چار اعمال ، ایک انعام

حصہ دوم

اہم عناصر :
❄ صلہ رحمی کرو ❄ رات کو نماز (تہجد) پڑھو
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم إِنِّ اللّٰهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی[النحل: 90]
ذی وقار سامعین!
پچھلے خطبہ جمعہ میں اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے آقا علیہ السلام کا ایک فرمان شروع کیا تھا ، جس میں آقاعلیہ السلام نے جنت میں لے جانے والے چار عمل بیان کیے تھے۔ ان میں سے پہلے دو پر ہم نے تفصیلی گفتگو کی تھی۔ آج ان شاء اللہ اگلے دو عمل سمجھیں گے۔
عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، انْجَفَلَ النَّاسُ قِبَلَهُ، وَقِيلَ: قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ثَلَاثًا، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ، لِأَنْظُرَ، فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهُ، عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، فَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ تَكَلَّمَ بِهِ، أَنْ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ، وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ» [ابن ماجہ: 3251 صححہ الالبانی]
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبیﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ جلدی جلدی آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور (عام لوگ) کہنےلگے: اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ تین بار (کہا) میں بھی لوگوں کے ساتھ زیارت کے لیے حاضر ہوا۔ جب میں نےنبیﷺ کے چہرۂ اقدس پر توجہ سے نظر ڈالی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹ بولنے والےکا چہرہ نہیں۔ نبیﷺ کا جو ارشاد میں نے سب سے پہلے سنا، وہ یہ تھا: ’’ اے لوگو! سلام عام کرو، کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کرو، اور جب لوگ سو رہے ہوں تو تم رات کو نماز (تہجد) پڑھو، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
3۔ صلہ رحمی کرو
اس حدیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام نے تیسری بات یہ بیان فرمائی ہے کہ وَصِلُوا الْأَرْحَامَ صلہ رحمی کرو۔
’’صلہ رحمی‘‘ سے مراد اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا اور ان کی بد سلوکی پر انھیں درگذر کرنا ہے۔
’’صلہ رحمی‘‘ قرآن کی روشنی میں:
❄ وَاتَّقُوْا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِه وَالْأَرْحَامَ [النساء: 1]
’’اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
❄ وَاعْبُدُوْا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی [النساء: 36]
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ ۔ والدین سے اچھا سلوک کرو۔ نیز قریبی رشتہ داروں سے بھی۔‘‘
❄ وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ لاَ تَعْبُدُوْنَ إِلاَّ اللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَّذِیْ الْقُرْبٰی [البقرۃ: 83]
’’ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کروگے اور والدین سے اور قریبی رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ کرو گے ۔ ‘‘
❄ إِنِّ اللّٰهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی[النحل: 90]
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل کا ، بھلائی کا اور قرابت داروں کودینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘
’’صلہ رحمی‘‘ کے فوائد
’’صلہ رحمی‘‘ کے بہت سارے فوائد ہیں۔ چند ایک ہم یہاں ذکر کریں گے؛
1۔ صلہ رحمی سے رزق میں کشادگی اور عمر میں برکت آتی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ عَلَيْهِ فِي رِزْقِهِ، وَأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ)) [بخاری: 5985]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی کو یہ پسند ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی اور عمر میں اضافہ ہو تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‘‘
2۔ صلہ رحمی سے رحمتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے:
❄ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’رحم رحمان سے نکلا ہے۔اللہ نے اس سے کہا: (( مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُهُ،وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُهُ)) یعنی ’’ جس نے تجھے ملایا میں اسے ملاؤں گا اور جس نے تجھے توڑا میں اس سے قطع تعلقی کرونگا۔ ‘‘[بخاری: 5988]
❄ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اَلرَّحِمُ مُعَلَّقَة بِالْعَرْشِ تَقُوْلُ:مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَهُ اللّٰهُ،وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَهُ اللّٰهُ [بخاری: 5989]
’’ رحم عرش سے لٹکا ہوا ہے ( اور ) کہتا ہے : جو مجھے ملائے گا اللہ اس کو ( اپنی رحمت سے ) ملائے گا۔ اور جو مجھے کاٹے گا اللہ اس کو ( اپنی رحمت سے ) کاٹے گا۔ ‘‘
❄ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(( أَنَا اللّٰهُ،وَأَنَا الرَّحْمٰنُ،خَلَقْتُ الرَّحِمَ،وَشَقَقْتُ لَهَا اسْمًا مِنِ اسْمِیْ،فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ ،وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعْتُهُ ۔ أو قَالَ : بَتَتُّهُ)) [ترمذی: 1907 صححہ الالبانی]
’’میں اللہ ہوں اور میں رحمن ہوں۔ میں نے رحم کو پیدا کیا اور میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا۔ لہٰذا جو شخص اسے ملائے گا میں اسے ملاؤں گااور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا۔‘‘
یہ حدیث قدسی ہے اوراس میں اس بات کی صراحت ہے کہ لفظِ رحم اللہ کے اسم مبارک (رحمن ) سے نکلا ہے ۔ اس لئے اللہ کے ہاں اس کے وصل وقطع (یعنی صلہ رحمی اور قطع رحمی ) کی اہمیت انتہا درجے کی ہے۔
3۔ صلہ رحمی دخولِ جنّت کا سبب:
