بچوں کا اغواء اور شرعی و احتیاطی تدابیر
اس وقت وطن عزیز پاکستان میں بچوں کے اغوا کے حوالے سے کافی زیادہ خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے اور یہ یقیناً بے حد سنگین مسئلہ ہے
اور یہ اس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ شاید کسی انسان کے لیے اس کی زندگی میں اس سے زیادہ کربناک اور کوئی معاملہ نہ ہو
بچہ فوت ہو جائے تو ایک وقت بعد صبر آ جاتا ہے مگر گم ہو جانے کی صورت میں صبر کرنا بھی بس سے باہر ہو جاتا ہے
بچے کا گم ہوجانا کس قدر تکلیف دہ بات ہے
ایک جوان اور صحت مند عورت کا آٹھ دس سال کا بچہ گم ہو گیا کوئی ظالم اٹھا کر لے گئے بیٹے کی جدائی کا صدمہ اتنا غمناک ہوتا ہے کہ چند مہینوں میں وہ عورت جو کل تک توانا اور تندرست تھی اپنے حواس کھو بیٹھی زہنی توازن برقرار نہ رکھ سکی بیٹے کا ایک جوتا کپڑوں کا ایک جوڑا اور ایک تصویر شاپر میں ڈالے ہاتھ میں لیے گلیوں بازاروں میں گھومتی رہتی ہے حالت یہ ہوگئی کہ اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہاں جا رہی ہے اور کیا کررہی ہے
شرعی رہنمائی
ایسے حالات میں اسلام کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے کیا رہنمائی کی گئی ہے
آئیے اس حوالے سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ کے ایک نبی سے ملاقات جس کے تین بیٹے گم ہو گئے تھے
یہ اللہ کے نبی ہیں ان کا نام یعقوب علیہ السلام ہے ان کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ایک وقت آیا کہ ان کے تین بیٹے گم ہو گئے بیٹوں کے گم ہونے سے پہلے، گم ہونے کے دوران اور دوبارہ مل جانے کے بعد ان کا روشن کردار و عمل بہترین اسوہ ہے
یوسف علیہ السلام اپنے باپ کو اپنا ایک خواب سناتے ہیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ [يوسف : 4]
جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ! بے شک میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے انھیں دیکھا کہ مجھے سجدہ کرنے والے ہیں۔
یعقوب علیہ السلام نے جس چیز میں بیٹے کی زندگی کا خطرہ محسوس کیا، بیٹے کو اس کے حوالے سے احتیاطی تدبیر سکھائی
باپ نے جب بیٹے کا خواب سنا تو فوراً بھانپ گئے کہ یہ چیز میرے بچے کے لیے کسی بڑے خطرے کا باعث بن سکتی ہے تو بیٹے کو متنبہ کیا
قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ [يوسف : 5]
اس نے کہا اے میرے چھوٹے بیٹے! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا، ورنہ وہ تیرے لیے تدبیر کریں گے، کوئی بری تدبیر۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
معلوم ہوا کہ موقع و محل کی مناسبت سے حفظ ماتقدم یا ایڈوانس احتیاطی تدابیر اختیار کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے
اور اپنے بچوں کو ہر اس کام سے منع کر دینا چاہیے جس میں ہلکی سی بھی خطرے کی بو آ رہی ہو خواہ اس کے لیے اپنی اولاد کی کچھ اچھائیوں اور خوبیوں کو چھپانا ہی پڑے
مثال کے طور پر
بچوں کو سمجھائیں کہ کسی بھی اجنبی کے ساتھ سکول سے واپس نہیں آنا، موٹر-سائیکل پہ نہیں بیٹھنا، لفٹ نہیں لینی
اسی طرح اگر آپ اپنے بچوں کو خود اسکول سے لینے جایا کرتے ہیں تو ان کو اچھی طرح سمجھا دیں کہ آپ کے لیٹ ہوجانے کی صورت میں وہ کیا کریں، کہاں انتظار کریں۔ ان کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دیں کہ اگر کوئی ان سے کہے کہ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیتا ہوں تو ہرگز اس کے ساتھ نہ جائیں۔
بچے کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دی جائے کہ کوئی بھی ایسا شخص جسے وہ نہیں جانتا یا اگر جانتا بھی ہے تو گھر کے باہر اس کے ہاتھ سے کوئی چیز (ٹافی یا چاکلیٹ وغیرہ) لے کر نہ کھائے۔ پھر چاہے دینے والا کتنا ہی اسرار کرے ۔ اس کے علاوہ کوئی پرفیوم ، کوئی شیشی، ٹیشو یا رومال سونگھانے کی کوشش کرے تو ہرگز نہ سونگھے اور فوراََ وہاں سے بھاگ جائے
یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کے متعلق محتاط رہنے لگے
اس کے بعد سے یعقوب علیہ السلام نے کبھی بھی یوسف کو بھائیوں کے ساتھ تنہا نہ ہونے دیا دوسرے بیٹے بار بار آ کر کہتے رہتے تھے کہ یوسف کو ہمارے ساتھ بھیجا کریں مگر یعقوب علیہ السلام ہر مرتبہ ٹال دیا کرتے تھے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَى يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ [يوسف : 11]
انھوں نے کہا :اے ہمارے باپ! تجھے کیا ہے کہ تو یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتا، حالانکہ بے شک ہم یقینا اس کے خیرخواہ ہیں۔
أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [يوسف : 12]
اسے کل ہمارے ساتھ بھیج کہ چرے چگے اور کھیلے کودے اور بے شک ہم ضرور اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا اپنے باپ کو یہ کہنے اے ہمارے باپ! تجھے کیا ہے کہ تو یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی کوشش کر چکے تھے، مگر والد نے اجازت نہیں دی تھی اور یہ کہ والد کو پہلے بھی ان کے متعلق اعتبار نہ تھا کہ وہ یوسف کے خیر خواہ ہیں، یا انھیں کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ
یعقوب علیہ السلام اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہیں
مگر جب ان کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو
قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ [يوسف : 13]
اس (یعقوب علیہ السلام) نے کہا بے شک میں، یقینا مجھے یہ بات غمگین کرتی ہے کہ تم اسے لے جاو اور میں ڈرتا ہوں کہ اسے کوئی بھیڑیا کھا جائے اور تم اس سے غافل ہو۔
