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلَّا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالیٰ ) [ أحمد ، أبوداؤد الطیالسی ، ابن خزیمۃ ، مصنف عبد الرزاق ، أبو یعلی ، الحاکم وغیرہ ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع : ۱۷۲۴]
’’اور میں تمھیں اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیتا ہوں اور ذکر کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کے پیچھے دشمن لگا ہوا ہو اور اچانک وہ ایک مضبوط قلعے میں داخل ہو کر اس سے اپنی جان بچا لے ۔ اسی طرح بندہ ہے کہ وہ بھی اللہ کے ذکر کے ساتھ ہی اپنے آپ کوشیطان سے بچا سکتا ہے …‘‘
نیز اس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا :
( یَعْقِدُ الشَّیْطَانُ عَلٰی قَافِیَۃِ رَأْسِ أَحَدِکُمْ إِذَا ہُوَ نَامَ ثَلاَثَ عُقَدٍ ، یَضْرِبُ عَلیٰ مَکَانِ کُلِّ عُقْدَۃٍ : عَلَیْکَ لَیْلٌ طَوِیْلٌ فَارْقُدْ ، فَإِنِ اسْتَیْقَظَ فَذَکَرَ اللّٰہَ اِنْحَلَّتْ عُقْدَۃٌ ، فَإِنْ تَوَضَّأَ اِنْحَلَّتْ عُقْدَۃٌ ، فَإِنْ صَلّٰی اِنْحَلَّتْ عُقَدُہُ ، فَأَصْبَحَ نَشِیْطًا طَیِّبَ النَّفْسِ، وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِیْثَ النَّفْسِ کَسْلاَنَ) [ البخاری :۱۱۴۲ ، مسلم : ۷۷۶]
’’ تم میں سے کوئی شخص جب سو جاتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ کی جگہ پر مارتے ہوئے کہتا ہے ۔ لمبی رات ہے ، مزے سے سوئے رہو۔ پھر اگر وہ بیدار ہو جائے اور اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے ۔ اور اگر اٹھ کر وضو کرے تو دوسری گرہ بھی کھل جاتی ہے ۔ اور اگر نماز بھی پڑھے تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں پھر وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ ہشاش بشاش اور خوش مزاج ہوتا ہے ، ورنہ بد مزاج اور سست ہوتاہے ۔ ‘‘
اسی طرح حدیث نبوی میں ہے کہ
( إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَیْتَہُ فَذَکَرَ اللّٰہَ عِنْدَ دُخُولِہِ وَعِنْدَ طَعَامِہِ قَالَ الشَّیْطَانُ : لَا مَبِیْتَ لَکُمْ وَلَا عَشَائَ ، وَإِذَا دَخَلَ فَلَمْ یَذْکُرِ اللّٰہَ عِنْدَ دُخُولِہِ قَالَ الشَّیْطَانُ : أَدْرَکْتُمُ الْمَبِیْتَ ، وَإِذَا لَمْ یَذْکُرِ اللّٰہَ عِنْدَ طَعَامِہِ قَالَ : أَدْرَکْتُمُ الْمَبِیْتَ وَالْعَشَائَ ) [ مسلم : ۲۰۱۸]
’’ جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو اور داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرے اور کھانا کھاتے وقت بھی اللہ کا ذکر کرے تو شیطان ( اپنے ساتھی شیطانوں کو ) کہتا ہے : تمھارے لئے رات گذارنے کی کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی کھانا ہے۔ اور جب وہ داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے : تمھیں رات گذارنے کی جگہ مل گئی ۔ اور جب وہ کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو وہ کہتا ہے : تمھیں رات گذارنے کی جگہ بھی مل گئی اور کھانا بھی مل گیا ۔ ‘‘
03. گھر میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ وَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِیْ تُقْرَأُ فِیْہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ ) [ مسلم : ۷۸۰]
