اسماعیلی اسباق
اہم عناصر :
❄ وعدہ وفا کرنا ❄ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
❄ فرماں بردار بیٹا بننا ❄ اللہ کے حکم کو تسلیم کرنا
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا [مریم: 54]
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی
ذی وقار سامعین!
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کے ساتھ ( نمرود کے ملک سے ) ہجرت کی تو ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک بادشاہ رہتا تھا یا ( یہ فرمایا کہ ) ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس سے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کسی نے کہہ دیا کہ وہ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت لے کر یہاں آئے ہیں۔ بادشاہ نے آپ علیہ السلام سے پچھوا بھیجا کہ ابراہیم ! یہ عورت جو تمہارے ساتھ ہے تمہاری کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر جب ابراہیم علیہ السلام سارہ علیہا السلام کے یہاں آئے تو ان سے کہا کہ میری بات نہ جھٹلانا، میں تمہیں اپنی بہن کہہ آیا ہوں۔ خدا کی قسم ! آج روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کو بادشاہ کے یہاں بھیجا، یا بادشاہ حضرت سارہ علیہا السلام کے پاس گیا۔ اس وقت حضرت سارہ علیہا السلام وضو کرکے نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اللہ کے حضور میں یہ دعا کی کہ؛
اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ هَذَا الْكَافِرَ
” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول ( ابراہیم علیہ السلام ) پر ایمان رکھتی ہوں اور اگر میں نے اپنے شوہر کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے، تو تو مجھ پر ایک کافر کو مسلط نہ کر۔ “ اتنے میں بادشاہ تھرایا اور اس کا پاؤں زمین میں دھنس گیا۔ اعرج نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ نے بیان کیا، کہ حضرت سارہ علیہا السلام نے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مرگیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ چنانچہ وہ پھر چھوٹ گیا اور حضرت سارہ علیہا السلام کی طرف بڑھا۔ حضرت سارہ علیہا السلام وضو کرکے پھر نماز پڑھنے لگی تھیں اور یہ دعا کرتی جاتی تھیں؛
اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ هَذَا الْكَافِرَ
” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے شوہر ( حضرت ابراہیم علیہ السلام) کے سوا اور ہر موقع پر میں نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔ “
چنانچہ وہ پھر تھرتھرایا، کانپا اور اس کے پاؤس زمین میں دھنس گئے۔ عبدالرحمن نے بیان کیا کہ ابوسلمہ نے بیان کیا ابوہریرہ سے کہ حضرت سارہ علیہا السلام نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ “ اب دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ بھی وہ بادشاہ چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے میرے یہاں ایک شیطان بھیج دیا۔ اسے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس لے جاؤ اور انہیں آجر ( حضرت ہاجرہ ) کو بھی دے دو۔ پھر حضرت سارہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ؛
أَشَعَرْتَ أَنَّ اللَّهَ كَبَتَ الْكَافِرَ وَأَخْدَمَ وَلِيدَةً [بخاری: 2217]
” دیکھتے نہیں اللہ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوا دی۔”
سیدہ سارہ علیہا السلام نے اس سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کا نکاح سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے کردیا ، ان کے بطن سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور سیدنا اسحٰق علیہ السلام پیدا ہوئے ، بنی اسرائیل کے تمام نبی سیدنا اسحٰق علیہ السلام کی نسل سے پیدا ہوئے ، صرف جنابِ محمد رسول اللہﷺسیدنا اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں۔یہ تھا سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا مختصر تعارف۔
پچھلے خطبہ جمعہ میں ہم نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے حاصل ہونے والے چند اسباق سمجھے تھے ، آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی سیرت سے حاصل ہونے والے اسباق سمجھیں گے۔
1۔ وعدہ وفا کرنا
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی سیرت سے پہلا سبق ہمیں یہ حاصل ہوتا ہے کہ وعدہ وفا کرنا ہے ، کسی سے کوئی وعدہ ، عہد اور پیمان کرلیا ہے تو اسے پورا کرنا ہے ، وعدہ خلافی نہیں کرنی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا
اور کتاب میں اسماعیل کا ذکر کر، یقیناً وہ وعدے کا سچا تھا اور ایسا رسول جو نبی تھا۔ [مریم: 54]
فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں؛
گو تمام انبیاء وعدے کے سچے ہوتے ہیں مگر اسماعیل علیہ السلام میں یہ صفت خاص طور پر پائی جاتی تھی۔ سب سے پہلے تو ان میں یہ وصف تھا کہ وہ وعدے کے ساتھ ’’ان شاء اللہ‘‘ کہہ لیا کرتے تھے، جیسا کہ انھوں نے والد سے وعدہ کرتے وقت کہا تھا؛
سَتَجِدُنِيْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ
’’اگر اللہ نے چاہا تو تُو ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔‘‘ [الصافات : 102]