اس سے یعقوب علیہ السلام کی فہم و فراست معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے سیدھا یہ نہیں کہا کہ مجھے تم سے ڈر لگتا ہے کہ تم میرے یوسف کو قتل کردو گے بلکہ کسی بھیڑیے کے کھا جانے کی بات کر کے اپنا مدعا بھی سمجھا دیا کہ مجھے ہرصورت یوسف کی جان عزیز ہے اور بیٹوں کی ناراضگی اور بگڑ جانے سے بھی بچ گئے
معلوم ہوا کہ اگر چار و ناچار اپنے بیٹے کو کسی ایسی جگہ بھیجنا پڑ ہی جائے تو اشارے کنایے سے اپنا خدشہ ظاہر کردینا چاہیے تاکہ دوسروں پر معاملے کی حساسیت واضح ہو جائے
تو بیٹوں نے باپ کو یقین دہانی کروائی کہ ہم ہر طرح کی حفاظت اور سیکورٹی مہیا کریں گے
قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ [يوسف : 14]
انھوں نے کہا واقعی اگر اسے بھیڑیا کھاجائے، حالانکہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں تو بلاشبہ ہم اس وقت یقینا خسارہ اٹھانے والے ہوں گے۔
الغرض باپ نے بیٹے کو بھائیوں کے ساتھ بھیجتے وقت سیکیورٹی معاہدہ لیا
معلوم ہوا جہاں سیکیورٹی رسک ہو وہاں اپنے بچوں کو سیکیورٹی کلیئر کروائے بغیر نہیں بھیجنا چاہیے
باپ اور بیٹوں کی اس ساری گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے بچوں کی حفاظت میں غافل نہیں رہنا چاہیے اور حتی الامکان ممکنہ خطرے کا سدباب ضرور کرنا چاہیے
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیرونی، اجنبی اور راہ چلتے لوگوں کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں کی مشکوک سرگرمیوں پر بھی پوری نظر رکھنی چاہیے کیونکہ آستین کے سانپ زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں
اور یعقوب علیہ السلام کے اس واقعہ میں یہ بھی اہم سبق ملتا ہے کہ صرف مشکوک سرگرمیوں کی بناء پر رشتہ داری نہ توڑ دی جائے ہاں اپنے طور پر محتاط ضرور ہوجانا چاہیے
یعقوب علیہ السلام کو بیٹے کی گمشدگی کی اطلاع
چونکہ بھائیوں کی نیت تو پہلے سے ہی خراب تھی تو جب وہ یوسف علیہ السلام کو لے گئے اور دور کسی ویران کنوے میں پھینک دیا تو باپ کے پاس واپس آئے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ [يوسف : 16]
اور وہ اپنے باپ کے پاس اندھیرا پڑے روتے ہوئے آئے۔
قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ [يوسف : 17]
کہا اے ہمارے باپ! بے شک ہم دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلتے چلے گئے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو اسے کوئی بھیڑیا کھا گیا اور تو ہر گز ہمارا اعتبار کرنے والا نہیں، خواہ ہم سچے ہوں۔
وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ [يوسف : 18]
اور وہ اس کی قمیص پر ایک جھوٹا خون لگا لائے۔
یعقوب علیہ السلام کا کردار
جب انہوں نے آپ کو جھوٹی کہانی سنائی اور آپ کو یوسف علیہ السلام کے گم ہو جانے کا یقین ہو گیا تو
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ [يوسف : 18]
یعقوب علیہ السلام نے کہا :بلکہ تمھارے لیے تمھارے دلوں نے ایک کام مزین بنا دیا ہے، سو (میرا کام) اچھا صبر ہے اور اللہ ہی ہے جس سے اس پر مدد مانگی جاتی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔
یعنی ایسے حالات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس سے مدد مانگی جاتی ہے اور اللہ سے مدد مانگنے کا طریقہ بھی اس نے خود ہی سکھایا، جس پر یعقوب علیہ السلام نے عمل کیا
فرمایا :
« وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ » [ البقرۃ : ۴۵ ]
’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو۔‘‘
اس میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ اللہ نہ کرے اگر ایسا مسئلہ بن جائے تو ہوش و حواس کھو جانے اور بے صبری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے تلاش و بسیار کے ساتھ ساتھ نماز اور صبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہیں اور مایوسی کی بجائے پر امید رہیں
یعقوب علیہ السلام چھوٹے بیٹے کے متعلق محتاط ہوتے ہیں
پھر ایک لمبے عرصے کے بعد جب یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ بن گئے اور قحط سالی پیدا ہو گئی تو دوسرے لوگوں کی طرح یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی غلہ لینے کے لیے آئے، پھر اس کے پاس داخل ہوئے تو اس نے انھیں پہچان لیا اور وہ اسے نہ پہچاننے والے تھے۔
(یوسف علیہ السلام نے انجان بن کر ان سے تعارف کیا اور پوچھا کہ تم ٹوٹل کتنے بھائی ہو انہوں نے سب کا تعارف کروایا)
اور پھر جب اس نے انھیں ان کے سامان کے ساتھ تیار کر دیا تو کہا :میرے پاس اپنے اس بھائی کو لے کر آنا جو تمھارے باپ سے ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں ماپ پورا دیتا ہوں اور میں بہترین مہمان نواز ہوں۔
اور ہاں یاد رکھو اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو تمھارے لیے میرے پاس نہ کوئی ماپ ہوگا اور نہ میرے قریب آنا۔
انھوں نے کہا : ہم اس کے باپ کو اس کے بارے میں ضرور آمادہ کریں گے اور بے شک ہم ضرور کرنے والے ہیں۔
اور اس نے اپنے جوانوں سے کہا ان کا مال ان کے کجاووں میں رکھ دو، تاکہ وہ اسے پہچان لیں جب اپنے گھر والوں کی طرف واپس جائیں، شاید وہ پھر آجائیں۔
تو جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹے تو انھوں نے کہا اے ہمارے باپ! ہم سے ماپ روک لیا گیا ہے، سو تو ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج کہ ہم (غلے کا) ماپ لائیں اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔
اس نے کہا میں اس پر اس کے سوا تمھارا کیا اعتبار کروں جس طرح میں نے اس کے بھائی پر اس سے پہلے تمھارا اعتبار کیا، سو اللہ بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
