( کرسمس کا تہوار اور نئے سال کا جشن)
پہلا خطبہ:
بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اس سے بخشش طلب کرتے ہیں اور اسی کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفسوں کی برائیوں اور اعمال کی خرابیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، سلامتی اور برکتیں ان پر، ان کے اہلِ بیت پر اور ان کے صحابہ پر ہوں۔
حمدوثناء کے بعد:جس نے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا، اللہ اسے محفوظ رکھے گا، اور جو اس پر بھروسہ کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہو گا۔
﴿اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ ولَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ لہٰذا اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور مرنا نہ چاہو مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔آل عمران: 102
اللہ کے بندو:بے شک یہ ایک تباہ شدہ گوہ کے بل کی مانند ہے، جس میں سوائے تنگی اور تھکن کے کچھ نہیں! یہ کفار کی اتباع کا بل ہے، اور ان کے ساتھ ہر جگہ اور ہر حال میں شریک ہونے کا راستہ ہے !نبی ﷺ نے فرمایا: (لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ: شِبْرًا بِشِبْرٍ، وذِرَاعًا بِذِرَاعٍ؛ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا في جُحْرِ ضَبٍّ لاتَّبَعْتُمُوهُمْ)"تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلو گے، بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے تو تم بھی ان کے پیچھے داخل ہو گے۔” ہم نے کہا: (يا رَسُولَ اللهِ، اليَهُودَ والنَّصَارَى؟) "اے اللہ کے رسول ! یہود و نصاریٰ؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (فَمَنْ؟)”بھلا اور کون؟” رواه البخاري (1397)، ومسلم (4822)
بری مخلوق کی اتباع کے مظاہر میں سے ایک ان کے موسمی تہواروں میں ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔زمانہ جاہلیت کے لوگ سال میں دو دن کھیل تماشا کیا کرتے تھے۔ جب نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا: (قَدْ أَبْدَلَكُمُ اللهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الفِطْرِ، ويَوْمَ الأَضْحَى) "اللہ نے تمہیں ان دونوں دنوں کے بدلے ان سے بہتر دن عطا کیے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔” رواه أبو داود (1134)
پس عید ایک عقیدے کا مسئلہ ہے؛لہٰذا کسی مخصوص وقت کو سالانہ عیدوں کے لیے مقرر کرنا صرف رب العالمین کا حق ہے!
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ﴾"اور تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے پسند کرے”۔ القصص: 68
نبی ﷺ نے فرمایا: (إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا، وهَذَا عِيدُنَا)"ہر قوم کے لیے ایک عید ہوتی ہے، اور یہ ہماری عید ہے۔” رواه البخاري (952)، ومسلم (892)
اسلام میں عیدیں عبادت اور شعائر کا درجہ رکھتی ہیں، جن میں کسی قسم کی تحریف یا اضافہ قابلِ قبول نہیں۔ یہ شکر اور ذکر کے دن ہیں، غفلت اور شرک کے نہیں!اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ولِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ الله﴾ ” اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی مقرر کر دی تھی تاکہ اللہ نے جوجانور انہیں دیے ہیں ان پر اللہ کا نام یاد کیا کریں”۔ الحج : 34