پھر یہ وعدے کی سچائی ہی تھی کہ انھوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا کہ ذبح ہوتے وقت صبر کروں گا، پھر بے دھڑک چھری کے نیچے لیٹ گئے اور اف تک نہ کیا۔ اس سے بڑھ کر وعدہ وفائی کیا ہو گی؟ وعدہ پورا کرنا ایمان ہے اور وعدہ خلافی نفاق۔ ابوسفیان نے ہرقل کے پاس اقرار کیا تھا؛يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ
کہ نبی ﷺ ہمیں نماز، سچ، پاک دامنی، وعدہ پورا کرنے اور امانت ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ [بخاري: 2941]
رسول اللہ ﷺ نے وعدہ خلافی کو منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک قرار دیا؛
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ [بخاری: 33]
وعن انس رضي الله عنه قال: قلما خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: «لا إيمان لمن لا امانة له ولا دين لمن لا عهد له
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی ہمیں خطاب کرتے تو فرماتے: ”جس شخص میں امانت نہیں اس کا ایمان ہی نہیں، اور جس شخص کا عہد نہیں اس کا کوئی دین ہی نہیں۔ “ [مسند احمد: 12567 حسن]
2۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی سیرت سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا ہے ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا
"اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور وہ اپنے رب کے ہاں پسند کیا ہوا تھا۔ "[مریم: 55]
نیکیوں میں سے ایک بہت بڑی نیکی نماز کی ادائیگی ہے ، سیدنا اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیا کرتے تھے۔ یہی حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی ﷺ کو دیا ہے۔
وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى
’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ، ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔‘‘ [طٰہٰ: 132]
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
❄ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
"تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔” [آل عمران: 110]
❄ وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [آل عمران: 104]
"تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔”
احادیث میں بھی اس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے:
❄ قَالَ رَسُولَ اللهِ ﷺ: «مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ». [مسلم: 177]
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام) دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے بدل دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘
❄ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنْ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ [ترمذی: 2169]
ترجمہ : سیدنا حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم معروف (بھلائی) کا حکم دو اورمنکر(برائی) سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرواورتمہاری دعاء قبول نہ کی جائے’۔
3۔ فرماں بردار بیٹا بننا
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی سیرت سے تیسرا سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ فرماں بردار بیٹا بننا ہے ، اپنے والدین کو تنگ نہیں کرنا بلکہ معروف کاموں میں ان کی فرماں برداری کرنی ہے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کی عمر میں جا کر بیٹا دیا ، اللہ کے حکم سے اسے اور اس کی والدہ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے خواب میں دکھایا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیر رہے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ
"پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے چھوٹے بیٹے! بلاشبہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ بے شک میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! تجھے جو حکم دیا جا رہا ہے کر گزر، اگر اللہ نے چاہا تو تو ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔” [الصافات: 102]
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ
"تو جب دونوں نے حکم مان لیا اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا۔ اور ہم نے اسے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ بے شک یہی تو یقیناً کھلی آزمائش ہے۔ اور ہم نے اس کے فدیے میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دیا۔” [الصافات: 107-103]
اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام اپنے والد کے کتنے فرماں بردار تھے ، اس کی دوسری مثال سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا اپنے والد کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دینا ہے۔ صحیح بخاری کی طویل حدیث ہے جس میں سیدنا اسماعیل اور ان کی والدہ سیدہ ہاجرہ علیہما السلام کے مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں قیام اور زم زم کا ذکر ہے۔ اس روایت میں ہے؛