اور جب انھوں نے اپنا سامان کھولا تو اپنے مال کو پایا کہ ان کی طرف واپس کر دیا گیا ہے، کہا اے ہمارے باپ! ہم کیا چاہتے ہیں، یہ ہمارا مال ہماری طرف واپس کر دیا گیا ہے اور ہم گھر والوں کے لیے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ ماپ زیادہ لائیں گے، یہ بہت تھوڑا ماپ ہے۔
چھوٹے بیٹے کو ساتھ بھیجنے سے پہلے دوسرے بیٹوں سے پختہ عہد لیتے ہیں
قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَنْ يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ [يوسف : 66]
اس نے کہا میں اسے تمھارے ساتھ ہرگز نہ بھیجوں گا، یہاں تک کہ تم مجھے اللہ کا پختہ عہد دوگے کہ تم ہر صورت اسے میرے پاس لائو گے، مگر یہ کہ تمھیں گھیر لیا جائے۔ پھر جب انھوں نے اسے اپنا پختہ عہد دے دیا تو اس نے کہا اللہ اس پر جو ہم کہہ رہے ہیں، ضامن ہے۔
یعقوب علیہ السلام نے ایک طرف بیٹوں سے پختہ عہد، یعنی قسمیں لے لیں اور ظاہری اسباب سے پورا وثوق حاصل کر لیا اور دوسری طرف معاملہ اللہ کے سپرد کر کے بھروسا اسی پر رکھا کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اسے پورا کرنا اسی کے اختیار میں ہے اور جو جان بوجھ کر بدعہدی یا خیانت کرے گا وہ خود اسے سزا دے گا، اللہ پر توکل کا صحیح مطلب بھی یہی ہے۔
کیا یعقوب علیہ السلام ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ ڈسے گئے
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یعقوب علیہ السلام کے ساتھ پہلے ہاتھ ہو چکا تھا تو پھر دوبارہ اسی سوراخ پر کیوں اعتماد کیا اور دوسرے بیٹے کو ان کے ساتھ کیوں بھیجا جبکہ مومن تو ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ لمبا عرصہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اور باپ کو مسلسل روتا ہوا دیکھ کر بھائیوں کے دل میں اپنے فعل شنیع کی شرمندگی کا شدید احساس پیدا ہو گیا ہو اور یعقوب علیہ السلام پر اس کا اظہار ان کے رویوں اور گفتگو سے ہوچکا ہو
دوسری بات یہ کہ یوسف کے متعلق تو بھائیوں کے حسد کی ٹھوس وجوہات یعقوب علیہ السلام کے سامنے تھیں جیسا کہ خواب میں گیارہ ستاروں کا سجدہ کرنا وغیرہ جبکہ یہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا بس یعقوب علیہ السلام اپنی سی احتیاط کررہے تھے
تیسری بات یہ کہ ناجانے قحط اور بھوک کی شدت کس قدر تکلیف دہ تھی کہ حصولِ خوراک کے لیے ناچاہتے ہوئے بھی بیٹے کو ساتھ بھیجنا ہی پڑا اور بالخصوص جب بادشاہ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر چھوٹے بھائی کو ساتھ نہ لائے تو کچھ بھی نہیں ملے گا
بیٹوں کی حفاظت کے متعلق یعقوب علیہ السلام کی ایک اور احتیاطی تدبیر
جب یعقوب علیہ السلام نے اپنے گیارہ جوان بیٹوں کو دیار غیر میں غلہ لینے کے لیے بھیجا تو بیٹوں کی حفاظت کے متعلق کئی طرح کے خدشات آپ کے ذہن میں تھے مثال کے طور پر یہ کہ
1 صحرا کے پر وردہ تنومند گیارہ نوجوان ایک ہی دروازے سے اکٹھے گزریں گے تو ان کی پڑتال زیادہ ہو گی۔
2 انھیں رہزنوں کا گروہ بھی سمجھا جا سکتا ہے
3 اگر شک یا حسد کی بنا پر گرفتار ہوئے تو عزیزِ مصر تک ایک بھی نہیں پہنچ سکے گا
4 پھر گرفتار شدگان کی رہائی کی جدوجہد اجنبی وطن میں کون کرے گا
5 اسی طرح اپنے صحت مند، قوی، جوان اور خوب صورت بیٹوں کے اکٹھے داخل ہونے پر نظرِ بد لگنے کا خطرہ بھی تھا۔
تو ان سب خدشات سے بچاؤ کے لیے یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو ایک تدبیر سمجھائی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ [يوسف : 67]
اور اس نے کہا اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے داخل نہ ہونا اور الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اللہ کی طرف سے (آنے والی) کوئی چیز نہیں ہٹا سکتا، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں۔
عقیدہ کی بات
یعقوب علیہ السلام نے یہ ساری تدبیر اختیار کرنے کے باوجود ظاہری اسباب و وسائل اور احتیاط و تدبیر پر بھروسہ کرنے کی بجائے صاف فرمایا:
اور میں تم سے اللہ کی طرف سے (آنے والی) کوئی چیز نہیں ہٹا سکتا، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں۔
یعنی اصل محافظ اور نگران اللہ تعالیٰ ہے
گویا کہ ’’الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا‘‘ تدبیر ہے اور ’’میں اللہ سے آنے والی کوئی چیز تم سے ہٹا نہیں سکتا‘‘ تقدیر ہے یعنی ہمیں تدبیر اور تقدیر دونوں کا اہتمام اور ایمان رکھنا چاہیے
معلوم ہوا کہ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے ممکنہ حفاظتی انتظامات کرنے کے بعد انہیں اللہ تعالیٰ کے سپرد ضرور کریں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں یہی اصل توکل ہے
یعقوب علیہ السلام کا چھوٹا بیٹا بھی گم ہو گیا
جب یوسف علیہ السلام نے اپنے چھوٹے بھائی کی بوری میں پینے کا برتن رکھ کر ایک خاص پلاننگ کے تحت اسے روک لیا تو دوسرے بھائیوں نے کہا اے عزیز! بے شک اس کا ایک بڑا بوڑھا باپ ہے، سو توہم میں سے کسی کو اس کی جگہ رکھ لے، بے شک ہم تجھے احسان کرنے والوں سے دیکھتے ہیں۔
یعنی پہلے بھی آپ نے ہم پر بہت سے احسان کیے ہیں، بس اب اتنا احسان اور کر دیں کہ ہم میں سے کسی ایک کو اس کے بجائے رکھ لیں، امید ہے کہ آپ ہمیں اپنے کرم سے مایوس نہیں کریں گے
تو بادشاہ یعنی یوسف علیہ السلام نے کہا : اللہ کی پناہ کہ ہم اس کے سوا کسی کو پکڑیں جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے، یقینا ہم تو اس وقت ظالم ہوں گے۔
یعقوب علیہ السلام کا تیسرا بیٹا بھی گم ہو گیا
