اصل مسئلہ اور خرابی کہاں ہے؟

(کسی بھی پارٹی کی حمایت یا تائید کو سائیڈ پر رکھ کر ایک مرتبہ یہ تحریر پڑھیں)

اس وقت وطن عزیز پاکستان کے حالات آپ کے سامنے ہیں ایسے حالات میں لوگ اپنے تبصرے اور تجزیے پیش کر رہے ہیں، کوئی کسی کو تو کوئی کسی اور کو ان حالات کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے، کوئی سارا ملبہ پاک فوج پر گرا رہا ہے تو کوئی نواز و شہباز کو برا بھلا کہنے میں لگا ہوا ہے، کوئی زرداری اور عمران کو قصور وار ٹھہرا رہا ہے
لیکن
میں سمجھتا ہوں کہ ایسے حالات کا اصل محرک کوئی اور ہے اور وہ کون ہے؟ ہمیں ہر حال میں اسے پہچاننا ہے

کیونکہ حقیقی دشمن کو پہچاننا اور پھر اسے دشمن ہی سمجھنا، بے حد ضروری ہے اگر کسی قوم کو یہ ہی پتہ نہ چلے کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ تو یہ اس قوم کے لئے بہت بڑا المیہ ہوتا ہے

حالیہ انتشار کے پیچھے اصل ہاتھ کفار کے ہیں

یہ سو فیصد کلیئر کٹ بات ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ماضی یا حال میں لگی ہوئی آگ، افراتفری، بدامنی، قتل و غارت اور تخریب کاری کے پیچھے اصل ہاتھ دشمن کا ہاتھ ہے
آپ کہیں گے : وہ کیسے؟
اس سوال کے جواب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ دیکھ اور سن لیں کہ اہل اسلام کے دشمنوں کون ہیں؟

ہمارے حقیقی دشمن کون ہیں

اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے :
إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا
بے شک کافر لوگ ہمیشہ سے تمھارے کھلے دشمن ہیں۔
النساء : 101

اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ
وہ تمہیں مٹانا چاہتے ہیں

فرمایا :
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کے ساتھ بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے،اگرچہ کافر لوگ ناپسند کریں۔
الصف : 8

اور یہ بھی بتایا ہے کہ
وہ تمہیں نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں

لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا
وہ تمھیں کسی طرح نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے
آل عمران : 118

اور یہ بھی بتایا ہے کہ
کافر لوگ تو بس یہی چاہتے ہیں کہ تم افراتفری میں پڑے رہو

وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ
وہ ہر ایسی چیز کو پسند کرتے ہیں جس سے تم مصیبت میں پڑو۔
آل عمران : 118

اور یہ بھی بتایا ہے کہ
ان کے دلوں میں تمہارے خلاف بڑے خوفناک منصوبے ہیں
فرمایا :
قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ
ان کی شدید دشمنی تو ان کے مونہوں سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو کچھ ان کے سینے چھپا رہے ہیں وہ زیادہ بڑا ہے۔
آل عمران : 118

اور یہ بھی بتایا ہے کہ
انہیں تمہارے ساتھ ذرہ برابر بھی محبت نہیں ہے

وَلَا يُحِبُّونَكُمْ
اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے
آل عمران : 119

اور یہ بھی بتایا ہے کہ
انہیں تم پر اتنا غصہ ہے کہ وہ تو غصے میں پاگل ہو کر انگلیاں کاٹ رہے ہیں

وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ
اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو تم پر غصے سے انگلیوں کی پوریں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔ کہہ دے اپنے غصے میں مر جائو، بے شک اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔ـ
آل عمران : 119

اور یہ بھی کہ
اگر کبھی ان کو موقع مل جائے تو تمہیں کچا چبا ڈالیں۔

كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً
وہ اگر تم پر غالب آجائیں تو تمھارے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں گے اور نہ کسی عہد کا۔
التوبة : 8

اور یہ بھی بتایا ہے کہ
اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں

إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا
اگر تمھیں کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تمھیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر خوش ہوتے ہیں
آل عمران : 120

