اسماء النبيﷺ
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ﴾ [محمد: 2]
آج رسول اللہﷺ کی شان اور عظمت، آپﷺ کے اسماء گرامی کی روشنی میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہﷺ کے اسماء گرامی بہت سارے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں۔ لیکن یاد رکھیے! بعض لوگوں نے قرآن کریم کے بعض نسخوں میں ایک طرف اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام درج کیے ہیں اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کے بھی ننانوے نام لکھے ہیں جبکہ رسول اللہﷺ کے ان ننانوے ناموں میں سے بہت سارے نام قرآن وحدیث سے ثابت نہیں۔ اس لیے میں رسول اللہﷺ کے وہ نام اور اسماء گرامی ہی بیان کروں گا جو صیح احادیث سے ثابت ہیں۔
صحیح البخاری میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ)
میرے پانچ نام ہیں۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرے صرف پانچ نام ہی ہیں ہاں اس حدیث میں آپ نے اپنے ناموں میں سے صرف پانچ کا تذکرہ فرمایا ہے)۔
آپ ﷺ نے فرمایا: میرے پانچ نام ہیں:
(اَنا مُحَمَّدٌ) [صحيح مسلم، الفضائل، باب في اسمائه (1105) و بخاری (3532) والترمذي (2840)]
’’میں محمد ﷺ ہوں۔‘‘
آپ ﷺ کا یہ نام نامی اور اسم گرامی سب سے زیادہ معروف و مشہور ہے۔
اور یہ وہ نام ہے جو آپ کے گھر والوں نے رکھا۔ جس طرح صحیح مسلم میں ہے: دوسری حدیث میں ہے: ایک دفعہ ایک کافر نے آپ ﷺ کے خلاف یہ اشعار پڑھے:
(مُذَمَّمَّا عَصَيْنَا وَأَمَرَهُ أَبَيْنَا وَدِينَهُ قَلَيْنَا) [الرحيق المختوم (ص (124)]
تو آپﷺ نے فرمایا: یہ لوگ مذمم کو گالیاں دے رہے ہیں میں تو محمدﷺ ہوں۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: دیکھو کس طرح اللہ نے میرا نام ان کی (گندی) زبانوں سے بچا لیا ہے۔ آپ کا یہ اسم گرامی قرآن کریم میں 4 مرتبہ مذکور ہے۔ اور چاروں مقامات پر اہم ترین مسائل بیان کیے گئے ہیں۔
پہلا مقام:
سوره آل عمران آیت نمبر144 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤی اَعْقَابِكُمْ ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْـًٔا ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْنَ۱۴۴﴾ [آل عمران: 144]
اس مقام پہ آپ کا اسم گرامی ذکر فرما کر آپ ﷺ کی رسالت کا اعلان کیا گیا ہے اور ساتھ یہ بتلایا گیا ہے کہ آپ نبی اور رسول تو ضرور ہیں لیکن آپ اللہ نہیں بلکہ بشر ہیں۔ تو جس طرح دوسرے انسان موت سے ہمکنار ہوتے ہیں اسی طرح آپﷺ کے لیے بھی وفات پانا اٹل حقیقت ہے۔ آپﷺ موت سے مستثنی نہیں۔
دراصل اس آیت میں ان لوگوں کی اصلاح کی گئی ہے جو غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ کی شہادت کی افواہ سن کر دین سے پھر چلے تھے۔ تو اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرما کر ان لوگوں کی اصلاح فرمائی کہ محمد ﷺ رسول ضرور ہیں لیکن اللہ نہیں۔ اس لیے آپ ﷺ کی طبعی وفات یا شہادت کی خبر سن کر مرتد ہو جانا بے دلیل ہے کیونکہ گزشتہ انبیاء بھی فوت ہوئے اور بعض شہید ہوئے۔ لہذا موت اور نبوت متضاد نہیں۔ یہی وجہ ہے جسب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ اور ہر شخص کی زبان پر اس آیت کی تلاوت جاری ہوگئی۔ اور لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ آج یہ آیت نازل ہو رہی ہے۔ [تفسیر ابن كثير تحت الايۃ: 114]
دوسرا مقام:
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40 میں خالق کائنات اعلان فرماتے ہیں:
﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا﴾ [الاحزاب:40]
اس آیت مبارکہ میں آپ کا اسم گرامی ذکر فرما کر دو اہم ترین مسئلے بیان کیے گئے ہیں:
1۔ دور جاہلیت میں کسی کے بیٹے کو لے پالک بتایا جاتا تھا اور اس کی نسبت پالنے والے کی طرف کی جاتی تھی۔ اس کی ولدیت لکھی جاتی تھی۔ ابتداء اسلام میں اس پر پابندی نہ لگائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے غلام جناب زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کو آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ اور لوگ اسے زید بن محمد کہتے تھے۔ اللہ تعالی نے سورۃ الاحزاب میں اس سلسلے میں بہت ساری آیات نازل فرمائیں اور دور جاہلیت کی اس رسم کو ختم کر دیا۔ اس آیت مبارکہ میں بھی اسی مسئلے کی وضاحت کی گئی کہ محمد ﷺ کسی مرد کے باپ نہیں لہذا زید بن محمد نہ کہو۔ بلکہ زید بن حارثہ کہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو جتنے بیٹے ملے وہ مرد بننے سے پہلے ایام طفولیت میں ہی وفات پاگئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ﴾
’’محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔‘‘
آپ اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ہم نے بھی اپنے ارشادات گرامی میں اس مسئلے کی وضاحت کر دی کہ کوئی کسی کا بچہ لے کر اسے اپنا بیٹا نہ بنائے اور کوئی اپنے حقیقی باپ کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف نسبت نہ کرے ایسے شخص پر جنت حرام ہے۔[صحيح البخاري، كتاب الفرائض، باب من تدعى إلى غير أبيه (6766) و ابن ماجه (2610)]
دوسری حدیث میں ہے: جس نے جانتے بوجھتے اپنی نسبت اپنے حقیقی باپ کی بجائے کسی اور کی طرف کر دی اس نے کفر کیا۔[صحيح البخاري، كتاب الفرائض، باب من ادعى إلى غير أبيه (6768)]
تیسری حدیث میں ہے: ایسے شخص پر اللہ کی لعنت ہے۔[صحيح البخاري، الفرائض، باب الاثم من برأ عن مواليد (6755)]
2۔ اس آیت میں آپ کا نام مبارک لے کر دوسرا مسئلہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں۔ اس مسئلے پر مفصل گفتگو آئندہ خطبہ میں ہوگی (ان شاء اللہ )۔
تیسر ا مقام:
سورہ محمد آیت نمبر 2 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ﴾ [محمد: 2]
اس مکمل سورت کا نام ہی آپ کے اسم گرامی پر رکھا گیا ہے۔ اس کی دوسری آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے آپ کا اسم گرامی محمد ذکر فرما کر ایک باطل نظریے کی تردید کی ہے۔ وہ باطل نظریہ وحدت ادیان کا نظریہ ہے۔ آج بعض باطل پرست لوگ یہ عقیدہ بنائے بیٹھے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد بھی اگر کوئی شخص کسی گزشتہ نبی کی شریعت پر عمل کرے تو وہ نجات پانے والا اور جنت میں جانے والا ہے۔ جبکہ اس آیت میں صرف انہی کو کامیاب اور مؤمن تسلیم کیا گیا ہے جو آپﷺ پر ایمان لائے اور جنہوں نے آپ ﷺ پر اتر نے والی شریعت کو قبول کیا۔ حدیث میں بھی وضاحت موجود ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوْتُ وَ لَمْ يُؤْمِنُ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَا مِنْ أَصْحَاب النَّارِ)[1]
’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے اس امت میں سے کوئی شخص (خواہ) یہودی ہو یا عیسائی (اور) وہ میری نبوت کا علم ہونے کے بعد میرے لائے ہوئے دین اسلام کو تسلیم نہیں کرتا اور فوت ہو جاتا ہے تو وہ شخص دوزخی ہے۔‘‘
لہذا وحدت ادیان کا عقیدہ بالکل باطل ہے۔
چوتھا مقام:
سورة الفتح آیت نمبر 29 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا ؗ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [الفتح: 29]
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کا اسم گرامی ذکر فرما کر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی انتہائی جامع انداز میں سیرت بیان فرما دی ہے۔
وہ سیرت کیا ہے:
﴿أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾
’’کافروں کے لیے سخت آپس میں رحم دل۔‘‘
آج ہمارے معاملے اس کے برعکس ہیں۔ بہر حال آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم آپس میں شیر شکر تھے پیار محبت رکھنے والے تھے۔ آج بعض لوگ تاریخ کی بے سند روایات کا سہارا لے کر بعض صحابہ کی باہمی منافرت بیان کرتے ہیں لیکن یاد رکھیے اس آیت مبارکہ کے مقابلے میں تاریخ کی بے سند روایات کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہاں بعض مواقع پہ منافقوں کی شرارتوں کی بناء پر بعض اختلافات اور جھگڑے ہوئے لیکن ان میں بھی حقیقت کم اور مبالغہ زیادہ ہے۔ اس لیے سچ وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا۔
﴿أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی عبادت گزاری و پرہیز گاری کا نقشہ کھینچا گیا ہے ان کے قیام رکوع اور سجود کا ذکر کیا گیا اور اعلان کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی یہ سیرت تورات اور انجیل میں بھی مذکور ہے۔
غور کیجئے! جس طرح رسول اکرم ﷺ کا تذکرہ پہلی آسمانی کتابوں میں مذکور ہے اسی طرح سماویہ میں موجود ہے اس طرح آپ کے صحابہ کا تذکرہ بھی گذشتہ کتب سماویہ میں موجود ہے ۔ یہ آیت صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کی شان میں کس قدر واضح اور نمایاں ہے۔
بہر حال قرآن مجید کے یہ چار مقامات ہیں جہاں رسول اللہ ﷺ کا اسم گرامی محمد مذکور ہے اور ہر مقام پر انتہائی اہم مسائل سمجھائے گئے ہیں اور یہ نام آپﷺ کے بلند و بالا مقام و مرتبہ پر دلالت کرتا ہے۔
(وَأَنَا أَحْمَدُ)
آپ ﷺ کا دوسرا اسم گرامی احمد ہے۔ یہ اسم گرامی قرآن کریم میں ایک دفعہ مذکور ہے۔ (الصف:6)[[[[[ [1] ارشاد باری تعالی ہے: حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام نے اپنی بعثت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے ایک بڑا مقصد یہ بیان فرمایا: ﴿مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ ؕ﴾ اور میں ایک (عظیم المرتبت) رسول کی خوشخبری سنانے آیا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا اسم گرامی احمد (ﷺ) ہوگا۔]]]]]
محمد کا معنی ہے سب سے زیادہ تعریف کیا گیا کہ تمام بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ آپ ﷺ کی تعریف کی گئی ہے۔ آپ کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے آپ کی تعریف شروع ہوئی۔ آج تک ہو رہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہے گی۔ حتی کہ میدان محشر میں جب آپ سفارش کریں گے:
(فَيَحْمَدُهُ أَهْلُ الْجَمْحِ كُلُّهُمْ) [2] صحيح البخاري، كتاب الزكوة، باب من سأل الناس تكثرا، رقم: 1475]
’’سارا میدان محشر آپ کی تعریف سے گونج اٹھے گا۔‘‘
اور احمد کا معنی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا کہ آپ ﷺ سب سے بڑھ کر اللہ کی حمد کرنے والے ہیں۔ یا دوسرے قول کے مطابق احمد کا معنی بھی محمد والا ہی ہے۔
یہ نام بھی رسول اللہ ﷺ کی زبردست شان بیان کرتا ہے۔ [3] زاد المعاد، امام ابن القيم.]
(وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِيَ الْكُفْرَ)
تیسرا نام الماحی ہے کفر کا خاتمہ کرنے والا۔ واقعہ آپ کی حیات مبارکہ میں واقعۃ آپ کی حیات مبارکہ میں جزیرہ عرب سے کفر کا خاتمہ ہو گیا اور خلفاء کے دور میں پوری روئے زمین پر اسلام غالب ہو گیا۔ اور مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک پوری زمین پر اسلام ہی غالب تھا۔ یہود و ہنود اور نصاری و مجوس سب جزیہ دے کر اسلام کی ماتحتی میں زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ ہے الہامی کفر کو مٹانے والا باطل کا خاتمہ کرنے والا اس نام میں بھی آپ ﷺ کی بڑی شان اور عظمت ہے۔
(وَأَنَا الْحَاشِرُ)
چوتھا اسم گرامی الحاشر ہے۔ آپ نے خود اس نام کی بھی وضاحت فرمائی:
(الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمَىَّ)
’’کہ سارے لوگ میرے بعد قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ سب سے پہلے میں اٹھوں گا۔‘‘
سبحان اللہ! کتنی بڑی سعادت و فضیلت ہے:
(وأنا العاقب)
پانچواں نام العاقب ہے۔ ترندی کی روایت میں وضاحت ہے۔
(الَّذِي لَيْسَ بَعْدَةً نَبِيٌّ) [جامع الترمذي، كتاب الأدب، باب ما جاء في أسماء النبي ﷺ، رقم: 2840]
’’کہ میں عاقب یعنی سب سے آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
غور کیجئے! ان پانچوں ناموں سے ہی رسول اکرم نبی کرم ﷺ کی کتنی شان اور عظمت بیان ہوئی ہے۔ دوسری احادیث میں آپ کے مزید نام بھی مذکور ہیں۔
صحیح مسلم میں ہے: حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اپنے بہت سے ناموں کے بارے میں آگاہ فرمایا۔ (چنانچہ ایک روز) آپﷺ نے فرمایا: ’’انا محمد‘‘ میں محمد ﷺ ہوں۔ ’’واحمد‘‘ میں احمد ﷺ ہوں۔ ’’والمثقّٰی‘‘ میں مقفٰی ہوں (یعنی تمام پیغمبروں کے پیچھے آنے والا ہوں) ’’وَالحاشر‘‘ میں حاشر ہوں۔ (یعنی قیامت کے روز تمام لوگوں کو میرے نقش قدم پر اٹھایا جائے گا) ’’ونبی التوبة‘‘ میں توبہ کا نبی ہوں (یعنی اللہ تعالی کی جانب سب سے زیادہ توبہ کرنے والا ہوں) ’’ونبی الرحمۃ‘‘ اور میں رحمت کا نبی ہوں (یعنی میں تمام جہاں والوں کے لیے رحمت ہوں)[صحیح مسلم، كتاب الفضائل، باب في أسمائه، رقم: 6108]
اور قرآن کریم میں بھی آپ ﷺ کے مزید نام مذکور ہیں۔ نذیر (خبردار کرنے والا کافروں کو جہنم کی وعید سنانے والا) مبشر (مؤمنوں کو جنت کی خوشخبری سنانے والا ) شاہد (گواہ یعنی اللہ کی توحید کی گواہی دینے والا) سراج منیر (ہدایت کا روشن چراغ) رؤوف (مؤمنوں پر انتہائی مشفق) رحیم (مؤمنوں کے لیے رحم دل)۔
بہر حال رسول اللہ ﷺ کے تمام اسماء گرامی آپ کی باکمال صفات بے مثال فصائل اور عمدہ فضائل و مناقب پر دلالت کرتے ہیں اللہ تعالی ہمیں آپﷺ کے سچے متبعین میں شامل فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