پھر جب وہ اس سے بالکل ناامید ہوگئے (اور انہیں یقین ہوگیا کہ بادشاہ، ہمارے چھوٹے بھائی کو ہرگز چھوڑنے والا نہیں ہے) تو مشورہ کرتے ہوئے الگ جا بیٹھے، ان کے بڑے نے کہا : کیا تم نے نہیں جانا کہ تمھارا باپ تم سے اللہ کا عہد لے چکا ہے اور اس سے پہلے تم نے یوسف کے بارے میں جو کوتاہی کی، اب میں اس زمین سے ہرگز نہ ہلوں گا یہاں تک کہ میرا باپ مجھے اجازت دے، یا اللہ میرے لیے فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔
یعنی اب میں والد کے سامنے کیسے جاؤں لھذا اپنے متعلق تو میں نے طے کر لیا ہے کہ میں اس سرزمین سے ہر گز جدا نہیں ہوں گا جب تک میرے والد مجھے واپسی کی اجازت نہ دیں، یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرے کہ بھائی کی رہائی کی کوئی صورت نکل آئے یا میری موت آ جائے۔
گویا کہ یعقوب علیہ السلام سے اس کے تین بیٹے گم ہو گئے : ایک یوسف علیہ السلام دوسرے یوسف کے بھائی اور اب تیسرے یہ کہ جس نے شرمندگی کی وجہ سے باپ کے سامنے جانے سے انکار کر دیا
یعقوب علیہ السلام کو خبر پہنچ گئی
باقی 9 بیٹوں نے کنعان پہنچ کر اپنے والد یعقوب علیہ السلام سے یہ سب کچھ بیان کر دیا
جتنی دیر بیٹے گم رہے اتنی دیر یعقوب علیہ السلام کا طرز عمل
یہاں بھی ہمارے لیے بہترین سبق اور اسوہ حسنہ ہے کہ ایسی صورت میں بندہ مومن کا کیا کردار ہونا چاہیے
یعقوب علیہ السلام کا تینوں بیٹوں کی گمشدگی پر بہترین کردار
خبر ملی تو کہنے لگے
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ [يوسف : 83]
اس نے کہا بلکہ تمھارے لیے تمھارے دلوں نے ایک کام مزین کر دیا ہے، سو (میرا کام) اچھا صبر ہے، امید ہے کہ اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے گا، یقینا وہی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
یعنی میرا کام صبر جمیل ہے۔ وہی لفظ منہ سے نکلا جو یوسف کو بھیڑیے کے کھائے جانے کی خبر سن کر نکلا تھا۔ اللہ اپنے بندوں خصوصاً رسولوں کو کتنا بڑا حوصلہ دیتا ہے کہ جگر ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والی خبر سن کر بھی نہ شکوہ نہ شکایت، نہ جزع فزع نہ واویلا۔ پہلے ایک بیٹے کی خبر پر بھی صبر جمیل، اب مزید دو بیٹوں کی خبر پر بھی وہی صبر جمیل۔ پہلے بھی اللہ ہی سے مدد مانگی :
« وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ » [ یوسف : ۱۸ ]
اب بھی اسی کے سہارے پر دل میں امید کا چراغ روشن رکھا :
« عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا »
امید ہے کہ اللہ ان تینوں کو میرے پاس لے آئے گا، یقینا وہی علیم و حکیم ہے، وہ سب کچھ جانتا بھی ہے اور اس کی حکمتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ
یعقوب علیہ السلام نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیے رکھا
قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ [يوسف : 86]
اس نے کہا میں تو اپنی ظاہر ہوجانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
بچے گم ہو جائیں تو شدت غم میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے
یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے فرمایا :
يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ [يوسف : 87]
اے میرے بیٹو! جائو اور یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگائو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں۔
رونے، آنکھوں سے آنسو بہنے اور بے صبری میں فرق
یعقوب علیہ السلام نے جب بیٹوں کی بات سن لی اور انھیں جواب دے دیا تو ان پر غموں کا سیلاب امڈ آیا اور دل کے تمام زخم تازہ ہو گئے، چنانچہ انھوں نے بیٹوں کو چھوڑا اور مجلس سے چلے گئے اور کہنے لگے :
وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ [يوسف : 84]
اور وہ ان سے واپس پھرا اور اس نے کہا ہائے میرا غم یوسف پر! اور اس کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں، پس وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یعقوب علیہ السلام اتنا روتے رہے کہ رو رو کر آنکھیں سفید ہوگئیں تو یہ صبر تو نہ ہوا
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام غم سے بھرے ہوئے ہونے کے باوجود اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ رہ گیا دل کا غم تو مصیبت میں رونا اور آنسو نکل آنا ایک فطری عمل ہے اور انسان کے اختیار سے باہر ہے۔
ہاں اگر کوئی مصیبت کے وقت نوحہ کرے، گریبان پھاڑے اور منہ پر طمانچے مارے تو یہ سخت ممنوع ہے۔
جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے بیٹے کی وفات کے وقت معاملہ تھا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا :
[ إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ إِلاَّ مَا يَرْضٰی رَبُّنَا وَ إِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيْمُ ! إِنَّا لَمَحْزُوْنُوْنَ ] [بخاري، الجنائز، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم إنا بک لمحزونون : ۱۳۰۳۔ مسلم : ۲۳۱۵ ]
’’بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے اور ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے جو ہمارے رب کو پسند ہو اور بے شک ہم تیری جدائی سے اے ابراہیم! یقینا غم زدہ ہیں۔‘‘
بچوں کو اللہ کی امان میں دینے کا فائدہ
یہاں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بڑی نکتے کی بات کی ہے، کہتے ہیں کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے ساتھ بھیجتے وقت صرف یہ کہا تھا:
وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ۔ [یوسف: 13]
اور میں ڈرتا ہوں کہ اسے کوئی بھیڑیا کھاجائے!
