بہادُر مومِن

اہم عناصر:
❄ بہادر مومن کی فضیلت ❄ نبی مکرم ﷺ کا بزدلی سے پناہ مانگنا
❄ بہادر مومنوں کے چند ایمان افروز واقعات
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم (الَّذِيۡنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَـكُمۡ فَاخۡشَوۡهُمۡ فَزَادَهُمۡ اِيۡمَانًا  ۖ وَّقَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰهُ وَنِعۡمَ الۡوَكِيۡلُ) آل عمران: 173
ذی وقار سامعین:
کہتے ہیں کہ "جان ہے تو جہان ہے” یعنی بندے میں ہمت ، قوت اور طاقت موجود ہے تو اسے اس جہان میں جینے کا مزہ اور لطف آتا ہے. اگر بندے میں ہمت ، قوت اور طاقت موجود نہیں ہے تو وہ بھرپور طریقے سے زندگی نہیں جی سکتا. اسی لیے اللہ تعالی نے قران مجید میں بھی مومنوں اور مسلمانوں کو قوی اور طاقت ور بننے کا حکم دیا ہے اور نبی مکرم ﷺ نے طاقتور اور بہادر مومن کی تعریف فرمائی ہے اور اسے پسند کیا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ اگر بندے میں قوت ، ہمت اور طاقت نہیں ہے تو عبادت کا لطف اور عبادت کی چاشنی حاصل نہیں ہوتی. اسی طرح اگر مومن اور مسلمان میں ہمت ، طاقت اور بہادری نہیں ہے تو وہ باطل قوتوں کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا. اس لیے ہم آج کے خطبہ جمعہ میں بہادر مومن کی فضیلت ، نبی مکرم ﷺ کا بزدلی سے پناہ مانگنا اور بہادر مومنوں کے چند ایمان افروز واقعات ذکر کریں گے.
بہادر مومن کی فضیلت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ ]مسلم: 6774[
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے، جبکہ خیر دونوں میں (موجود) ہے۔ جس چیز سے تمہیں (حقیقی) نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو (مایوس ہو کر نہ بیٹھ) جاؤ، اگر تمہیں کوئی (نقصان) پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں (اس طرح) کرتا تو ایسا ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: (یہ) اللہ کی تقدیر ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے،اس لیے کہ (حشرت کرتے ہوئے) کاش (کہنا) شیطان کے عمل (کے دروازے) کو کھول دیتا ہے۔”
نبی مکرم ﷺ کا بزدلی سے پناہ مانگنا
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ العَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالجُبْنِ وَالهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا وَالمَمَاتِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ» ] بخاری: 2823[
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ فرمایا کرتے تھے “ اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتاہوں عاجزی اور سستی سے ‘ بزدلی اوربڑھاپے کی ذلیل حدود میں پہنچ جانے سے اورمیں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اورموت کے فتنوں سے اورمیں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے “ ۔
بہادر مومنوں کے چند ایمان افروز واقعات
نبی مکرم ﷺ:
❄ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَ: أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِﷺ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَفَلَ مَعَهُ، فَأَدْرَكَتْهُمُ القَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ العِضَاهِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺتَحْتَ سَمُرَةٍ وَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ، وَنِمْنَا نَوْمَةً، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدْعُونَا، وَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ عَلَيَّ سَيْفِي، وَأَنَا نَائِمٌ، فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ فَقُلْتُ: اللَّهُ، – ثَلاَثًا – وَلَمْ يُعَاقِبْهُ وَجَلَسَ ] بخاری: 2910[
ترجمہ : جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے ۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ یہ بھی واپس ہوئے ۔ راستے میں قیلولہ کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے درخت بکثرت تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے اس وادی میں پڑاو کیا اور صحابہ پوری وادی میں ( درخت کے سائے کے لیے ) پھیل گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکادی ۔ ہم سب سوگئے تھے کہ آں حضرت ﷺ کے پکارنے کی آواز سنائی دی ، دیکھا گیا تو ایک بدوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا ، جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی ۔ اس نے کہا مجھ سے تمہیں کون بچائے گا ؟ میں نے کہا کہ اللہ ! تین مرتبہ ( میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی ) حضور اکرم ﷺ نے اعرابی کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ آپ ﷺ بیٹھ گئے ۔