لیکن ان کی چالیں اور تدبیریں اتنی غیر محسوس ہیں کہ ہمارے لوگ انہیں اپنا دشمن ہی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، ان کی چند قلابازیوں سے متاثر ہو کر ان کی مدح سرائی میں رطب اللسان ہیں، جی وہ بڑے انصاف پسند ہیں ان کا ڈسپلن بہت اچھا ہے ان میں امانت داری بہت ہے وہاں تو کتے اور بلی کی بھی کیئر ہوتی ہے ملاوٹ اور دو نمبری نہیں کرتے صرف یہ کہ ان کی گولی ٹافی بہت اچھی ہے، چاکلیٹ بڑی مزے کی بناتے ہیں؟جہاں بھی چار مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں اگر ان میں کوئی اوور سیز بھی مل جائے تو بس یہود و نصاریٰ کی تعریفوں کے قلابے ملائے جاتے ہیں گورا یہ اور گورا وہ گورا ایسے اور گورا ویسے

اب اللہ تعالیٰ کا اعلان سنو

کفار کے بھیانک چہرے اور خوفناک منصوبے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام سے مخاطب ہو کر فرمایا :
قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ
بے شک ہم نے تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کر دی ہیں، اگر تم سمجھتے ہو۔
آل عمران : 118

یعنی ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے زہین دماغ اور عقل کو استعمال کرتے ہوئے ان کے زہریلے ڈھنگ پر نظر رکھو اور چوکنے رہتے ہوئے اپنے علاقوں اور لوگوں کو ان کی چالوں سے محفوظ رکھو

تو پھر کیوں نہیں ہوش کرتے؟
ہوش کرو اور اصل دشمن کو پہچانو!

مثال کے طور پر

ایک بندہ ہمارے ایک کروڑ روپے چوری کرے اور دوسرا بندہ ایک ہزار روپے چرا کر لے جائے
بتائیں ان دونوں میں سے ہمارا اصل اور بڑا مجرم کون ہے؟

اور مزید یہ کہ وہ ایک کروڑ والا ہمیں اپنے آپ سے غافل کرکے اس ایک ہزار والے کے پیچھے الجھائے رکھے تو ہم سے بڑا بے وقوف کون ہے؟؟؟

پہلے ایک کروڑ والے کی خبر لینی چاہیے یا ایک ہزار والے کی؟

یقیناً کوئی بھی دانا و بینا انسان یہی کہے گا کہ پہلے ایک کروڑ والے کی خبر لیں، ایک ہزار والے سے بعد میں نپٹ لیں گے

اس مثال کے بعد اصل بات سمجھیں

یہ بات کہی جاتی ہے کہ نواز شریف چور ہے زرداری چور ہے فلاں اتنے پیسے کھا گیا فلاں نے اتنی کرپشن کر لی وغیرہ وغیرہ (یہ بات واضح کرتا چلوں کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے کہ کون چور ہے اور کون چور نہیں ہے نہ میں کہتا ہوں کہ فلاں چور ہے اور نہ ہی یہ کہتا ہوں کہ فلاں چور نہیں ہے)
لیکن بہرحال تھوڑی دیر کے لیے اگر تسلیم کر لیا جائے کہ جن جن کا نام لیا جا رہا ہے وہ واقعی ایسے ہی ہیں جیسے کہا جا رہا ہے
تو ذرا ٹھنڈے دماغ سے ادھر ادھر نظر دوڑا کر دیکھیں کہ کوئی ان سے بھی بڑا چور تو نہیں ہے جو خاموشی سے ہمیں لوٹتا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ ان چھوٹے چوروں کے پیچھے اپنی توانائیاں ضائع کر کر کے بڑے چور کو کور فائر دے رہے ہیں؟

غور کیجیے

ہمارے حکمرانوں نے اگر ہمارا ایک ہزار لوٹا ہے تو عالمی بدمعاش ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے ایک کروڑ لوٹا ہے
اور اگر یہ ایک کروڑ لوٹتے ہیں تو وہ ایک کھرب لوٹتے ہیں
اور اگر یہ ایک کھرب لوٹتے ہیں تو وہ 100 کھرب لوٹتے ہیں
اندازہ کریں کہ کتنا فرق ہے اور سوچیں کہ بڑا مجرم کون ہے؟
اور اصل مسئلہ اور خرابی کہاں ہے؟

پھر ان کی چالاکی دیکھیں

اپنے آپ کو سیو کرنے کے لیے اور اپنے آپ سے توجہ ہٹانے کے لیے ہمیں ہمارے ہی لوگوں کے پیچھے لگا کر ایسا الجھا دیا کہ ہم اصل مجرم اور ظالم کی طرف متوجہ نہ ہو سکے