اور اس کے بھائی کو
"فَاللّٰهُ خَيْرٌ حٰفِظًا ۠ وَّهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ”۔ [سورة یوسف: 64]
کہتے ہوئے اللہ کی حفاظت میں دیا تو نہ صرف یوسف کا بھائی بلکہ یوسف علیہ السلام بھی مل گئے۔
تفسیر القرآن الکریم
اللہ تعالیٰ پر توکل کریں
سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ [طلاق 3]
اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے
اللہ تعالیٰ پر توکل کی عمدہ ترین مثال جب اغوا کار، سر پر آ کھڑے ہوئے
انس بن مالک ؓ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابوبکر صدیق ؓ نے بیان کیا : انہوں نے کہا کہ میں غار ثور میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا ۔ میں نے کافروں کے پاؤں دیکھے (جو ہمارے سر پر کھڑے ہوئے تھے) ابوبکر صدیق ؓ گھبرا گئے اور بولے : یا رسول اللہ ! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالی تو وہ ہم کو دیکھ لے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو کیا سمجھتا ہے ان دو آدمیوں کو (کوئی نقصان پہنچا سکے گا) جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو ۔
اسے کہتے ہیں’’ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘
تفسیر القرآن الكريم
ابراہیم علیہ السلام بیٹے کو صحراء میں چھوڑنے گئے تو رب تعالیٰ کے سپرد کر کے آئے اور نماز کے زریعے مدد طلب کی
کہنے لگے:
رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ [إبراهيم : 37]
اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں اور انھیں پھلوں سے رزق عطا کر، تاکہ وہ شکر کریں۔
اور دعا کرتے ہوئے فرمایا :
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ [إبراهيم : 40]
اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر۔
فجر کی نماز بہترین سیکیورٹی
حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللهِ، فَلَا يَطْلُبَنَّكُمُ اللهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَيْءٍ فَيُدْرِكَهُ فَيَكُبَّهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ» [مسلم 1493]
’’جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی و ہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ( امان ) میں ہے ۔ تو ایسانہ ہو کہ ( ایسے شخص کو کسی طرح نقصان پہنچانے کی بناپر ) اللہ تعالیٰ تم ( میں سے کسی شخص ) سے اپنے ذمے کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ کرے ، پھر وہ اسے پکڑ لے ، پھر اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ صَلّٰی صَلَاۃَ الصُّبْحِ فَلَہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ فَلَا تُخْفِرُوْا اللّٰہَ ذِمَّتَہُ، فَاِنَّہُ مَنْ أَخْفَرَ ذِمَّتَہُ طَلَبَہُ اللّٰہُ حَتّٰی یُکِبَّہُ عَلٰی وَجْہِہِ۔)) (مسند أحمد: ۵۸۹۸)
جس نے نمازِ فجر ادا کر لی، پس اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ضمانت ہے، پس تم اللہ تعالیٰ کی ضمانت کو نہ توڑنا اور جس نے اس کی ضمانت کو توڑ دیا تو وہ اس کو طلب کرے گا اوراس کو اوندھے منہ جہنم میں گرا دے گا۔
[مسند احمد 1185]
اپنے بچوں کو گھر سے باہر بھیجتے وقت اللہ کے سپرد کریں
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
وَدَّعَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الوداع کیا تو فرمانے لگے :
” أَسْتَوْدِعُكَ اللَّهَ الَّذِي لَا تَضِيعُ وَدَائِعُهُ ". [ابن ماجة: 2825 ,حكم الحديث: صحيح]
میں تجھے اس ذات کے سپرد کرتا ہوں کہ جس کے سپرد کی ہوئی چیزیں ضائع نہیں ہوتیں
معلوم ہوا کہ اپنے بچوں کو مسجد، مدرسہ، سکول، کالج یا مارکیٹ بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہیے
اور یہ دعا بکثرت پڑھتے رہیں
"اللهم يامن لا تَضيع ودائعُه، أستودعك نفسي وديني وبيتي وأهلي ومالي وخواتيم أعمالي، فاحفظنا بما تحفظ به عبادك الصالحين”. [بخاری 2291]
اللہ کے سپرد کی ہوئی چیزیں تو سمندر کی موجیں بھی ضائع نہیں کرتیں
ایک شخص نے دوسرے سے امانت لی اور اللہ تعالیٰ کو گواہ اور ضامن بنایا
پھر لکڑی میں رقم رکھ کر سمندر میں پھینک دی تو سمندر نے وہ رقم مطلوب بندے تک پہچا دی
اللہ کے سپرد کیے ہوئے موسی کا صندوق اور سمندر کی لہریں
موسی علیہ السلام کی والدہ محترمہ نے اپنے بیٹے کو صندوق میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے دریا میں بہا دیا حالانکہ دریاؤں میں بہائے گئے بچے زندہ نہیں رہتے مگر جب دریا کے مالک کے سپرد کر دیے جائیں تو بچ بھی جاتے ہیں
کعبہ ،اللہ کے سپرد اور ہاتھیوں کا حشر
ابرہہ نے کعبہ پر چڑھائی کے لیے ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر جرار تیار کیا۔ مکہ پہچا تو عبدالمطلب کے اونٹ قبضے میں لے لیے اس نے کہا میرے اونٹ مجھے واپس کر اور تو جان اور کعبے مالک جانے یعنی کعبۃ اللہ کو اللہ کے سپرد کر دیا پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کیسے کعبہ کے رب نے کعبہ کی حفاظت کی
مفسر رازی نے اپنا تجربہ لکھا ہے
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں
مفسر رازی نے اپنا تجربہ لکھا ہے کہ میں نے اپنی ذات پر گزرنے والے حالات میں تجربہ کیا ہے کہ جب بھی کسی شریر نے میرے متعلق شر کا ارادہ کیا اور میں نے اس سے تعرض نہیں کیا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے پر اکتفا کیا، تو اللہ سبحانہ نے ایسے لوگوں کو میرے دفاع کے لیے مقرر فرما دیا جنھیں میں بالکل نہیں جانتا تھا اور جنھوں نے حد سے بڑھ کر اس شر کو دور کرنے کی کوشش کی۔
وَ اُفَوِّضُ اَمْرِيْۤ اِلَى اللّٰهِ
اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں
وہ بات جو اللہ کے خاص بندے اس وقت کہتے ہیں جب تمام ظاہری اسباب ختم ہو جائیں، اس وقت بھی ان کا اللہ تعالیٰ پر بھروسا پوری طرح قائم رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کے اعتماد کو کبھی نہیں توڑتا، بلکہ جس طرح چاہتا ہے انھیں بچا لیتا ہے۔
ذکر اللہ کی پناہ میں آئیں
کاٹنے والے کتے سے بچنے کا پرامن اور بہترین حل یہ ہوتا ہے کہ اس کے مالک کی حفاظت میں چلا جائے
تو یاد رکھیں اغواء کاروں کا مالک بھی اللہ تعالیٰ ہے تو پھر کیوں نہ ہم اس رب العزت کی پناہ میں چلے جائیں
یہ اذکار اور دعائیں ایک مسلمان کا حفاظتی قلعہ ہیں