"جوانی میں اسماعیل علیہ السلام ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے ۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کردی ۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ( ہاجرہ علیہ السلام ) کا انتقال ہوگیا ) ۔ اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے ۔ اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے ۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں ۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے ، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے ۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا ، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے ؟ ان کی بیوی نے بتایا ؛
نَعَمْ، جَاءَنَا شَيْخٌ كَذَا وَكَذَا، فَسَأَلَنَا عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ، وَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا، فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا فِي جَهْدٍ وَشِدَّةٍ، قَالَ: فَهَلْ أَوْصَاكِ بِشَيْءٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ السَّلاَمَ، وَيَقُولُ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ، قَالَ: ذَاكِ أَبِي، وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَكِ، الحَقِي بِأَهْلِكِ، فَطَلَّقَهَا
ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے ، میں نے انہیں بتایا ( کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں ) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزراوقات کا کیا حال ہے ؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزراوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے ۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کردوں ، اب تم اپنے گھر جاسکتی ہو ۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی ۔
اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کرلی ۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا ، ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے ۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر موجود نہیں تھے ۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے؟ آپ نے ان کی گزربسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا ، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھاہے ، بڑی فراخی ہے ، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی ۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت ! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو ؟ بتایا کہ پانی ! ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعاءکی ، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا ۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے ۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے ( جاتے ہوئے ) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آجائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں ۔ جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا ؟ انہوں نے بتایا؛
نَعَمْ، أَتَانَا شَيْخٌ حَسَنُ الهَيْئَةِ، وَأَثْنَتْ عَلَيْهِ، فَسَأَلَنِي عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا بِخَيْرٍ، قَالَ: فَأَوْصَاكِ بِشَيْءٍ، قَالَتْ: نَعَمْ، هُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلاَمَ، وَيَأْمُرُكَ أَنْ تُثْبِتَ عَتَبَةَ بَابِكَ، قَالَ: ذَاكِ أَبِي وَأَنْتِ العَتَبَةُ، أَمَرَنِي أَنْ أُمْسِكَكِ
جی ہاں ایک بزرگ ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے ۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا ( کہ کہاں ہیں ؟ ) اور میں نے بتادیا ، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے ۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی؟ انہوں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے ، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں ۔ [بخاری: 3364]
4۔ اللہ کے حکم کو تسلیم کرنا
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی سیرت سے ہمیں چوتھا سبق یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو من و عن تسلیم کرنا ہے ، چونکہ ، چنانچہ ، اگر چہ اور مگرچہ نہیں کرنا اور نہ ہی یہ کہنا ہے کہ یہ حکم اور فیصلہ میری عقل کے خلاف ہے ، میں اسے نہیں مانتا۔ بلکہ فوری تسلیم کرنا ہے اور اسے بجا لانا ہے۔سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو جب باپ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ یہ یہ میں نے خواب دیکھا ہے تو سیدنا اسماعیل علیہ السلام سمجھ گئے کہ میرا باپ نبی ہے ، نبی کا خواب وحی ہوتا ہے تو فوراً کہا؛
قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ
اس نے کہا اے میرے باپ! تجھے جو حکم دیا جا رہا ہے کر گزر، اگر اللہ نے چاہا تو تو ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔” [الصافات: 102]
اسی بات کا حکم ہمیں قرآن دیتا ہے کہ جب اللہ کا حکم اور فیصلہ آجائے تو فوری تسلیم کرنا ہے۔اللہ تعالٰی فرماتے ہیں؛
اِنَّمَا كَانَ قَولَ المُؤمِنِينَ اِذَا دُعُوا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُولِهٖ لِيَحكُمَ بَينَهُم اَن يَّقُولُوا سَمِعنَا وَاَطَعنَا وَاُولٰٓئِكَ هُمُ المُفلِحُونَ [النور: 51]
ترجمہ: ایمان والوں کی بات، جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، اس کے سوا نہیں ہوتی کہ وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