آج وطن عزیز پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو آئی ایم ایف، امریکہ اور عالمی بدمعاشوں کو چور کہتے ہیں اور کتنے لوگ ہیں جو ملکی اداروں یا حکمرانوں کو چور کہتے ہیں؟

کتنے لوگ ہیں جن کے دلوں میں آئی ایم ایف اور امریکہ وغیرہ کے متعلق اسی طرح غیض و غضب ہے جس طرح ملکی اداروں اور حکمرانوں کے متعلق ہے؟؟

ذرا تناسب نکال کر دیکھیں آپ چونک اٹھیں گے کہ ہماری قوم کہاں الجھا کر رکھ دی گئی ہے؟

اسے کہتے ہیں کَوَرْ فائر
اور اسے کہتے ہیں چالاکی

انہوں نے اپنے آپ کو سیو رکھنے کے لیے ہمیں چھوٹے چھوٹے چوروں کے پیچھے لگا دیا اور ہم لگ گئے

بڑے چوروں کا طریقہ واردات چیک کریں

اللہ کی قسم ! کرپشن یا موجودہ حکمران ہمارا مسئلہ نہیں ہے
ہمارا مسئلہ اس سے پیچھے ہے

یہ عالمی بد معاش ہمارے حکمرانوں اور سرداروں کو پہلے خود کرپشن اور لوٹ مار کا خوب موقع فراہم کرتے ہیں، انہیں لالچ میں لا کر ان سے بددیانتی کرواتے ہیں، انہیں اپنے ملکوں اور بینکوں میں لوٹ مار کا پیسہ جمع رکھنے کے دروازے کھول کر دیتے ہیں اور اگر کبھی ان کے حالات خراب ہوں تو انہیں پناہ بھی دیتے ہیں اور پھر جب چاہتے ہیں ان کی غلطیوں کو اوور سائز کرکے خبر لیک کر دیتے ہیں اور یوں مسلم معاشرے میں سراسیمگی پھیلاتے ہیں اور مسلم عوام کو بھڑکا کر اپنے حکام کے خلاف کھڑا کرتے ہیں اور پھر اسی بھڑکی ہوئی عوام کا خوف دکھا کر حکام کو بلیک میل کرکے اپنی مرضی سے فیصلے کرواتے ہیں

مثال کے طور

ہمارے کچھ لوگوں کی طرف سے کفار کے ممالک میں جب آف شور کمپنیز، لندن فلیٹس وغیرہ وغیرہ خریدے جا رہے تھے، جب انویسٹ ہورہی تھی، جب منی لانڈرنگ کرکے غیر ملکی بینکوں میں پیسہ رکھا جا رہا تھا، یہ سب کچھ ائمۃ الکفر کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا، ان کی اجازت اور اشارے سے ہورہا تھا
تب وہ کیوں نہیں بولے؟
تب کیوں نہیں بتایا؟
اگر اتنے ہی خیر خواہ تھے تو پہلے دن ہی بتا دیتے؟
پانامہ لیکس کا شوشہ بہت بعد میں کیوں چھوڑا گیا؟

چوہدری کے نوکر کو نہیں، چوہدری کو مارو

چوہدری کا نوکر چوہدری کی شہ کے بغیر کسی کھاتے کا نہیں ہوتا، نوکر کی جتنی بھی خباثتیں اور بدمعاشیاں ہوتی ہیں وہ چوہدری کے بل بوتے پر ہوتی ہیں، نوکر سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں، تم ایک نوکر مارو گے دس اور لوگ نوکری کرنے کے لیے لائن میں کھڑے ہوں گے کہ چوہدری کے ڈیرے سے روٹی اچھی ملتی ہے اور بالخصوص جب نوکر بھی تمہارے اپنے ہی ہوں پھر تو ان سے الجھنے کا بالکل ہی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، الجھو گے تو خود ہی مرو گے یا اپنوں کو مارو گے چوہدری کا کیا نقصان ہے؟
بس اس مثال سے اگلی بات خود ہی سمجھ لو

وہ ان تخریب کاروں کو پناہ دیتے ہیں

وطن عزیز پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں یہ بات بہت زیادہ دیکھی جا سکتی ہے کہ جو بھی وطن عزیز کا مخالف ہے اس پر ملک میں جب بھی شکنجہ کسا گیا وہ بھاگ کر لندن کی پناہ گاہوں میں جا بیٹھا
اگر یہ لوگ انہیں پناہ نہ دیں تو یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اصل کردار ہی سہولت کار کا ہوتا ہے

