باہمی تفریق و تحریش

﴿إِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً) (فاطر:6)

بات ہو رہی تھی کہ شیطان نے جزیرۃ العرب میں جب اسلام کے غلبے اور فیصلہ کن فتح کا منظر دیکھا اور جب

﴿وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ۝۲﴾ کے مصداق ہر طرف سے فوج در فوج اور جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے تو یہ سب کچھ دیکھ کر اس پر اک سکتہ سا طاری ہو گیا ور مایوسی چھا گئی ، اس مایوسی کے عالم میں اس نے فیصلہ کیا اور تہیہ کر لیا کہ اگر لوگوں کو کافر و مشرک بنانا ممکن نہ رہا تو کوئی بات نہیں، دو اپنی ساری توجہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کانے اور اکسانے پر مرکوز کر دے گا۔ یہاں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس حیلے اور حربے کو اس نے اپنی انسان دشمنی کے لیے کافی سمجھا اور اس پر اکتفا کر لیا، وہ اس کے لیے کتنا اہم ہو سکتا ہے اور انسان کے لیے کتنا سنگین اور خطرناک۔

اس کا یہ حربہ  یقینًا  دور رس اور گہرے اثرات اور تحسین نتائج رکھنے والا اک خطر ناک حربہ ہے، اس کے اس حربے کو سمجھنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ نظر آتا ہے۔ نہایت ہی سطحی سی بات کو اتنا بڑا مسئلہ بنا کے پیش کرنا کہ جس سے دو گروہ آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں، باہم دست و گریباں ہو جائیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں ، اس کے لیے اک آسان سا کام ہے مگر انسان کے لیے اسے سمجھتا نہایت مشکل۔

یہ حربہ کہ لوگوں کے درمیان نفرت اور عداوت پیدا کرنا، ان میں تفریق پیدا کرنا ، انہیں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا اور اکسانا، شیطان کے نزدیک کتنا محبوب اور پسندیدہ عمل ہے، آپ جانتے ہیں ، آپ نے وہ حدیث سنی ہوگی جس میں ہے کہ شیطان پانی پر اپنا عرش سجاتا ہے۔

((إِنَّ إِبْلِيسَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى الْمَاءِ ))

’’ابلیس پانی پر اپنا تخت لگاتا ہے ۔‘‘

((ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ ))

’’پھر وہاں سے وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے، لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے، ان میں فتنہ پیدا کرنے کے لیے۔‘‘

((فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُمْ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً)) (مسلم:2813)

’’ان میں سے سب سے زیادہ اس کا مقرب وہ ہوتا ہے، جو سب سے بڑا فتنہ پیدا کر سکے۔‘‘

 پھر وہ اپنی اپنی رپورٹ آکر پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے فلاں فلاں کام کیے ، مگر وہ کسی سے خوش نہیں ہوتا ، صرف اس سے خوش ہوتا ہے جو میاں بیوی کے درمیان تفریق پیدا کر کے آیا ہو، پھر ابلیس خوش ہو کر اسے گلے بھی لگاتا ہے، اور اس کی تعریف بھی کرتا ہے۔ تو لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا، بھڑ کا نا، اکسانا اور بر انگیختہ کرنا اس کا سب سے محبوب اور پسندیدہ عمل ہے، اس عمل پر اس نے اپنی ساری توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ جاننے کی ضرورت یہ ہے کہ وہ کسی طرح اپنے اس محبوب مشغلے کو عملی جامہ پہناتا ہے۔

اس کی  یقینًا  بہت کی صورتیں ہیں، ان میں سے چند ایک کچھ اس طرح ہیں کہ وہ لوگوں میں لسانی نسلی، علاقائی ، طبقاتی ، مذہبی اور دیگر عصبیتوں اور حمتوں کو ابھار کر اور ہوا دے کر آپس میں لڑاتا اور نفرتیں پیدا کرتا ہے، کبھی وہ شراب اور جوئے کے ذریعے لوگوں کے درمیان عداوت پیدا کرتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝﴾ (المائدة:90)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہ شراب اور جوا، اور یہ آستانے اور پانے، یہ سب نا پاک شیطانی کام ہیں ، ان سے پر ہیز کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۝﴾ (المائده: 91)

’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے، پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘

 اسی طرح شیطان اپنے اس حربے پر عمل کرنے کے لیے کبھی مزاح کا رستہ اختیار کرتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ بسا اوقات آپس میں مزاح اور دل لگی کرتے ہوئے بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، اس لیے کہ وہ مزاح اپنی حد سے تجاوز کر گیا ہوتا ہے۔

جس طرح ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، مزاح کی بھی ایک حد ہے، اس کے ضوابط ہیں، کسی کو طنز کرنا، کسی کا مذاق اڑانا کسی کی خامیاں بیان کر کے خوش ہوتا ، یہ کہاں کا مزاح ہے؟ یہ تو سراسر دوسرے کی رسوائی اور حقارت ہے جس میں دوسرے کو کم عقل اور اپنے سے کمتر بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ آج کل اکثر مزاح تو گناہ پر مشتمل ہوتے ہیں کیونکہ اس میں کسی نہ کسی طرح کوئی جھوٹ شامل ہوتا ہے، یا کسی کی دل آزاری ہوتی ہے، یا غیبت ہوتی ہے۔ اور اگر وہ دین کے حوالے سے ہو تو انسان کفر کا مرتکب ہو جاتا ہے، جیسے داڑھی یا حجاب کا مذاق اڑانا، نماز کا مذاق اڑانا کیونکہ ایسے شخص کے دل میں دین کا اگر احترام موجود ہو تو وہ ہرگز مذاق نہیں اڑائے گا۔ اور یہ انتہائی خطرناک بات ہے کہ آدمی اسے محض مزاح سمجھ رہا ہو جبکہ حقیقت میں وہکفر کا مرتکب ہو رہا ہو۔

﴿وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ ﴾ (التوبه: 65)

’’اور اگر ان سے پوچھو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔‘‘

﴿ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ۝۶۵﴾(التوبه:65)

’’ان سے کہو کیا تمہاری ہنسی، دل لگی اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی ؟‘‘

﴿ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ ؕ ﴾ (التوبه:66)

’’اب عذر نہ تر اشور تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔‘‘

آپ نے اندازہ کیا کہ شیطان کے اس حربے اور اس کی اس چال کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے، کیسے کیسے جال بن رکھے ہیں اس نے ، اور کیسی کیسی بھول بھلیوں سے گزار کر وہ انسان کو مقتل تک لے جاتا ہے۔

اور اسی طرح بھی وہ اصلاح اور خیر خواہی کے نام پر لوگوں کو ایک دوسرے کے ذاتی مسائل کریدنے اور ان کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کا جواز مہیا کرتا ہے اور پھر ان کی تشہیر کرواتا ہے، اور انہیں ایک دوسرے کا اپنی اپنی مجلس میں مذاق اڑانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

اسلام نے انسان کو آسان زندگی گزارنے کے بڑے گر بتا رکھے ہیں، مگر انسان ہے کہ اس نے  ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے مصداق پریشانیاں مول لینا اپنا محبوب مشغلہ بنا لیا ہے۔

اسلام کہتا ہے کہ ((مِنْ حُسْنِ إِسلام الْمَرْءِ تَرَكَهُ مَا لَا يَعْنِيْهِ)) (ترمذي:2317)

’’آدمی کے اسلام کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایسے معاملات سے تعرض نہ کرے کہ جن سے اس کا کوئی تعلق اور واسطہ نہ ہو۔‘‘

مگر وہ کہاں آرام سے بیٹھنے والا ہے، جب تک دن میں دو چار لوگوں کے معاملات کرید نہ لے اسے چین نہیں آتا، جب تک وہ دن میں چند لوگوں کی غیبت نہ کر لے ان کے عیب نہ اچھال لے اسے تسکین نہیں ہوتی۔

تو اس طرح شیطان کی اس ایک چال اور ایک حربے ’’التحريش‘‘ کی بہت سی صورتیں اور بہت سی شاخیں ہیں، جنہیں اپنی عقل سے سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے، لیکن اسلامی اصولوں کی پابندی میں ہی اس کا فہم پوشیدہ ہے اور اس کی تمام چالوں سے بچے کا واحد راستہ ہے۔ شیطان کا اکسانا اگر چہ فوری طور پر سمجھ نہیں آتا، کیونکہ وہ جس بات پر اکسا رہا ہوتا ہے اس کے جواز کے ایسے منطقی دلائل پیش کرتا ہے کہ انسان اس کی ہاں میں ہاں ملاتا چلا جاتا ہے، الا یہ کہ اللہ تعالی کی کسی پر خصوصی رحمت ہو، ورنہ ادھر شیطان اکساتا ہے، ادھر انسان کر گزرتا ہے، انسان پرسوں کے تعلقات کو اور کسی کے احسانات کو فراموش کرتے ہوئے شیطان کے اکسانے میں آجاتا ہے، اس کی روزمرہ کی زندگی میں بہت سی مثالیں ہیں۔

مگر لیجیے خیر القرون کے دور کی ایک مثال عرض کرتا ہوں، اُم المؤمنین صلية بنت حيي  رضی اللہ تعالی عنہ جو کہ غزوہ خیبر کے موقعے پر گرفتار ہو کر آنے والوں میں سے ایک تھیں، اصلاً یہودی تھیں، اپنے قبیلے کے سردار (حیی بن اخطب ) کی بیٹی تھیں۔

آپﷺ نے انہیں آزاد ہو کر اپنے بقیہ اہل خانہ کے پاس جانے یا مسلمان ہو کر شادی کر لینے میں اختیار دیا، تو انہوں نے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکو اختیار کیا۔

وہ مسلمان ہو ئیں ، آپﷺ سے شادی کی اور ام المؤمنین ہونے کا اعزاز پایاییان کیا جاتا ہے کہ ان کی ایک خادمہ اور لونڈی تھی،  وہ ایک بار حضرت عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ان کی شکایت لے کر آئی کہ:

((أَنَّ صَفِيَّةَ تُحِبُّ السَّبْتَ وَتَصِلُ الْيَهُودَ))

’’کہ حضرت صفیہ مناسبت کو یعنی ہفتے کے دن کو پسند کرتی ہیں اور یہودیوں کے ساتھ لین دین رکھتی ہیں ۔‘‘

((فبعث عُمر يسألها))

’’حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی کو بھیجا کہ وہ معلوم کر کے آئے کہ ایسا کیوں ہے؟‘‘

((قَالَتْ: أَمَّا السَّبْتُ فَإِنِّي لَمْ أَحِبَّهُ مُنْدُ أَنْ أَبْدَ لَنِي اللهُ بِهِ الجمعة))

’’تو فرمایا کہ جہاں تک ہفتے کے دن کا تعلق ہے تو میں اس دن سے لے کر کہ جب اللہ تعالی نے مجھے اس کے بدلے جمعہ عطا فرمایا ہے، ہفتے کو پسند نہیں کرتی۔‘‘

((وَأَمَّا الْيَهُودُ فَإِنَّ لِي فِيهِمْ رَحِمًا وَأَنَا أَصِلُهَا))

’’اور جو یہودی ہیں ان میں میرے رشتہ دار بھی ہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتی ہوں۔‘‘

پھر اس لونڈی کو مخاطب ہو کر فرمایا:

((يَا جَارِيَة مَا حَمَلَكِ عَلَى مَا صَنَعْتِ؟))

’’اے لڑکی! تو نے یہ جو کچھ کیا ہے، تمہیں کسی چیز نے اس پر برانگیختہ کیا ہے؟‘‘

تب اس لڑکی کو احساس ہوا کہ شیطان اپنی چال چل گیا ، تو کہنے لگی:

((الشَّيْطَانُ))

’’شیطان نے ۔‘‘

((قَالَتْ: إِذْهَبي فَأَنْتِ حُرَّةٌ)) (رحمة للعالمين ، ص: 428 ( عربي ایڈیشن)

’’تو حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا: جاؤ تم آزاد ہو۔‘‘

سبحان اللہ! کہاں اس لونڈی کا کردار اور کہاں ام المؤمنين صفيہ  بنت حُي رضی اللہ تعالی عنہا کا اخلاق۔

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات سے تاریخ اسلامی بھری پڑی ہے اور قرون اولی کے لوگ تو بالخصوص صحابہ اور صحابیات پیر نے ان کے اخلاق و کردار کے کیا ہی کہنے، وہ تو عظیم لوگ تھے۔ اس دور کے نیک لوگوں کے واقعات سنیں اور پڑھیں تو ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔

یہ حقیقت میں انسان کی زندگی میں ایک بہت ہی مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے کہ جب اسے دوسری جانب سے نہایت اذیت ناک موقف سے دو چار کیا گیا ہو تو انسان نہ صرف صبر و تحمل اور برداشت سے کام لے بلکہ اس پر احسان بھی کر دے!

