بغیر ضرورت کے سوال کرنے کی سنگینی

عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلْ أَوْ لِيَسْتَكْثِر. (رواه مسلم).
(صحيح مسلم: كتاب الزكاة، باب كراهة المسئلة للناس.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگوں سے ان کے مالوں کا سوال کرتا ہے (ضرورت کی وجہ سے نہیں بلکہ) اپنا مال زیادہ کرنے کے لئے تو وہ (جہنم کے) انگارے کا سوال کرتا ہے اب وہ چاہے زیادہ کر لے یا کم۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن عُمَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰى يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَيْسَ فِيْ وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ، (رواه مسلم).
(صحيح مسلم: كتاب الزكاة، باب كراهة المسألة للناس.)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہے گا یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرا بھی گوشت نہ ہو گا۔
عَنْ حَكِيْمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنهُ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِيْ، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ يَا حَكِيمٌ إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَن أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَم يُبَارَكْ لَهُ فِيْهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَسْبَعُ اليَدُ العُليَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلٰي. (رواه البخاري).
(صحیح بخاری کتاب الزكاة، باب الاستعفاف عن المسألة.)
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا۔ آپ نے ﷺ نے عطا فر مایا، میں نے پھر مانگا اور آپ ﷺ نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا آپ ﷺ نے پھر عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے حکیم؟ یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل سخی رکھ کر لے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہوگی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا (یادر کھو) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعتُ عُمَرَ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ الله يُعْطِيْنِي الْعَطَاءَ فَأَقُوْلُ أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفَقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ: خُذْهُ، إِذَا جَاءَكَ مِنْ هٰذَا الْمَالِ شَيْءٌ وَأَنْتَ غَيْرَ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا فَلَا تُتبِعْهُ نَفْسَكَ (رواه البخاری)
(صحیح بخاری: کتاب الزكاة، باب من أعطاء الله شيئا من غير مسألة ولا إشراف نفس)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مجھے کوئی چیز عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ آپ مجھے سے زیادہ محتاج کو دے دیجئے۔ لیکن آپ کے فرماتے کہ لے اور اگر تمہیں کوئی ایسا مال ملے جس پر تمہارا خیال نہ لگا ہوا ہو اور نہ تم نے اسے مانگا ہو تو اسے قبول کر لیا کرو۔ اور جو نہ ملے اس کے پیچھے نہ پڑو۔
تشریح:
اسلام نے جہاں ایک طرف صاحب حیثیت کو یہ تعلیم دی ہے کہ ان کے مالوں میں غرباء وفقراء کے حقوق میں ان کے حقوق کی ادائیگی صحیح طریقے سے کریں تاکہ وہ در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچ سکیں وہیں دوسری جانب ان لوگوں کو بھی تاکید کی ہے کہ وہ سوال کرنے اور مان:نے کو اپنا پیشہ نہ بنائیں بلکہ محنت و مزدوری کر کے اپنا پیٹ بھریں اور لوگوں کے سامنے اپنا ہاتھ نہ پھلائیں، کیونکہ مانگنے سے رسوائی ملتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مانگنے کو اپنا پیشہ بنائے وہ قیامت کے دن ایسی شکل میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا کیونکہ وہ دنیا میں شرم و حیا کو ختم کر کے لوگوں سے مانگتا تھا۔ اللہ تعالٰی ہمیں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے محفوظ رکھے اور لوگوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ لوگوں سے بغیر کسی اہم ضرورت کے مال طلب کرنا منع ہے۔
٭ بغیر کسی سوال کے مال قبول کرنا جائز ہے۔
٭٭٭٭