اولاد کی دینی تربیت
الحمد لله المنعم المتفضل، دائم المن والإحسان، ومدي النعم الجسام، أحمده سبحانه وهو للحمد أهل، وأشكره على ما أولاه من الإنعام، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله الذي شرفت به العرب على سائر الأمم، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وآله وصحبه۔
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو مسلسل فضل و احسان فرمانے والا اور بڑی بڑی نعمتیں عطا کرنے والا ہے، میں اس ذات پاک کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں وہی اس کا سزادار بھی ہے، نیز اس کے انعام و اکرام پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی لائق عبادت عبادت نہیں اور محمد – صلی اللہ علیہ و سلم۔ اللہ کے بندے اور رسول ہیں جن کے ذریعہ اہل عرب کو دیگر تمام قوموں پر فضیلت و برتری حاصل ہوئی۔ اللهم صل وسلم علی عبدک
و رسولك محمد و آله و صحبه – اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور یہ یقین رکھو کہ اپنی بے پایاں نعمتوں اور نوع بنوع انعامات و احسانات کے ذریعہ اللہ اپنے بندوں کو ہر لحظہ فیضیاب کرتا رہتا ہے، چنانچہ اس کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت صالح اولاد بھی ہے اولاد صالح اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دنیاو آخرت میں ان کے لئے فرح و سرور کا ذریعہ ہوتی ہے۔ دنیا میں تو احسان و بھلائی، حسن صحبت اور اطاعت و فرماں برداری کر کے انہیں آرام پہنچاتی ہے اور ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے لئے دعا و استغفار اور صدقات و خیرات کے ذریعہ ایصال ثواب کرتی ہے کیونکہ رب تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيْرا﴾ (الاسراء: 24)
ان کے حق میں تم دعا کرتے رہو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں شفقت
سے پرورش کیا ہے تو بھی ان کے حال پر رحم فرما۔
چنانچہ والدین کو قبر کے اندر اپنی صالح اولاد کی دعائیں اور اس کے احسانات پہنچتے رہتے
ہیں، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة: إلا من صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له) [صحیح مسلم، کتاب الوصیہ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ(1631)]
’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا ثواب جاری رہتا ہے: (1) صدقہ جاریہ (2) علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے (3) صالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔‘‘
دینی بھائیو! اولاد خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان کی سدھار کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی نگہداشت کی جائے ان کے عادات واطوار اور حالات پر مکمل نظر رکھی جائے اور مناسب انداز سے انہیں شرعی آداب کی تعلیم دی جائے اس سلسلہ میں تربیت کا رویہ نہ تو شدت پر مبنی ہو نہ ہی ان کی نگرانی میں کسی قسم کی غفلت یا نرمی سر زد ہو۔
اولاد کی بهترین تربیت یہ ہے کہ والدین انہیں شرعی احکام کا پابند بنائیں نماز اور دیگر عبادات کی ادائیگی کا حکم دیں ان کے دلوں میں احکام الھی کی عظمت بٹھائیں۔ اللہ کے عذاب و عقاب سے ڈرائیں۔ احکام الی سے سرتابی کے نتیجہ میں گذشتہ امتوں پر جو عذاب اور مصیبتیں نازل ہوئیں ان سے باخبر کریں تاکہ ان کے اندر اللہ کا خوف پیدا ہو وہ اللہ کے احکام و اوامر کی تعظیم کرنے لگیں اور ہر قسم کی غفلت و کوتاہی سے بچیں۔
مسلمانو! اپنی اولاد کی نگہداشت کرو اور بروں کی صحبت سے بچاؤ کیونکہ آدمی اپنے ہم نشین کا رنگ اختیار کرتا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
(إياك و قرين السوء، فإنه كالسيف المسلول يروق منظره ويقبح أثره)
’’بروں کی صحبت سے بچو کیونکہ برا آدمی دراصل ننگی تلوار ہے جو بظاہر حسین مگر نتیجہ کے اعتبار سے نہایت خطرناک ہے۔‘‘
لہٰذا اپنی اولاد کو ان لوگوں سے دور رکھو جو دین سے آزاد ہو چکے ہیں، مغربی تہذیب جن پر غالب آچکی ہے وضع قطع، شکل و صورت لباس و معیشت اور زندگی کے جملہ شعبہ جات میں وہ اغیار کے طور و طریق کے دلدادہ ہو چکے ہیں اور دین سے آزاد ہو کر اسلامی اخلاق و آداب اور مردانہ صفات سے محروم ہو چکے ہیں۔
اپنے بیٹوں کو شرعی احکام و آداب سکھاؤ، سیرت نبوی کی تعلیم دو اور اسلامی تاریخ پڑھاؤ تاکہ وہ اپنے اسلاف کی عظمت کو پہنچائیں ان کی دینی خدمات سے روشناس ہوں اور یہ دیکھ لیں کہ دشمنان دین کے مقابلہ میں ثابت قدم رہ کر ان کے اسلاف نے کسی طرح اللہ کی راہ میں صبر و جہاد کا فریضہ انجام دیا۔ حالات نامساعد تھے اسباب و وسائل کی کمی تھی، عسرت و تشنگی کا وقت تھا، مگر پھر بھی دشمنان دین کے مقابلہ میں وہ جمے رہے اور اپنے اندر کسی قسم کا ضعف واضمحلال نہیں پیدا ہونے دیا یہاں تک کہ انہیں فتح و نصرت حاصل ہوئی اور اللہ تعالی نے ان کے ذریعہ اسلام اور اہل اسلام کو عزت و سر بلندی عطا فرمائی۔ ممکن ہے ان واقعات کو سن کر ہماری اولاد اسے حرز جان بنائے اور اس کے اندر جدو جہد کا جذبہ اور عزم وارادہ کی پختگی پیدا ہو۔
بندگان الهی! آج کتنے مسلم نوجوان ایسے ہیں جو دین سے دور جا پڑے ہیں اسلامی تعلیمات سے کنارہ کش ہو چکے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت کے بجائے وہ ایسے فحش اور گندے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں خیر نام کی کوئی چیز ہوتی ہی نہیں اسلام کے جانباز سپوتوں اور ان کی سیرت و تاریخ سے غافل ہو کر دشمنان اسلام کی زندگی پڑھتے ہیں، جس علم کا پڑھنا نقصان دہ ہے وہ تو پڑھتے ہیں اور جس علم سے نابلد رہنا مضر ہے اس کے حصول سے غافل ہیں، دین کے اہم ترین رکن نماز کے سلسلہ میں انتہائی کوتاہی کرتے ہیں۔
مسلمانو! سوچو تو سہی! کیا نماز دین کا ستون نہیں ہے ؟ کیا نماز بندے اور اللہ کے درمیان رابطہ نہیں ہے ؟ پھر تمہارا ضمیر کیسے گوارہ کر لیتا ہے کہ تمہاری اولاد نماز کے معاملہ میں کوتاہی برتے؟ اس سلسلہ میں تم غفلت و ستی کیسے کر پاتے ہو جبکہ اس میں سستی کرنے پر اللہ کا غیظ و غضب اور اس کا عذاب و عقاب ہے؟ ہمارے نوجوان ان واجبات کے سلسلہ میں اگر یونہی کو تاہی کرتے رہے اور منکرات و سیئات کی انہوں نے پرواہ نہ کی تو اس کے نتائج بڑے ہی خطرناک اور بلا خیز ہوں گے رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۶﴾ (التحريم:6)
’’اے مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں جو ارشاد اللہ ان کو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب، فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