بدشگونی و بدفالی سے ممانعت
الحمد لله العزيز ذي الاقتدار ﴿ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ۹ سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّیْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ۱۰ لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ۱۱﴾ (الرعد: 9 تا 11)احمده سبحانه على أفضاله، وأشكره على جزيل نواله، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد، وعلى آله و أصحابه۔
تمام تعریف اس عزت و غلبہ والے اللہ کے لئے ہے جو چھپے اور کھلے کا جاننے والا ہے سب سے بزرگ اور عالی رتبہ ہے کوئی تم میں سے چپکے سے بات کے یا پکار کر زیارات کو کہیں چھپ جائے یا دن کی روشنی میں کھلم کھلا چلے پھرے اس کے نزدیک سب برابر ہے اس کے آگے اور یچھے اللہ کے چوکیدار ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اللہ اس نعمت کو جو کسی کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلیں اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرلے تو وہ پھر نہیں سکتی اور اللہ کے سوا کوئی ان کی مدد کو بھی نہیں آسکتا۔ میں اس رب پاک کی بخششوں پر اس کی بنا اور اس کی بے پایاں نوازشوں پر اس کا سجدہ شکر ادا کرتا ہوں، اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا کوئی معبود والہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو اور ہر حال میں اس سے ڈرتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ دنیا کے اندر ہونے والی ایک ایک چیز سے وہ باخبر ہے:
﴿ لَا یَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ وَ لَاۤ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْبَرُ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍۗ﴾ (سبا:3)
’’ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور کوئی چیز ذرے سے چھوٹی یا بڑی ایسی نہیں جو کتاب مبین میں لکھی ہوئی نہ ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ازل ہی میں تمام اشیاء کا فیصلہ فرما دیا ہے لہٰذا جو چیز بھی دنیا کے اندر وقوع پذیر ہوتی ہے وہ اللہ کے علم اور فیصلہ کے مطابق ہوتی ہے وہی جو چیز چاہتا ہے وہ ہوتی ہے اور جو چیز نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتی جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ﴾ (القمر:29)
’’ہم نے ہر چیز مقرر اندازہ کے ساتھ پیدا کی ہے۔‘‘
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(إِنْ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ القَلَمَ، ثُمَّ قَالَ: اكْتُبْ، فَجَرَى فِي تِلْكَ السَّاعَةِ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ)[مسند احمد: 317/5 (22770،22768) و جامع ترمذي، ابواب التفسير، باب ’’و من سورة ن‘‘]
’’اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور پیدا فرمانے کے بعد قلم کو حکم دیا کہ لکھ چنانچہ قلم نے اسی وقت تاقیامت ہونے والی تمام باتیں لکھ ڈالیں۔‘‘
بہت سے ضعیف العقیدہ اور ناقص الایمان قسم کے لوگ بعض مہینوں اور بعض مخصوص ایام یا مقامات یا اشخاص یا آفات و بلیات یا بعض اوصاف سے بدشگونی لے لیتے ہیں حالانکہ یہ بات نبی خیر الانام صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ ہدایت کے سراسر خلاف اور زمانہ جاہلیت کے باطل عقائد میں سے ہے آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے اور امید و بیم، خوف ورجا اور رغبت ورہببت میں صرف اور صرف اس کی جانب رجوع کرے ع کرنے کا حکم دیا ہے۔ بدشگونی عهد قدیم میں اہل جاہلیت اور دشمنانِ انبیاء کی ایک عادت تھی، جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر قوم فرعون کی بابت بیان فرمایا ہے:
﴿فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَ مَنْ مَّعَهٗ ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۱۳۱﴾ (الاعراف: 131)
’’جب ان کو آسائش حاصل ہوتی تو کہتے کہ ہم تو اس کے مستحق ہیں، اور اگر سختی پہنچتی تو موسیٰ اور ان کے رفیقوں کی بدشگونی جاتے دیکھو ان کی بدشگونی اللہ کے ہاں مقدر ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔‘‘
یعنی جب آل فرعون کو سرسبزی و شادابی، رزق کی فراوانی اور جسم و جان کی عافیت حاصل ہوتی تو کہتے کہ ہم تو اس کے مستحق ہی ہیں یہ چیزیں تو ہمیں ملنی ہی تھیں، لیکن جب بلاو مصیبت فقر و تنگدستی اور قحط و بھوک مری میں مبتلا ہوتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء سے بدشگونی لیتے اور کہتے کہ یہ سب ہمیں موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے پہنچ رہا ہے لیکن ار تعالی نے ان کی بات کی تردید اور حقیقت حال سے انہیں باخبر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ﴾ کہ انہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچی ہیں وہ حضرت موسی کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ سب ان کے کفر اور انبیاء کی تکذیب کے نتیجہ میں اللہ کی جانب سے پنچی ہیں لیکن ان کے اکثر لوگ جاہل ہیں اس بات کو سمجھ نہیں پاتے اور اگر وہ سمجھ جائیں اور اللہ کے امر کو قبول کر لیں تو یقینی طور پر یہ جان لیں گے کہ موسیٰ علیہ السلام جو کچھ بھی اپنے رب کی جانب سے لے کر آئے ہیں وہ سوائے خیر و برکت اور دنیوی و اخروی سعادت کے کچھ نہیں۔
دینی بھائیو! جو لوگ مذکورہ چیزوں میں سے کسی چیز سے بھی بدشگونی لیتے ہیں ان کا یہ فعل ان کی جہالت، لا علمی اور دین کے سلسلہ میں ان کی بے مائیگی کی دلیل ہے۔ اس مذموم فعل میں وہ ان لوگوں کے زمرہ میں ہیں جن کی اللہ تعالٰی نے تردید فرمائی ہے اور ان سے علم کی نفی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں یہ بدفالی و بدشگونی سے بڑی ہی سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اس فعل کو شرک قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ر وایت ہے:
(الطيرة شرك، الطيرة شرك، الطيرة شرك)[سنن ابي داود كتاب الطب، باب في الطيرة (3910) و جامع ترمذي: ابواب السير، باب ما جاء في الطيرة (1614)]
’’یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ بد شگونی شرک ہے۔ بدشگونی شرک ہے بدشنگونی شرک ہے۔‘‘
نیز عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(من ردته الطيرة من حاجة فقد أشركَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كفارة ذلك؟ قال: أن يقول أحدهم: اللهم لا خير إلا خيرك ولا طير إلا طيرك، ولا إله غيرك،[مسند احمد: 220/2 (7066)
’’وہ شخص جسے بدشگونی نے اس کی کسی ضرورت سے روک دیا ( یعنی جو شخص کسی فال بد کی بنیاد پر اپنی ضرورت پر نکلنے سے رک گیا) اس نے شرک کیا لوگوں نے دریافت کیا کہ اس کا کفارہ کیا ہے؟ آپ ﷺ۔ نے فرمایا کہ یہ کہو ’’اللهم لا خير إلا خيرك، ولا طير إلا طيرك، ولا إله غيرك‘‘
اے اللہ! نہیں ہے کوئی خیر سوائے تیرے خیرکے اور نہیں ہے کوئی شگون سوائے تیرے شگون کے اور نہیں ہے کوئی معبود تیرے سوا۔
اسلامی بھائیو! بعض لوگ ایسے ہیں جو ماہ صفر سے بھی بدشگونی لیتے ہیں، حالانکہ یہ اہل جاہلیت کے افعال میں سے ہے، اس لئے کسی بھی مسلمان کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اہل جاہلیت کے ایسے اوصاف وافعال اپنائے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت و ہدایت کے صریحاً خلاف ہوں۔
صفر کا مہینہ بھی سال کے دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے فی عنہ اس کے اندر کسی مزید خیر یا شر کی کوئی خصوصیت نہیں- اس ماہ کے سلسلہ میں اہل جاہلیت کا جو عقیدہ تھا اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے باطل قرار دیا اور بڑی شدت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
(لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر)[صحیح بخاري: کتاب الطب، باب الجذام (5757٬5707) و صحیح مسلم: کتاب السلام، باب لا عدوی ولا طيرة… (2220)]
’’اسلام میں امراض متعدیہ اور بدشگونی اور الو کے بولنے اور صفر کا عقیدہ نہیں۔‘‘
بعض اسلاف سے روایت ہے کہ اہل جاہلیت ماہ صفر سے بدشگونی لیتے اور کہتے تھے کہ صفر کا مہینہ فی نفسہ مذموم اور منحوس مہینہ ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عقیدہ کی تردید فرمائی اور اس کو باطل قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے جہالت زدہ لوگ اس ماہ سے بدشگونی لیتے ہیں اور اسے اس قدر منحوس سمجھتے ہیں کہ اس ماہ میں شادی بیاہ اور سفر وغیرہ تک نہیں کرتے حالانکہ یہ عقیدہ کمال توحید کے منافی سنت نبوی کے معارض ایمان و اسلام کے لئے قادح اور باعث عیب اور عقائد جاہلیت میں سے ایک ہے لہٰذا اللہ تعالی کے قضا و قدر اور اس کی ذات پر ایمان رکھنے والے بندے مومن کے لئے ہرگز یہ روا نہیں کہ وہ اس طرح کے اوہام و خرافات کا عقیدہ رکھے یا اپنے دل میں انہیں جگہ دے۔
ماہ صفر کی طرح بعض ایام مثلا: چہار شنبہ (بدھ) سے یا بعض جسمانی آفت زدہ لوگوں سے یا بعض جانوروں سے بدشگونی لینا بھی سراسر باطل اور اسلامی تعلیم کے منافی ہے۔ ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ جملہ احوال میں اللہ تعالی پر اعتماد و توکل کر کے اپنے ایمان کا عملی ثبوت دے اور یہ عقیدہ رکھے کہ کسی بھی کام کے سلسلہ میں خطا و صواب اور غلطی و درستگی خود اس کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:
﴿وَعَلَى اللهِ فَتَوَكَّلُوْا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِيْنَ﴾ (المائدة: 23)
’’اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اگر تم صاحب ایمان ہو۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا۳﴾ (الطلاق:3)
’’جو اللہ پر بھروسہ رکھے تو اللہ اس کو کفایت کرے گا بیشک اللہ اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کر دیتا ہے اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبه ثانیه
الحمد لله عالم الغيب والشهادة، أحمده وأسأله الحسنى وزيادة، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وآله و أصحابه
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو حاضر و غائب کا جاننے والا ہے میں اس سے اچھے انجام اور مزید انعام و اکرام کا سوال کرتا ہوں اور اس کے وحدہ لاشریک ہونے کی شہادت دیتا ہوں اور اس بات کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور ان کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ آمین۔
اللہ کے بندو! ظاہر و باطن ہر طور سے اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس سے ڈرتے رہو، جو فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت و ہدایت کے موافق نہ ہو اس سے بچو اور یہ جان رکھو کہ بدفالی و بدشگونی بھی انہی اوہام و خرافات میں سے ہیں جو کج فہمی اور ایمانی کمزوری کا نتیجہ ہیں۔
بعض علمائے محققین نے کہا ہے کہ بدشگونی ایک باطل وہم ہے جس کا عقیدہ رکھنا کسی بھی مسلمان کے لئے ہر گز جائز نہیں۔
اہل عرب زمانہ جاہلیت میں بدشگونی لیتے اور بدفالی کا عقیدہ رکھتے تھے، جس کو اسلام نے باطل قرار دیا ہے، بدشگونی کے ابطال و تردید کے سلسلہ میں بیشمار حدیثیں وارد ہیں، جو یہ بتاتی ہیں کہ یہ اوہام و خرافات میں سے ہے بلکہ بعض احادیث کے اندر تو یہاں تک آیا ہے کہ بدشگونی کا عقیدہ شرک ہے۔
اس سلسلہ میں جو حدیثیں وارد ہیں ان میں صحیح مرفوع احادیث بھی ہیں، مرسل بھی اور موقوف بھی۔[٭] جس میں سب سے صحیح بخاری و مسلم کی روایت کردہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر)[اس حدیث کا حوالہ گذر چکا ہے]
اسلام میں امراض متعدیہ اور بدشگونی اور انو کی بولی منحوس ہونے) اور صفر کا کوئی عقیدہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