عزّت کا حُصول مگر کیسے۔۔؟

اہم عناصر :
❄ تقویٰ اختیار کرنے سے عزّت ملتی ہے ❄ عاجزی اختیار کرنے سے عزّت ملتی ہے
❄ قرآن والوں کو عزّت ملتی ہے ❄ معاف کردینے سے عزّت ملتی ہے
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا [فاطر: 10]
ذی وقار سامعین!
پچھلے خطبہ جمعہ میں ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے اس بات کو سمجھا تھا کہ عزت کا مالک اللہ تعالی ہے ، عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جب تک وہ نہ چاہے آپ معزز نہیں ہو سکتے۔ اور اس بات کو سمجھا تھا کہ عزت کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور کن لوگوں کی عزت ہوتی ہے اور عزت حاصل کرنے کے لئے غلط راستے اور طریقے اختیار کرنا ممنوع ہے۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم ان شاءاللہ اس بات کو سمجھیں گے کہ عزت کے حصول کے لیے کون کون سے صحیح راستے ہیں اور وہ کون کون سے اعمال ہیں جن کو اختیار کرنے سے دائمی عزت ملتی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
تقویٰ اختیار کرنے سے عزّت ملتی ہے
تقویٰ اللہ تعالی کے اُس خوف کا نام ہے جو انسان کو برائیوں اور گناہوں سے بچنے پر آمادہ کرے۔ چاہے وہ لوگوں کے سامنے ہو یا لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔بلکہ حقیقی تقوی یہ ہے کہ جب ایک آدمی خلوت میں ہو، اسے کوئی شخص دیکھنے والا نہ ہو۔ شیطان اس کیلئے برائی کو مزین کرے اور اسے اس کے ارتکاب پر آمادہ کرے۔ اوراس کیلئے ایسا ماحول بنائے کہ اسے کسی قسم کا خوف وخطر لاحق نہ ہو اور وہ اطمینان سے برائی کا ارتکاب کر سکتا ہو، ایسے میں اگر وہ اللہ تعالی سے ڈر کر برائی کا ارتکاب نہ کرے تو وہ آدمی حقیقت میں تقویٰ والا ہوگا۔
جو تقویٰ والا ہوتا ہے وہی حقیقت میں عزت ، شرف اور مقام والا ہوتا ہے۔
❄ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ [الحجرات: 13]
"اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔”
اس سے یہ سمجھ آیا کہ جو دنیا میں قوم ، قبیلے ، ذاتیں اور برادریاں ہیں وہ صرف اور صرف تعارف اور ایک دوسرے کو پہچاننے کے لئے ہیں ، تکبر ، فخر اور غرور کے لئے نہیں ہیں اور نہ ہی مقام ، شرف اور عزت کا معیار ہیں۔ اللہ کے ہاں معزز اور محترم صرف اور صرف وہی ہے جو تقویٰ والا ہے۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: «أَتْقَاهُمْ» [بخاری: 3353]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ عرض کیاگیا اے اللہ کے رسول ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ان میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔
❄ ابونضرہ کہتے ہیں کہ مجھے اس صحابی نے بیان کیا جس نے ایام تشریق کے درمیان والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ! أَلاَ إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَ إِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰی أَعْجَمِيٍّ، وَلاَ لِعَجَمِيٍّ عَلٰی عَرَبِيٍّ، وَلاَ لِأَحْمَرَ عَلٰی أَسْوَدَ، وَلاَ أَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ، إِلاَّ بِالتَّقْوٰی
[مسند أحمد: ۲۳۴۸۹، قال شعیب الأرنؤوط إسنادہ صحیح]
’’اے لوگو! سن لو! تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ ایک ہے۔ سن لو! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی سرخ کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی سرخ پر، مگر تقویٰ کی بنا پر۔‘‘
❄ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں تھے اور بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ وہاں سے ایک چروہے کا گزر ہو ا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کھانے کی دعوت دی۔ چرواہے نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیران ہو کر کہا کہ اتنے شدت کی گرمی ہے اور تو نے روزہ رکھا ہوا ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو۔
پھر سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُ س کی دانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاہا اور کہا :کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ سکتے ہو ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ہو،، چرواہا بولا : یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ میرے مالک کی بکریاں ہیں۔
سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: اپنے مالک سے کہنا کہ ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا۔ چرواہا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے یہ کہتے ہوئے چل دیا : پھر اللہ کہاں ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بار بار چرواہے کی بات کو دھراتےجا رہے تھے کہ ؛ اللہ کہاں ہے۔ اللہ کہاں ہے اور روتے جارہے تھے اور جب سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینہ پہنچے چرواہے کے مالک کو ملے۔ اُ س سے بکریاں اور چرواہا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا اور بکریاں بھی اُسے دے دیں۔ اور اُسے کہا کہ
"تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا (اللہ کہاں ہے) اللہ سے دعا ہے کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے”(سلسلہ صحيحہ : 7/469)
