بڑھتی ہوئی مہنگائی میں گھر کا نظام کیسے چلایا جائے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا [الفرقان 67]
اور وہ لوگ( عباد الرحمن ہیں )کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔…
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالْبَسُوا وَتَصَدَّقُوا فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا مَخِيلَةٍ
کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو فضول خرچی اور بخل کے بغیر
ابو داؤد و علقہ البخاری
حضرات
ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے تو دوسری طرف عوام و خواص اپنی زندگی میں میانہ روی سے محروم اور بے اعتدالی کا شکار ہیں۔ عیاشی کا سامان، زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ ’’اسٹیٹس‘‘ برقرار رکھنے کی ہوس زور پکڑنے لگی ہے، ایسے حالات میں اپنی زندگی کو پرامن اور لطف اندوز بنانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں
فضول خرچی، تبذير، بخل اور اعتدال
کسی کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا مثلاً کھانے پینے یا لباس یا مکان یا شادی بیاہ وغیرہ پر بےدریغ خرچ کرنا (ایک بلب کی ضرورت ہو تو زیادہ بلب لگا دینا، تھوڑے پانی سے کام چلتا ہو تو بےدریغ پانی بہا دینا) فضول خرچی ہے
پھر اس کی ایک قسم تبذیر ہے، جس کا معنی ہے بلاضرورت خرچ کرنا، مثلاً دن کو بھی گلی میں بلب جلائے رکھنا، یا پانی کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دینا۔ اسی طرح ناجائز کاموں میں خرچ کرنا بھی تبذیر ہے، جیسے شراب، زنا، جوئے، گانے بجانے یا آتش بازی وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔
فضول خرچی کی ضد ” بخل “ ہے، یعنی خرچ میں تنگی کرنا، طاقت ہوتے ہوئے بھی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنا، اپنی ذات اور اہل و عیال کی جائز ضروریات میں بھی بخل کرنا۔
فضول خرچی اور بخل کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاد (میانہ روی) ہے، یعنی اتنا خرچ کرنا جتنی ضرورت ہے اور جتنی ہمت ہے۔
(از استاذ گرامی الشیخ عبدالسلام بن محمد بھٹوی حفظہ اللہ تعالیٰ )
سادگی اور کفایت شعاری کے لیے چند اسلامی تعلیمات
دنیا میں مسافر کی طرح رہیں
فضول خرچی سے بچنے کے لیے دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہیے
کیونکہ ایسا کرنے سے انسان کافی حد تک تکلفات، لگژری اسٹائل اور بے جا سہولیات سے اپنے آپ کو بچا کر رکھتا ہے جس کے نتیجے میں زندگی بے حد آسان ہو جاتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلِ [بخاری]
دنیا میں ایسے رہو جیسے آپ اجنبی یا مسافر ہیں
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
(( نَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلٰی حَصِيْرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِيْ جَنْبِهِ، فَقُلْنَا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! لَوِ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً، فَقَالَ مَا لِيْ وَ لِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلاَّ كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا)) [ ترمذی، الزھد، باب حدیث ما الدنیا إلا کراکب استظل : ۲۳۷۷ ]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر سوئے، اٹھے تو چٹائی نے آپ کے پہلو پر اپنے نشان لگا دیے تھے۔ ہم نے عرض کی : ’’یا رسول اللہ! اگر ہم آپ کے لیے نرم بستر بنا دیں تو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میرا اور دنیا کا کیا تعلق! میں تو دنیا میں محض اس سوار کی طرح ہوں جس نے ایک درخت کے سائے میں آرام کیا، پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیا۔‘‘
شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں
”ہم نے عیش و عشرت کی زندگی بھی گزاری ہے اور اس سے قبل بے سرو سامانی کی بھی۔ اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پچھلی زندگی کہیں خوبصورت تھی۔ اب جسمانی راحت کے سب اسباب میسر ہیں، ٹھنڈا پانی، آرام دہ چھت، اور عالیشان گاڑیاں، مگر اب دل میں چین و سکون اور دل کے اللہ سے تعلق کی وہ پہلی سی کیفیت نہیں رہی۔“ ( التعليق على مسلم : ١٨/٧)
امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کا سفر حج بغیر کسی پروٹوکول کے
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حج کے دوران مدینہ سے مکہ تک میں عمر بن خطاب کے ساتھ رہا ہم حج سے واپس بھی آگئے لیکن راستے میں آپ کے لیے کہیں کوئی شامیانہ یا خیمہ نہیں لگایا گیا بلکہ چادر اور چٹائی وغیرہ درخت پر ڈال دیتے اور آپ اس کے نیچے بیٹھ کر سایہ حاصل کر لیتے تھے…. الطبقات لابن سعد 279/3، اسنادہ صحیح
اپنے سے کمزور اور غریب لوگوں کی طرف دیکھتے رہیے
اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے پاس موجود نعمتوں پر صابر شاکر اور قانع بن جاتا ہے اور مالدار لوگوں جیسی سہولیات اپنانے کے لیے نہ قرضے لیتا ہے اور نہ ہی بے صبرا ہوکر مہنگائی کا شور ڈالتے ہوئے جزع فزع کرتا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ عَلَيْكُمْ [مسلم]
"” اس کی طرف دیکھو جو ( مال اور جمال میں ) تم سے کمتر ہے ، اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے ، یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے ۔ "”
”نوجوان طبقے میں ڈپریشن اور تنہائی پسندی کا ایک سبب ان کا ایسے مشاہیر، (سٹارز، ہیروز) کے پیچھے لگنا ہے جن کا مقصد ہی کھانوں ، زرق برق کپڑوں، سیر سپاٹوں اور انجمن آرائیوں (parties) کا اظہار اور تشہیر کرنا ہے۔ ان کے پیچھے لگ کر نوجوان اپنے حالات کا ان سے موازنہ کرنے لگتے ہیں، پھر محرومی کا احساس انہیں گھیر لیتا ہے، اور بعض دفعہ وہ گھر سے ہی باغی ہو جاتے ہیں! سو یہ لوگ جنہیں ہم مشاہیر سمجھتے ہیں، یہ دراصل ہمارے پر سکون معاشروں کی نحوست ہیں۔“ (دکتور حسن الفيفي حفظه الله)
فضول خرچی کی شرعی مذمت کو سامنے رکھیں
تبذیر( بلا ضرورت فضول خرچی) شیطانی کام ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا [الإسراء – آیت 26]
اور مت بےجا خرچ کر، بےجا خرچ کرنا۔
اِنَّ الۡمُبَذِّرِيۡنَ كَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّيٰطِيۡنِ ؕ وَكَانَ الشَّيۡطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوۡرًا [الإسراء – آیت 27]
بیشک بےجا خرچ کرنے والے ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔
کھجوریں اور جو کی روٹی کھا کر چٹائی پر سونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ}
تم سے ایک دن تمام نعمتوں کی بابت لازماً پوچھا جائے گا۔
فضول خرچی کرتے وقت ذرا سوچیے کہ پھر ہمارا کیا بنے گا !!
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"”إِنَّ رِجَالًا يَتَخَوَّضُونَ فِي مَالِ اللَّهِ بِغَيْرِ حَقٍّ، فَلَهُمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ””. [بخاری]
کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے مال کو بے جا اڑاتے ہیں ‘ انہیں قیامت کے دن آگ ملے گی۔
خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کیجئے
بعض تنخواہ دار طبقے کو دیکھا گیا ہے کہ مہینے کے شروع میں بے جا فضول خرچی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پہلے پندرہ بیس دنوں میں تنخواہ ختم کر بیٹھتے ہیں اور پھر اگلے دس دن یا تو انتہائی بخیلی سے گزارتے ہیں یا پھر کسی سے قرض مانگ کر گزارا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر ماہ مسلسل قرض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بعض تاجر و کاروباری لوگوں کا بھی یہی حال ہے کہ سیزن میں خوب عیاشیاں اور آؤٹ آف سیزن میں بخل یا پھر مانگ تانگ کر گزر بسر کرتے ہیں
بہترین لائف اسٹائل یہ ہے کہ اپنی تنخواہ یا انکم میں گزارا کیا جائے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَلَا تَجۡعَلۡ يَدَكَ مَغۡلُوۡلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا [الإسراء – آیت 29]
اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کرلے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔
یعنی بالکل بخیلی کرو گے تو خالق و مخلوق دونوں کے ہاں ملامت کیے ہوئے بن جاؤ گے اور پورا ہاتھ کھول دو گے اور سب کچھ دے کر خالی ہاتھ ہوجاؤ گے تو اہل و عیال کی ملامت کے ساتھ ساتھ زندگی کی دوڑ میں تھک ہار کر بیٹھ رہو گے، پھر ممکن ہے کہ بھیک مانگنے تک کی نوبت آجائے۔ سب سے بہتر میانہ روی ہے، جیسا کہ فرمایا :
(وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ) [ الفرقان : ٦٧ ]
” اور وہ لوگ (عباد الرحمان ہیں) کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔ “
از تفسیر القرآن الكريم
کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کریں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِيۡنَتَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ وَّكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ المسرفین
[الأعراف – آیت 31]
اے آدم کی اولاد ! ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ گزرو، بیشک وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ کھانے پینے میں بےاحتیاطی تو اکثر بیماریوں کی جڑ اور دنیا و آخرت دونوں میں نقصان دہ ہے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
” کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو بغیر اسراف کے اور بغیر تکبر کے۔“ ( بخاری )
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يَبِيتُ اللَّيَالِي الْمُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَأَهْلُهُ لَا يَجِدُونَ عَشَاءً وَكَانَ أَكْثَرُ خُبْزِهِمْ خُبْزَ الشَّعِيرِ[ترمذی]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے مسلسل کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے، اور رات کا کھانا نہیں پاتے تھے۔ اور ان کی اکثر خوراک جو کی روٹی ہوتی تھی۔
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ، فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ [ أحمد : ٤؍١٣٢، ح : ١٧١٩١۔ ترمذی : ٢٣٨٠، صحیح ]
” ابن آدم نے پیٹ سے برا کوئی برتن نہیں بھرا، ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں، اگر ضرور ہی کھانا ہے تو ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے ہے۔ “
نوٹ… کبھی زیادہ دیر کا بھوکا ہو تو زیادہ بھی کھا سکتا ہے، جیسا کہ احادیث سے بعض مواقع پر ثابت ہے
روزانہ گوشت کھانا
عمر رضی اللہ عنہ، لوگوں کو کفائت شعاری سکھانے کے لئے روزانہ گوشت کھانے سے منع کیا کرتے تھے
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ذبیحہ خانہ( سلاٹر ہاؤس )آتے تھے اس وقت مدینہ میں وہی ایک ذبیحہ خانہ تھا آپ کے پاس درہ ہوتا تھا اگر آپ کسی آدمی کو مسلسل دو دن گوشت خریدتے دیکھتے تو اسے درہ لگاتے اور کہتے کیا تم اپنے شکم کو اپنے پڑوسی اور چچا زاد بھائی کے لیے سمیٹ نہیں سکتے….
الدور السياسي، مناقب امیر المومنین لابن الجوزي، سیرت عمر بن الخطاب للصلابی
بعض گھروں کی یہ کیفیت ہے کہ ہرروز گوشت پکاتے ہیں ایک تو یہ تعیش میں آتا ہے دوسرا طبی لحاظ سے جسمانی صحت کے لیے بھی موزوں نہیں ہے
اگر کسی گھر میں ایک ہفتے میں دو مرتبہ گوشت پکتا ہے تو وہ ایک مرتبہ پکانا شروع کر دیں پھر دیکھنا مہنگائی کا احساس خود بخود ختم ہو جائے گا
کھانہ ہوٹل کی بجائے گھر میں کھائیں
ہوٹلنگ، جدید دور کا ایک فیشن بن چکا ہے یہ پیسے اور صحت کے ضیاع کا بہت بڑا زریعہ ہے ہوٹل میں کھانہ کھانے جائیں تو مارکیٹ میں اگر بکرے کا گوشت پندرہ سو روپے کلو ہے تو ہوٹل والے تین ہزار روپے کلو دیں گے پھر آدھ پاؤ سے بھی کم دھی رائتے کی شکل میں ساٹھ ستر روپے کا ملتا ہے گھر میں پانی فری مل جاتا ہے جبکہ ہوٹل والے منرل واٹر کی شکل میں پانی کے بھی سو ڈیڑھ سو بٹور لیتے ہیں کھیرے، ٹماٹر اور پیاز پر مشتمل سلاد جس کی لاگت بمشکل پندرہ بیس روپے ہوگی وہ بھی پچاس ساٹھ سے کم نہیں دیتے، گھر میں شاید کبھی کولڈ ڈرنک کی طرف خیال بھی نہ جائے مگر ہوٹل میں یہ بھی کھانے کا جزو لازم بن جاتا ہے پھر گھر میں بچا ہوا کھانہ اگلے ٹائم پہ کام آجاتا ہے جبکہ ہوٹل میں جو بچ گیا وہ ضائع ہو گیا ہوٹل تک آنے جانے کا کرایہ، وقت کا ضیاع، آس پاس بیٹھے لوگوں کے سگریٹ کے دھویں، میوزک، سروس چارجز اور ٹپس کے معاملات الگ ہیں الغرض ہوٹل پر کھانا کھانا گھر میں کھانا کھانے سے پانچ گنا زیادہ مہنگا پڑتا ہے اور مستزاد یہ کہ انتہائی ناقص کوکنگ آئل اور تیز مصالحہ جات استعمال کیے جاتے ہیں جو انسانی طبیعت کے لیے بے حد مضر ہیں
احسن اقبال، چائے کی پیالی اور قوم کا مزاج
پچھلے دنوں احسن اقبال نے بہت اچھی بات کہی تھی اس نے کہا کہ اگر ہم اپنی چائے کی مقدار کم کردیں تو یہ ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لیے بہت اھم قدم ہوگا دیکھا جائے تو یہ بہت اچھی بات ہے بلکہ اسلامی مزاج کے عین مطابق ہے
مگر
افسوس کہ سوشل میڈیا نے ہمارے مزاج کو کس حد تک بگاڑ دیا ہے اور مخالفت و تعصب میں ہم اتنے گر گئے ہیں کہ ہمارے اخلاق کا جنازہ نکال چکا ہے حالانکہ اچھی بات تو شیطان بھی بتا دے تو قبول کرنے میں حرج نہیں ہے
قوم نے اس بیان کا مزاق بنا کر ایسا کچومر نکالا کہ بیان دینے والا بھی سوچتا ہے میں کیا غلطی کر بیٹھا ہوں
نازو نعم اور عیش پرستی سے دور رہ کر جفاکش بنیں
عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ نے آذربائیجان سے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے پرتکلف کھانہ بھیجا، میدے کی روٹیوں کے اوپر شوربا اور شوربے کے اوپر مکھن تھا آپ نے کھانہ لانے والوں سے پوچھا کہ کیا وہاں تمام مہاجرین اسی طرح کے کھانے کھاتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ صرف امیر المومنین کے لیے خاص طور پر بھیجا گیا ہے، تو آپ نے عتبہ کے نام خط لکھا
يَا عُتْبَةُ بْنَ فَرْقَدٍ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَدِّكَ وَلَا مِنْ كَدِّ أَبِيكَ وَلَا مِنْ كَدِّ أُمِّكَ فَأَشْبِعْ الْمُسْلِمِينَ فِي رِحَالِهِمْ مِمَّا تَشْبَعُ مِنْهُ فِي رَحْلِكَ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَعُّمَ وَزِيَّ أَهْلِ الشِّرْكِ وَلَبُوسَ الْحَرِيرَ
اے عتبہ بن فرقد یہ کمائی آپ کی ہے نہ آپ کے باپ کی اور نہ ہی آپ کی ماں کی ہے آپ مسلمانوں کو بھی وہی کھلاؤ جو اپنے گھر میں خود کھاتے ہو، نازو نعم، اھل شرک کے طرز زندگی، اور ریشم پہننے سے بچو
وفی روایۃ
قَالَ اتَّزِرُوا وَارْتَدُوا وَانْتَعِلُوا وَأَلْقُوا الْخِفَافَ وَالسَّرَاوِيلَاتِ وَأَلْقُوا الرُّكُبَ وَانْزُوا نَزْوًا وَعَلَيْكُمْ بِالْمَعَدِّيَّةِ وَارْمُوا الْأَغْرَاضَ وَذَرُوا التَّنَعُّمَ وَزِيَّ الْعَجَمِ وَإِيَّاكُمْ وَالْحَرِيرَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْهُ وَقَالَ لَا تَلْبَسُوا مِنْ الْحَرِيرِ إِلَّا مَا كَانَ هَكَذَا وَأَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعَيْهِ [المصدر : تخريج المسند لشاكر | الصفحة أو الرقم : 1/153 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح]
تہ بند باندھو، چادریں اوڑھ لو، سخت جوتے پہنو، نرم جوتے اور شلواریں پہننا چھوڑ دو( اس دور میں شلوار پہننا فیشن ، تکلف اور عجمی طرز سمجھی جاتی تھی )گھوڑے پر سوار ہونے والی رکاب (پائیدان) کاٹ دو اور جمپ لے کر سوار ہوا کرو معد بن عدنان کی طرح کا سخت لباس پہنو، تیر اندازی کرو،
نازو نعم اور عجمی طرز زندگی چھوڑ دو،
اور ریشم پہننے سے بچو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہننے سے منع کیا ہے
اور ایک روایت میں ہے آپ نے فرمایا :
وعليكم بالشمس فإنها حمام العرب……… واخشوشنوا
دھوپ میں کام کیا کرو کیونکہ وہ عربوں کا حمام ہے،اور (جسمانی طور پر ) سخت کھردرے بن جاؤ
[مسند ابی عوانہ، السنن الکبری للبیھقی، إسناده صحیح، انساب الاشراف للبلاذری]
محدث ناصر الدين الألباني رحمه الله فرماتے ہیں
"یہ نسل جو ناز و نعم اور دنیا بھر کی آسائشوں میں پل کر جوان ہو رہی ہے، بہت مشکل ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرے!”
[متفرقات(شريط : ١٨٨)|
حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کا اندازِ تربیت
مفتی محمد یوسف طیبی حفظہ اللہ تعالیٰ سے سنا ہے کہ امیر محترم پروفیسر حافظ محمد سعید اور پروفیسر عبدالرحمن مکی حفظھما اللہ، حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کے زیرِ پرورش وزیر تربیت تھے حافظ صاحب نے ان صاحبزادگان پر چار قسم کی پابندیاں لگا رکھی تھیں
1 اپنے سر کی ٹنڈ کرواکے رکھنی ہے
2 سائیکل کی بجائے پیدل چلنا ہے
3 پنکھے کے نیچے نہیں بیٹھنا
4 کپڑے استری کرکے نہیں پہننے
کہتے ہیں سونے کو کندن بننے کے لیے بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے
آج ہماری قیادت کے یہ ہیرے اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں
انبیاء کرام علیہم السلام نے بکریاں کیوں چرائیں
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَاعِيَ غَنَمٍ
(سنن ابن ماجه | كِتَابُ التِّجَارَاتِ | 2149)
"اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے بکریاں چروائیں”
شائد کہ اس میں بھی یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالی اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سخت جان، جفاکش اور بہادر بنانا چاہتے تھے
الغرض انسان جتنا جفاکش، محنت کش اور سہولیات سے دور رہ کر سادہ زندگی گزارنے والا ہوگا اتنا ہی قناعت والا ہوگا
نہ صرف یہ کہ پرتکلف کھانہ بلکہ پرتکلف برتنوں سے بھی اجتناب کریں
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مدائن کی فتح کے بعد وہاں کے ایک کسان سے پانی مانگا تو وہ چاندی کے پرتکلف برتن میں پانی لایا تو انہوں نے پانی سمیت برتن پھینک دیا اور فرمایا
َإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَشْرَبُوا فِي إِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَا تَلْبَسُوا الدِّيبَاجَ وَالْحَرِيرَ فَإِنَّهُ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَهُوَ لَكُمْ فِي الْآخِرَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ…
تم سونے اور چاندی کے برتنوں میں مت پیو اور نہ ہی تم حریر و دیباج پہنو کیونکہ یہ دنیا میں کفار کے لیے ہیں اور تمہارے( مسلمانوں )لیے قیامت کے دن آخرت میں ہیں
مسلم، مسند احمد، مسند ابی عوانہ
شیشے کے برتن
چند سالوں سے ایک اور فیشن تقریباً ہرگھر میں جگہ پکڑ چکا ہے اور وہ ہے شیشے کے برتنوں کا ڈنر سیٹ، ہم اسے حرام تو نہیں کہتے مگر اس کے لازمی اہتمام کے پیچھے پڑ کر اپنے آپ کو تکلف میں ڈالنا درست نہیں ہے
یہ مہنگے برتن ہوتے ہیں اور انتہائی نازک ہوتے ہیں بس جونہی ہاتھ سے گرا فورا ٹوٹ گیا اور پھر اگلی مصیبت یہ کہ پورے سیٹ میں سے ایک برتن بھی ٹوٹ گیا تو سمجھا یہ جاتا ہے کہ لو جی اب تو سارا سیٹ ہی خراب ہو گیا ہے لھذا اس ایک برتن کی وجہ سے پورا سیٹ نیا خریدا جائے گا اور اگلی مصیبت یہ کہ ابھی ایک سال نہیں گزرتا کہ یہ خیال آنے لگتا ہے کہ اب تو یہ ڈیزائن پرانا ہو چکا ہے اس لیے نئے کی تلاش شروع کی جائے اور پھر(بیٹھک) گیسٹ روم میں پڑے صوفے، بیڈ، پردوں، الماریوں اور ڈریسنگ کے ساتھ برتنوں کے کَلَر کی میچنگ ان سب سے بڑی مصیبت ہے
تکلف سے بچیں
یہ اور اس طرح کے دیگر تکلفات نے لوگوں کی زندگیوں میں عجیب پریشانی کھڑی کررکھی ہے
انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا :
نُهِينَا عَنْ التَّكَلُّفِ (بخاری ،كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ 7293)
کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے
سادگی میں اپنا ہی مزہ ہے
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے یہاں ہمارے پاس مرکز میں گورنر پنجاب تشریف لائے تھے ان دنوں پنجاب کے گورنر خالد مقبول صاحب تھے انہیں مرکز میں انتہائی بے تکلف کھانا پیش کیا گیا کوئی لمبا چوڑا دسترخوان لگایا نہ ہی درجن بھر برتنوں کی نمائش کی گئی بس ایک بڑی پرات میں سالن، بڑے جگ میں پانی اور چھابی میں روٹیاں، گورنر صاحب نے جب کھانا کھا لیا تو کہنے لگے بڑے بڑے فائیو سٹار ہوٹلوں میں کھانا کھایا ہے مگر جو مزہ یہاں آیا وہ کہیں بھی نہیں ملا
سولہ سو کے سولہ جوتے
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک ہیں آپ کی سادگی کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود انتہائی سادہ لباس اور پلاسٹک کے بوٹ استعمال کرتے رہے حتی کہ جن دنوں آپ جماعت کے امیر مقرر ہوئے اور بہت سے وفود آپ سے ملاقات کے لیے بھی آتے تھے ان دنوں بھی آپ اسی طرز زندگی پر گامزن رہے کسی نے حافظ صاحب سے کہا کہ آپ کوئی اعلی کوالٹی کا مہنگا جوتا لے لیں تو اپنے خاص انداز میں فرمانے لگے :”مولوی صاحب کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ سولہ سو کا ایک جوتا لے کر پھر ہروقت اس کی حفاظت کے چکر میں رہنے کی بجائے سولہ سو کے سولہ جوتے خرید لیے جائیں اور اٹھائے جانے کے غم سے بھی بے فکر رہیں”
آٹھ درہم کا جوتا
امام شعبہ رحمہ اللہ نے ایک شخص کو بڑی مہنگی قمیض پہنے دیکھا تو پوچھا :
کتنے کی لی ہے
کہنے لگا :
آٹھ درہم کی
کہنے لگے افسوس ہے تم پر اللہ سے ڈر نہیں لگتا آٹھ درہم کی قمیص پہنتے ہو
چار درہم کی قمیض خرید کر باقی چار درہم صدقہ کیوں نہیں کیے
[المنتظم لابن جوزی 244/8]
امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کا سادہ لباس
ایک مرتبہ آپ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے حالانکہ آپ خلیفہ تھے اور آپ کے تہبند میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے… [الزهد للإمام أحمد ص124]
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو، جبکہ وہ امیر المومنین تھے اس حالت میں دیکھا کہ ان کی قمیص پر دونوں کاندھوں کے درمیان تین پیوند لگے ہوئے تھے… [الطبقات لابن سعد 249/3، تاریخ دمشق، اسنادہ صحیح]
7 کروڑ سے سویمنگ پول کی ریپیئرنگ
پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ گرمی کے موسم کے آغاز میں کسی بڑے ہاؤس میں موجود نہانے کے تالاب کو ریپیئر کروانے کے لیے 7 کروڑ روپے خرچ کر دیئے گئے
اللہ کی پناہ ایسی فضول خرچی سے، یہ اس قوم کا حال ہے جس کے عوام و حکام دن رات مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں
اس حوالے سے ایک اھم واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں عمر رضی اللہ عنہ نے عياض بن غنم رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر بنایا تو انہوں نے وہاں اپنے لیے ایک اعلی قسم کا حمام بنایا، عمر رضی اللہ عنہ کو پتا چلا تو آپ نے انہیں بلا کر دو ماہ کے لیے بیت المال کی بکریاں چرانے پر مقرر کر دیا… الولاية علی البلدان 130/2
مسئلہ غربت کا نہیں بلکہ مسئلہ خواہش پرستی کا ہے
ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی غربت کیوں ھے؟
جواب
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا شور ھے۔ ۔
آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہش پورا نہ ہونے کو بولتے ہیں۔۔
ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (سواگہ) لگایا کرتے تھے۔۔
(سلیٹ) پر سیاہی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (سیل کا سکہ) استمعال کرتے تھے۔
اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہ صرف عید پر لیتے تھے۔
اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔
کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔
جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔
اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔
گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔۔
کیا آج ہم غریب ہیں
آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے۔۔
مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے۔ ۔
آج تو اسکول کے بچوں کے ہفتے کے سات دنوں کے سات جوڑے استری کر کے گھر رکھے ہوتے ہیں۔ ۔
روزانہ نیا جوڑا پہن کر جاتے ہیں۔
آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔۔
پچھلے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔۔
آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ھے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا…
غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے…
آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ھے..
اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں
غریب ہوں۔
آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے.
ہم ناشکرے ہوگئے ہیں, اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں.
” سچ بات یہ ہے کہ پہلے درجہ بندی کم تھی معاشرتی اسٹیٹس کم و بیش ایک جیسا تھا ، توکل بہت تھا، باہمی ہمدردی زیادہ تھی، مل کر رہنا اچھا سمجھتے تھے جبکہ آجکل تنہائی پسندی ہے، علم کم مگر عمل بہتر تھا ۔
اس دور میں اللہ کی نعمتیں بدرجہا زیادہ ہیں لیکن اکثر شکر ، توکل اور باہمی تعلقات کمزور ہیں۔”
خواتین اپنے خاوندوں سے مطالبات کم کردیں
مہنگائی کے اس دور میں تھوڑی آمدنی کے باوجود گھر کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے خواتین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اگرچہ فضول خرچی کرنے میں مرد حضرات کی الگ سے ایک داستان ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بے شمار گھروں میں بہت سا پیسا خواتین کی بے جا ڈیمانڈ کی نظر بھی ہوجاتا ہے
سیدنا ابوسعید اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ لمبا خطبہ دیا، دنیوی اور اخروی امور کا تذکرہ کیا اور فرمایا:
إنَّ أوَّلَ ما هلك بنو إسرائيلَ أنَّ امرأةَ الفقيرِ كانت تُكلِّفُه من الثِّيابِ أو الصِّيَغِ أو قال : من الصِّيغةِ ما تُكلِّفُ امرأةُ الغنيِّ ، فذكر امرأةً من بني إسرائيلَ كانت قصيرةً ، واتَّخذت رِجلَيْن من خشبٍ ، وخاتمًا له غلقٌ وطبقٌ، وحشته مِسكًا ، وخرجت بين امرأتَيْن طويليتَيْن أو جسيمتَيْن ، فبعثوا إنسانًا يتبعُهم ، فعرف الطويليتَيْن ولم يعرِفْ صاحبةَ الرِّجلَيْن من الخشبِ [الراوي : أبو سعيد الخدري أو جابر بن عبدالله. المحدث : الألباني. المصدر : السلسلة الصحيحة. الصفحة أو الرقم: 591. خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح على شرط مسلم]
”سب سے پہلے بنو اسرائیل یوں ہلاک ہوئے کہ ایک غریب آدمی کی بیوی کپڑوں یا زیورات کے بارے میں اپنے خاوند کو مالدار آدمی کی بیوی کی طرح تکلیف دیتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسرائیل کی کوتاہ قد عورت کا تذکرہ کیا، اس نے لکڑی کے جوتے (کھڑاؤں) تیار کروائے اور ایک انگوٹھی بنوائی، اس میں ایک خلا تھا اور اس پر ایک ڈھکن تھا، اس نے اس خلا میں کستوری بھری اور دو دراز قد یا بھاری بھر کم عورتوں کے ہمراہ نکلی۔ انہوں نے ان کے پیچھے ایک آدمی کو بھیجا، اس نے لمبے قد والی دو عورتوں کو تو پہچان لیا لیکن لکڑی کی جوتیوں والی عورت کو نہ پہچان سکا۔“
خواتین اور شاپنگ
مہنگائی کی وجہ سے پریشانی کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین کا بکثرت مارکیٹس میں جانا اور خود شاپنگ کرنا، یہ تو تقریباً ہر گھر کا مسئلہ بن چکا ہے خواتین کو شاپنگ کرنے اور مارکیٹ جانے کا بے حد شوق پیدا ہو چکا ہے مگر چونکہ ناقصۃ العقل ہوتی ہیں تو اکثر غیر ضروری اور مہنگی چیزیں خرید کر خاوند یا کفیل کے لیے نئی سے نئی پریشانی کھڑی کرتی رہتی ہیں اس لیے صرف ضرورت کی چیزیں خریدیئے اور میانہ روی سے کام لیجیے۔
اپنے باپ، بھائی ،خاوند،بیٹے کے وسائل کو مدنظر رکھیے ،خواہ مخواہ پیسہ برباد مت کیجیے۔ جتنی چادر ہو اتنے ہی پاؤں پھیلایئے
اس سلسلے میں دو اھم باتیں بے حد ضروری ہیں
سب سے پہلے تو حتی الامکان کوشش کی جائے کہ خواتین مارکیٹ میں جائیں ہی ناں
دوسری بات اگر بالفرض جانا پڑ ہی جائے تو گھر سے نکلنے سے پہلے لسٹ بنائی جائے کہ کیا کچھ خریدنا ہے یہ نہ ہو کہ مارکیٹ میں پہنچ کر جس چیز پر بھی نظر پڑے اسے خریدنے کا پروگرام بنا لیا جائے کیونکہ خواتین کو ہر چمکنے والی چیز سونا ہی نظر آتی ہے
غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ضرورت ہو تو بازار جاؤ ، بازار جا کر ضرورت پیدا مت کیا کرو
چیزیں مہنگی ھو جائیں تو کچھ دن کے لیے استعمال ترک کر دو
کسی علاقے کی زمین مہنگی ھو جائے تو اُس کو چھوڑ کر آس پاس کے علاقے کی زمین خرید کر وہاں رہائش بناؤ زمین سستی ہونا شروع ھو جائے گی۔ ( اِحیاءالعلوم )