عشرہ ذوالحجہ

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ﴾ [الحج: 34]
ماہِ ذو الحجہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے اور یہ مہینہ بہت ساری خصوصیات اور فضیلتیں رکھتا ہے:
پہلی خصوصیت:
یہ حرمت و احترام والے چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کی تعظیم ہمارے اوپر فرض قرار دی گئی ہے: سورہ توبہ میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُم﴾ [التوبة: 36]
’’مہینیوں کی گنتی اللہ کے نزد یک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں۔‘‘
تین پے در پے۔ ذوالقعدہ ذو الحجہ اور محرم اور چوتھا رجب مضر، جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔
جس طرح بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے:
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ دس ذو الحجہ کے دن نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’بلا شبہ زمانہ گھوم کر اس حالت میں آگیا ہے جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ سال بارہ مہینوں پر [مشتمل) ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین مہینے ایک دوسرے کے بعد ہیں وہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں اور چوتھا مہینہ مضر (قبیلہ کا) رجب ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب المغازی، باب حجة الوداع، رقم: 4406، و مسلم، رقم: 4383]
دوسری خصوصیت:
یہ ارکان اسلام میں سے بہت بڑے رکن حج بیت اللہ کا مہینہ ہے۔ سال بھر میں کسی مہینے میں کعبتہ اللہ کا حج نہیں ہو سکتا حج بیت اللہ صرف اور صرف ماہ ذوالحجہ میں ہو سکتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ﴾ [سورة البقرة:197]
اور وہ مقررہ مہینے شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ میں پہلے دو مینے سفر حج کے لیے ہیں اور تیسرا (ذو الحجہ) حج کی ادائیگی کے لیے ہے۔ ذوالحجہ کی 8 تاریخ سے 13 تاریخ تک حج کے مختلف ارکان ادا کیے جاتے ہیں۔ اور کسی مہینے کی کسی بھی تاریخ کو حج نہیں کیا جاسکتا۔
تیسری خصوصیت:
اس مہینے کا پہلا عشرہ انتہائی فضیلت والا عشرہ ہے۔ حدیث میں ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’کسی دن کا کوئی عمل صالح اللہ عز وجل کو اتنا پیارا اور محبوب نہیں جتنا ان دس دنوں میں کیا جانے والا نیک عمل اللہ کو پیارا اور محبوب ہے۔‘‘[سنن أبي داود، كتاب الصيام، باب في صوم العشر (2434) و صحيح الترمذي (229/1)
و صحيح البخاری، رقم: 969]
اس لیے ہمیں چاہیے ہم ان دس دنوں کو غنیمت جانیں اور ان میں خوب ذکر اذکار اعمال صالحہ اور صدقہ وخیرات کریں۔ اور نفلی روزے رکھیں رسول اللہ ﷺ یہ 9 روزے بڑی پابندی سے رکھا کرتے تھے۔
چوتھی خصوصیت:
اس مہینے میں یوم عرفہ ہے جس دن اللہ کی رحمت موجزن ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’عرفہ کے دن سے بڑھ کر کوئی دن نہیں جس میں اللہ اپنے بندوں کو دوزخ سے نجات عطا کرتے ہیں اللہ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتے ہیں پھر ان کے ساتھ فرشتوں پر فخر کرتے ہیں اور استفهامی انداز میں فرماتے ہیں کہ یہ حجاج کیا چاہتے ہیں اور اس ایک دن (9 ذو الحجہ) کا روزہ دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہے۔ ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئنده۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر و صوم يوم عرفة (197) (1162)]
غور کیجئے! اس دن کی کیسی شان اور فضیلت ہے کہ اس دن کے روزے سے دو سالوں کے صغیرہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
پانچویں خصوصیت:
اس مہینے میں ایام تشریق ہیں جن کی فضیلت بھی عام دنوں سے منفرد ہے۔ ایام تشریق: 11-12 اور 13 ذوالحجہ کو کہا جاتا ہے۔
صحیح مسلم میں ہے: حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(أَيَّامُ التَّعْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَّ شُرْبٍ وَذِكْرِ اللَّهِ) [صحیح مسلم، كتاب الصيام، باب تحريم صوم أيام التشريق، رقم: 2677]