❄ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد اپنے لیے ایک خلیفہ مقرر کیا، ایک دن وہ چاندنی رات کو بیت المقدس کے اوپر نماز پڑھنے لگ گیا اور وہ امور یاد کئے جو اس نے سر انجام دیے تھے۔ پھر وہ وہاں سے نکلا اور رسّی کے ساتھ لٹکا۔ مسجد میں رسی لٹکی رہی اور وہ وہاں سے چلا گیا اور سمندر کے کنارے پر ایسے لوگوں کے پاس پہنچ گیا جو کچی اینٹیں بنا رہے تھے۔ ان سے پوچھا کہ تم لوگ یہ اینٹیں بنانے کی کتنی اجرت لیتے ہو؟ انہوں نے (‏‏‏‏ساری صورتحال) بتائی۔ نتیجتاً اس نے بھی اینٹیں بنانا شروع کر دیں اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے گزر بسر کرنے لگ گیا۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو وہ نماز پڑھتا تھا۔ عُمال نے یہ بات اپنے سردار تک پہنچا دی کہ ایک آدمی ایسے ایسے کرتا ہے۔ ا‏‏‏‏س نے اس کو بلایا، لیکن اس نے ا‏‏‏‏س کے پاس جانے سے انکار کر دیا، ایسے تین دفعہ ہوا، بالآخر وہ سواری پر سوار ہو کر آیا، جب اس نے اس کو آتے ہوئے دیکھا تو بھاگنا شروع کر دیا۔ اس نے اس کا تعاقب کیا اور اس سے سبقت لے گیا اور کہا: مجھے اتنی مہلت دو کہ میں تمہارے ساتھ بات کر سکوں۔ چنانچہ وہ ٹھہر گیا، اس نے ا‏‏‏‏س سے بات کی، اس نے ساری صورتحال واضح کی اور کہا کہ میں بھی ایک بادشاہ تھا، لیکن اپنے رب کے ڈر کی وجہ سے بھاگ آیا ہوں۔ اس نے یہ سن کر کہا: مجھے گمان ہے کہ میں بھی تمہارے ساتھ مل جاؤں گا، پھر وہ اس کے پیچھے چلا گیا اور وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگے، حتیٰ کہ مصر کے رمیلہ مقام پر فوت ہو گئے۔“ ‏‏‏‏سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر میں وہاں ہوتا تو ان کی قبروں کو ان صفات کی بناء پر پہچان لیتا جو رسول اللہ ﷺ نے بیان کی تھیں۔ [سلسلہ صحیحہ: 3112]
عاجزی اختیار کرنے سے عزّت ملتی ہے
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ [مسلم: 6592]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔” ❄ ہم سب کے امام و راہنما، أولادِ آدم علیہ السلام کے سردارِ أعلیٰ، حسب و نسب اور عظیم شان و شوکت والے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دیکھ لیں، ایک معمولی چٹائی پر سوتے تھے، أذیتیں دینے والوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے تھے، ایک عورت، جو کسی کی شکایت کر رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ سرِ راہ کھڑے سنتے رہے، اپنے صحابہ کے ساتھ ایک برتن سے دودھ پیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخر میں دودھ پینے والے تھے، اہلِ صفہ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیا کرتے تھے، اور پھر جب فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو انتہائی تواضع، عاجزی اور انکساری کے ساتھ داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں کے درمیان بازار میں چلتے پھرتے تھے، جو دوسرے لوگ کھاتے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کھاتے، جو لوگ پیتے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیتے تھے، میرے ما ں باپ آپ پر فدا ہوں۔ صلوات اللہ و سلامہ علیہ۔
قرآن والوں کو عزّت ملتی ہے
❄ عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ [بخاری: 5027]
ترجمہ: سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے۔
❄ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أُقْرِئَكَ الْقُرْآنَ قَالَ آللَّهُ سَمَّانِي لَكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَقَدْ ذُكِرْتُ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ نَعَمْ فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ [بخاری: 4961] ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں۔ انہوں نے پوچھا کیا اللہ نے آپ سے میرا نام بھی لیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بولے تمام جہانوں کے پالنے والے کے ہاں میرا ذکر ہوا؟ حضور اکرم نے فرمایا کہ ہاں اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
❄ سیدناعمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا ۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے ‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ ( یہ اشارہ نبی کریم ﷺ کی طرف ہو تا تھا ) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یہ اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے ( وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کر لیتا ‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں ۔
ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم ( قریش ) کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آگئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں ۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا توہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی ۔ پھر جب ( مدینہ ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں خدا کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آرہا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نما ز اس طرح فلاں وقت پڑھاکرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو ۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یادکرنے والاا نہیں نہیں ملا ۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا ۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا ۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی ‘ جب میں سجدہ کرتا تو اوپر ہوجاتی ( اور پیچھے کی جگہ ) کھل جاتی ۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا ستر تو پہلے چھپا دو۔ آ خر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی ، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا۔ [بخاری: 4302]
