اپنی سی کوشش
بہت سے لوگ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ہم کسی بڑے عہدے پر فائز ہوں گے تو کچھ کریں گے کسی کا ٹارگٹ ہوتا ہے کہ میں وزیراعظم بنوں گا تو یوں اور یوں کردوں گا
کوئی کہتا ہے میں وزیر اعلیٰ بنوں گا تو پھر، کوئی کہتا ہے میں فلاں لیول کا افسر بنوں گا تو پھر ہی کچھ کروں گا
الغرض ہر کسی کے پاس ملک و ملت کی خدمت اور ترقی کے بڑے بڑے عزائم اور منصوبے ہیں
لیکن اکثریت کا حال یہ ہے کہ اپنے ان منصوبوں کو شروع کرنے سے پہلے خاص حالات اور خاص عہدوں کی منتظر ہو کر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے
کیا واقعی ایسے ہی ہے کہ ہم جب تک کسی بہت بڑے لیول کے افسر نہیں بن جاتے تب تک کچھ نہیں کرسکتے
یا یہ کہ جب تک ہمارے پاس وافر وسائل و اسباب نہیں آتے تب تک ہم کچھ نہیں کرسکتے
یا پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی میں بہت کچھ کرنا تو چاہتا ہوں لیکن میرے پاس وسائل نہیں ہے
کیا وسائل کے بغیر واقعی کام نہیں کیا جاسکتا؟
ابراهيم علیہ السلام کی مثال
ابراهيم علیہ السلام اکیلے ہی تھے، انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ساری دنیا ایک طرف ہے اور میں اکیلا کیا کر پاؤں گا، بس اپنے مشن کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے نتیجہ اللہ پہ چھوڑ دیا
اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ اعزاز بخشا کہ اکیلے کو ہی امت قرار دیا
فرمایا :
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
بے شک ابراہیم ایک امت تھا، اللہ کا فرماں بردار، ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا اور وہ مشرکوں سے نہ تھا۔
النحل : 120
جو بس میں ہے وہ تو کریں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ
سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو
التغابن : 16
عائشہ رضی اللہ عنہا کی مثال
مقبل بن هادی الوادعي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کیا آپ جانتے ہیں؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہیں تھی
کیا آپ جانتے ہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی، یعنی آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد 47 سال زندہ رہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بے انتہا، بے لوث محبت کرتے تھے، اور آپ انتہائی غیرت والی تھیں۔۔۔
اِس سب کے باوجود آپ نے اپنی زندگی اسی رنج وغم میں یوں ہی نہیں گُزار دی بلکہ خُود کو علم وعبادت میں مشغول رکھا اور کِبار صحابہ کرام کی معلمہ اور مفتیہ بنی رہیں۔۔۔
یاد رکھیں۔۔۔
زندگی کا انحصار صرف ان ہی چیزوں پر ہرگز نہیں ہے؛
نہ اولاد پر
نہ شادی پر
نہ گھر پر
نہ مال پر
اور نہ ہی ان چیزوں سے زندگی رُک سکتی ہے،
نہ ہی والدین کے گزر جانے سے اور نہ ہی اولاد کے نہ ہونے سے زندگی رک سکتی ہے۔
ان سب کے نہ ہونے کے باوجود آپ محنت اور کوشش کرکے بہت کچھ کرسکتے ہیں
مرغی کتے پر جھپٹ پڑتی ہے
کبھی چوزوں کی حفاظت کرنے والی مرغی کو دیکھا، جب چوزوں پر کتا حملہ آور ہوتا ہے تو مرغی کسی تیاری، لشکر یا حالات کی بہتری کا انتظار کیے بغیر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر، اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے، اپنے سے کئی گناہ طاقت ور کتے یا بلے سے ٹکرا جاتی ہے اور بہت دفعہ اپنے مشن میں کامیاب بھی ہوتی ہے
کیا ہم اس مرغی سے بھی کمزور ہیں ایک دفعہ اپنی سی کوشش تو کریں ان شاءاللہ نتیجہ بھی نکلے گا
ٹینک کے سامنے پتھر کیا کرتا ہے
ایک فلسطینی نوجوان سے پوچھا گیا: بندوق اور ٹینک کے سامنے پتھر آپ کو کیا فائدہ دے سکتا ہے؟ !!