عصر حاضر میں اذکار، وظائف اور دعاؤں کے سلسلے میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والی کتاب سعید بن وھب القحطاني رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کی کتاب ہے جس کا نام انہوں نے حصن المسلم رکھا ہے گویا اس نام میں کتاب کا خلاصہ سمودیا گیا ہے حصن المسلم کا معنی ہے ایک مسلمان کا (دشمن، وبا، آفت مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رہنے کا) مضبوط قلعہ
جیسے حالت جنگ میں دشمن سے بچنے کے لیے بسااوقات قلعہ بند ہونا پڑتا ہے ایسے ہی مختلف دعاؤں، اذکار اور وظائف کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے ارد گرد ایک قلعہ بنا رکھا اب ہمیں اس قلعہ میں داخل ہو کر اپنی جان اور مال کی حفاظت کرنا ہے
موسی اور ہارون علیہما السلام نے فرعون کی اغوا کاری کا خدشہ ظاہر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر سے پناہ پکڑنے کا حکم دیا
جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا
تو موسیٰ علیہ السلام نے تین خدشات ظاہر کیے
نمبر ایک
قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ [الشعراء : 12]
اس نے کہا اے میرے رب! بے شک میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے۔
نمبر دو
وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي فَأَرْسِلْ إِلَى هَارُونَ [الشعراء : 13]
اور میرا سینہ تنگ پڑتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی، سو تو ہارون کی طرف پیغام بھیج۔
نمبر تین
وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْبٌ فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ [الشعراء : 14]
اور ان کا میرے ذمے ایک گناہ ہے، پس میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔
تو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اپنے ذکر سے مدد طلب کرنے کی تلقین کی اور فرمایا : اذْهَبْ أَنْتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي [طه : 42]
تو اور تیرا بھائی میری آیات لے کر جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔
اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے موسی و ہارون علیہما السلام کو کیا فائدہ ہوا
ہمارے حافظ صاحب لکھتے ہیں
غور کیجیے فرعون کس قدر متکبر اور ظالم تھا، کتنے لوگوں کو اس نے قتل کیا ہو گا۔ اس کے دروازے پر کتنا سخت پہرا ہو گا۔ دو آدمی جو ہاتھ میں صرف عصا لیے ہوئے ہیں، اس کے پاس جاتے ہیں، کسی کو روکنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ بات شروع ہوتی ہے تو وہ ہر بات میں لاجواب ہوتا ہے۔ لاجواب ہو کر جیل کی دھمکی دیتا ہے، مگر دھمکی پر عمل کی ہمت نہیں ہوتی، جادوگروں سے مقابلہ کرواتا ہے، ناکام ہوتا ہے۔ پھر قتل کرنا چاہتا ہے مگر جرأت نہیں ہوتی۔اللہ بہتر جانتا ہے کتنے سال اسی طرح گزرے، مگر وہ موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکا، اسے کہتے ہیں ’’ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ یعنی واضح غلبہ۔
تفسیر القرآن الكريم
اللہ تعالیٰ کے نام کی پناہ پکڑو
بحری جہاز Titanic کو سینکڑوں لوگوں نے بنایا، اس کا ناخدا بولا: "تقدیر بھی اسے ڈبو نہیں سکتی”۔ اس کا پہلا ہی سفر اسے لے ڈوبا۔
سفینہٴ نوحؑ کو بنانے والا اکیلا شخص، جو بولا:
[بسم الله مجريها ومرساها "اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور اس کا جا ٹھہرنا”]
تب پورا جہان ڈوبا اور یہ بچ گیا۔
یعنی امید، استعانت اور توکل کا اصل محل پہچانو؛ وہ کون ہستی ھے…
معلوم ہوا کہ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے نام کی پناہ میں دیں دنیا جہاں کی کوئی چیز نہ ڈبو سکے گی نہ دبوچ سکے گی
اچانک مصیبت سے بچنے کے لیے انتہائی مؤثر کلام
بچوں کے گم ہو جانے یا اغواء ہوجانے سے بڑھ کر اچانک مصیبت کیا ہوسکتی ہے
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس نے یہ دعا پڑھی:
بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِه شَیْئٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاء ِ وَھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم [مسند احمد : 528]
ُ (اس اللہ کے نام کے ساتھ جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے)،
جس نے صبح کے وقت یہ دعا تین بار پڑھی تو ان شاء اللہ رات تک اس کو اچانک مصیبت نہیں پہنچے گی،
اسی طرح جس نے شام کو یہ عمل کیا تو صبح تک ان شاء اللہ اس کو کوئی اچانک مصیبت نہیں پہنچے گی۔
آخری دو سورتوں کی تلاوت کریں
اپنے بچوں پر آخری سورتوں سے دم کریں
ابن عابس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :
[ أَلاَ أُخْبِرُكَ بِأَفْضَلِ مَا يَتَعَوَّذُ بِهِ الْمُتَعَوِّذُوْنَ؟ قَالَ بَلٰي يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ « قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» وَ « قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ » هَاتَيْنِ السُّوْرَتَيْنِ ] [ نسائي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في سورتي المعوذتین : ۵۴۳۴ ]
’’کیا میں تمھیں سب سے بہتر وہ چیز نہ بتاؤں جس کے ساتھ پناہ پکڑنے والے پناہ پکڑتے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‘‘ اور ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‘‘ یہ دو سورتیں۔‘‘
عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
[ خَرَجْنَا فِيْ لَيْلَةٍ مَّطِيْرَةٍ وَظُلْمَةٍ شَدِيْدَةٍ نَطْلُبُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيْ لَنَا، قَالَ فَأَدْرَكْتُهُ، فَقَالَ قُلْ، فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ قُلْ، فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، قَالَ قُلْ، فَقُلْتُ مَا أَقُوْلُ؟ قَالَ قُلْ « قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ» وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِيْنَ تُمْسِيْ وَ تُصْبِحُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيْكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ [ترمذي، الدعوات، باب الدعاء عند النوم : ۳۵۷۵، وقال الألباني حسن ]