❄ أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ لَقِيَ عُمَرَ بِعُسْفَانَ وَكَانَ عُمَرُ يَسْتَعْمِلُهُ عَلَى مَكَّةَ فَقَالَ مَنْ اسْتَعْمَلْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي فَقَالَ ابْنَ أَبْزَى قَالَ وَمَنْ ابْنُ أَبْزَى قَالَ مَوْلًى مِنْ مَوَالِينَا قَالَ فَاسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى قَالَ إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنَّهُ عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ قَالَ عُمَرُ أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ [مسلم: 1897]
ترجمہ : نافع بن عبدالحارث (مدینہ اور مکہ کے راستے پر ایک منزل) عسفان آکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے،(وہ استقبال کے لئے آئے) اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انھیں مکہ کا عامل بنایا کرتے تھے،انھوں (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اہل وادی،یعنی مکہ کے لوگوں پر(بطور نائب) کسے مقرر کیا؟نافع نے جواب دیا:ابن ابزیٰ کو۔انھوں نے پوچھا ابن ابزیٰ کون ہے؟کہنے لگے :ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا:تم نے ان پر ایک آزاد کردہ غلام کو اپنا جانشن بنا ڈالا؟تو (نافع نے) جواب دیا:و ہ اللہ عزوجل کی کتاب کو پڑھنے والا ہے اور فرائض کا عالم ہے۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: (ہاں واقعی) تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعے بہت سے لوگوں کو اونچا کردیتا ہے اور بہتوں کو اس کے ذریعے سے نیچا گراتا ہے۔”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ فَسَمِعَهُ جَارٌ لَهُ فَقَالَ لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُهْلِكُهُ فِي الْحَقِّ فَقَالَ رَجُلٌ لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ [بخاری: 5026 ]
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے ایک اس پر جسے اللہ تعا لی نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے کہ اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لئے لٹا رہا ہے ( اس کو دیکھ کر ) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتااور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا۔
❄ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي مُوسَى لَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِكَ الْبَارِحَةَ لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ [مسلم: 1852]
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فر ما یا:کیا ہی خوب ہو تا کاش! تم مجھے دیکھتے جب گزشتہ رات میں بڑے انہماک سے تمھاری قراءت سن رہا تھا تمھیں آل داؤدکی خوبصورت آوازوں میں سے ایک خوبصورت آوازدی گئی ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
معاف کردینے سے عزّت ملتی ہے
❄ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [النور: 22]
"اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔”
❄ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [آل عمران: 134]
"جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ [مسلم: 6592]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔”
❄ عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُخَيِّرَهُ اللَّهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ مَا شَاءَ [ابوداؤد: 4777]
ترجمہ: جناب سہل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جو شخص غصہ پی جائے جبکہ وہ اس پر عمل درآمد کی قدرت رکھتا ہو تو اﷲ اسے قیامت کے دن برسر مخلوق بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جنت کی حورعین میں سے جسے چاہے منتخب کر لے۔“
❄ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوا ر بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے ( سردار وں میں سے ) ایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑکر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم با ہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے؟ ( میں تیرے ساتھ کیا کروںگا ) انہوں نے کہا محمد! میرے پاس خیر ہے ( اس کے باوجود ) اگر آپ مجھے قتل کردیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے ، اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارااور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو ( احسان کرنے والے کا ) شکر اداکر تا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے ، دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا ثمامہ اب تو کیا سمجھتا ہے؟ انہوں نے کہا ، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں ، کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر اداکر تا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر چلے گئے ، تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میںآپ سے پہلے کہہ چکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایاکہ ثمامہ کو چھوڑ دو ( رسی کھول دی گئی ) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کرکے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا ” اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمد ا رسول اللہ “ اور کہا اے محمد! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لئے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لئے محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میر ا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا۔ اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بشارت دی اور عمر ہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بے دین ہوگئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایما ن لے آیا ہوں اور خدا کی قسم! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔ [بخاری: 4372]
❄❄❄❄❄