اس نے جواب دیا:
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ
کیا تونے نہیں دیکھا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کس طرح کیا۔
الفيل : 1
آپ اکیلے ہیں یا چند ایک ہیں تو کیا ہوا، بس اپنا کام شروع کریں
اپنے اکیلے یا تھوڑے ہونے سے مایوس نہ بنو اور ٹارگٹ کے بڑا یا دشمن کے زیادہ ہونے سے گھبراؤ نہیں راہ حق پہ چلنے والے ہمیشہ تھوڑے ہی رہے ہیں قرآن اٹھا کر دیکھ لیں اکثریت کے متعلق تو
لا يعلمون – لا يشكرون – لا يؤمنون
جیسے کلمات ہی ملتے ہیں
یا پھر
فاسقون – يجهلون – معرضون – لا يعقلون – لا يسمعون
جیسے الفاظ ملیں گے
لیکن
اگر آپ اکیلے ہیں چند ایک ہیں مگر حق پر قائم ہیں اور اسی کی طرف دعوت دینے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ
صبا : 13
اور فرمایا :
وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ
هود :40
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حق کا راستہ اختیار کرو اور اہل حق کی قلت سے پریشانی نہ لو
اور باطل کی راہ سے بچو اور اہل باطل کی کثرت سے دھوکے میں نہ پڑو
گندم کا ایک ایک خوشہ جمع کرکے مدرسہ میں بھیجا
ایک عرصہ پرانی بات ہے مرکز طیبہ مرید کے میں طلبہ اور مجاہدین کے لیے گندم کا ایک ایسا تھیلا بھی پہنچا کہ جسے ایک بوڑھی اماں نے گندم کی کٹائی کے بعد خالی کھیت میں گرے پڑے ایک ایک خوشے (سٹے) کو اکٹھا کر کر کے جمع کیا اور پھر یہاں بھیجا
بوڑھی اماں کا خرچ کرنے کا جذبہ تھا، لیکن پاس کچھ نہیں تھا، مگر ہمت نہ ہاری اور جتنا بس میں تھا وہ کردیا
مزدوری کر کے ایک کلو غلہ جہاد میں حصّہ ڈالا
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب صدقہ کی آیت نازل ہوئی تو ابوعقیل رضی اللہ عنہ (مزدوری کرکے) آدھا صاع (ایک کلو غلہ) لائے
[ بخاری : 4669 ]
کوشش رائیگاں نہیں جاتی
حالات جیسے بھی ہیں، غلبہ اسلام کے لیے، دعوت و تبلیغ کے لیے اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق کوشش ضرور کریں آپ کی کوشش کو پھل ضرور لگے گا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى
اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔
النجم : 39
وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى
اور یہ کہ اس کی کوشش جلد ہی اسے دکھائی جائے گی۔
النجم : 40
ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى
پھر اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا، پورا بدلہ۔
النجم : 41
اور فرمایا :
إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا
بلاشبہ یہ تمھارے لیے ہمیشہ کا بدلہ ہے اور تمھاری کوشش ہمیشہ قدر کی ہوئی ہے۔
الإنسان : 22
اگر صرف درخت لگانے کا موقع ملے تو وہ بھی ضائع نہ کیا جائے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
إِنْ قَامَتْ السَّاعَةُ وَبِيَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَفْعَلْ
اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی ایک کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو (جسے وہ گھاڑنا چاہتا ہے) تو اگر وہ اسے گھاڑ سکتا ہے تو ضرور گھاڑے
مسند احمد 12569
ذرہ برابر نیکی کا موقع بھی نہ جانے دو
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ
تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔
الزلزلة : 7
وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا ۔
الزلزلة : 8
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَحْقِرَنَّ مِنْ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا
صحيح مسلم | 2626
نیکی میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو
اور اس نے کوشش کی جتنی وہ کرسکتا تھا
اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی کوشش کرنے والوں کے متعلق فرمایا ہے :
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا
اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی، جو اس کے لائق کوشش ہے، جب کہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدرکی ہوئی ہے۔
الإسراء : 19
وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا کا ایک معنی تو کے اس نے قیامت کے لیے جو قیامت کے لائق تھی وہ کوشش کی
اور
دوسرا اس کا معنی ہے کہ اس نے قیامت کے لیے اپنی سی کوشش کی
روز محشر لوگ اپنی کوشش پہ خوش ہوں گے
اللہ نے فرمایا :
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاعِمَةٌ
کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے۔
الغاشية : 8
لِسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ
اپنی کوشش پر خوش۔
الغاشية : 9
فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ
بلند جنت میں ہوں گے۔
الغاشية : 10
لَا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةً
وہ اس میں بے ہودگی والی کوئی بات نہیں سنیں گے۔
الغاشية : 11
فِيهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌ
اس میں ایک بہنے والا چشمہ ہے۔
الغاشية : 12
فِيهَا سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ
اس میں اونچے اونچے تخت ہیں ۔
الغاشية : 13
وَأَكْوَابٌ مَوْضُوعَةٌ
اور رکھے ہوئے آبخورے ہیں ۔
الغاشية : 14
وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ
اور قطاروں میں لگے ہوئے گاؤ تکیے ہیں۔
الغاشية : 15
وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ
اور بچھائے ہوئے مخملی قالین ہیں۔
الغاشية : 16
گردن کٹوادی مگر حلال گوشت نہ کھایا
ایسے واقعات تو آپ نے سنے ہی ہوں گے کہ فلاں شخص نے گردن کٹوا دی مگر حرام کام نہ کیا
آج ایک عجیب واقعہ بھی سنیے کہ ایک شخص نے گردن تو کٹوا دی مگر حلال گوشت نہ کھایا
وھب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بنی اسرائیل میں ایک ظالم حکمران تھا لوگوں کو زبردستی خنزیر کھلاتا تھا اور خنزير کا گوشت نہ کھانے کی وجہ سے قتل کر دیا کرتا تھا
حتی کہ ایک دن کسی بہت ہی نیک اور عبادت گزار شخص کو پکڑ لیا، اس شخص کی گرفتاری سے لوگوں کو بھی بہت تکلیف ہوئی، جیل کے داروغہ نے اسے کہا :
إني أذبح لك جديًا، فإذا دعاك الجبار لتأكل فكل
کہ میں تیرے لئے بکری کا ایک بچہ ذبح کرتا ہوں اور جب بادشاہ تجھے خنزیر کھانے کے لیے بلائے تو کھا لینا (کہ وہ خنزير نہیں بلکہ بکری کا گوشت ہوگا)
جب بادشاہ نے اسے کھانے کے لیے بلایا تو اس نے کھانے سے انکار کر دیا
تو بادشاہ نے کہا کہ اسے لے جاؤ اور اس کی گردن اتار دو
تو جیلر نے اسے کہا :
ما منعك أن تأكل وقد أخبرتك إنه جديٌ!
میں نے جب آپ کو بتادیا تھا کہ یہ بکری کا گوشت ہے، خنزير کا نہیں ہے تو آپ نے کیوں نہیں کھایا
تو وہ کہنے لگے :
أني رجلٌ منظور إليَّ، وإني كرهت أن يُتأسى بي في معاصي الله
میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ میرے علم و فضل کی وجہ سے لوگ میری طرف دیکھتے اور میرے پیچھے چلتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں لوگ میری اطاعت کریں
فرماتے ہیں پھر انہیں قتل کر دیا گیا
[موسوعة ابن أبي الدنيا ١ / ٢٣٠].