❄ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، قَالَ: وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ المَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ: فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ، وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، فَقَالَ: «لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا»، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «وَجَدْتُهُ بَحْرًا» يَعْنِي الفَرَسَ ] بخاری: 3040 [
ترجمہ : سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسین‘ سب سے زیادہ سخی اورسب سے زیادہ بہادر تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت اہل مدینہ گھبرا گئے تھے‘ کیونکہ ایک آواز سنائی دی تھی ۔ پھر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر جس کی پیٹھ ننگی تھی رسول کریم ﷺ حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے تنہا اطراف مدینہ میں سب سے آگے تشریف لے گئے ۔ پھر آپ ﷺ واپس آ کر صحابہ رضی اللہ عنہ سے ملے تو تلوار آپ ﷺ کی گردن میں لٹک رہی تھی اور آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ‘ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا‘ میں نے تو اسے دریا کی طرح پایا ۔ ( تیز دوڑنے میں ) آپ ﷺ کا اشارہ گھوڑے کی طرف تھا ۔
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ:
جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو علی الاعلان ہجرت کا عزم کیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: میرے علم کے مطابق عمر بن خطاب کے علاوہ تمام مہاجرین نے چھپ چھپ کر ہجرت کی لیکن جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا عزم کیا تو تلوار کو گردن میں لٹکایا اور ترکش کو کندھے پر رکھا، ہاتھ میں تیر پکڑے اور لاٹھی لے کر نکل پڑے۔
کعبہ کی طرف گئے، قریش اس کے صحن میں بیٹھے تھے، بہت اطمینان سے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے سات چکر لگائے، پھر مقام ابراہیم پر آئے اور اطمینان سے نماز پڑھی، پھر ایک ایک کرکے تمام حلقوں سے گزرے اور ان سے کہا: چہرے برباد ہوجائیں اللہ تعالیٰ ان کی عزت کو خاک میں ملا دے گا۔ جس کی یہ خواہش ہو کہ اس کی ماں اسے گم پائے اس کی اولاد اس پر ماتم کرے یا اس کی عورت بیوہ ہو جائے تو وہ اس وادی کے پیچھے مجھ سے ملاقات کرے۔ علی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ آپ کے ساتھ صرف کمزوروں کی ایک جماعت ساتھ رہی، آپ نے ان کو سکھایا، ان کی رہنمائی کی، اور رضائے الٰہی کے لیے آگے بڑھتے گئے۔
] الطبقات الکبریٰ: ۳/ ۲۶۹ ۔ صفۃ الصفوۃ: ۱/ ۲۷۴ ، نونیۃ القحطانی، ص:۲۲[
سیدنا علی رضی اللہ عنہ :
غروہ خیبر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ شوب چشم میں مبتلا تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَأُعْطِیَنَّ هذِہِ الرَّاْ یَة غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰهُ عَلَی یَدَیْهِ، یُحِبُّ اللّٰه وَرَسُوْلَهُ، وَیُحِبُّهُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ
"کل جھنڈا اسی شخص کے ہاتھ میں ہوگا جو اللہ کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اسے پسندکرتا ہے۔”
چنانچہ صحابہ نے اس فکر وتمنا میں رات بڑی بے چینی سے گزاری کہ معلوم نہیں کون اس کا حق دار ہوگا، صبح ہوئی سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور ہر ایک اس سرفرازی کے لیے منتظر رہا، آپ ﷺ نے فرمایا :
أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟‘‘
صحابہ نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، لیکن انھیں بلایا گیا اور وہ آئے، آپ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں لعاب دہن لگادیا اور ان کے لیے دعا فرمائی، جس سے ان کی تکلیف ایسے دُو رہوگئی گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ میں عَلَمْ دیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا میں اس وقت تک ان سے قتال کروں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
((اُنْفُذْ عَلَی رِسْلِکَ حَتَّی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی الإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْہُمْ بِمَایَجِبُ عَلَیْہِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیْہِ، فَوَ اللّٰہِ لِأَنْ یَہْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ لَکَ حُمُرُ النَّعَمِ))