’’ہم ایک بارش اور سخت اندھیرے والی رات میں نکلے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر رہے تھے، تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں۔ چنانچہ میں آپ سے جا ملا، تو آپ نے فرمایا : ’’کہو۔‘‘ میں نے کچھ نہ کہا، آپ نے پھر فرمایا : ’’کہو۔‘‘ تو میں نے کچھ نہ کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : ’’کہو۔‘‘ میں نے کہا : ’’میں کیا کہوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘ اور معوذتین صبح و شام تین تین مرتبہ کہہ، یہ تجھے ہر چیز سے کافی ہو جائیں گی۔‘‘
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [الفلق : 1]
تو کہہ میں مخلوق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں۔
مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ [الفلق : 2]
اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔
وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ [الفلق : 3]
اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔
رات کی تاریکی کے شر سے خصوصی پناہ کیوں
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں
تاریک رات کے شر سے خاص طور پر پناہ مانگنے کی تلقین اس لیے کی گئی ہے کہ اندھیری رات میں بے شمار شرور و خطرات ہوتے ہیں، اکثر مجرم، چور، ڈاکو، زانی، قاتل اور شب خون مارنے والے رات ہی کو نکلتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات ہی میں قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے، تاکہ نہ آپ بچاؤ کر سکیں اور نہ قاتل کا پتا چل سکے۔ جنگلی جانوروں مثلاً شیر، چیتے، بھیڑیے وغیرہ اور حشرات الارض مثلاً سانپ ، بچھو وغیرہ کا خطرہ رات کو زیادہ ہو جاتا ہے اور مچھر، کھٹمل وغیرہ رات کو جو تکلیف دیتے ہیں سب جانتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق اکثر بیماریوں کے جراثیم اندھیرے میں پیدا ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اندھیرے میں وہمی چیزوں کا خوف مزید بڑھ جاتا ہے۔ ان سب پر مزید یہ کہ ان سب شرور کے اندھیرے میں واقع ہونے کی وجہ سے انسان ان سے اپنا بچاؤ بھی نہیں کر سکتا، اس لیے اندھیری رات کی برائیوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی۔
عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھا تو فرمایا :
[ يَا عَائِشَةُ! اسْتَعِيْذِيْ بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّ هٰذَا، فَإِنَّ هٰذَا هُوَ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ ] [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ المعوذتین : ۳۳۶۶، وصححہ الترمذي والألباني ]
’’اے عائشہ! اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو، کیونکہ یہی ’’ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ‘‘ ہے۔‘‘
بچوں کو دم حسنین رضی اللہ عنہما کریں
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن و حسین رضی اللہ عنھما کو پناہ دلواتے (دم کرتے) اور فرماتے : ’’تم دونوں کا باپ (ابراہیم علیہ السلام ) اسماعیل اور اسحاق( علیھما السلام ) کو ان کلمات کے ساتھ پناہ دلواتا (دم کرتا) تھا :
[أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ ] [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب : ۳۳۷۱ ]
’’میں پناہ طلب کرتا ہوں اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر اس آنکھ سے جو نظر لگانے والی ہے۔‘‘
ابوداؤد (۴۷۳۷) اور ترمذی (۲۰۶۰) میں شروع کے لفظ یہ ہیں :
[ أُعِيْذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ ]
یعنی میں تم دونوں کو دم کرتا ہوں۔ اگر ایک کو دم کرے تو ’’ أُعِيْذُكَ ‘‘ کہہ لے۔
آیت الکرسی پڑھ کر بچوں کو دم کریں
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث ہے، اس میں ان کا زکوٰۃ الفطر کی حفاظت پر مامور ہونا اور ایک شخص کا تین دن آ کر چوری کی کوشش کرنا، دو مرتبہ گرفتار ہو کر منتیں کرکے چھوٹنا اور تیسری دفعہ گرفتار ہونے پر انھیں یہ بتانا مذکور ہے کہ جب تم بستر پر آؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، تو لازماً اللہ کی طرف سے تم پر ایک حفاظت کرنے والا مقرر ہو گا اور تمھارے صبح کرنے تک کوئی شیطان تمھارے قریب نہیں آئے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ بھی اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’تمھارے قیدی کا کیا بنا ؟‘‘ میں نے سارا قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یاد رکھو ! اس نے تمھیں سچ بتایا، حالانکہ وہ بہت جھوٹا تھا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا :’’وہ شیطان تھا۔‘‘
[بخاری، الوکالۃ، باب إذا وکل رجلا فترک … : ۲۳۱۱، ۵۰۱۰ ]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا واقعہ
ایک دن مامون کا ایک درباری روتا ہو آپ کے پاس آیا اور بولا
ابو عبداللہ! معاملہ بہت سخت ہے۔ مامون نے تلوار نیام سے نکال لی ہے اور قسم کھا کر کہہ رہا ہے ٗ اگر احمد نے خلقِ قرآن کا اقرار نہ کیا تو میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑادوں گا۔
یہ سن کر امام احمد بن حنبل نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیک دیا اور آسمان کی طرف دیکھا ٗ پھر بولے
اے اللہ! اس فاجر کو تیرے حلم نے اتنا مغرور کر دیا ہے کہ اب وہ تیرے دوستوں پر بھی ہاتھ اُٹھانے سے باز نہیں آرہا… اے اللہ! اگر قرآن تیرا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے تو مجھے اس پر ثابت قدم رکھ… اور میں اس کے لئے ساری مشقتیں برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔
یہ دُعا ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ رات کے آخری حصے میں مامون کی موت کی خبر آ گئی۔ حضرت امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں ٗ
مجھے یہ خبر سن کر بہت خوشی ہوئی
اپنے بچوں کو دعائیں اور اذکار یاد کروائیں
اصحاب الاخدود والے لڑکے کا ذکرِ الہی
اور اصحاب الاخدود والے لڑکے نے(کہ جسے دشمن کی فوج اغواء کرکے لے گئی تھی اور اسے قتل کرنا چاہتی تھی) اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور کہا :
[اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْهِمْ بِمَا شِئْتَ ] [ مسلم، الزھد، باب قصۃ أصحاب الأخدود… : ۳۰۰۵ ]
’’اے اللہ! مجھے ان سے کافی ہو جا جس طرح تو چاہے۔‘‘
نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ پھر وہ لڑکا کیسے بچ گیا اور وہ دشمن کیسے برباد ہو گئے
یونس علیہ السلام کو مچھلی نے اچک(اغواء کر)لیاتو انہوں نے اللہ کا ذکر کیا