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کو کون نہیں جانتا، آپ فاتح قادیان کہلائے گیے، قرآن کی مایہ ناز تفسیر لکھی، فرق باطلہ کا رد کیا، مختلف رسائل و جرائد کا اجراء کیا
آپ یتیم تھے۔ چودہ سال کی عمر میں علم حاصل کرنا شروع کیا تو اپنا خرچہ خود ہی چلانا پڑتا تھا جس کے لیے آپ رفو گری کا کام کرتے تھے۔ ایک بار بڑے میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے حصول علم کے لیے جارہے تھے ، اسٹیشن پر جوتی گم ہوگئی۔ ایک عرصہ تک ننگے پاؤں رہے۔ دوسری جوتی کا بندو بست نہ ہوسکا
العلم والعلماء ۳۸۔
ہر شخص اپنے حصے کا کام کرے
مثال کے طور پر مظلوم مسلمانوں کی مدد کا مسئلہ ہے، فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ ہے، وطن عزیز پاکستان میں غیر ملکی اجارہ داری کا مسئلہ ہے اور بہت سے مسائل ہیں
ایسے حالات میں ایک عام شہری کی حیثیت سے ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ بغیر کسی عہدے، منصب، دولت یا سازگار حالات کا انتظار کیے اپنی استطاعت کے مطابق کوشش شروع کردے
جو مال لگا سکتا ہے مال لگا دے
جو جان لگا سکتا ہے جان لگا دے
جو وقت لگا سکتا ہے وقت لگا دے
جو با اختیار طبقے کو فکر مند کر سکتا ہے فکر مند کر دے
جو ظلم کے خلاف بات کر سکتا ہے بات کرے
جو لکھ سکتا ہے وہ لکھے
جو میڈیا یا سوشل میڈیا استعمال کر سکتا ہے استعمال کرے
جو کچھ نہیں کر سکتا دُعا کے لیے ہاتھ تو اٹھا سکتا ہے ! اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کیلئے گڑ گڑا کر دعائیں کیجیے
شاعر نے کہا ہے ناں
خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو تادیر ہلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود جلانا ہوگا
آپ مینڈک سے کمزور تو نہیں
محدث عبد الرزاق نے اپنی مصنف (۸۳۹۲) میں معمر عن الزہری عن عروہ عن عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ كَانَتِ الضِّفْدَعُ تُطْفِئُ النَّارَ عَنْ إِبْرَاهِيْمَ وَكَانَ الْوَزَغُ يَنْفُخُ فِيْهِ فَنَهَی عَنْ قَتْلِ هٰذا وَ أَمَرَ بِقَتْلِ هٰذَا ]
’’مینڈک ابراہیم علیہ السلام سے آگ بجھاتے تھے اور چھپکلی اس میں پھونکیں مارتی تھی، سو انھیں قتل کرنے سے منع فرمایا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔‘‘
غور کیجیے مینڈک ایک چھوٹا سا جانور ہے اس کی پھونک کوئی قوت نہیں رکھتی اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے بھڑکائی ہوئی آگ سے اس کا کوئی مقابلہ و موازنہ نہیں بنتا ہے وہ آگ ایسی تھی کہ مینڈک کی ہزار پھونکیں بھی اسے بُجھا نہیں سکتی تھیں مگر مینڈک نے اسے بجھانے کی اپنی سی کوشش کی، میرے رب نے اس حقیر سی کوشش کی یہ قیمت لگائی کہ قیامت تک مینڈک کو قتل کرنے سے منع کردیا
ہدہد نے اپنی سی کوشش کی
یہ ایک پرندہ ہے، اس کا نام ہدہد ہے، اڑتا ہوا ایک قوم کے پاس پہنچتا ہے، کیا دیکھتا ہے کہ وہ قوم خالقِ کائنات کے مقابلے میں کسی اور کو پوج رہی ہے، یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، کمزور تھا، کچھ نہیں کرسکتا تھا انہیں روک نہیں سکتا تھا، ان کے خلاف جنگ نہیں کر سکتا تھا مگر پھر اس نے ہمت نہیں ہاری، جو کرسکتا تھا کیا، ایک فکر لے کر واپس آیا، اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کو ساری داستان سنا دی