لھذا چوہدری کے نوکر کو نہیں، چوہدری کو مارو
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ
کفر کے پیشوائوں سے جنگ کرو۔
التوبة : 12

جب ان کی پشت پناہی کرنے والے کافر سردار قتل ہوں گے تو یہ خود بخود ریت کی دیوار کی مانند ڈیہہ جائیں گے

اتنا بڑا ڈاکہ کے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور اتنی بڑی غفلت کے تاریخ میں اس کی بھی مثال نہیں ملتی

جگا ٹیکس دیکھو ہماری ایک کرنسی تمہارے 270 کے برابر ہوگی اور وہ بھی جب تک ہم چاہیں گے، جب چاہیں گے 275 کردیں گے اور جب چاہیں گے 280 اور 290 پر لے جائیں گے

یہ کیا ہوا کہ جیب میں پڑا پڑا روپیہ راتوں رات 100 سے 90 بن گیا
رات جیب میں 100 روپے ڈال کر سوئے تھے صبح اٹھے تو 90 رہ گئے
دس روپے کون لے گیا؟
چور کی خبر لو؟
کون ہے وہ؟
نواز ہے؟ نہیں
شہباز ہے؟ نہیں
عمران ہے؟ نہیں
زردار ہے؟ نہیں
تو پھر کون ہے؟
بس یہی سوال ہے

فرض کریں کہ آج اگر ڈالر 299 روپے کا ہے اور راتوں رات 300 کا ہوجاتا ہے تو گویا ہر پاکستانی کی جیب سے چپ چیتے تین تین روپے نکل گئے اور اگر پاکستان کی کل آبادی 25 کروڑ ہے تو اس کا مطلب ہے پاکستانیوں کی جیب سے 75 کروڑ روپے نکال لیے گئے
بتائیں اس سے بڑا ڈاکہ کیا ہوسکتا ہے
تاریخ میں اتنا بڑا ڈاکہ آپ کو کہیں نظر آئے گا؟
اور ضروری تو نہیں کہ ہر ایک کے پاس تین سو روپے ہی ہوں بعض کے پاس تین ہزار اور بعض کے پاس تین لاکھ اور بعض کے پاس تین کروڑ بھی ہوں گے
راتوں رات ہر ایک ایک پاکستانی کی جیب سے کتنے کتنے پیسے نکل گئے کیلکولیٹ کریں تو اربوں کھربوں تک بات جا پہنچتی ہے سوچیں کہ یہ ڈاکہ کس نے ڈالا ہے؟
یہ عالمی ساہوکاروں کے گورکھ دھندے ہیں ان کے اپنے ہی پیمانے اور اپنے ہی قاعدے ہیں
اور یہ ہمارے اصل مجرم اور ڈاکو ہیں
مگر
ہماری سادگی دیکھیں کہ اس طرف توجہ ہی نہیں جاتی

قذافی اور صدام کا جرم کیا تھا؟

وہ کہتے تھے کہ تم ہم سے تیل لے جاتے ہو اور ہمیں یہ کاغذ کی پرچیاں پکڑا جاتے ہو اور یہ پرچیاں بھی کیا ہیں؟ اپنی مرضی سے ان کا ریٹ مقرر کرتے ہو
ہم سے تیل لینا ہے تو ہمیں سونا چاندی دو ورنہ چھٹی کرو
اور اسی بنیاد پر انہوں نے مسلمانوں کے مشترکہ بینک کی بھی بات کی تھی
بس ان کا یہی جرم تھا کہ بڑی پلاننگ کے ساتھ انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا

کرنسی کا یہ گورکھ نری تباہی ہے

یہ مسلمانوں کو لوٹنے کا بہت بڑا یہودی ہتھکنڈا ہے، مسلمانو ! تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ تمہاری دولت کون لوٹ رہا ہے؟، جذبات سے باہر نکل کر اس موضوع پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، لیکن افسوس کہ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کا ایجنڈا لے کر نکلنے والی 95 فیصد عوام سے اس موضوع پر آواز اٹھانے کی توقع تو دور کی بات شاید انہیں اس موضوع کی ابجد سے بھی واقفیت نہ ہو