شدید غصے کی حالت میں انسان کو اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا، کیونکہ شیطان اپنا کام کر رہا ہوتا ہے۔ حضرت سلیمان بن صُر د رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں

(( قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلَانِ يَسْتَبَّانِ))

’’میں آپ ﷺکے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے تھے، گالم گلوچ کر رہے تھے۔‘‘

(( فَأَحَدُهُمَا إِحْمَرَّ وَجْهُهُ وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ ))

’’ان میں ایک کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور اس کی گردن کی رگیں پھول رہی تھیں ۔‘‘

 ((فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا ذهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ ، لَوْ قَالَ أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ذَهَبَ عَنْهُ ما يَجِدُ))

’’تو آپ ﷺنے فرمایا: میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں ، اگر یہ شخص وہ الفاظ کہہ لے تو اس کی یہ کیفیت جاتی رہے، اگر یہ اعوذ بالله من الشيطان الرحیم کہہ لے تو اس کی غصے سے یہ جو حالت ہو رہی ہے وہ ختم ہو جائے ۔‘‘

 ((فَقَالُوا لَهُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَعَوَّذُ بِاللهِ مِنَ الشيطان)) (بخاری:3282)

’’تو لوگوں نے اسے بتایا کہ آپﷺ فرما رہے ہیں کہ اعوذ بالله من الشيطان الرجيم کہو۔‘‘

شدید غصے کی حالت میں بسا اوقات انسان وہ باتیں کہہ جاتا ہے کہ جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا اور نہ اسے زیب دیتی ہیں مگر ایسے ہوتا ہے کیونکہ شیطان کے لیے وہ بہترین موقع ہوتا ہے کہ جب وہ دو آدمیوں کو آپس میں ایک دوسرے کو جسمانی یا روحانی اذیت پہنچانے میں کامیاب کر سکتا ہے۔

آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ بہت سی مائیں غصے کی حالت میں اپنے بچوں کو مارنے کے ساتھ انہیں بددعا میں بھی دیتی ہیں حالانکہ حدیث میں منع کیا گیا ہے۔

آپ ﷺنے فرمایا:

((لَا تَدْعُوا عَلَى انْفُسِكُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلٰى أَوْلَادِكُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلٰى أَمْوَالِكُمْ لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللهِ سَاعَةً يُسْأَلُ فِيهَا عَطَاهُ فَيَسْتَجِيْبَ لَكُمْ)) (مسلم:3006)

’’اپنے آپ پر بددعا نہ کرو، اپنی اولاد کو بددعا نہ دو، اپنے مالوں کو بد دعا نہ دو کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالی کے ہاں قبولیت دعاء کے وقت کی موافقت نہ ہو جائے ۔‘‘

 یعنی جس وقت تم کسی کو بد دعاء دے رہے ہو تو وہ وقت ایسا نہ ہو کہ جس میں اللہ تعالی سے مانگی جانے والی دعاء قبول ہوتی ہو، کیوں کہ شیطان اپنے بہت سے اہداف انسان کو غصہ دلا کر پورے کرتا ہے۔

لہٰذا شیطان کی چالوں سے بچنے کے لیے اس کی چالوں کو سمجھنا ضروری ہے ، اور اس کی چالوں میں ایک چال جو کہ بظاہر معمولی معلوم ہوتی ہے لیکن وہ نہایت ہی خطرناک چال ہے اور وہ ہے ؟ ’’التحریش بینهم‘‘ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اکسانا ، ایک دوسرے میں پھوٹ ڈالنا ، لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت ، عداوت، بغض ، حسد اور کینہ وغیر پیدا کرنا ، چنانچہ جو شخص شیطان کی چالوں سے بچنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ شیطان کو اپنا دشمن سمجھے، اس کی چالوں کو سنجیدہ لے اور ان سے مکمل اجتناب کرے ۔

وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

…………..