اور مشرکین کی عیدیں:جھوٹ اور افتراء، نافرمانی اور گناہ ہیں، جو (رحمن کے بندوں) کے شایانِ شان نہیں!اللہ تعالیٰ نے ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿والَّذِينَ لا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْر﴾(اور وہ لوگ جو جھوٹ پر گواہی نہیں دیتے)۔الفرقان:72
حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: (يَعْنِي أَعْيَادَ المُشْرِكِيْن)”اس سے مراد مشرکین کی عیدیں ہیں۔” تفسير البغوي (3/459)
کفار کی عیدوں میں سے:ایک کرسمس اور دوسری نئے سال کی عید ہے۔یہ وہ عیدیں ہیں جن میں نصاریٰ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا جشن مناتے ہیں، جنہیں وہ (معاذ اللہ) رب یا رب کا بیٹا کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿سُبْحَانَهُ وتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا﴾.(پاک ہے وہ، اور بہت بلند ہے ان باتوں سے جو یہ کہتے ہیں)۔الاسراء:43
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کفار کی عیدوں کی سختی سے مخالفت کی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (اِجْتَنِبُوا أَعْدَاءَ اللهِ في عِيدِهِمْ، فَإِنَّ السُّخْطَةَ تَنْزِلُ عَلَيْهِمْ!)"اللہ کے دشمنوں کی عیدوں سے بچو، کیونکہ ان پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے!” رواه البيهقي في السنن الكبرى (18861) (18862)
جو شخص کفار کی عیدوں میں شرکت کرے (چاہے صرف مبارکباد ہی کیوں نہ دے) تو وہ اپنے دین کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (أَمَّا التَّهْنِئَةُ بِشَعَائِرِ الكُفْرِ؛ فَحَرَامٌ بِالاِتِّفَاق! مِثْلُ: أَنْ يُهَنِّئَهُمْ بِأَعْيَادِهِمْ؛ فَيَقُولَ: "عِيدٌ مُبَارَكٌ عَلَيْكَ” أَوْ "تَهْنَأُ بِهَذَا الْعِيدِ”، وَنَحْوَ ذلك؛ فَهَذَا -إِنْ سَلِمَ قَائِلُهُ مِنَ الْكُفْرِ- فَهُوَ مِنَ المُحَرَّمَاتِ، وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ أَنْ يُهَنِّئَهُ بِسُجُودِهِ لِلصَّلِيبِ! بَلْ ذَلِكَ أَعْظَمُ إِثْمًا عِنْدَ اللهِ مِنَ التَّهْنِئَةِ بِشُرْبِ الخَمْرِ، وقَتْلِ النَّفْسِ!) "کفر کے شعائر پر مبارکباد دینا متفقہ طور پر حرام ہے!جیسے کہ کفار کی عیدوں پر انہیں مبارکباد دینا، یہ کہے:’یہ عید تمہیں مبارک ہو’ یا ‘اس عید پر خوش رہو’۔یہ -اگر کہنے والا کفر سے بچ بھی جائے- تو بھی یہ عمل حرام ہے، اور یہ اس طرح ہے جیسے کسی کو صلیب پر سجدہ کرنے پر مبارکباد دینا!بلکہ یہ اللہ کے نزدیک شراب پینے یا کسی کا قتل کرنے پر مبارکباد دینے سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے۔” أحكام أهل الذمة (1/144 – 244)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (تَهْنِئَةُ الكُفَّارِ بِعِيْدِ الكِرِسْمِس: إِقْرَارٌ لِمَا هُمْ عَلَيْهِ مِنْ شَعَائِرِ الكُفْرِ. وَإِجَابَةُ دَعْوَتِهِمْ بِهَذِهِ المُنَاسَبَةِ: أَعْظَمُ مِنْ تَهْنِئَتِهِمْ! ويَحْرُمُ إِقَامَةُ الحَفَلَاتِ، أو تَبَادُل الهَدَايَا، أَو التَّهْنِئَةُ بِالشَّعَائِرِ الدِّيْنِيَّةِ: كَأَعْيَادِهِم الَّتِي تَكُونُ على رَأْسِ السَّنَةِ المِيْلَادِيَّة)”کفار کو کرسمس کی مبارکباد دینا، ان کے کفریہ شعائر کی تائید کے مترادف ہے۔