باہمی فتنہ و فساد

﴿إِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً﴾ (فاطر:6)
جیسا کہ گذشتہ جمعے بات ہو رہی تھی کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانا اور بھڑ کانا شیطان کا پسندیدہ مشغلہ ہے، شیطان اپنی اس پسند اور اس حربے سے بہت پر امید ہے۔
یوں تو بہت سی برائیاں اور معصیتیں انسان سے سرزد ہوتی ہیں، مگر شیطان نے ان تمام تر برائیوں میں سے بالخصوص اس تحریش اور فساد بین الناس کے معاملے کو ہی اختیار کیا، جس کی ایک وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ دوسرے گناہ زیادہ تر آدمی کی ذات تک محدود رہتے ہیں، یا ان پر کوئی سزا مقرر ہوتی ہے تو آدمی چھپ کر گناہ کرے یا اس گناہ کی اس کو سزامل جائے تو بات ختم ہو جاتی ہے۔ معاشرے میں اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے کیونکہ برائی نظر نہیں آتی تو دوسروں تک پھیلتی نہیں اور اگر سزا مل جائے تو وہ باعث عبرت بن جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف دل میں کسی کے خلاف نفرت، عداوت، کینہ اور بغض وغیرہ رکھنے پر دنیا میں کوئی سزا مقرر نہیں، پھر نفرت و عداوت عموماً بڑھتی ہی ہے کم نہیں ہوتی اور نفرت و عداوت اکثر فتنہ و فساد پر منتج ہوتی ہے، غرضیکہ لوگوں کے ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کنے اور بر انگیختہ ہونے کے نتائج عموماً سنگین ہوتے ہیں اور اس کی لپیٹ میں بسا اوقات دو خاندان، دو گروہ اور وہ قو میں بھی آجاتی ہیں، اس لیے شیطان نے لوگوں کو آپس میں لڑانے اور ان میں اختلاف ڈالنے کے حربے کو پسند کیا۔
چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ شیطان اپنے کارندوں میں سے سب سے زیادہ اس سے خوش ہوتا ہے جو میاں بیوی کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے کیونکہ میاں بیوی کے درمیان تفریق صرف دو افراد تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کا اثر بچوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس کا اثر دو خاندانوں تک پھیلتا ہے اور وہ تفریق کبھی خاندانی دشمنی میں بھی بدل جاتی ہے۔ لہٰذا اسلام میں ایک ایسے ہی شخص کو بھی سخت نا پسند کیا گیا ہے جو میاں بیوی کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کرے، فرمایا:
((لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ إِمْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا أَوْ عَبْدًا عَلَى سَيِّدِهِ )) (ابو داود: 2175)
’’وہ ہم میں سے نہیں جس نے کسی عورت کو اس کے خاوند کے خلاف یا غلام کو اس کے آقا کے خلاف برانگیختہ کیا ۔‘‘
میاں بیوی کے درمیان اتفاق و اتحاد اور ہم آہنگی کو اس قدر اہمیت اس لیے ہے کہ میاں بیوی کا جوڑا معاشرے کی اکائی ہے، یہ ایک چھوٹا معاشرہ ہے، اس کے رہن سہن، اس کے اخلاق، اس کے خیالات اور اس کے طرز زندگی کا معاشرے پر ڈائر یکٹ اثر ہوتا ہے۔ تو لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا اور اکسانا اور براہینہ کرنا بظاہر اک معمولی مگر در حقیقت اک گہری اور خطرناک شیطانی چال ہے، انسانی زندگی میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں بلکہ روز مرہ کی زندگی میں یہ معاملہ سب سے نمایاں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عدالتیں بھری پڑی ہیں، وکیلوں کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے، ایک ایک کیس کے فیصلے کے لیے سال ہا سال عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور ابھی تو بے شمار اختلافات اور جھگڑے ایسے ہیں جو عدالتوں میں پیش ہی نہیں ہوتے۔ اکسانے اور بھڑ کانے کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں میں ناراضیاں اور رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، گھر میں ہوتے ہیں، بازار میں ہوتے ہیں، کام پر ہوتے ہیں، سفر میں ہوتے ہیں، عبادت گاہوں میں ہوتے ہیں اور ایسے ایسے افراد کے مابین ہوتے ہیں کہ جہاں اس کا تصور کرنا بھی محال ہے اور یہ مسئلہ تو اتنا عام ہے کہ اس کے لیے کسی مثال کی ضرورت نہیں ہے، مگر اس چال کی سنگینی کو بیان کرنے کے لیے دو ایک مثالیں سنتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کا قصہ یقینًا آپ نے سن رکھا ہوگا اور بار بار سنا ہوگا، وہ قصہ تو طویل ہے، پورا بیان نہیں کریں گے، اس قصہ میں ہمیں بہت سی حکمتیں، عبرتیں اور بہت سے مسائل معلوم ہوتے ہیں، جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔
﴿لَقَدْ كَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَ اِخْوَتِهٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآىِٕلِیْنَ۝﴾ (يوسف:7)
’’یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لیے یقینًا بڑی نشانیاں ہیں ۔‘‘
اور پھر قصہ یوں شروع ہوتا ہے۔
﴿اِذْ قَالُوْا لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰۤی اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَةٌ ؕ اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِۚۖ۝﴾ (يوسف:8)
’’یوسف کے بھائیوں نے آپس میں کہا کہ یوسف اور اس کے بھائی دونوں ہمارے والد کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم پورا ایک جتا ہیں، ہمارے والد واقعتا بالکل ہی بہک گئے ہیں۔‘‘
یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے دلوں میں یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی بن یامین کے بارے میں جو حسد کی چنگاری سلگ رہی تھی اس کا سب سے پہلا نشانہ حضرت یعقوب علیہ السلام تھے کہ جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام پر بہکے ہوئے ہونے کا التزام داغا، گویا کہ معاذ اللہ وہ اولاد میں نا انصافی سے کام لے رہے تھے۔
يعقوب عليہ السلام، یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی بن یامین کا زیادہ خیال رکھتے تھے جس کی چند ایک وجوہات تھیں، ایک تو اس لیے کہ ان کی والدہ فوت ہو چکی تھیں، جیسا کہ مفسرین لکھتے ہیں اور دوسرے یہ کہ انہیں یوسف علیہ السلام میں ظاہری خوبیوں کے ساتھ ان میں پنہاں خوبیوں کے کچھ آثار دکھائی دے رہے تھے، اوپر سے یوسف علیہ السلام کا خواب سن کر ان میں موجود غیر معمولی صلاحیتوں کا خیال مزید پختہ ہو گیا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے دلوں میں حسد کی چنگاری جو سلگ رہی تھی، وہ بڑھتے بڑھتے اک شعلہ جوالہ بن گئی ، جب انہوں نے اپنے نفس کی تسکین کے لیے، حسد کی آگ کو بجھانے کے لیے جو انہیں اندر سے جلائے جارہی تھی ، یوسف علیہ السلام کے خلاف اک منصوبہ تیار کیا کہ:
﴿ِ۟اقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا یَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِیْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ۝﴾ (يوسف:9)
’’کہنے لگے: چلو یوسف کو قتل کر دو، یا اسے کہیں پھینک دوتا کہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے، یہ کام کرنے کے بعد پھر نیک بن کے رہنا ۔‘‘
آگے بڑھنے سے پہلے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی اس سوچ اور طرز فکر پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ آج اسی طرز فکر کے حامل ہیں، یعنی یہ کہنا کہ یہ گناہ کر لیں پھر تو بہ کر کے نیک و پارسا بن جائیں گے۔ اصل میں یہ مسئلہ ہر اس شخص کا ہے جو خواہشات نفس کی غلامی بھی نہیں چھوڑنا چاہتا اور کچھ رشتہ دین سے بھی قائم رکھنا چاہتا ہے، مگر ترجیح وہ خواہشات نفس کو ہی دیتا ہے، البتہ دین کے معاملے میں وہ اپنے آپ کو یوں مطمئن کر لیتا ہے کہ کوئی بات نہیں، بعد میں تو یہ کرلوں گا۔ حالانکہ یہ شیطان کی خطرناک ترین چالوں میں سے ایک چال ہے، کیوں کہ کسے معلوم کہ تو بہ کا موقع ملے نہ ملے۔
تو یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کا قصہ تو طویل ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اس کا انتقام کچھ یوں ہوتا ہے کہ:
﴿فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰۤی اِلَیْهِ اَبَوَیْهِ وَ قَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَ﴾ (يوسف:99)
’’جب یوسف علیہ السلام کے بھائی اور ان کے والدین یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے، تو انہوں نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور سب سے کہا کہ چلو اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے۔‘‘
﴿وَ رَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَ خَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا ۚ﴾ (يوسف:100)
’’شہر میں داخل ہونے کے بعد اپنے والدین کو اٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھا لیا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں گر گئے ۔‘‘
﴿وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ ؗ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّا ؕ ﴾ (يوسف:100)
’’یوسف علیہ نے کہا: ابا جان! یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا۔‘‘
﴿وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ ؗ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّا ؕ وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ ؕ﴾ (يوسف: 100)
’’اور اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحراء سے لاکر مجھ سے ملایا، اس اختلاف اور فساد کے بعد جو شیطان کے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان ڈال دیا تھا۔‘‘
اب شیطان کی اس چال کی سنگینی اور شدت کو دیکھیں کہ ایک ایسے گھرانے میں اختلاف ڈال دیا کہ جہاں ان کی تربیت میں یقینًا کوئی کمی کوتاہی اور کسر نہیں چھوڑی گئی تھی، مگر شیطان نے ان کے دلوں میں حسد کی ایک چنگاری سلگا دی۔ اور اس اختلاف کے نتیجے میں یوسف علیہ السلام کو کن اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑا، یعقوب علی کی بیٹے کی جدائی کے غم میں بینائی جاتی رہی اور خودان حسد کرنے والوں کو شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا۔ اور شیطان کو سگے سوتیلے کا مسئلہ نہیں، وہ سگے بھائیوں میں بھی اختلافات ڈال دیتا ہے
کہ وہ ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اتفاق اور اتحاد اور پیار محبت سے رہنا اصل میں شیطان کو پسند ہی نہیں اور اس سے برداشت نہیں ہوتا۔ شیطان خود اور انسانوں میں سے اس کے ہم صفت ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ جہاں کچھ لوگ آپس میں ہنستے کھیلتے اور الفت و محبت سے رہتے ہوئے نظر آئیں تو ان میں کسی نہ کسی طرح پھوٹ ڈال دیں۔
آپ ﷺکے دور مبارک میں انصاری صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہ ایک جگہ گھل مل کر بیٹھے ہوئے تھے، اوس قبیلے کے لوگ بھی تھے اور خزرج کے بھی۔ قبیلے ایک یہودی شاس بن قیس کا وہاں سے گزر ہوا تو اسے صحابہ کرام اللہ کا باہم شیر و شکر ہو کر یوں بیٹھنا نا گوار گزرا تو اس نے ایک یہودی نوجوان کو بھیجا کہ ((فَاجْلِسَ مَعَهُمْ ثُمَّ اذْكُر يوم بعَاثَ))
’’کہ جا ان کے پاس جا کر بیٹھ اور پھر یوم بعاث کا ذکر چھیٹر دینا۔‘‘
یوم بعاث جگہ کی نسبت سے ایک جنگ کا نام ہے جو اوس اور خزرج قبیلے کے درمیان ہوئی تھی۔ اوس اور خزرج کے درمیان لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں اور یوم بعاث ہجرت سے پانچ سال پہلے ان کے درمیان ہونے والا آخری معرکہ تھا۔ پھر اسلام کی برکت سے وہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
اس الفت و محبت اور بھائی چارے کے ماحول میں وہ مل کر بیٹھے ہوئے تھے کہ اس یہودی نے ایک نوجوان کو بھیجا کہ جا، جا کے ان میں کسی طرح پھوٹ ڈال دے اور اس جنگ کے حوالے سے اس دور کے گرما گرم کچھ شعر بھی دہرا دینا، وہ گیا، اس نے ویسے ہی کیا، اوس و خزرج کے لوگوں کے زخم تازہ ہو گئے، قبائلی حمیت جاگ اٹھی ، دونوں قبیلوں کے افراد میں تلخ کلامی شروع ہو گئی حتی کہ لڑائی کے لیے تیار ہو گئے ۔