سونے چاندی میں خرید و فروخت کا عظیم الشان فائدہ

اللہ تعالیٰ نے سونے اور چاندی میں یہ وصف رکھا ہے کہ یہ بطور قیمت شروع سے مقرر چلے آ رہے ہیں۔ دینار و درہم بھی ان کے بنتے تھے اور یہی فطری طریقہ تھا جس سے ہر شخص کا مال خود اس کے پاس ہوتا تھا۔

یہود کی چالاکی

چالاک یہودیوں نے بینک بنا کر لوگوں کا سونا چاندی اپنے پاس جمع کر لیا اور انھیں رسیدیں جاری کر دیں کہ جب چاہو یہ دکھا کر اپنا سونا چاندی لے لو۔ لوگوں نے صرف اتنی سہولت کی خاطر کہ بوجھ نہ اٹھانا پڑے، ان رسیدوں سے لین دین شروع کر دیا، جس نے آگے نوٹوں کی صورت اختیار کر لی۔ اب صرف بوجھ سے بچنے کی خاطر سارا کاروبار یا تو نوٹ پر چلتا ہے یا بینک کے چیکوں پر۔ لوگوں کے پاس کاغذ کے ایک ٹکڑے کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کاغذ کی حیثیت یہ ہے کہ حکومتیں جب چاہتی ہیں اس کی قیمت کبھی آدھی کم کر دیتی ہیں، کبھی چوتھا حصہ۔جو شخص ایک کروڑ روپے کے سونے کا مالک تھا، صرف ایک اعلان کے بعد پچاس لاکھ کے وعدے والے کاغذ کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں رہتا اور اگر نئے نوٹ جاری ہو جائیں اور یہ بر وقت نہ بدلوا سکے تو بالکل ہی خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔
بحوالہ تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

چیزیں مہنگی نہیں ہوتیں، کرنسی ڈاؤن کی جاتی ہے

یہ جو ہر طرف مہنگائی کا رونا رویا جا رہا ہے اور پھر اس آڑ میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے، لوگ کہتے ہیں چیزیں مہنگی ہو گئیں جبکہ حقیقت میں ایسا بہت کم ہوتا ہے صرف 5 فیصد تک یہ امکان ہے کہ وقتی طور پر آؤٹ آف سیزن ہونے یا قحط یا بحران یا انتظامی امور میں خلل کی وجہ سے واقعی چیزیں مہنگی ہوئی ہوں ورنہ 95 فیصد معاملہ یہ ہے کہ چیز کا ریٹ وہی ہوتا ہے جبکہ کرنسی ڈی ویلیو ہو چکی ہوتی ہے

عہد نبوی سے لیکر آج تک قیمتِ خرید کی ایک مثال

دیکھیے صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دینار میں بکرا خریدنا منقول ہے، ہجرت کو چودہ سو تیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی بکرے کی قیمت یہی ہے

یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلسل مہنگائی ہی ہوتی چلی جائے

وقتی طور پر آؤٹ آف سیزن ہونے یا قحط یا بحران کی وجہ سے کچھ مہنگائی ہو جائے تو الگ بات ہے
لیکن
اشیاء خرد و نوش کا مسلسل مہنگے ہی ہوتے چلے جانا اور قیمتوں کا پیچھے مڑ کر ہی نہ دیکھنا سمجھ سے بالا تر ہے
جب اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ ہم اتنا ہی رزق اتارتے ہیں جتنی ضرورت ہوتی ہے تو پھر مہنگائی کا کیا تعلق؟
وَاِنۡ مِّنۡ شَىۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآٮِٕنُهٗ وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ‏
اور کوئی بھی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے۔
الحجر – آیت 21

الغرض کہ جتنی آبادی بڑھ رہی ہے اتنے وسائل بھی بڑھ رہے ہیں تو پھر مہنگائی کیوں؟

آدم علیہ السلام کے زمانے میں اگر انسانی آبادی ایک ہزار افراد پر مشتمل تھی تو سالانہ گندم کی پیداوار بھی ایک ہزار من تھی اور آج اگر اربوں میں آبادی ہے تو گندم کی پیداوار بھی اربوں میں ہی ہے تو پھر گندم مہنگی ہونے کا کیا تک بنتا ہے؟