اگر یونس علیہ السلام، اللہ کی تسبیح نہ کرتے توقیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے
وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ [الصافات : 139]
اور بلاشبہ یونس یقینا رسولوں میں سے تھا۔
إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [الصافات : 140]
جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ کر گیا۔
فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ [الصافات : 141]
پھر وہ قرعہ میں شریک ہو ا تو ہارنے والوں میں سے ہو گیا۔
فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ [الصافات : 142]
پھر مچھلی نے اسے نگل لیا، اس حال میں کہ وہ مستحق ملامت تھا۔
فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [الصافات : 143]
پھر اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں سے تھا۔
لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [الصافات : 144]
تو یقینا اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ [الصافات : 145]
پھر ہم نے اسے چٹیل میدان میں پھینک دیا، اس حال میں کہ وہ بیمار تھا۔
وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ [الصافات : 146]
اور ہم نے اس پر ایک بیل دار پودا اگا دیا۔
گھر سے باہر نکلنے کی دعا خود بھی پڑھیں اور بچوں کو بھی پڑھائیں
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ-
” جب بندہ اپنے گھر سے نکلے اور یہ کلمات کہہ لے :«بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله» ” اﷲ کے نام سے ، میں اللہ عزوجل پر بھروسا کرتا ہوں ۔ کسی شر اور برائی سے بچنا اور کسی نیکی یا خیر کا حاصل ہونا اﷲ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ۔ “
قَالَ:- يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ، وَكُفِيتَ، وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ: كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ [ابو داؤد 5095]
تو اس وقت اسے یہ کہا جاتا ہے : تجھے ہدایت ملی ، تیری کفایت کی گئی اور تجھے بچا لیا گیا ( ہر بلا سے ) ۔ چنانچہ شیاطین اس سے دور ہو جاتے ہیں اور دوسرا شیطان اس سے کہتا ہے تیرا داؤ ایسے آدمی پر کیونکر چلے جسے ہدایت دی گئی ، اس کی کفایت کر دی گئی اور اسے بچا لیا گیا ۔ “
خود نیک بنیں، اللہ تعالیٰ تمہارے بچوں کی حفاظت اپنے ذمے لے گا
اللہ تعالیٰ کے دو رسول، موسی و خضر علیہما السلام چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے تو خضر علیہ السلام نے اسے سیدھا کر دیا۔
جب موسی علیہ السلام نے اعتراض کیا کہ وہ تو ہمیں کھانا بھی نہیں دے رہے اور آپ ان کی دیواریں سیدھی کررہے ہیں تو خضر علیہ السلام نے وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا [الكهف : 82]
اور رہ گئی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا تو تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، تیرے رب کی طرف سے رحمت کے لیے اور میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا۔
معلوم ہوا کہ اگر ہم خود نیک بن جائیں تو ہمارے بچے تو دور کی بات اللہ تعالیٰ ان کی دیواروں کی بھی حفاظت فرمائے گا
بچوں کو چالاکی ہشیاری سکھائیں
اپنے بچوں میں خود اعتمادی، جرأت اور بہادری پیدا کریں تاکہ وہ کسی بھی ناگہانی صورتحال میں حواس باختہ ہونے کی بجائے اپنے آپ کو بچانے کی ممکنہ کوشش کر سکیں
حکیم شعیب کی چھوٹی بچی کا واقعہ
جیسا کہ حالیہ دنوں میں گوجرانوالہ کے حکیم شعیب صاحب اپنی دس بارہ سال کی بچی کی سٹوری سناتے ہوئے بتا رہے تھے کہ کیسے ان کی بچی نے موقع ملتے ہی اپنے آپ کو اغواء کاروں کے چنگل سے آزاد کیا کہ انہوں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اپنی کچھ باتوں میں مصروف ہو گئے تو بچی نے موقع دیکھتے ہی ایک گھر کی طرف دوڑ لگا دی
ابو بصیر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے استدلال
ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو جب دشمن کے دو افراد پکڑ کر لے گئے تو انہوں نے راستے میں کتنی مہارت سے دشمن کو باتوں میں لگا کر انہی کی تلوار سے ایک کا کام تمام کر دیا اور دوسرے کو بھاگنے پر مجبور کر دیا اور یوں اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے
بچوں کو کچھ ٹپس دیں
بچوں کو اپنے والدین کا ٹیلی فون یا موبائل نمبر، گھر کا ایڈریس، محلہ یا علاقہ کا نام ، ذات اور برادری یاد ہونا چاہیے تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں اگر کوئی اس کی مدد کرنا چاہے تو فوری طور پرکرسکے
جب کسی سفر پر جانا ہو تو بچوں کو باتوں ہی باتوں میں بتادیں کہ سفر کس طرح ہوگا، بس کون سے اڈے سے ملے گی، آپ جن کے پاس جا رہے ہیں ان تک پنہچنے کا کیا طریقہ ہے۔ دوران سفر بچوں کو بتایا جائے کہ اس وقت آپ کہاں سے گزر رہے ہیں، یہ کون سا علاقہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح بعد میں، سفر مکمل ہونے پر دوبارہ سوالات کرکے امتحان لیا جاسکتا ہے کہ بچے نے کتنا اخذ کیا۔ اس سے بچے کے اندر اعتماد پیدا ہوگا
بچوں کی انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ وہ اجنبیوں سے فیس بک وغیرہ پر دوستی نہ کریں اور نہ ہی اپنے متعلق معلومات شیئر کریں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی تصاویر اور ان کے نام شیئر کرتے وقت احتیاط برتیں کیوں کہ آج کل کے جرائم پیشہ لوگ سوشل میڈیا کی مدد سے بھی اپنا شکار پھانستے ہیں۔ اس لیے پرائیویسی بہتر ہے۔
بارہ تیرہ سال سے چھوٹے بچے کو اکیلا اسکول، مدرسہ ، ٹیوشن یا بازار سے سامان لینے کے لیے نہ بھیجا جائے بلکہ ضرور ان کے ساتھ کوئی بڑا ہونا چاہیے۔ بازار سے سامان لینے کا کام کوشش کرکے ایک ہی بار بڑے خود کرلیا کریں، بچوں کو ایک ایک چیز کے لیے باہر بھیجنا درست نہیں۔ بچوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دی جائے کہ اگر دوکاندار اسے دوکان کے اندرونی کمرے یا اسٹور میں چلنے کو کہے یا کہے تمہیں جو چیز چاہیے وہ وہاں رکھی ہے چل کر دیکھ لو، تو ہرگز اس کے ساتھ نہ جائے۔
مغرب کے بعد بچے ہرگز گھر سے باہر نہ رہیں اور سورج ڈھلتے ہی لازماََ گھر کے اندر آ جائیں۔ بچوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت کی دعا یاد کروالیں۔ آیت الکرسی بھی یاد ہو تو بہت ہی اچھا