’’تم اپنی مہم پر اطمینان سے گامزن ہوجاؤ، اور ان سے مقابلہ میں اتر کر انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے واللہ اگر تمھارے ہاتھ پر ایک آدمی بھی ہدایت پاجائے تو تمھارے لیے بے شمار سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ ‘‘ ]مسلم: 6223[
چنانچہ آپ نے قدم آگے بڑھایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر فتح کیا۔ اس غزوہ میں علی رضی اللہ عنہ نے بہادری کے جوہر دکھائے اور یہودیوں کے سورما مرحب سے ٹکرلی، مرحب جب ان اشعار کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھا:
قَدْعَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّيْ مَرْحَبُ
شَاكِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مَجَرَّبُ
إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلْهَبُ
’’خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، ہتھیار پوش، بہادر اور تجربہ کار! جب جنگ وپیکار شعلہ زن ہو‘‘
اس وقت علی رضی اللہ عنہ جوابًا یہ اشعار پڑھے اور آگے بڑھے۔
أَنَا الَّذِيْ سَمَّتْنِيْ أُمِّيْ حَیْدَرَه
كَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَه
أَوْ فِیْھِمْ بِالصَّاعِ كَیْلَ السَّنْدَرَهِ
’’میں وہ شخص ہوں کہ میرا نام میرے ماں نے حیدر (شیر) رکھا ہے، جنگل کے شیر کی طرح خوفناک، انھیں صاع کے بدلہ نیزہ کی ناپ پوری کروں گا۔ ‘‘ پھر آپ نے مرحب کے سرپر زبردست وار کیا،اسے قتل کردیا، اور آپ کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔ ]مسلم: 1807[
سیدنا معاذ و معوذ رضی اللہ عنہا :
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں ، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا ، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نو عمر لڑکے تھے ۔ میں نے آرزو کی کاش ! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا ۔
فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟
ایک نے میری طرف اشارہ کیا ، اور پوچھا چچا ! آپ ابوجہل کو بھی پہچانتے ہیں ؟
میں نے کہا کہ ہاں ! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے ؟ لڑکے نے جواب دیا
أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَئِنْ رَأَيْتُهُ لاَ يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الأَعْجَلُ مِنَّا "مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے ، اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا ، مر نہ جائے ۔”
مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی ۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں ۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں ( کفار کے لشکر میں ) گھومتا پھر رہا تھا ۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے ، وہ سامنے ہے ۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالا ۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا
«أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟»، قَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ، فَقَالَ: «هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟»، قَالاَ: لاَ، فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: «كِلاَكُمَا قَتَلَهُ، سَلَبُهُ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الجَمُوحِ»، وَكَانَا مُعَاذَ ابْنَ عَفْرَاءَ، وَمُعَاذَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الجَمُوحِ
” تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے ؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے ۔ اس لیے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کرلی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے ۔ اور اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا ۔ ” وہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموع تھے ۔ ] بخاری: 3141[ (بعض روایتوں میں ابوجہل کے قاتل معاذ اور معوذ عفرا کے بیٹے بتلائے گئے ہیں۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بھی شامل کیاگیا ہے۔ احتمال ہے کہ یہ لوگ بھی بعد میں شریک قتل ہوگئے ہوں۔)
سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے مدینہ واپس تشریف لاکر مطمئن ہوچکے تو ایک مسلمان جسے مکہ میں اذیتیں دی جارہی تھیں چھوٹ کر بھاگ آیا۔ ان کا نام ابو بصیر تھا۔ وہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے تھے۔ اور قریش کے حلیف تھے۔ قریش نے ان کی واپسی کے لیے دوآدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان جو عہد وپیمان ہے اس کی تعمیل کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر کو ان دونوں کے حوالے کردیا۔ یہ دونوں انہیں ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ اور ذُو الحلیفہ پہنچ کر اترے ، اور کھجور کھانے لگے۔ ابو بصیر نے ایک شخص سے کہا : اے فلاں ! اللہ کی قسم! میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری یہ تلوار بڑی عمدہ ہے۔ اس شخص نے اسے نیام سے نکال کر کہا : ہاں ہاں ! واللہ یہ بہت عمدہ ہے۔ میں نے اس کا بارہا تجربہ کیا ہے۔ ابو بصیر نے کہا: ذرا مجھے دکھلاؤ ، میں بھی دیکھوں۔ اس شخص نے ابو بصیر کو تلوار دے دی۔ اور ابوبصیر نے تلوار لیتے ہی اسے مار کر ڈھیر کردیا۔
دوسر اشخص بھاگ کر مدینہ آیا اور دوڑتا ہو ا مسجد نبوی میں گھس گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا : اس نے خطرہ دیکھا ہے۔ وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر بولا : میرا ساتھی اللہ کی قسم قتل کردیا گیا۔ اور میں بھی قتل ہی کیا جانے والا ہوں۔ اتنے میں ابو بصیر آگئے۔ اور بولے : یا رسول اللہ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کردیا۔ آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی ماں کی بربادی ہو۔ اسے کوئی ساتھی مل جائے تو یہ تو جنگ کی آگ بھڑکا دے گا۔ یہ بات سن کر ابو بصیر سمجھ گئے کہ اب انہیں پھر کافروں کے حوالے کیا جائے گا۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے۔ ادھر ابو جندل بن سہیل بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے۔ اب قریش کا جو آدمی بھی اسلام لاکر بھاگتا وہ ابو بصیر سے آملتا۔ یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہوگئی۔
اس کے بعد ان لوگوں کو ملک شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتاتو وہ اس سے ضرور چھیڑ چھاڑ کرتے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلالیں۔ اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا مامون رہے گا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلوالیا اور وہ مدینہ آگئے۔] بخاری: 2731[
سیدنا ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ :
حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ اور رستم کا واقعہ قوتِ ایمانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ معرکہ قادسیہ کے موقع پر رستم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ اپنا قاصد بھیجیں جس کے ساتھ مَیں جنگ شروع کرنے سے قبل مذاکرات کر سکوں۔ انھوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا، جنھوں نے رستم سے کہا: ’’ہمیں دنیا کی کوئی طلب نہیں ہے، ہمارا مطلوب و مقصود تو صرف آخرت کی خوشگوار زندگی ہے۔‘‘
ان کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے دوسرے قاصد کے طور پر ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ رستم کے پاس اس وقت پہنچے، جب اس کے دربار کو سونے اور ریشمی کپڑے سے خوب سجایا جا چکا تھا اور بڑے قیمتی لعل و یاقوت ظاہر کر رکھے تھے۔ رستم سونے کے تخت پر بیٹھا تھا، ربعی رضی اللہ عنہ معمولی سا لباس پہنے، ہاتھ میں تلوار اور ڈھال لیے چھوٹے سے قد کے گھوڑے پر سوار رستم کے پاس پہنچے، وہ اس وقت تک گھوڑے پر سوار رہے جب تک گھوڑے نے ان کے قیمتی قالینوں کو اپنے پاؤں تلے روند نہ ڈالا، پھر وہ گھوڑے سے اترے اور اسے ان کے ایک گاؤتکیے کے ساتھ باندھ دیا، پھر رستم کی طرف بڑھے، جبکہ حضرت ربعی رضی اللہ عنہ وہ زرہ پہنے اور اپنا اسلحہ لیے ہوئے تھے۔
لوگوں نے کہا کہ اپنا اسلحہ نیچے رکھ دو، انھوں نے کہا: میں تمھارے پاس اپنی مرضی سے نہیں آیا ہوں بلکہ میں تو تمھارے بلانے پر آیا ہوں، اگر مجھے اسی طرح رہنے دو تو ٹھیک ہے ورنہ میں یہیں سے واپس لوٹ جاتا ہوں۔ رستم نے یہ بات سن کر کہاکہ اسے آنے دو، وہ اپنے نیزے پرٹیک لگائے آگے بڑھتے گئے حتی کہ انھوں نے ان کے اکثر قالینوں میں نیزے کی نوک سے سوراخ کر دیے۔ انھوں نے حضرت ربعی رضی اللہ عنہ سے کہا: تم لوگ کیوں آئے ہو؟ انھوں نے کہا:
لقد ابتعثنا الله لنخرج العباد من عبادة العباد إلى عبادة رب العباد ، ومن ضيق الدنيا إلى سعة الدنيا والآخرة ، ومن جور الأديان إلى عدل الإسلام
"ہمیں اللہ نے بھیجا ہے، تاکہ ہم بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی کرنے والے بنائیں، انہیں دنیا کی تنگی و ترشی سے نکال کر آسایش و کشایش مہیا کریں اور مختلف ادیان کے ظلم و جور سے نجات دلا کر انہیں اسلام کے عدل و انصاف تک لائیں.”
اس نے ہمیں اپنے دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ ہم لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیں، جس نے ہم سے یہ دین قبول کر لیا ہم اسے قبول کر لیں گے اور ہم وہاں سے واپس لوٹ جائیں گے، اور اگر کسی نے یہ دین قبول کرنے سے انکار کیا تو ہم اس کے ساتھ جہاد کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کے وعدے تک پہنچ جائیں۔ انھوں نے کہاکہ اللہ کا وعدہ کیا ہے؟ حضرت ربعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’جو منکرین سے لڑتے ہوئے شہید ہو جائے، اس کے لیے جنت اور جو زندہ بچ جائے اس غازی کے لیے ظفر و کامیابی۔‘‘ ]البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر ۷/ ۳۹[
ابومسلم خولانی رحمہ اللہ :
اسود عنسی نے اپنی نبوت کا دعویٰ یمن کے شہر صنعاء سے کیا۔ اس نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کو اپنے پاس طلب کیا۔ ان سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ انہوں نے ٹالتے ہوئے کہا کہ میں سنتا نہیں ہوں۔ دوسرا سوال اس نے ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ سے یہ کیا۔ کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ خدا کے رسول ہیں۔ انہوں نے فوراً کہا ’’ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ اس نے یکے بعد دیگرے تین بار یہ دونوں سوال دہرائے۔ آپ نے ہر بار اس کو وہی پہلا جواب دیا۔ اس نے اپنے عقیدت مندوں کو ایندھن جمع کرکے آگ بھڑکانے کا حکم دیا۔ جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے تو اس نے حکم دیا کہ ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کو رسی میں باندھ کر اس بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے۔ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ لیکن لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان لپکتے ہوئے شعلوں نے ان کا بال بھی بیکا نہ کیا۔ اسود عنسی کے مشیروں نے اسے ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کو فوراً نکال دینے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ان کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ جب یہ واقعہ رونما ہوا حضور اکرم ﷺ کا وصال ہو چکا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بن چکے تھے۔ ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ مدینہ تشریف لائے۔ مسجد نبوی ﷺ کے دروازے پر اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اندر جاکر نماز کی نیت باندھ لی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا۔ جب ابو مسلم رحمہ اللہ نماز ادا کر چکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا آپ کون ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں اہل یمن سے ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا۔ ہمارے اس بھائی کا کیا حال ہے جس کو اس جھوٹے نبی نے آگ کے الاؤ میں پھینکا تھا۔ انہوں نے جواب دیا: ’’میں وہی ہوں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا ’’کیا واقعی تم وہی شخص ہو۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’بخدا میں وہی ہوں‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں سینے سے لگا لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انہیں اپنے ہمراہ لے کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بٹھا دیا، پھر کہا خدا کا شکر ہے، جس نے مجھے مرنے سے پہلے اس شخص کی زیارت کا شرف بخشا ہے، جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح آگ میں ڈالا گیا، لیکن آگ نے اس کا بال بھی بیکا نہ کیا۔‘‘ ]سیر اعلام النبلاء: ۴/۹[
❄❄❄❄❄