حضرت ابو ایوب الأنصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَعْبُدُ اللّٰهَ لَا تُشْرِکُ بِهٖ شَیْئًا ، وَتُقِیْمُ الصَّلَاة، وَتُؤْتِی الزَّكَاۃَة ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ[بخاری: 5983]
’’تو اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا ۔ اور نماز قائم کر ، زکاۃ ادا کر اور صلہ رحمی کر۔‘‘
4۔ رشتہ داروں پر خرچ کرنے سے دوگنا اجر ملتا ہے:
❄ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اَلصَّدَقَةُ عَلیَ الْمِسْکِیْنِ صَدَقَة،وَعَلٰی ذِیْ الرَّحِمِ ثِنْتَانِ:صَدَقَة وَصِلَة
’’مسکین پر صدقہ کرناصدقہ ہی ہے جبکہ رشتہ دار پر خرچ کرنا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔‘‘[نسائی: 2583 صححہ الالبانی]
❄ إِنَّ مَيْمُونَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَتْ وَلِيدَةً لَهَا، فَقَالَ لَهَا: «وَلَوْ وَصَلْتِ بَعْضَ أَخْوَالِكِ كَانَ أَعْظَمَ لِأَجْرِكِ» [بخاری: 2594]
ترجمہ: نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک لونڈی آزاد کی تو رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اگر وہ تمہارے ننھیال والوں کو دی جاتی تو تمہیں زیادہ ثواب ملتا۔
5۔ صلہ رحمی کرنے سے اللہ تعالیٰ گناہ معاف فرما دیتا ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا یَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنکُمْ وَالسَّعَة أَن یُؤْتُوا أُوْلِی الْقُرْبَی وَالْمَسَاكِیْنَ وَالْمُهَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللّٰهُ لَکُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ [النور: 22] ’’اور تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے قسم نہیں کھا لینی چاہئے بلکہ معاف کر دینا اور در گذر کر دینا چاہئے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے گناہ معاف فرمادے ؟ وہ معاف کرنے والا ، بڑامہربان ہے۔‘‘
یہ آیت در اصل اس وقت نازل ہوئی تھی جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی تھی اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے۔ ان میں سے ایک مسطح رضی اللہ عنہ تھے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے اور چونکہ یہ محتاج تھے اس لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ انہیں خرچہ وغیرہ دیا کرتے تھے لیکن جب یہ بھی تہمت لگانے والے لوگوں میں شامل ہو گئے توآسمان سے وحی کے ذریعے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھائی کہ وہ اب مسطح رضی اللہ عنہ کو کچھ نہیں دیں گے۔اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں عفو و درگذر کی تلقین کی گئی ۔ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:
بَلٰی وَاللّٰهِ یَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا [بخاری: 4757]
’’ کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم یقینا یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کردے ۔ ‘‘ اس کے بعد انہوں نے مسطح رضی اللہ عنہ کا خرچہ پہلے کی طرح جاری کردیا ۔
لہٰذا اس آیت ِ کریمہ اور اس کے سببِ نزول سے ثابت ہوتا ہے کہ رشتہ داروں پر خرچ کرنے اور ان سے اچھا برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور وہ ایسا کرنے والے کے گناہ کومعاف فرما دیتا ہے۔

کافر رشتہ داروں سے صلہ رحمی:
❄ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک بنو فلاں کی آل واولاد میرے دوست نہیں ہیں بلکہ میرا دوست اللہ اور صلحا مومنین ہیں، لیکن میری ان سے رشتہ داری ہے جس کی وجہ سے میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں۔‘‘[بخاری: 5990 ، مسلم: 215]
یعنی وہ میرے رشتہ دار تو ہیں لیکن دوست نہیں کیونکہ وہ کافر ہیں لیکن رشتہ داری کی وجہ سے میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں۔
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ ( آل فلاں ) سے ابو لہب یا ابو سفیان یا حکم بن العاص یا عموما سارے قبائلِ قریش یا خصوصا بنو ہاشم یا آپ کے اعمام ( چچے ) مراد ہیں اور ظاہرِ حدیث بھی یہی ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ بہ سبب مسلمان نہ ہونے کے مجھے ان سے دوستانہ محبت وپیار تو نہیں ہے مگر بہ سبب قرابت میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کرنے کیلئے اسلام شرط نہیں ہے ۔
❄ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’ میری والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں میرے پاس آئیں ، وہ اسلام سے منکر تھیں۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کر۔ ‘‘[بخاری: 5978، مسلم: 1003]
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ قرابت دار خواہ کافر کیوں نہ ہوں ان سے نیکی کرنی چاہئے۔
صلہ رحمی کا اصل مفہوم:
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونِي وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَيَّ وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَيَّ فَقَالَ لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ فَكَأَنَّمَا تُسِفُّهُمْ الْمَلَّ وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنْ اللَّهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ [مسلم: 6525]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے (بعض) رشتہ دار ہیں، میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں بردباری کے ساتھ ان سے درگزر کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا سلوک کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "اگر تم ایسے ہی ہو جیسے تم نے کہا ہے تو تم ان کو جلتی راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم اس روش پر رہو گے، ان کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا۔”
❄ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ الوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنِ الوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا» [بخاری: 5991]
ترجمہ : عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جارہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

قطع رحمی کے نقصانات
(۱) قطع رحمی لعنت کا سبب:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللّٰهِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللّٰهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُوْلٰئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَة وَلَهُمْ سُوئُ الدَّار [الرعد: 25]
’’اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ اسے توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اُن پر لعنت ہے اور ان کیلئے برا گھر ہے۔‘‘
اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ اللہ تعالیٰ جب مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم ( رشتہ داری ) نے کھڑے ہو کر کہا : یہ قطع رحمی سے تیری پناہ میں آنے کا مقام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا : ہاں ، کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں اسے ( اپنی رحمت سے ) ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے ( اپنی رحمت سے ) کاٹ دوں جو تجھے کاٹے ؟اس نے کہا : کیوں نہیں ! تو اللہ تعالیٰ نے کہا : بس یہ بات طے ہو گئی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو :
﴿فَهَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَرْحَامَکُمْ٭أُوْلئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمٰی أَبْصَارَهُمْ ﴾ [بخاری: 5978 ،مسلم: 2554]
’’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے ، اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے۔‘‘
(۲) قطع رحمی دخولِ جنت میں آڑ:
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّة قَاطِعٌ)) [بخاری: 5984 ، مسلم: 2556]
’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
(۳) قطع رحمی کی دنیا میں سزا :
حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرٰی أَنْ یُّعَجِّلَ اللّٰهُ لِصَاحِبِهِ الْعَقُوْبَة فِیْ الدُّنْیَا مَعَ مَا یُدَخِّرُ لَه ُ فِیْ الْآخِرَة مِنَ الْبَغْیِ وَقَطِیْعَة الرَّحِمِ[ترمذی: 2511صححہ الالبانی]
’’بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیں کہ ان کی سزا دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلدی مل جانے کے لائق ہے۔ اور آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔‘‘
(۴) قطع رحمی رحمتِ الہی سے دوری کا سبب:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم رحمان سے مشتق ہے اور عرش سے ٹکا ہوا ہے۔ اور کہتا ہے: اے رب! مجھے قطع کیا گیا۔ اے رب! میرے ساتھ برا سلوک کیا گیا ۔ اے رب ! مجھ پر ظلم کیا گیا۔ اے رب! اے رب! تو اللہ تعالیٰ اسے جواب دیتا ہے: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اسے (اپنی رحمت سے) ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے (اپنی رحمت سے ) کاٹ دوں جو تجھے کاٹے۔ ‘‘[صححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب: 2530]
4۔ رات کو نماز (تہجد) پڑھو
اس حدیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام نے چوتھی بات یہ بیان فرمائی ہے کہ وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ، وَالنَّاسُ نِيَامٌ،رات کو نماز (تہجد) پڑھو۔
نمازِ تہجد اور نبی ﷺ:
نمازِ تہجد کی عظمت واہمیت کی بناء پراللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا:
یَا أَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ۔ قُمِ اللَّیْلَ إِلاَّ قَلِیْلاً۔ نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلاً ۔ أَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً [المزمل: 4-1]
’’ اے کپڑا اوڑھنے والے ! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی قیام کیجئے ، رات کا آدھا حصہ یا اس سے کچھ کم کر لیجئے ،یا اس سے زیادہ کیجئے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجئے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا:وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَة لَّکَ عَسٰی أَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا[الاسراء: 79]
’’اور رات کو تہجد ادا کیجئے ، یہ آپ کیلئے زائد کام ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز کردے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نمازکا اتنا اہتمام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پر ورم آ جاتا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ( اتنا طویل ) قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹنے لگتے۔ میں عرض کرتی : اے اللہ کے رسول ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے:
(( أَفَلَا أَكُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا )) ’’ کیا میں شکر گزا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘[بخاری:4837 ، مسلم:2820]
نمازِ تہجد کے فضائل:
1۔ اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی صفات کے ضمن میں قیام اللیل کرنے والوں کی یوں تعریف فرمائی:
وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا [الفرقان: 64]
اور جو اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام میں رات گذارتے ہیں۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِتہجدکی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: (( أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ : شَهرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاة بَعْدَ الْفَرِیْضَةِ : صَلَاة اللَّیْلِ)) [مسلم: 1163]
”رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں ، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز ہے۔”
3۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا حَسَدَ إِلَّا فِیْ اثْنَتَیْنِ : رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ یَقُوْمُ بِهٖ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ،وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰهُ مَالًا فَهُوَ یُنْفِقُهُ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ [مسلم: 815]
”صرف دو آدمی ہی قابلِ رشک ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا (اسے حفظ کرنے کی توفیق دی) اور وہ اس کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں قیام کرتا ہے ۔ دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور وہ اسے دن اور رات کے اوقات میں خرچ کرتا ہے۔”
4۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آیَاتٍ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ،وَمَنْ قَامَ بِمِائَة آیَة كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِیْنَ،وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آیَة كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِیْنَ [أبو داؤد: 1398 صححہ الالبانی]
”جو شخص دس آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ غافلوں میں نہیں لکھا جاتا ۔ اور جو شخص سو آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ فرمانبرداروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔اور جو شخص ایک ہزار آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے اسے اجر وثواب کے خزانے حاصل کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔”
5۔ قیام اللیل گناہوں کو مٹاتا اور برائیوں سے روکتا ہے
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ ،وَهُوَ قُرْبَة إِلٰی رَبِّکُمْ، وَمُکَفِّرٌ لِلسَّیِّئَاتِ،وَمَنْهَاۃٌ لِلْآثَامِ[ترمذی: 3549 حسنہ الالبانی]
’’تم قیام اللیل ضرور کیا کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کی عادت تھی ، اس سے تمہیں تمہارے رب کا تقرب حاصل ہوتا ہے ، یہ گناہوں کو مٹانے والا اور برائیوں سے روکنے والا ہے۔‘‘
6۔ قیام اللیل پر ہمیشگی کرنے والے متقین اور محسنین میں سے ہیں جو کہ اللہ کی رحمت اور اس کی جنت کے مستحق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَّعُیُوْنٍ. آخِذِیْنَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ. كَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ. وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ [الذاریات: 18-15]
’’بلا شبہ متقی ( اس دن ) باغات اور چشموں میں ہونگے ۔جو کچھ ان کا رب ان کو دے گا وہ لے لیں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے۔ وہ رات کو کم سویا کرتے تھے اور سحری کے وقت مغفرت مانگا کرتے تھے۔
7۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى، وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ، فَإِنْ أَبَتْ,نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ، وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا، فَإِنْ أَبَى,نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ [ابوداؤد: 1308 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” رحم فرمائے اللہ تعالیٰ اس بندے پر جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا اور اپنی بیوی کو جگاتا ہے ۔ اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے ۔ اور رحم فرمائے اللہ تعالیٰ اس بندی پر جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتی اور اپنے شوہر کو جگاتی ہے ۔ اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔“
تہجد کے وقت کی اہمیت:
❄ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ الْآخِرِ،فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُوْنَ مِمَّنْ یَّذْكُرُ اللّٰهَ فِیْ تِلْکَ السَّاعَةفَکُنْ [ترمذی: 3579 صححہ الالبانی]
’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب رات کے آخری حصے کا وسط ہوتا ہے ، لہٰذا اگر تم اس بات کی طاقت رکھو کہ اس وقت اللہ کا ذکر کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ تو ایسا ضرور کرنا۔‘
❄ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(( یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی كُلَّ لَیْلَة إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ ، فَیَقُوْلُ : مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَهُ ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَهُ ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَهُ)) وفی روایةلمسلم:((فَلَا یَزَالُ كَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ [بخاری:1145،6321،7494، مسلم: 758]))
’’ ہمارا رب جو بابرکت اور بلند وبالا ہے جب ہر رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ۔ پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردو ں ؟ ‘‘ مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : ’’پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے ۔ ‘‘
❄ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( إِنَّ فِیْ اللَّیْلِ لَسَاعَة لَا یُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ یَسْأَلُ اللّٰهَ خَیْرًا مِّنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَة إِلَّا أَعْطَاہُ إِیَّاہُ وَذٰلِکَ كُلَّ لَیْلَة)) [مسلم: 757]
’’بے شک ہر رات کو ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں کوئی مسلمان بندہ جب اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی کوئی بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ بھلائی ضرور عطا کرتا ہے۔‘‘
ایک عظیم انعام
یہ چار باتیں بیان کرنے کے بعد آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ ’’ تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
❄❄❄❄❄