’’ تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ( اور ان میں قرآن پڑھا کرو ) کیونکہ جس گھر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جاتی ہے اس سے شیطان بھاگ جاتا ہے ۔ ‘‘
04. باجماعت نماز کی پابندی:
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی پابندی سے انسان ‘شیطان سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اس سلسلے میں سستی برتنے سے شیطان اس پرغالب آجاتا ہے۔
رسولِ اکرم ا کا فرما ن ہے:
(مَا مِنْ ثَلَاثَۃٍ فِی قَرْیَۃٍ وَّلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِیْہِمُ الصَّلَاۃُ إِلَّا قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطَانُ فَعَلَیْکَ بِالْجَمَاعَۃِ فَإِنَّمَا یَأْکُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِیَۃَ) [ ابو داؤد : ۵۴۷ ، نسائی : ۸۴۷۔ وحسنہ الألبانی ]
’’کسی بستی میں جب تین آدمی ہوں اور وہ باجماعت نماز ادا نہ کریں تو شیطان ان پر غالب آجاتا ہے۔ لہذا تم جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرو، کیونکہ بھیڑیا اُسی بکری کو شکار کرتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے۔‘‘
05. قیام اللیل : جو شخص شیطان کے شر سے بچنے کیلئے قلعہ بند ہونا چاہے اسے قیام اللیل ضرور کرنا چاہئے، کیونکہ اس میں کوتاہی کرکے انسان خودبخود اپنے اوپر شیطان کو مسلط کر لیتا ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اُس شخص کا ذکر کیا گیا جو صبح ہونے تک سویا رہے اور قیامِ لیل کے لئے بیدار نہ ہو ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( ذَاکَ رَجُلٌ بَالَ الشَّیْطَانُ فِی أُذُنِہِ ) [ البخاری : ۱۱۴۴ ، ۳۲۷۰ ، مسلم : ۷۷۴]
’’یہ وہ شخص ہے جس کے کانوں میں شیطان پیشاب کرجاتا ہے۔‘‘
06. جمائی لیتے وقت اپنا منہ بند رکھنا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( اَلتَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّیْطَانِ ، فَإِذَا تَثَائَ بَ أَحَدُکُمْ فَلْیَرُدَّہُ مَا اسْتَطَاعَ ، فَإِنَّ أَحَدُکُمْ إِذَا قَالَ : ہَا ، ضَحِکَ الشَّیْطَانُ ) [ البخاری : ۳۲۸۹]
’’ جمائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ۔ لہذا تم میں سے کوئی شخص جب جمائی لے تو اسے حسب استطاعت روکے ۔ کیونکہ کوئی شخص جب ( جمائی لیتے ہوئے ) ’ ہا ‘ کہے تو شیطان ہنس پڑتا ہے ۔ ‘‘
07. مختلف مواقع پر دعاؤں کا اہتمام کرنا ۔ مثلا
1.۔ گھر سے نکلتے ہوئے یہ دعا پڑھنا:
( بِسْمِ اللّٰہِ، تَوَکَّلْتُ عَلیَ اللّٰہِ، لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ )
کیونکہ یہ دعا پڑھنے سے ایک صحیح حدیث کے مطابق اللہ تعالی کی طرف سے دعا پڑھنے والے کو یہ خوشخبری ملتی ہے: ( ہُدِیْتَ وَکُفِیْتَ وَوُقِیْتَ ) ( وَتَنَحّٰی عَنْہُ الشَّیْطَانُ )
’’تجھے سیدھا راستہ دکھا دیا گیا ہے ، یہ دعا تجھے کافی ہے اورتجھے بچا لیا گیا ہے ۔ اور شیطان اس سے دور ہوجاتاہے ۔او ر ایک شیطان دوسرے شیطان سے کہتا ہے: تُو اس آدمی پر کیسے غلبہ حاصل کرسکتا ہے جسے ہدایت دے دی گئی ہے ، جس کی حفاظت کردی گئی ہے اور جسے بچا لیا گیا ہے۔‘‘ [ ابوداود : ۵۰۹۵، الترمذی: ۳۴۲۶: حسن صحیح ۔ وصححہ الألبانی ]
2. مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھنا:
( اَعُوْذُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِوَجْھِہِ الْکَرِیْمِ وَسُلْطَانِہِ الْقَدِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ) [ابوداود : ۴۶۶ ۔ وصححہ الألبانی ]