اور ان کی اس مناسبت پر دعوت قبول کرنا، انہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے!اس موقع پر تقریبات کا انعقاد، تحفے تحائف کا تبادلہ، یا دینی شعائر کے ساتھ مبارکباد دینا، جیسے نئے سال کی عید پر، سب حرام ہے۔” مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين (3/45-46)
کرسمس کی عید کے ساتھ منسلک علامات کا استعمال، جیسے کرسمس کے درخت کا رکھنا، یا دیگر رسوم و علامات، نصاریٰ کی خاص عیدوں میں ان کی مشابہت ہے۔یہاں تک کہ اگر اس کا مقصد صرف تفریح ہو، تب بھی یہ عمل ناجائز ہے، کیونکہ وسیلہ اور ذریعہ مقاصد کے حکم میں شامل ہوتا ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا: (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ)"جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔” رواه أبو داود (4031)
آپ ﷺ نے ایک صحابی کو منع کرتے ہوئے فرمایا: (إِنَّ هَذِهِ مِنْ ثِيَابِ الكُفَّارِ؛ فَلَا تَلْبَسْهَا)”یہ کفار کے لباس میں سے ہے؛ اسے مت پہنو۔” رواه مسلم (2077)
کفار کی عیدوں میں مشابہت کی ممانعت:یہ ضروری نہیں کہ اس میں مشابہت یا تائید کا ارادہ ہو۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (إِذَا فَعَلَ فِعْلاً يَخْتَصُّ بِالكُفَّار؛ فَيَكُوْنُ مُتَشَبِّهًا بِهِمْ: سَوَاء قَصَدَ بِذَلِكَ التَّشَبُّهَ، أَمْ لَمْ يَقْصِد! وَكَثِيْرٌ مِنَ النَّاسِ يَظُنُّ أَنَّ التَّشَبُّهَ لا يَكُونُ إِلَّا بِالنِّيَّة، وهَذَا غَلَط؛ لِأَنَّ المَقْصُوْدَ هُوَ الظَّاهِر)”اگر کوئی ایسا عمل کرے جو کفار کے ساتھ خاص ہو، تو وہ ان کی مشابہت کرنے والا ہوگا، چاہے اس نے مشابہت کا ارادہ کیا ہو یا نہ کیا ہو! بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مشابہت صرف نیت سے ہوتی ہے، اور یہ غلط ہے، کیونکہ اصل معاملہ ظاہری عمل کا ہوتا ہے۔” فتاوى نور على الدرب، اور الشرح الممتع (5/29).
جب نبی کریم ﷺ کی میلاد کے جشن کا کوئی ثبوت نہ آپ ﷺ سے ہے، نہ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے، تو ان نصاریٰ کی اس بدعتی اور شرکیہ عید میں موافقت کا کیا حال ہوگا؟
شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: : (أَصْلُ ظُهُوْرِ الكُفْرِ: هُوَ التَّشَبُّهُ بِالكَافِرِيْنَ، ولِهَذَا عَظُمَ وَقْعُ البِدَعِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيْهَا تَشَبُّهٌ بِالكُفَّارِ؛ فَكَيْفَ إِذَا جَمَعَتِ الوَصْفَيْن!)”کفر کے ظاہر ہونے کی اصل وجہ کفار کی مشابہت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بدعتیں انتہائی خطرناک ہیں، چاہے ان میں کفار کی مشابہت نہ بھی ہو؛ پھر اگر ان میں دونوں اوصاف (بدعت اور مشابہت) جمع ہو جائیں تو کیا حال ہوگا؟” اقتضاء الصراط المستقيم (1/352)
اگر کوئی شخص آپ کے والد کو گالی دے، اور پھر اس گالی کا جشن منائے، تو کیا آپ اس کے ساتھ جشن منائیں گے؟تو ان کا کیا حال ہوگا جو آپ کے رب کو گالی دیتے ہیں، اور اس کی طرف بیٹے کو منسوب کرتے ہیں، اور آپ ان کے ساتھ اس بیٹے کی پیدائش کا جشن منائیں!