ایام تشریق (11-12-13 ذو الحجہ کے دن) کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کرنے کے دن ہیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ یوں تو پورا یہ مہینہ حرمت و احترام والا مہینہ ہے لیکن اس کے ابتدائی 13 دنوں کو خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ لیکن ان 13 دنوں میں سے ابتدائی 9 دنوں میں نفلی روزوں کی ترغیب و تلقین ہے اور آخری (4 دن یوم عید اور بعد والے 3 دن) کا روزہ ناجائز اور ممنوع ہے۔
لیکن یہ 13 کے 13 دن ذکر اذکار اور تکبیر وتہلیل کے دن ہیں۔
چھٹی خصوصیت:
ہجرت مدینہ جو اسلامی انقلاب کا بہت بڑا سنہری باب ہے اس ہجرت کے اسباب و معاهدات اسی ماہ مبارک میں طے ہوئے۔
سیرت اور حدیث کی کتابوں میں تفصیل موجود ہے مکی دور کے 11 ویں سال مدینہ منورہ سے حج کے لیے آنے والے 6 سعادت مندوں نے قبول اسلام کیا۔ اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے وعدہ کیا کہ ہم اپنی قوم میں جا کر آپ کی رسالت کی تبلیغ کریں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال جب حج کا موسم آیا تو بارہ افراد آپ کی خدمت اطہر میں حاضر ہوئے ان لوگوں نے منٰی میں ایک عقبہ (گھاٹی) کے پاس آپ ﷺ سے ملاقات کی اور آپ ﷺ سے چند باتوں پر بیعت کی (بیعت کی تفصیل صحیح البخاری کتاب الایمان میں موجود ہے) جب بیعت مکمل ہوگئی اور حج پورا ہو گیا تو امام الانبیاءﷺ نے ان کے ساتھ اپنا پہلا سفیر معلم اور مبلغ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کو بنا کر بھیجا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت اسعد بن زراره رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر نزول فرمایا پھر دونوں نے مل کر یثرب میں دعوت و تبلیغ کا پر جوش کام شروع کیا ان کی مخلصانہ محنت رنگ لائی، حتیٰ کہ انصار کا کوئی گھر باقی نہ رہا جس میں چند مرد اور عورتیں مسلمان نہ ہو چکی ہوں۔ اگلے برس (نبوت کے تیرھویں سال) جب حج کا موسم آیا تو حج کے موسم سے کچھ پہلے ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ کے حالات، کامیابی کی بشارتیں اور اسلام کے پھیلاؤ کی خوشخبریاں سنانے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اطہر میں حاضر ہوئے۔ پھر جب موسم حج آیا تو یثرب کے ستر سے زائدہ (مسلمان) افراد ادائیگی حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے اور یہ راستے میں ہی یہ پروگرام تشکیل دے رہے تھے کہ ہم کب تک رسول اللہ ﷺ کو مکہ کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے چھوڑے رکھیں گے؟ آخر 12 ذو الحجہ کو جمرہ اولی کے قریب گھاٹی میں رات کی تاریکی میں خفیہ اجتماع ہوا۔ جس میں ہجرت مدینہ کا سارا پروگرام مرتب کیا گیا۔ الغرض ہجرت مدینہ جیسا انقلابی اقدام ماہ ذوالحجہ میں ہی طے پایا۔[یہ مضمون الرحيق المختوم ص 246 تا ص 262 سے ماخوذ مخلص ہے۔]
ساتویں خصوصیت:
گھر گھر میں اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی کا فریضہ بھی اس ماہ مبارک میں ادا کیا جاتا ہے۔ قربانی بظاہر جانور کے گلے چھری چلانے کا عمل ہے لیکن در حقیقت قربانی ایک ایسا فریضہ ہے جس میں بے شمار فوائد منافع اور مصالح و اسباق ہیں:
1۔ یہ مشرک قوموں کے مقابلے میں توحید کا عملی مظاہرہ ہے۔ مشرک قومیں معبودان باطل کے نام پر اللہ کے جانور قربان کرتی ہیں۔ جبکہ مؤمن اللہ کے پیدا کردہ جانور صرف اللہ کے نام پر قربان کرتے ہیں۔ قربانی کا یہ فلسفہ اور سبق قرآن کریم سورۃ الج آیت 34 میں مذکور ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ؕ﴾ [الحج:34]
’’اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔‘‘
2۔ یہ بہت سارے لوگوں کا ذریعہ معاش ہے۔ کوئی جانور پال رہا ہے۔ کوئی جانوروں کا چارہ فروخت کر رہا ہے کوئی کھالیں رنگ رہا ہے، کوئی کھالوں سے جوتے، جیکٹیں دستانے بنا رہا ہے۔ اتنے فوائد و منافع ہیں کہ بیان نہیں کیسے جا سکتے۔ یہ سارے فوائد سورۃ الحج میں اشارۃً مذکور ہیں۔