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے اور فرماتے تھے : ’’ جو آدمی یہ دعا پڑھ لے شیطان اس کے متعلق کہتا ہے: ’’یہ آج کے دن مجھ سے محفوظ ہوگیا ۔‘‘
3. نمازِ فجر کے بعد یہ دعا (۱۰۰ مرتبہ) پڑھنا :
( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ) [ البخاری: ۳۲۹۳ ، ۶۴۰۳و مسلم: ۲۶۹۱]
حدیث میں ہے کہ نبی کریم ا نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص بھی یہ دعا صبح کے وقت سو مرتبہ پڑھ لے ، اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ، اس کے لئے سو نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں، اس سے سو برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور شام ہونے تک وہ شیطان سے محفوظ رہتا ہے…‘‘
4. سونے سے پہلے آیۃ الکرسی کا پڑھنا
صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شیطان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا تھا:
( إِذَا أَوَیْتَ إِلٰی فِرَاشِکَ فَاقْرَأْ آیَۃَ الْکُرْسِیِّ ، لَنْ یَّزَالَ مِنَ اللّٰہِ حَافِظٌ وَلَا یَقْرَبَکَ شَیْطَانٌ حَتّٰی تُصْبِحَ ) [ البخاری:۲۳۱۱]
’’جب تم اپنے بستر پر جاؤ توآیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو ، صبح ہونے تک اللہ تعالی کی طرف سے ایک فرشتہ حفاظت کرتا رہے گا اور شیطان تمھارے قریب نہیں آئے گا ۔‘‘
یہ بات جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( أَمَا إِنَّہُ قَدْ صَدَقَکَ وَہُوَ کَذُوبٌ ) ’’اس نے سچ کہا ہے، حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔‘‘
5. بوقت ِجماع دعا پڑھنا :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’تم میں سے کوئی شخص جب اپنی بیوی سے جماع کرنا چاہے تو یہ دعا پڑھے:
( بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ) [ البخاری: ۳۲۷۱]
’’اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ !ہمیں شیطان سے بچا اور جو چیز تو ہمیں عطا فرمائے اسے بھی شیطان سے بچا۔‘‘
اگر اِس جماع کے بعد انہیں بچہ دیا گیا تو شیطان اُسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
6. صبح وشام کے اذکا رپڑھنا
جو شخص صبح وشام کے مسنون اذکار ہمیشہ پابندی سے پڑھتا رہے وہ باذن اللہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا ۔ اور شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔ انہی اذکار میں سے معوذتین ( سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ) کو تین تین مرتبہ پڑھنا بھی شامل ہے ۔ اسی طرح ان میں سے ایک یہ بھی ہے :
( اَللّٰہُمَّ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَاطِرَ السَّمٰوَاتِ وَالْأرْضِ رَبَّ کُلِّ شَیْیٍٔ وَّمَلِیْکَہُ ، أَشْہَدُ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِی سُوْئً ا أَوْ أَجُرَّہُ إِلٰی مُسْلِمٍ )
یہ اور اِس طرح کے دیگر اذکار ( جن کا ذکر ہم اپنے ایک اور خطبہ بعنوان ’ ذکر اللہ کے فوائد وثمرات ‘ میں کر چکے ہیں ) اگر ان پر مداومت کی جائے تو اللہ تعالی ان اذکار کی برکت سے انسان کو شیطان کے فتنے سے بچا لیتا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس کے فتنے سے محفوظ رکھے اور اپنے دین پر استقامت نصیب فرمائے ۔