یہ کیا بدمعاشی ہے

کہتے ہیں :
معدنیات تمہاری ہیں لیکن نکال نہیں سکتے مرضی ہماری ہے
زراعت تمہاری ریٹ ہم مقرر کریں گے
آلو تمہارے اور اس کی چپس اور لیز ہم بیچیں گے
پانی تمہارا ہے لیکن منرل کے نام پر ہم بیچیں گے
بجلی تمہاری ہے لیکن یونٹ کی قیمت ہم طے کریں گے
ملک تمہارا ہے لیکن اس میں جاز اور ٹیلی نار کے ٹاور ہم لگائیں گے
تم اپنی کمپنیز نہیں بنا سکتے
ہماری پروڈکٹس کے مقابلے میں کوئی ایٹم لانچ نہیں کرسکتے
کرو گے تو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا
نہیں یقین تو مختلف مسلم کمپنیز والوں سے پوچھ لیجئے اور حالیہ دنوں گورمے پر بننے والے کیسز کا مطالعہ کیجئے

مسلمان ملکوں کا پیسہ لوٹنے اور انہیں غلام بنائے رکھنے کے لیے زبردستی سودی قرضے دیے جاتے ہیں

پاکستان بننے کے بعد24سال تک اپنے ہی وسائل سے اپناملک چلاتے رہے یہ وہ دورتھاجب اس مملکت خدادادکاذکر دنیابھر کی معاشی ترقی کی نصابی کتب میں سبزانقلاب کے نام سے کیاجاتاتھااوراسے دنیابھر کے لیے ترقی کا ایک ماڈل سمجھاجاتاتھااس لیے کہ ہمیں اس وقت تک سود پرقرضہ جات کے لین دین کی کوئی خاص لت نہیں پڑی تھی ۔اوریہی ہماری معیشت کے ماڈل ہونے کارازتھا
لیکن
پھر عالمی بدمعاشوں نے زبردستی سودی قرضوں کا سلسلہ شروع کیا

تمہیں ضرور ہم سے قرض لینا ہوگا اگر قرض نہیں لو گے تو ہم پھر بھی دیں گے تمہیں نہیں بھی ضرورت تو بھی دیں گے پھر ریٹرن پر سود بھی لیں گے، سود کی شرح بھی ہم طے کریں اور قسطیں زبردستی وصول کریں گے نتیجہ غربت، بھوک افلاس اور افراتفری کا ماحول

آپ حیران ہوں گے کہ

ہمارے آباؤ اجداد جن کفار سے جزیے وصول کیا کرتے تھے آج صرف وطن عزیز پاکستان سے انہیں یومیہ دس ارب روپے سود کی مد میں دیے جا رہے ہیں
یہ روزانہ کی بات ہے کوئی ماہانہ یا سالانہ نہیں
دل پہ ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ تمہارا مال کون لوٹ رہا ہے؟
خدارا حقیقی چوروں اور لٹیروں کو پہچانو !

وطن عزیز پاکستان کی آدھی سے زیادہ دولت تو سودی قسطیں اتارنے میں خرچ ہو جاتی ہے
یاد رکھیں
انکم 50 ہزار ہو
اور اخراجات 70 ہزار ہوں تو تجربہ کار معیشت دان کام نہیں آتے

افغانستان کی مثال لے لیجیے

وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں قرض نہیں چاہیے لیکن مختلف طریقوں سے انہیں پھنسانے کی اور زبردستی قرضہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے
آخر کیوں؟

سودی قرض لینے پر ایک امریکی اخبار کا کارٹون

11 دسمبر 1950 کو ایک کارٹون، مشہور انگلش اخبار پاکستان ٹائمز میں اس وقت شائع هوا جب امریکہ نے پاکستان کو 6 لاکھ ڈالر امداد دی کارٹون کے کیپشن میں کھڑکی سے سر نکال کر دو امریکی یہ بات آپس میں کر رہے ہیں کہ پاکستان نے امریکی امداد لے لی ھے یہ اب کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہی ھو سکے گا۔۔ اسی موقع پر نہرو نے کہا تھا جو امریکی مونگ پھلی لیاقت علی خان نے کھا لی ھے وہ پاکستان کو بہت مہنگی پڑے گی۔ 1950 میں کی ھوئی بات کتنی صحیح ثابت ھوئی ھے اس کا فیصلہ آپ خود کریں

انکی ایک اور بدمعاشی چیک کریں

اسلامی ملکوں میں نظام عدل میں زبردستی بگاڑ پیدا کرکے مسلمانوں کے معاشرے میں بدامنی پیدا کرتے ہیں

آج وطن عزیز پاکستان میں قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ، چوری ڈاکہ، عصمت دری اور اغواء کے واقعات معمول بن چکے ہیں
نظام عدل و انصاف مفلوج ہو کر رہ گیا بدمعاش مافیا سرعام دندناتا پھر رہا ہے خوف و ہراس کا عجیب سماں بندھ گیا ہے لوگ اپنے بچوں کو سکول وکالج بھیجتے وقت پریشان نظر آتے ہیں
لیکن
شاید بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جان بوجھ کر عدالتی سسٹم کو خراب کیا گیا ہے اور خراب کرنے اور کروانے والے بھی وہی ائمۃ الکفر ہیں
وطن عزیز پاکستان کی عدالتوں میں آج بھی وہی انگریز کا بنایا ہوا 1935 کا ایکٹ نافذ ہے، تمام ججز اسی کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہیں

2017 کی بات ہے جڑانوالہ کے ایک گاؤں سے ایک بھائی نے اپنا واقعہ سنایا کہ زمین کے متعلق ہمارا ایک کیس 1993 سے چل رہا ہے عدالت کے چکر لگاتے ہوئے 27 سال گزر چکے ہیں ہنوز مسئلہ حل نہیں ہوا اور مستقبل قریب میں حل ہوتا ہوا نظر بھی نہیں آ رہا
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جتنی رقم کیس کے حوالے سے خرچ کر چکے ہیں زمیں کی قیمت شائد کہ اس سے کم ہو
آخر وہ کون سی گتھی ہے جو 27 سالوں میں جج صاحبان کو سمجھ نہیں آ رہی؟

شاید کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے لوگ اسے تبدیل کرلیں، کیوں نہیں تبدیل کرتے؟

تو اس کے لیے عرض ہے کہ یہ ظالم لوگ تبدیل بھی نہیں کرنے دیتے وہ چاہتے ہی یہ ہیں کہ مسلم معاشرے افراتفری میں پڑے رہیں

اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بد خصلت کا تذکرہ کیا ہے
وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ
وہ ہر ایسی چیز کو پسند کرتے ہیں جس سے تم مصیبت میں پڑو۔
آل عمران : 118

وہ اسلامی حدود نافذ ہی نہیں ہونے دیتے

نہیں یقین تو آج اسلامی حدود کے نفاذ کا اعلان کریں، مرتدین، زنادقہ، مفسدین، محاربين، قاتلین اور دیگر جرائم پیشہ افراد کو شریعت اسلامیہ کے مطابق سرعام پھانسیاں دے کر عالم کفر کی نبض چیک کریں اگر ہر طرف سے پریشر، دھمکیاں اور تنقید نہ سننے دیکھنے کو ملے تو بات کرنا

حدود اللہ کے نفاذ کی برکت

سعودی حاکم شاہ فیصل امریکہ تشریف لے گئے تو وہاں کسی صحافی نے سوال کیا جناب آپ اپنے ملک میں جمہوریت کیوں نافذ نہیں کرتے ہو
تو انہوں نے جواب دیا کہ کسی نظام میں تبدیلی تب لائی جاتی ہے جب وہ نظام انسانوں کی بھلائی اور حفاظت میں ناکام ہو جائے
اور ہمارے نظام حکومت اور اپنے نظام حکومت کا تقابل یہاں سے سمجھ لیجیے کہ پورے سعودی عرب میں مکمل ایک سال کے دوران اتنے جرائم سرزد نہیں ہوتے جتنے امریکہ کے ایک شہر نیویارک میں صرف ایک دن میں سرزد ہوتے ہیں
یہ سب حدود اللہ کے نفاذ کی برکت ہے
(بحوالہ مجلہ الدعوہ)

میرے ہم وطن پاکستانیو!

آپ لوگ کب سمجھو گے؟
اسلام نے تمہیں بہترین نظام دیا ہے تم اس کے نفاذ کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
اس کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟
جتنی کوشش اپنی اپنی پارٹی اور اپنے اپنے لیڈر کے لیے کررہے ہو کاش کہ اتنی کوشش اسلام کے لیے کرو تو سب مسائل حل ہو جائیں
اللہ تعالیٰ نے تمہاری عزت اور تمہارا امن کہیں اور رکھا ہے اور تم اسے کہیں اور تلاش کر رہے ہو
مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
کیا ہے تمھیں، تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟
القلم : 36

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ
پھر ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟
اس کا جواب ان شاء اللہ اگلی قسط میں دیا جائے گ