اللہ تعالیٰ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں: (كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ! وشَتَمَنِي، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ! فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ؛ فَقَوْلُهُ: "لَنْ يُعِيدَنِي كَمَا بَدَأَنِي!”، وَلَيْسَ أَوَّلُ الخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهِ. وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ؛ فَقَوْلُهُ: "اِتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا!” وأَنَا الأَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي كُفْئًا أَحَدٌ)"ابن آدم نے مجھے جھٹلایا، حالانکہ اس کا حق نہ تھا! اور اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ اس کا حق نہ تھا!جہاں تک اس کا مجھے جھٹلانے کا تعلق ہے، تو یہ اس کا کہنا ہے:’اللہ مجھے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا جیسے اس نے مجھے پہلی بار پیدا کیا!’حالانکہ پہلی بار پیدا کرنا میرے لیے دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔اور جہاں تک اس کا مجھے گالی دینے کا تعلق ہے، تو یہ اس کا کہنا ہے:’اللہ نے بیٹا بنا لیا!’حالانکہ میں احد، صمد ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ کوئی میرا بیٹا ہے، اور نہ کوئی میرے برابر ہے۔” رواه البخاري (4974)
اگر اللہ کے لیے قربانی جیسی عظیم مالی عبادت مشرکین کی عید کے مقام پر قبول نہیں کی جاتی، تو ان کے ساتھ ان کی عید کا جشن منانے کا کیا حال ہوگا؟
ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا: (إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِـ”بُوَانَةَ”)"میں نے نذر مانی ہے کہ میں ‘بوانہ’ مقام پر اونٹ ذبح کروں گا۔”( بوانہ مقام مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے)آپ ﷺ نے فرمایا: (هَلْ كَانَ فِيْهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الجَاهِلِيَّةِ؟)"کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا؟”اس نے کہا: "نہیں۔”آپ ﷺ نے فرمایا: (هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟)"کیا وہاں ان کے عیدوں میں سے کوئی عید منائی جاتی تھی؟”اس نے کہا: "نہیں۔”آپ ﷺ نے فرمایا: (أَوْفِ بِنَذْرِكَ؛ فإنه لا وفاءَ لِنَذْرٍ في مَعْصِيَةِ اللهِ، ولا فيما لا يَمْلِكُ ابنُ آدم)"اپنی نذر پوری کرو، کیونکہ ایسی نذر پوری نہیں کی جاتی جو اللہ کی نافرمانی میں ہو، یا جس پر ابن آدم کا اختیار نہ ہو۔” رواه أبو داود (3313)
میں اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ سے اپنے اور آپ کے تمام گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔پس اسی سے معافی مانگو، بے شک وہی معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اس کے احسانات پر، اور اس کے توفیق اور عنایت پر شکر گزار ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اللہ کے بندو!تمہارے نبی ﷺ مشرکین کی خاص عادات و رسوم کی مخالفت کا خاص اہتمام کرتے تھے، یہاں تک کہ یہود نے کہا: (مَا يُرِيدُ هَذَا الرَّجُلُ أَنْ يَدَعَ مِنْ أَمْرِنَا شَيْئًا؛ إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ!)"یہ شخص ہمارے کسی کام کو نہیں چھوڑنا چاہتا، مگر اس کی مخالفت کرتا ہے!” رواه مسلم (302)
لہذا اپنے دین پر فخر کرو، اور اپنے محبوب ﷺ کی پیروی کرو۔یہ کفار، چاہے وہ کتنی ہی میڈیا کی چمک دمک، دھوکہ اور تکبر میں آگے بڑھ جائیں،(هُمْ تَبَعٌ لَنَا يَوْمَ القِيَامَةِ! نَحْنُ الآخِرُونَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، والأَوَّلُونَ يَوْمَ القِيَامَة) وہ قیامت کے دن ہمارے تابع ہوں گے!ہم دنیا میں سب سے آخری امت ہیں، لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے۔ رواه مسلم (856)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلِلهِ العِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ ولَكِنَّ المُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾"عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے، لیکن منافقین نہیں جانتے۔” المنافقون: 8
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔
• اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
• اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
• اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
• اے اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس لوگوں میں سے نہ بنا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں، بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے، تو ہم پر آسمان سے موسلادھار بارش نازل فرما۔
• اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
• پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
• مترجم: محمد زبیر کلیم ( سابق مدرس جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد، پاکستان)
• داعی ومدرس جمعیت ھاد
• جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب