چار اعمال ، ایک انعام
حصہ اول

اہم عناصر :
❄ سلام کو عام کرو ❄ کھانا کھلاؤ
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُ‌دّوها ۗ … [النساء: 86]
ذی وقار سامعین!
قران کریم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ایک عظیم کتاب ہے جس طرح قران کریم کے بغیر شریعت نامکمل ہے بالکل اسی طرح حدیث کے بغیر بھی شریعت نامکمل ہے. حدیث کے بغیر ہم کوئی عبادت نہیں کر سکتے. جس طرح قران کریم اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ ہے بالکل حدیث بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور اس پر ایمان لائے بغیر کوئی بندہ بشر مسلمان اور مومن نہیں ہو سکتا۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک فرمان سمجھیں گے جس میں آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے سلامتی کے ساتھ جنت میں داخلے کا طریقہ بتلایا ہے۔ اِس حدیث میں آقا علیہ السلام نے چار باتیں بیان کی ہیں۔ ان میں سے آج ہم دو پر تفصیلی گفتگو کریں۔
عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ، انْجَفَلَ النَّاسُ قِبَلَهُ، وَقِيلَ: قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ثَلَاثًا، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ، لِأَنْظُرَ، فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهُ، عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، فَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ تَكَلَّمَ بِهِ، أَنْ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ، وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ» [ابن ماجہ: 3251 صححہ الالبانی]
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبیﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ جلدی جلدی آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور (گلیوں بازاروں میں عام لوگ) کہنےلگے: اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ تین بار (کہا) میں بھی لوگوں کے ساتھ زیارت کے لیے حاضر ہوا۔ جب میں نےنبیﷺ کے چہرۂ اقدس پر توجہ سے نظر ڈالی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹ بولنے والےکا چہرہ نہیں۔ نبیﷺ کا جو ارشاد میں نے سب سے پہلے سنا، وہ یہ تھا: ’’ اے لوگو! سلام عام کرو، کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کرو، اور جب لوگ سو رہے ہوں تو تم رات کو نماز (تہجد) پڑھو، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
1۔ سلام کو عام کرو
اس حدیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام نے سب سے پہلی بات یہ بیان فرمائی ہے کہ
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ سلام کو عام کرو۔
سلام کا معنی و مفہوم:
سلام سے مراد دراصل سلامتی ، امن اور عا فیت ہے۔ سلامتی میں انسان کی ساری زندگی اس کے معمولات ، تجارت ، اس کی زراعت اور اس کے عزیزو اقا رب گویا معاشرتی زندگی کے سب پہلو ، دین دنیا اور آخرت شامل ہوتے ہیں۔ امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ نے المفردات میں لکھا ہے :
السلام التعري من الآفات الظاهرة والباطنة
” یعنی ظاہری اور باطنی آفات و مصائب سے محفوظ رہنا”
پس جب ہم کسی کو "السلام علیکم ” کہتے ہیں تو اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ ” تم جسمانی ، ذہنی اور روحا نی طور پر عافیت میں رہو "تمہاری دنیا اور آخرت کی زندگی کے تمام معمولات اور انجام ،امن اور عافیت والے ہوں۔
سلام کی اہمیت:
❄ وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُ‌دّوها ۗ … [النساء: 86]
"اور جب تمہیں کوئی سلام کہے تو اسے سلام کا بہتر جواب دو یا کم سے کم اتنا ہی ضرور لوٹا دو”
❄ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
((إِنَّ مِنْ مُوْجِبَاتِ الْمَغْفِرَة: بَذْلُ السَّلَامِ وَحُسْنُ الْکَلَام)) [ صحیح الترغیب والترہیب :2699]
’’ مغفرت کا موجب بننے والے امور میں سے سلام پھیلانا اور اچھی گفتگو کرنا بھی ہے۔‘‘
❄ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ» [بخاری: 12]
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ، النَّفَرِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَزَادُوهُ: وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآنَ [بخاری: 6227]
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی ۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایاکہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں ، سلام کر واور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہار ااور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام نے کہا السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ ، انہوںنے آدم کے سلام پر ” ورحمۃ اللہ “ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا حضرت آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا ۔ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد وقامت کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : ((حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ: إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ، وَإِذَا مَاتَ فَاتْبَعْهُ)) [مسلم: 2162]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: جب تو اس سے ملے تو اسے سلام کر‘ جب وہ تجھے بلائے تو اس کی فرمائش کو پورا کر ‘ جب وہ تجھ سے خیرخواہی طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کر ‘ جب وہ چھینک مار کر اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہے تو اس کے جواب میں تو یَرْحَمُکَ اللّٰهُ کہہ‘ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کر اور جب وہ وفات پاجائے تو اس کے جنازے کے پیچھے جا۔‘‘
❄ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:«إِيَّاكُمْ وَالجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ» فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيهَا، فَقَالَ: «إِذْ أَبَيْتُمْ إِلَّا المَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ» قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «غَضُّ البَصَرِ، وَكَفُّ الأَذَى، وَرَدُّ السَّلاَمِ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ المُنْكَرِ» [بخاری: 6229]
ترجمہ: سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راستوں پر بیٹھنے سے بچو! صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہماری یہ مجلس تو بہت ضروری ہیں ، ہم وہیں روزمرہ گفتگو کیا کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا جب تم ان مجلسوں میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کیا کرویعنی راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہ نے عرض کیا، راستے کا حق کیا ہے یا رسول اللہ ! فرمایا ( غیرمحرم عورتوں کو دیکھنے سے ) نظرنیچی رکھنا ، راہ گیروں کو نہ ستانا ، سلام کا جواب دینا ، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ إِذَا لَقِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ فَإِنْ حَالَتْ بَيْنَهُمَا شَجَرَةٌ أَوْ جِدَارٌ أَوْ حَجَرٌ ثُمَّ لَقِيَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ [ابوداؤد: 5200 صححہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ؓ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو سلام کہے ۔ پس اگر ان کے درمیان کوئی درخت ، دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور پھر دوبارہ ملے ، تو بھی سلام کہے۔
سلام کی حکمت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ «لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ» [مسلم: 194]
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو ، آپس میں سلام عام کرو۔‘‘
کون کس کو سلام کرے۔۔؟: ❄ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ – رضي الله عنه – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم: ((لِيُسَلِّمِ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ، وَالْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: ((وَالرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي)) [بخاري: 6231، مسلم:2160]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چھوٹا بڑے کو‘ راہ چلتا بیٹھے کو اور تھوڑے زیادہ تعداد والوں کو سلام کیا کریں۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: ’’سوار‘ پیدل کو سلام کرے۔‘‘
❄ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَنَّهُ مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ» وَقَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ» [بخاری: 6247]
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
❄ وَعَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : ((يُجْزِئُ عَنِ الْجَمَاعَةِ إِذَا مَرُّوا أَنْ يُسَلِّمَ أَحَدُهُمْ، وَيُجْزِئُ عَنِ الْجَمَاعَةِ أَنْ يَرُدَّ أَحَدُهُمْ)) [ابوداؤد: 5210 صححہ الالبانی]
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ایک جماعت کسی کے پاس سے گزرے تو ان میں سے ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے اور جماعت میں سے ایک آدمی کا جواب دینا کافی ہے۔‘‘
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ فَلْيُسَلِّمْ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتْ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنْ الْآخِرَةِ [ابوداؤد: 5208 صححہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو چاہیئے کہ سلام کہے اور جب وہاں سے اٹھنا چاہے تو بھی سلام کہے ۔ پہلی دفعہ سلام کہنا دوسری دفعہ کے مقابلے میں کوئی زیادہ اہم نہیں ہے۔“
یعنی مجلس میں پہنچنے اور واپس جانے پر دونوں بار سلام کہنا واجب ہے ۔ یہ نہیں کہ پہلی بار تو واجب ہو اور واپسی کے وقت کوئی لازم نہ ہو ۔
یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کیسے کریں۔۔؟
❄ وَعَنْ ابوهریرہ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم: ((لَا تَبْدَؤُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالسَّلَامِ، وَإِذَا لَقَيْتُمُوهُمْ فِي طَرِيقٍ، فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِهِ)) [مسلم: 1127]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل مت کرو اور جب ان سے راستے میں ملاقات ہو جائے تو انھیں تنگ راستے کی طرف مجبور کر دو۔‘‘
❄ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمُ اليَهُودُ، فَإِنَّمَا يَقُولُ أَحَدُهُمْ: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقُلْ: وَعَلَيْكَ [بخاری: 6257]
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں یہودی سلام کریں اور اگر ان میں سے کوئی ” السام علیک “ کہے تو تم اس کے جواب میں صرف ” وعلیک “ (اور تمہیں بھی ) کہہ دیا کرو۔
❄ أَنَّ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: دَخَلَ رَهْطٌ مِنَ اليَهُودِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكُمْ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَفَهِمْتُهَا فَقُلْتُ: وَعَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَهْلًا يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الأَمْرِ كُلِّهِ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ قُلْتُ: وَعَلَيْكُمْ [بخاری: 6024]
ترجمہ: نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا ” السام علیکم “ ( تمہیں موت آئے ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس کا مفہوم سمجھ گئی اورمیں نے ان کا جواب دیا کہ وعلیکم السام واللعنۃ “ ( یعنی تمہیں موت آئے اورلعنت ہو ) بیان کیا کہ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ٹھہرو ، اے عائشہ ! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی اور ملائمت کو پسند کرتا ہے ۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس کا جواب دے دیاتھا کہ وعلیکم ( اور تمہیں بھی )
سلام کرنے کا ثواب:
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّﷺ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرٌ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ عِشْرُونَ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ ثَلَاثُونَ [ابوداؤد: 5195 صححہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا : ” السلام علیکم “ آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا ۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” دس ۔ “ پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے کہا : ” السلام علیکم ورحمتہ اﷲ “ آپ ﷺ نے اس کو جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” بیس ۔ “ پھر ایک اور آیا تو اس نے کہا : ” السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ “ آپ ﷺ نے اس کا جواب عنایت فرمایا اور وہ بیٹھ گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا ”تیس ۔“
صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل: حضرت طفیل بن ابی کعب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کرتے تھے اور صبح صبح ان کے ساتھ بازار کو جاتے۔ طفیل کہتے ہیں جب ہم بازار میں پہنچتے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر ایک ردی بیچنے والے پر اور ہر دکاندار پر اور ہر مسکین پر اور ہر کسی پر سلام کرتے۔ ایک روز میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے بازار لے جانا چاہا. میں نے کہا تم بازار میں جا کر کیا کرو گے؟ نہ تم بیچنے والوں کے پاس ٹھہرتے ہو۔ نہ کسی اسباب کو پہنچتے ہو. نہ کسی کا مول تول کرتے ہو۔ نہ بازار کی مجلسوں میں بیٹھتے ہو. اس سے بہتر ہے یہی بیٹھے رہو ، ہم تم باتیں کریں گے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا اے پیٹ والے (طفیل رضی اللہ عنہ کا پیٹ بڑا تھا) بازار میں سلام کرنے کو جاتے ہیں جس سے ملاقات ہوتی ہے اس کو سلام کرتے ہیں۔ [مؤطا امام مالک: 1859 صحیح]
2۔ کھانا کھلاؤ
اس حدیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام نے دوسری بات یہ بیان فرمائی ہے کہ
وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ
کھانا کھلاؤ۔
کھانا کھلانے کی فضیلت:
❄ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نیک لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔
فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ خود کھانے کی خواہش و ضرورت کے باوجود وہ دوسرے مستحقین کو کھلا دیتے ہیں۔
❄حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے ، آپ نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا ( تاکہ ان کو کھانا کھلادیں) ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی کون مہمانی کرے گا؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا ۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کر ، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز بھی نہیں ہے ، انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال دو اور چراغ جلالو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلادو۔ بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلادیا اور اپنے بچوں کو ( بھوکا ) سلادیا ، پھر وہ دکھاتو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کررہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا ، اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھارہے ہیں ، لیکن ان دونوں نے ( اپنے بچوں سمیت رات ) فاقہ سے گزاردی ، صبح کے وقت جب وہ صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا ( یہ فرمایا کہ اسے ) پسند کیا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ”اور وہ ( انصار ) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر ( دوسرے غریب صحابہ کو ) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“ [بخاری: 3798]
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ صَائِمًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ جَنَازَةً قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مِسْكِينًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ عَادَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مَرِيضًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ [مسلم: 1028]
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”آج تم میں سے روزے دار کون ہے؟”ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :میں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”آج تم میں سے جنازے کے ساتھ کون گیا؟”ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:میں،آپ نے پوچھا:” آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟”ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:میں نے،آپ نے پوچھا:” تو آج تم میں سے کسی بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟”ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کسی انسان میں یہ نیکیاں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ یقیناً جنت میں داخل ہوتاہے۔”
کھانا نہ کھلانے کی مذمت:
❄إِلاَّ أَصْحَابَ الْيَمِينِ فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِينَ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ [ المدثر 39 تا 44]
مگر داہنے والے۔ باغوں میں ہوں گے، پوچھیں گے۔ گناہگاروں سے۔ کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا۔ وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔ اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔
❄ أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ۔ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ۔ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ [الماعون: 1تا3]
کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو جزا کو جھٹلاتا ہے۔ تو یہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا۔
وَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِشِمَالِهِۦ فَيَقُولُ يَٰلَيۡتَنِي لَمۡ أُوتَ كِتَٰبِيَهۡ وَلَمۡ أَدۡرِ مَا حِسَابِيَهۡ يَٰلَيۡتَهَا كَانَتِ ٱلۡقَاضِيَةَ مَآ أَغۡنَىٰ عَنِّي مَالِيَهۡۜ هَلَكَ عَنِّي سُلۡطَٰنِيَهۡ خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ثُمَّ ٱلۡجَحِيمَ صَلُّوهُ ثُمَّ فِي سِلۡسِلَةٖ ذَرۡعُهَا سَبۡعُونَ ذِرَاعٗا فَٱسۡلُكُوهُ إِنَّهُۥ كَانَ لَا يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ ٱلۡعَظِيمِ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلۡمِسۡكِينِ فَلَيۡسَ لَهُ ٱلۡيَوۡمَ هَٰهُنَا حَمِيم وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنۡ غِسۡلِينٖ لَّا يَأۡكُلُهُۥٓ إِلَّا ٱلۡخَٰطِـُٔونَ [ الحاقہ 19تا 37]
”اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں یاد جائے گا وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا. اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرا حساب کیا ہے.اے کاش موت (ابد الاآباد کے لئے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی. آج میرا مال میرے کچھ بھی کام بھی نہ آیا. (ہائے) میری سلطنت خاک میں مل گئی. (حکم ہوگا ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو.پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو. پھر زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے جکڑ دو. یہ نہ تو اللہ پر ایمان لاتا تھا. اور نہ فقیر کے کھانا کھلانے پر آمادہ کرتا تھا. سو آج اس کا بھی یہاں کوئی دوست نہیں. اور نہ پیپ کے سوا (اس کے لئے) کھانا ہے. جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا.”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي قَالَ يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي قَالَ يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي قَالَ يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ قَالَ اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي [مسلم: 6556]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائے گا: آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہ کی۔ وہ کہے گا: میرے رب! میں کیسے تیری عیادت کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ تمہیں معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جبکہ تو خود ہی سارے جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا: تو نے اسے کھانا نہ کھلایا اگر تو اس کو کھلا دیتا تو تمہیں وہ (کھانا) میرے پاس مل جاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا، تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ شخص کہے گا: میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جبکہ تو خود ہی سارے جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے اسے پانی نہ پلایا، اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو (آج) اس کو میرے پاس پا لیتا۔”
❄❄❄❄❄