اس پرندے نے اس قوم کا نہ کوئی بندہ قتل کیا، نہ ان کے خلاف لشکر کشی کی، محض توحید کی حمیت اور غیرت میں وقت کے نبی تک اطلاع پہنچائی، میرے رب نے اتنی سی کوشش کی یہ قیمت لگائی کہ اپنے قرآن میں ہدہد کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے قیامت تک وفا کی اعلیٰ مثال بنا کر پیش کر دیا
(وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ)
مرغ کی بانگ اور ہماری کوشش
مرغ ایک پرندہ ہے، سحری کے وقت بانگ دینا اس کی فطرت ہے، اس کی بانگ سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عبادت گزاروں کو تہجد کے وقت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور وہ تہجد اور فجر کی نماز کے لیے اٹھ جاتے ہیں
میرے شاکر اور شکور رب نے اپنی شریعت میں ایک قانون بنا دیا اپنے نبی کی زبانی کہلوایا :
"لَا تَسُبُّوا الدِّيكَ ؛ فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلَاةِ ”
سنن أبي داود|5101 ،حكم الحديث: صحيح
مرغ کو گالی نہ دیا کرو اس لیے کہ وہ نماز کے لیے اٹھاتا ہے
سوچیں کہ جو رب ایک مرغ کی ایک نماز کے لیے اٹھانے والی کوشش کی اتنی قیمت لگاتا ہے وہ پانچ نمازوں کے لیے آذان دینے والے بندے کی کتنی قیمت لگاتا ہوگا
میرے نہ لینے سے کیا ہوگا
لوگ کہتے ہیں
جی ساری دنیا جہیز لیتی ہے
میرے نہ لینے سے کیا ہوگا
ساری دنیا سود لیتی ہے
میرے نہ لینے سے کیا ہوگا
ہر طرف ملاوٹ چلتی ہے
میرے نہ کرنے سے کیا ہوگا
سب جھوٹ بولتے ہیں
میرے نہ بولنے سے کیا ہوگا
سب لوگ یہودی پروڈکٹس استعمال کرتے ہیں
میرے نہ کرنے سے کیا ہوگا
ارے بھائی ساری دنیا جائے بھاڑ میں آپ تو اپنی لائن سیدھی رکھیں
لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ
تجھے تیری ذات کے سوا کسی کا مکلف نہیں بنایا گیا
النساء : 84
تیس سال ہوگئے کبھی اسے استعمال نہیں کیا
شیخ مشهور حسن آل سلمان حفظه الله شیخ علی طنطاوی رحمه الله کے بارے فرماتے ہیں :
مجھے تیس سال سے زائد ہو گئے ہیں، میں نے کھانے پینے میں کوئی ایسی چیز استعمال نہیں کی جس کے متعلق مجھے معلوم ہو کہ اس کا “کچھ نا کچھ منافع یہود کو پہنچتا ہے۔
عمرے کا شوق کیسے پورا کیا
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مجھے شوق ہوا کہ عمرہ کروں لیکن زادِ راہ پاس نہیں تھا ۔
پھر حافظ ابن کثیر رحمہ الله کی کتاب "البداية و النهاية” چائنہ کا ایک سائیکل اور لکڑی کی ایک الماری بیچ کر اور کچھ قرض لیکر زاد راه جمع کیا اور تیاری شروع کر دی
تذکرہ علمائے بھٹہ محبت صفحہ 70
حق مہر کو ہی بطورِ ٹول استعمال کر لیا
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام طلحہ رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا، (ام طلحہ اس وقت اسلام قبول کر چکی تھیں جبکہ ابوطلحہ نے ابھی اسلام قبول نہ کیا تھا)
تو ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا :
اے ابو طلحہ آپ جیسے آدمی کا پیغام رد تو نہیں کرنا چاہیئے لیکن آپ کافر آدمی ہیں اور میں مسلمان عورت ہوں اور میرے لیے حلال نہیں ہے کہ میں آپ سے نکاح کرلوں
فَإِنْ أَسْلَمْتَ نَكَحْتُكَ
سنن النسائي | 3340،
ہاں اگر تو اسلام قبول کر لے تو تیرا اسلام قبول کرنا ہی میرا حق مہر ہوگا اور میں اس کے علاوہ تجھ سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا
تو وہ مسلمان ہوگئے
یوسف علیہ السلام کو دیکھ لیں دروازے بند ہیں، برائی سامنے کھڑی ہے، بچنے کا کوئی وسیلہ اور ذریعہ نظر نہیں آ رہا، جتنا کرسکتے تھے اتنا کردکھایا، دروازے کی طرف دوڑ لگا دی، اللہ تعالیٰ نے مدد کی، دروازے خود بخود کھل گئے
سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے ایک طالب علم کی برائی سے بچنے کی کوشش
ایک طالب علم کو جب قبر میں دفن کیا گیا تو اسکی قبر سے خوشبو آرہی تھی ۔اس طالب علم کے استاد میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اس طالب علم کا ایسا کونسا عمل تھا؟
تو انہوں نے بتایا کہ یہ طالب علم دوسرے طلبہ کی طرح کسی کے گھر سے کھانا لینے جایا کرتا تھا۔اس گھر کی ایک لڑکی کے دل میں فتور پیدا ہوگیا۔ایک روز اسکے گھر والے کسی کی تعزیت پر گئے ہوئے تھے اور لڑکی گھر پر اکیلی تھی ۔جب یہ طالب علم حسب معمول انکے گھر کھانا لینے گیا تو لڑکی نے اندر بلالیا اور باہر کا دروازہ بند کرلیا۔
لڑکی نے دعوت گناہ دی اور کہا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تم پر تہمت لگا دوں گی۔لڑکے نے کہا*:مجھے قضائے حاجت کرنا ہے۔لڑکی نے چھت کی طرف اسے بھیج دیا۔اس نے بیت الخلاء سے فضلہ اٹھا کر اپنے جسم پر مل لیا۔وہ واپس آیا تو لڑکی نے شدید نفرت کا اظہار کیا اور فورا اسے گھر سے نکال دیا۔شدید سردی کا موسم تھا۔طالب علم نے مسجد میں آکر غسل کیا۔سردی سے کانپتے ہوئے اس نے مسجد میں ہی نماز تہجد پڑھی۔طالب علم سے اصل وجہ پوچھی تو ڈرتے ڈرتے تمام واقعہ سنایا۔اس طالب علم نے گناہ سے بچنے کیلئے اپنے جسم کو آلودہ کرلیا۔کچھ بعید نہیں کہ اللہ کو اسکا یہ عمل پسند آگیا ہو۔
(ماخوذ ”قبر کا بیان”از مولنا محمد اقبال کیلانی)
امام شافعی کے ایک شاگرد کا واقعہ
آپ کے شاگردِ رشید ابو یعقوب البويطی – رحمهما الله – کو خلقِ قرآن کے فتنے میں جیل میں ڈالا گیا اور جیل ہی میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کے بارے میں آتا ہے :
ہر جمعے جب اذان ہوا کرتی تو نہاتے، کپڑے بدلتے اور جیل کے دروازے پر پہنچ جاتے۔ داروغہ انہیں واپس بھیج دیا کرتا۔ آپ فرماتے : ”اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ میں نے تیرے داعی کی پکار پر لبیک کہا (میرے بس میں جو تھا وہ میں نے کیا) مگر انہوں نے مجھے روک دیا۔“
(طبقات الفقهاء للشيرازي : ٩٨/١)
اور پھر فرماتے :
اللہ کی قسم! میں ضرور ان بیڑیوں میں ہی اپنی جان دے دوں گا، تاکہ میرے بعد آنے والوں کو پتہ ہو کہ اس عقیدے کی خاطر کچھ لوگ بیڑیوں میں جکڑے اللہ کے حضور پیش ہوئے ہیں۔