دم کرنے والوں کی کمائی کا بیان
771۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے چند صحابہ سفر میں تھے، عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے سے ان کا گزر ہوا، انھوں نے قبیلے والوں سے مہمان نوازی کا مطالبہ کیا لیکن انھوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی،بعد ازاں قبیلے والوں نے صحابہ کرام سے کہا: کیا تم لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے کیونکہ قوم کے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے یا اسے کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے؟ ان میں سے ایک صحابی نے کہا: ہاں، پھر وہ (صحابی) اس کے پاس آئے اور اسے سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کر دیا، وہ آدمی ٹھیک ہو گیا تو قبیلے والوں نے اسے بکریوں کا ایک ریوڑ پیش کیا تو اس صحابی نے ان بکریوں کو فوری طور پر) قبول کرنے سے گریز کیا اور کہا: جب تک میں نبی اکرم ﷺ سے اس کے متعلق ذکر نہ کروں اس وقت تک میںیہ بکریاں نہیں لوں گا، پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا آپ کو سنایا اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے سورہ فاتحہ کے علاوہ اور کوئی دم نہیں کیا۔ آپﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:
((وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ)) (أخرجه البخاري:5730، ومسلم: 2201)
’’تمھیں کیسے پتہ چلا کہ سورۂ فاتحہ سے بھی دم کیا جا سکتا ہے؟‘‘
پھر فرمایا: ((خُذُوا مِنْهُمْ وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ مَعَكُمْ))
’’ان سے بکریاں لے لو اور ان میں اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھو۔‘‘
772۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعال یعنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم چشمے پر رہنے والوں کے پاس سے گزرے، ان کے ہاں ایک شخص کو زہر یلے جانور نے کانٹا ہوا تھا، صحابہ کرام کے پاس چشمے والوں کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیاتم میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے؟ کیونکہ اس چشمے پر ایک آدمی کو کسی زہر یلے جانور نے کاٹ لیا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں سے ایک آدمی اس کے ہمراہ گیا اور چند بکریاں لینے کی شرط پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ آدمی تندرست ہو گیا۔ وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو انھوں نے اسے اچھا خیال نہ کیا اور کہا: تم نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے؟ آخر جب یہ حضرات مدینہ طیبہ آئے تو انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔
رسول اللهﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللهِ)) .
’’جن چیزوں کی تم اجرت لیتے ہو ان میں سے سب سے زیادہ اجرت لینے کے قابل اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ (أخرجه البخاري:5737)
773۔ خارجہ بن صلت میمی اپنے چچا سے بیان کرتے ہیں کہ وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے، ان کے ہاں ایک پاگل شخص لوہے ( کی بیٹریوں) میں جکڑا ہوا تھا، ان میں سے کسی شخص نے ان سے کہا: کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس کے ساتھ آپ اس کا علاج کر دیں؟ کیونکہ تمھارے ساتھی (نبیﷺ) بھلائی لے کر آئے ہیں، کہتے ہیں: میں نے اس پر تین دن تک روزانہ دو مرتبہ سورہ فاتحہ کی تلاوت کی تو وہ صحت یاب ہو گئے، اس نے انھیں ایک سو بکریاں دیں۔
یہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ ذکر کر دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((كُلْ فَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةٍ بَاطِلٍ، فَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةٍ حَقٍ))
’’کھاؤ، جس شخص نے باطل کا دم کر کے کھایا (وہ تو نا جائز ہے) جبکہ تم نے تو حق کا دم کر کے کھایا ہے۔‘‘(أخرجه أحمد:21835، 21836، وأبو داود: 3896، 3897 3901، وابن حبان: 6110، والنسائي في عمل اليوم والليلة: 1032)
توضیح و فوائد: دم کا معاوضہ لینا جائز ہے لیکن اسے کاروبار بنانا اور دولت اکٹھی کرنے کا ذریعہ بنانا محل نظر ہے۔ نبیﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے تعامل سے اسے کاروبار بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔والله أعلم.