اپنی زبان کے شر سے بچیں
﴿یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا﴾ (الاحزاب:70۔71)
گذشتہ جمعے زبان اور قوت گویائی کے ایک بہت بڑی نعمت ہونے اور اس کے لغلط استعمال اور بے احتیاطی کی صورت میں اُس کے تباہ کن ہونے کا ذکر ہورہا تھا ۔
زبان کی بے احتیاطی کے امکانات چونکہ زیادہ ہیں، کیونکہ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے که فطری طور پر ہر انسان کا نفس اسے برائی پر ابھارتا اور ، بدی پر اکساتا ہے، جیسا کہ اس حکم عام کو قرآن پاک میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی بیان کیا گیا ہے؟
﴿وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ؕ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۵۳﴾ (يوسف:53)
’’بے شک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو یقینًا میرا رب غفور رحیم ہے۔‘‘
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ بھی اک حقیقت ہے کہ لوگوں کی آپس کی اکثر گفتگوؤں میں خیر نہیں ہوتی ، سوائے چند باتوں کے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ﴾ (النساء:114)
’’لوگوں کی سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی اور خیر نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کوئی صدقہ و خیرات کی تلقین کرے، یا کسی نیک کام کے لئے ، یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لئے کسی سے کچھ کہے۔‘‘
تو زبان کی بے احتیاطی اور غلط استعمال اس حد تک عام ہے کہ اس کے زیادہ تر استعمال میں کوئی خیر نہیں ہے، لہذا اس کی اصلاح کی یقینًا ضرورت ہے، اشد ضرورت ہے، اور بہت زیاد و توجہ کی ضرورت ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں سیدھی بات کرنے کی، سچی بات کہنے کی اور فضول گوئی سے اجتناب کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے، ترغیب دی گئی ہے اور حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ﴾ (الاحزاب:70)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کیا کرو۔‘‘
اور فرمایا:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾(التوبه:119)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔‘‘
﴿قَالَ اللّٰهُ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ ؕ﴾(المائدة:119)
’’اللہ تعالی قیامت کے دن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: یہ وہ دن ہے جس میں بچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ۱ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ۲ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ۳﴾ (المؤمنون:1۔3)
’’یقینًا فلاح پائی ایمان والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں اور لغویات سے دور رہتے ہیں۔‘‘
اور لغو ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول ہو ، لا حاصل اور بے فائدہ ہو، جس کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو۔ تو زبان کے لیے جاء بے دریغ اور بے احتیاط استعمال کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کی اصلاح اور درستی کی ضرورت اور کوششوں پر بہت زور دیا گیا ہے اور اس کے لئے عملی طور پر بھی مختلف ذرائع ، وسائل اسالیب اور انداز اختیار کئے گئے۔
مثلاً: کبھی وہ اصلاح بات کی سنگینی بیان کر کے کی گئی، کبھی اس کے نقصانات بتلائے گئے اور کبھی اس کے انجام سے خبردار کیا گیا۔ کبھی کسی لفظ کے بیچ ہونے کے باوجود اس کے استعمال سے منع کر دیا گیا کہ اس سے غلط معنے کا احتمال پیدا ہوتا ہے اور کبھی کسی لفظ کی قباحت اور شناعت واضح کی گئی۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما روایت کرتے ہیں، کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے کہا:
((مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ))
’’جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں۔‘‘
((فَقَالَ: أَجْعَلْتَنِي لِلَّهِ يَدًّا بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ)) (مسند احمد:1839)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا ہے، بلکہ صرف جو اللہ چاہے۔‘‘
آپ نے ملاحظہ کیا کہ آپﷺ نے اس صحابی کی زبان سے نکلنے والے الفاظ ، جو کہ اتنے سنگین تھے کہ کہنے والے کو شرک کا مرتکب بنا دیتے ہیں، فورا اس کی سنگینی ، شدت اور قباحت بیان کی اور اصلاح فرمادی کہ صرف جو اللہ چاہے۔ ایسے ہی ایک حدیث میں ہے کہ ایک یہودی آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کہا:
((إِنَّكُمْ تُنَدِّدُونَ وَإِنَّكُمْ تُشْرِكُونَ))
’’آپ لوگ اللہ تعالی کا ہمسر بناتے ہو اور شرک کرتے ہو۔ ‘‘
((تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ وَتَقُولُونَ وَالْكَعْبَة))
’’ تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں، اور کہتے ہو کہ کعبہ کی قسم‘‘
((فأمرهم النبي:))
’’ تو آپ ﷺنے انہیں حکم دیا کہ‘‘
((إذَا أَرَادُوا أَنْ يَّحْلِفُوا أَنْ يَّقُولُوا وَرَبِّ الْكَعْبَة، وَيَقُولُوْنَ: مَا شَاءَ الله ثُمَّ شئْتَ)) (سنن نسائی:3773) ’’جب قسم کھانا چاہیں تو کہیں: رب کعبہ کی قسم، اور کہیں: جو اللہ چاہے، پھر آپ ۔‘‘
کیونکہ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ جو اللہ چاہے اور جو فلاں چاہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اللہ کی مشیت اور بندے کی مشیت برابر اور ایک جیسی اہمیت کی حامل ہے، جو کہ مخلوق کو اللہ کا مد مقابل اور ہم پلہ بنانا ہے اور یہ شرک ہے۔
لیکن جب کوئی کہتا ہے کہ جو اللہ چاہے اور پھر فلاں چاہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بندے کی چاہت اور مشیت اللہ کی مشیت کے تابع ہے، اصل مرضی اور چاہت صرف اللہ کی ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿كَلَّاۤ اِنَّهٗ تَذْكِرَةٌۚ۵۴ فَمَنْ شَآءَ ذَكَرَهٗؕ۵۵ وَ مَا یَذْكُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ ؕ ﴾(المدثر54۔56)
’’ ہرگز نہیں! یہ تو ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے وہ نصیحت حاصل کرے مگر کوئی محض اپنے چاہنے سے نصیحت حاصل نہ کر سکے گا جب تک کہ اللہ نہ چاہے۔‘‘
تو یوں آپﷺ نے اس صحابی کے منہ سے نکلنے والے ایک ایسے لفظ کی فورًا اصلاح فرمادی کہ جو انہوں نے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر کہ دیا تھا، یعنی انہیں اندازہ نہ تھا کہ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے اور نہ ان کی نیت تھی کہ معاذ اللہ وہ آپ سے کام کو اللہ کا مدمقابل اور شریک بنادیں ، لیکن لفظ تو بہر حال لحاظ ہی تھا۔
تو یوں قرآن وحدیث میں زبان کی اصلاح کی بہت تاکید کی گئی ہے اور اہتمام کیا گیا ہے، اگر اس کی تفصیل بیان کرنا چاہیں تو یقینًا ایک وقت درکار ہوگا، کیونکہ اس کی تفصیل ایک طویل بحث ہے، جبکہ ہم اس میں سے چیدہ چیدہ باتیں جو کہ بر او راست ہمارے موضوع سے متعلق ہیں جانا چاہیں گے۔
تو اب تک کی گفتگو میں ہم نے جانا:
کہ زبان کی حفاظت و صیانت سے متعلق قرآن پاک میں بہت سی آیات ہیں، ذخیرہ احادیث بھرا پڑا ہے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر سلف صالحین کا طرز عمل اس کی اصلاح و درستی کے حوالے سے مثالی ہے۔
سب سے پہلے ہمیں زبان کی اصلاح کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنا ہوگا، زبان کی اصلاح اور درستی کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے قرآن پاک میں ایک بہت بڑی حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ جس آدمی کی زبان درست نہ ہو، آدمی ترش رو اور تند خو ہو، سخت زبان ہو، کرخت لہجہ ہو ، سنگدل ہو تو لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں، کوئی اس کے قریب ہونا پسند نہیں کرتا۔
اور اس حقیقت میں مزید وزن اور تاکید یوں پیدا کیا کہ اللہ تعالی نے آپﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران:159)
’’یہ تو اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہیں، ورنہ اگر کہیں آپ تند خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔‘‘
اندازہ کیجئے کہ زبان کی اصلاح کی ضرورت و اہمیت کی دلیل اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ آپﷺ کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہے، اپنے پرائے سب جانتے ہیں آپ ﷺ سید المرسل ہیں، خاتم النبیین ہیں، سید الخلق ہیں، معصوم ہیں ، آپﷺ پر وحی نازل ہوتی. معجزات عطا ہوتے ، آپ صلہ رحمی کرتے ، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ، تہی دستوں کا بندوبست کرتے ، مہمان کی میزبانی کرتے ، اہل حق کے مصائب پر اعانت کرتے اور دیگر بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، یہ ساری خوبیاں اپنی جگہ مگر اللہ فرماتے ہیں لیکن اگر آپ بد مزاج تند خو، ترش رو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ، آپ کے قریب نہ آتے۔
اندازہ فرمائیں کہ جب ایک ایسی ہستی کے بارے میں یہ ارشاد ہو جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہو، مگر بفرض محال دل اور مزاج کے سخت ہوں تو لوگ ان کے قریب نہ جائیں، کوئی شخص کسی ایک ہو۔ بڑے عہدے پر فائز ہو کر سمجھنے لگ جائے کہ بس اب لوگ اس کے گرویدہ ہو جا ئیں، پروانوں کی طرح اس پر مرمٹنے کو تیار ہوں، یا کوئی شخص علم کی ابجد کو جان کر خواہش کرنے لگے کہ اب چاہنے والوں کا ایک حلقہ اس کے گرد بنا رہے، تو یہ اس کی سادگی نہیں بلکہ بہت بڑی حماقت ہوگی کیونکہ خوش اخلاقی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
تو خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کے اخلاق اچھے ہوں، خوش گفتار ہو، لہجہ نرم ہو، اس کی زبان سے کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو، وہ خوش نصیب ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنی رحمت خاص سے نواز رکھا ہے۔
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتا چلوں اور وہ یہ کہ لوگ عموماً حسن اخلاق کا مطلب سمجھتے ہیں کہ ابتداء کسی سے نہیں کر مسکرا کر، نرم الفاظ میں، دل لگی کرتے ہوئے، اپنا نیت ظاہر کرتے ہوئے ہمدردی و خیر خواہی اور بے تکلفی سے بات کرے تو حسن اخلاق ہوتا ہے، مگر جونہی دوسری طرف سے کوئی غلطی ہوگئی، جان بوجھ کر، یا اتفاق ہے، یا غیر ارادی طور پر تو فوراً بھڑک اٹھتے ہیں اور اس کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں۔ اور عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ میں تو اس کے ساتھ بڑے پیار سے، نرم انداز سے، اور حسن اخلاق سے بات کر رہا تھا مگر اس کو تمیز نہیں ہے یہ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ارے بھائی! یہ کیسے اخلاق ہیں! جب اخلاق دکھانے کا موقع آیا تو اس وقت آپ نے موقعہ گنوا دیا اور نا کام ہو گئے۔ کوئی آپ کے ساتھ اچھا ہو تو آپ اس کے ساتھ اچھے ہوں! یہ حسن اخلاق نہیں بلکہ ضرورت اور مجبوری ہے۔
آدمی کے حسن اخلاق کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کوئی دوسرا اس سے زیادتی کرے، نازیبا الفاظ کہے، دل آزاری کرے، سخت زبان استعمال کرے، گالی دے، بک بک کرے، الزام لگائے یا اس کے مزاج کے خلاف کوئی کام کرے، یہ نہیں کہ کوئی آدمی غصہ دلانے والی بات کرے تو وہ اپنے اخلاق کو خیر باد کہہ دے۔
آدمی کے اصل اخلاق تو وہ ہیں جو ہر حال میں اس کے ساتھ رہیں اور اجر و انعام بھی اخلاقیات کا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا:
((أنا زعيم ببيت في ربض الجنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاء وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وبِبيت في وسطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا ، وَبِبِيتٍ في أَعَلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسُنَ خُلْقَهُ))
’’میں جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے ، اور جنت کے وسط میں ایک گھر کا ضامن ہوں اس شخص کے لیے جو مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے ، اور اعلی جنت میں گھر کا ضامن ہوں اس شخص کے لیے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اس اخلاقی فقدان میں ہم سب ایک جیسے ہیں ہم میں سے بہت کم ایسے خوش نصیب ہوں گے جو اس امتحان کے وقت اپنے اخلاق دکھانے میں کامیاب ہوتے ہوں گے ورنہ اکثر و بیشتر کا یہی حال ہے جو ہم سنا۔
تو زبان کی اصلاح کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، کہ قرآن پاک میں اس کی بہت تاکید کی گئی ہے اور احادیث میں بھی اس پر بڑا زور دیا گیا ہے اور عملاً آپ ﷺاس کی اصلاح فرماتے رہے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
((إِسْتَأْذَنَ شَخْصٌ عَلَى النَّبِيِّ وَهُوَ فِي بيتٍ فقال: أَأَلِج))
’’آپﷺ گھر میں تشریف فرما تھے کہ بنی عامر کے ایک شخص نے اجازت چاہی یہ کہتے ہوئے کہ کیا میں داخل ہو جاؤں۔ ‘‘
((فَقَالَ النَّبِيُّ: لِحَادِمِهِ أَخْرُجْ إِلَى هَذَا فَعَلِّمْهُ الاسْتِبْدَانَ فَقُلْ له: قُلْ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ))
’’تو آپ ﷺنے اپنے خادم سے فرمایا: جاؤ اس کو اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ، اس سے کہوں کہ یوں کہیے: السلام علیکم کیا میں اندر آسکتا ہوں ۔‘‘
((فَسَمِعَهُ الرَّجُلُ ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ))
’’تو آدمی نے وہ بات سن لی، تب کہا: السلام علیکم، کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔‘‘
(( فَأَذِنَ لَهُ النَّبِي فَدَخَلَ)) (سنن ابی داؤد:5177)
’’تب آپ ﷺنے اسے اندر آنے کی اجازت دی ، تو وہ داخل ہو گیا۔‘‘
اسی طرح زندگی کے ہر شعبے سے متعلق بہت سی احادیث ہیں، جن میں سے کچھ ان شاء اللہ آئندہ خطبات میں ذکر کریں گے۔ قرآن وحدیث کے بعد سلف صالحین رحمہم اللہ اس موضوع پر خاص توجہ دیتے اور اپنی اور دوسروں کی اصلاح کے لیے بھر پور اور مخلصانہ کوششیں کرتے اور اس اصلاح کے ضمن میں الفاظ کے انتخاب کو بہت اہمیت دیتے نظر آتے ہیں، کیونکہ الفاظ اگر اخلاق و آداب سے عاری ہوں تو اگر چہ دو معنی و مفہوم کے اعتبار سے صحیح بھی ہوں مگر وہ سماعت پر قدرے گراں گزرتے ہیں اور بسا اوقات ان کا معنی و مفہوم بھی بدل جاتا ہے اور ان سے تند خوئی اور سنگدلی کا اظہار بھی کسی حد تک ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے ایک شاگر و المزنی بیان کرتے ہیں
سَمِعَنِي الشافعي يَوْمًا وَأَنَا أَقُولُ فُلانٌ كَذَّابٌ ’’امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک بار مجھے یہ کہتے ہوئے سنا کہ فلاں شخص جھوٹا ہے۔‘‘
اور ان کا یہ کہنا کسی راوی حدیث پر جرح و تعدیل کرتے ہوئے تھا، مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ بھی پسند نہ فرمایا بلکہ فرمایا:
((فَقَالَ لِي يَا أَبَا إِبْرَاهِيمَ أَكْسُ أَلْفَاظَكَ أَحْسَنَهَا ، لَا تَقُلْ فُلانٌ كَذَّابٌ، وَلَكِن قُلْ: حَدِيثه ليس بشيء)) (فتح المغيث بشرح الفية الحديث / اقسام الحديث/ مراتب التجريح )
’’اور مجھ سے فرمایا: اے ابو ابراہیم ، اپنے الفاظ کو اچھا جامہ پہناؤ، یہ نہ کہو، کہ فلاں جھوٹا ہے، بلکہ یوں کہو کہ اس کی بیان کردہ حدیث کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
الفاظ کے انتخاب کو قرآن وحدیث میں بھی بہت اہمیت دی گئی اور خیال رکھا گیا ہے، کیونکہ کچھ الفاظ صحیح ہونے کے باوجود نامناسب سے لگتے ہیں ان کی جگہ انہی معنوں میں جب دوسرے الفاظ کہے جاتے ہیں تو برے نہیں لگتے، جیسے قضائے حاجت، بیت الخلاء ریسٹ روم اور واش روم وغیرہ کے الفاظ سلیقے اور ذوق کے معیار پر پورے اترتے ہیں، ان کی جگہ اگر دوسرے الفاظ بولے جائیں تو کراہت اور گھن کی آنے لگتی ہے۔ اب قرآن پاک میں ہے کہ:
﴿اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىِٕطِ﴾ (النساء:43)
’’یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے ۔‘‘
الغائط کا اصلی معنی تو ہے نشیبی زمین سے ہو کر آئے چونکہ قضائے حاجت کے لئے آدمی نشیبی زمین ڈھونڈتا ہے کہ جہاں بیٹھے تو اوٹ میں ہو جائے ، اس لئے کنایۃً یہ لفظ استعمال کیا۔
اچھے سلیقے اور ذوق والے الفاظ سب کو اچھے لگتے ہیں اور ان الفاظ کی وجہ سے قربت بھی پیدا ہوتی ہے، آدمی دل کے قریب ہو جاتا ہے، جبھی تو کہتے ہیں کہ میٹھے بول میں جادو ہے، اور کہتے ہیں کہ زبان شریں ملک گیری، زباں میٹھی ہو تو آدمی پورا ملک حاصل کر لیتا ہے، چھا جاتا ہے۔
بات کو خوبصورت اور پرکشش الفاظ میں ڈھال کر پیش کیا جائے، آداب سے مزین کر کے پیش کیا جائے تو ہر خاص و عام کے ہاں اس کی پذیرائی ہوتی ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ خلیفہ ہارون رشید کی بیوی نے ان سے شکوہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے مامون کو امین پر ترجیح دیتے ہیں۔ خلیفہ ہارون رشید نے کہا: ہاں ، مگر میں بتاتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے، اپنے بیٹے امین کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ ان کے پاس کچھ مسواکیں پڑی ہوئی تھیں، تو اس نے کہا: مساو یک۔ مسواک کی جمع مساویک ہے، مگر مساویک کا ایک دوسرا مطلب بھی ہے اور وہ ہے کہ تمہاری برائیاں اور خطائیں۔ پھر مامون کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو اس نے کہا: ((ضِدُّ مَحَاسِنِكَ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ)) (الطرق الحكمية في السياسة الشرعية لابن القيم ، ج:1، ص:108 قلادة النحر في وفيات أعيان. الدهر:1071)
’’ اے امیر المومنین یہ آپ کی خوبیوں کا الٹ ہے۔ یعنی اس نے وہ لفظ ادا کرنا پسند نہ کیا کہ جس سے ایک غلط معنی بھی لگتا تھا، آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، جب زبیدہ نے کہا کہ ہاں مجھے اب سمجھ آئی ہے۔
نرم، اچھی اور با سلیقہ گفتگو کرنا ہم لوگ کمزور اور ملازم طبقے کی ذمہ داری سمجھتے ہیں حالانکہ ان سے زیادہ ایک عالم کو ضرورت ہے، مالدار اور سیٹھ کو ضرورت ہے، وزیر اور مشیر کو ضرورت ہے۔ جو ہمارا اصل موضوع تھا اس پر تو بات نہ ہوسکی کہ سارا وقت تمہید میں ہی گزر گیا اور و یہ تھا کہ کچھ الفاظ کی اصلاح ہو، تا ہم دو ایک باتیں اس ضمن میں عرض کرتے ہیں۔
ایک تو عدد ہے، 786 جو بسم اللہ الرحمن الرحیم کا متبادل سمجھا جاتا ہے، کچھ لوگ برکت کے لئے اور نیکی کے جذبے کے تحت اپنے برانس یا کسی اور چینی کو نام دیتے ہیں، جبکہ حقیقت میں یہ دین کی توہین کے مترادف ہے اس وقت تفصیل میں نہیں جاتے ، بس اتنا غور کر لیں کہ اگر کسی کے اپنے یا اس کے بچے کے نام کا کوئی بھی عدد ہو تو کیا وہ پسند کرے گا کہ اسے اس کے نام کے بجائے اس عدد سے پکارا جائے؟
دوسری بات بچوں کے نام کے حوالے سے ہے، کہ لوگ بچوں کے نام رکھتے وقت معنی کا لحاظ نہیں کرتے، مثلا: ایک شخص کا نام ہے: میلاد الرحمن اور اس کا مطلب آپ جانتے ہیں کہ رحمن کی پیدائش، اللہ کی پیدائش۔ اس طرح ایک نام رکھا جاتا ہے ارحم ، اور لفظ ارحم مبالغے کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور وہ اللہ تعالی سے زیادہ یقینًا کوئی نہیں ہو سکتا۔ ان ناموں کے غلط ہونے کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہر شخص اچھی طرح سمجھتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی زبانوں کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور ان سے سرزد ہونے والی لغزشوں سے محفوظ فرمائے ۔ آمین وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………………..