آپ سب کو معلوم ہوا تو آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:
((أَبِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ وَأَنَا بَينَ أَظْهُرِكُمْ)) (الرحيق المختوم ، ص:170)
’’یہ جاہلیت کی پکار جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ؟‘‘
اللہ تعالی نے تمہیں اسلام کی ہدایت بخشی ہے، تمہیں عزت سے نوازا ہے، جاہلانہ حمیتوں سے تمہیں بچایا ہے اور تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ہے۔
تب صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو احساس ہوا کہ یہ تو ایک شیطانی چال تھی پھر وہ ایک دوسرے سے گلے ملے اور معاملہ رفع دفع ہوا اور پہلے کی طرح بھائی بھائی ہوگئے۔ اور شیطان کی خواہش اور یہ کوشش کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کر دے، کسی بھی دور میں نہ رکی ہے اور نہ کم ہوئی ہے، امت مسلمہ کا حال ہمارے سامنے ہے، ملکوں میں تقسیم ہوئی صوبوں میں تقسیم ہوئی، مذہبی گروہوں میں تقسیم ہوئی، لسانی اور علاقائی تنظیموں میں تقسیم ہوئی اور تقسیم در تقسیم کا عمل مسلسل جاری ہے، اور آج مسلمانوں کے زوال، انحطاط، پستی اور ذلت و رسوائی کے اسباب میں یہ ایک بڑا سبب ہے، اور اس کے پیچھے یقینًا شیاطین الجن والانس کا ہاتھ ہے ورنہ اسلام تو اخوت و بھائی چارے کا دین ہے، اور صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو تمام تر علاقائی، لسانی، قبائلی اور طبقاتی تفریق کو ختم کر کے لوگوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے ، آپ سی ایم نے فرمایا:
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطْفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكٰى مِنْهُ عُضوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمّٰى)) (مسلم:2085)
’’مومنوں کی باہمی محبت، رحمدلی اور عاطفت کی مثال جسم کی سی ہے کہ جب جسم کے کسی عضو میں کوئی تکلیف پہنچے تو پورے جسم کے اعضاء اس کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو پکارتے ہوئے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
((إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا))(بخاری:481)
’’بے شک مؤمن مؤمن کے لیے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ۔ یعنی تمام اینٹیں اور گارا اگر مضبوطی سے ایک دوسرے کو تمام کر نہ رکھیں تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی ۔‘‘
تو یوں اسلام مسلمانوں کو آپس میں جوڑ کر رکھتا ہے اور اسلام کی یہ تعلیمات صرف ایک اخلاقی ترغیب دلانے کی حد تک محدود نہیں بلکہ اسلام اس پر عمل بھی کرواتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ:
((كَانَ النَّاسُ إِذَا نَزَلُوا مَنْزِلًا تَفَرَّقُوا فِي الشِّعَابِ وَالأَوْدِيَةِ))
’’ لوگ جب دوران سفر میں کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو گھاٹیوں اور وادیوں میں پھیل جاتے ۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ إِنَّ تَفَرُّقَكُمْ فِي هَذِهِ الشِّعَابِ وَالْأَوْدِيَةِ إِنَّمَا ذٰلِكُمْ مِنَ الشَّيْطَانِ)) (ابو داود: 2628)
’’تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمھارا یوں گھاٹیوں اور وادیوں میں متفرق ہو جانا شیطان کی وجہ سے ہے ۔‘‘
((فَلَمْ يَنْزِلُ بَعْدَ ذٰلِكَ مَنْزِلًا إِلَّا انْضَمَّ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ حَتّٰى يُقَالَ لَو بُسِطَ عَلَيْهِمْ ثَوبٌ لَعَمَّهُمْ))
’’پھر اس کے بعد وہ جب بھی کہیں رکتے اور پڑاؤ ڈالتے تو اس طرح آپس میں جڑ کر اور قریب قریب ہو کر بیٹھتے کہ یہ تک کہا جانے لگا کہ اگر ان کے اوپر ایک چادر ڈالی جائے تو سب اس کے اندر سما جا ئیں ۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………