3۔ یہ غرباء و مساکین کی بہت بڑی تعداد کو گوشت مہیا کرنے کا ذریعہ ہے اور گوشت بھی دہ جو توانا موٹے تازے اور صحت مند جانوروں کا ہے۔ یہ فائدہ سورۃ الحج میں ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ ؕ﴾ [سورة الحج:28]
’’اسے خود بھی کھاؤ اور سوال سے رکنے والے اور سوال کرنے والے (مسکینوں) کو بھی کھلاؤ۔‘‘
4۔ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی تربیت دینے والا عمل ہے اس لیے یہ شرائط مقرر کی گئی ہیں:
1۔ جانور بے عیب ہو، لنگڑا، کانا، زخمی اور بیمار نہ ہو۔ مسند احمد (300/4)]
2۔ جانور کی عمر کم از کم دونتا ہو۔ (صرف مجبوری کی صورت میں ایک سال کا دنبہ یا چھترا کیا جا سکتا ہے)۔ [صحيح مسلم، كتاب الأضاحي، باب من الأضحيۃ (1963)]
3۔ جانور عید والے دن نماز عید کے بعد قربان کیا جائے۔[بخاري، الأضاحي، باب من ذبح قبل الصلاة أعاد (5563) و مسلم (1553)]
4۔ قصاب کو اجرت کے طور پر گوشت نہ دیں۔
5۔ مخلصانہ نیت کے ساتھ رزق حلال سے قربانی کرے۔
6۔ جانور اونٹ، گائے۔ بکرا۔ یا چھترا ہو۔ (الانعام: 144، 135) دیگر حلال جانوروں بھینس ہرن، زبیرا وغیرہ) کی قربانی درست نہیں۔
7۔ چھری اچھی طرح تیز کی جائے۔ تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔[صحيح مسلم، كتاب الصيد والذبائح، باب الأمر باحسان الذبح والقتل و تحديد الشفرة (57) (1955)]
یہ ساری شرائط انسان کو اطاعت گزاری کی تربیت دیتی ہیں۔ پھر قربانی کے اس فریضے میں جذبہ ایثار، جذبہ سخاوت، باہمی ہمدردی و خیر خواہی اور باہمی الفت و محبت کے اسباق بھی شامل ہیں۔
لمحہ فكريہ:
آج بہت سارے لوگ جانور میں مقررہ شرائط پوری نہیں کرتے۔ جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو اللہ کے حکم پر اپنا لخت جگر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ اور ہم ایک جانور کے بارے اللہ کا حکم پورا نہیں کرتے۔
چند غلط فہمیوں کا ازالہ:
1۔ جانور کو وضو کروانا۔ قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
2۔ چھری کو ہاتھ لگانا۔ عموما جس کی طرف سے قربانی کی جاتی ہے ذبح سے پہلے اس کا ہاتھ لگوایا جاتا ہے جو کہ من گھڑت ہے۔
3۔ خریدنے کے بعد عیب ناک ہو جانا۔ عمومًا یہ سمجھا جاتا ہے کہ جانور خریدنے کے بعد اگر اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو قربانی درست ہے۔ جبکہ اس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں موجود نہیں کیا ہم کسی دوست عزیز رشتہ دار کے لیے خریدا جانے والا تحفہ خریدنے کے بعد لوٹ جانے یا خراب ہو جانے کی شکل میں دینا گوارا کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ تو اللہ کے نام پر جانور قربان کرنے میں یہ تساہل ولاپراوہی کیوں؟
4۔ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرنا یہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں ہے لیکن آج یہ جانور دادا کی طرف سے یہ نانا جی کی طرف سے یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے عجیب صورت حال بنی ہوئی ہے۔
5۔ اسی طرح عمدہ عمدہ سارا گوشت خود گھر میں پکا کر کھا لینا یا فریج میں سٹور کر لینا اور نکما گوشت ضرورت مندوں اور سائلوں میں بانٹ دینا بہت بڑی غلطی ہے۔
نمود و نمائش:
آج فخر و ریاء اور نمود و نمائش کی طرف لوگ مائل ہو رہے ہیں، اور نمود و نمائش اور دکھلاوے کی خاطر مہنگے جانور خریدے جاتے ہیں۔ پھر ڈھول کی تھاپ کے ساتھ اسے سڑکوں میں گھمایا جاتا ہے۔ اور بھنگڑا ڈالا جاتا ہے۔ ذبح کے وقت مووی بنائی جاتی ہے۔
یاد رکھیے ا یہ سب عمل کو ضائع کرنے والے کام ہیں اور اللہ کو ناراض کرنے والی باتیں ہیں۔
قربانی کی قبولیت کے لیے تو بنیادی شرط ہی اخلاص، تقویٰ، للّٰہیت اور اتباع سنت ہے بےنماز ریاء کار اور بدعقیدہ شخص کی قربانی قبول نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی ہمیں نمود و نمائش اور فخر وریاء سے محفوظ فرمائے اور اخلاص و تقوی اور للّٰہیت کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