درجات کی کمی بیشی کا دارو مدار توحید کی کمی بیشی پر ہے

سیدنا  سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ نے دریافت فرمایا: ((ما تَقُولُونَ في هٰذَا؟)) ’’اس شخص کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟‘‘ صحابہ نے عرض کی: یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ کسی کے ہاں نکاح کا پیغام بھیجے تو اس سے نکاح کر دیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے اور اگر کوئی بات کرے تو اسے غور سے سنا جائے۔ سیدنا  سہیل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد آپ ﷺخاموش ہو گئے۔ اتنے میں ایک دوسرا شخص وہاں سے گزرا، وہ مسلمانوں کے محتاج اور غریب لوگوں میں سے تھا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ((مَا تَقُولُونَ فِي هٰذَا؟)) ’’اس کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘ صحابہ نے عرض کی: یہ تو ایسا ہے کہ کہیں نکاح کا پیغام بھیجے تو اس سے نکاح نہ کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر کوئی بات کرے تو اس کی بات ہی نہ سنی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((هٰذَا خَيْرٌ مِّنْ مِلْئِ الْأَرْضِ مِثْلَ هٰذَا)) (أَخْرَجَهُ البخاري:5091)

اگر پہلے شخص جیسے لوگوں سے زمین بھر جائے تو ان سے یہ فقیر مومن بہتر ہے۔‘‘

57۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ، مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ، وَمِنْهَا مَا دُونَ ذَلِكَ، وَعُرِضَ  عَلَيَّ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ)) (أَخْرَجَهُ البخاري: 23، و مُسْلِمٌ:2390)

’’میں سویا ہوا تھا:میں نے (خواب میں) دیکھا کہ لوگ میرے سامنے لائے جا رہے ہیں، انھوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیض چھاتی تک پہنچتی ہے، کسی کی اس سے نیچے تک اور عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ  گزرے تو ان پر جو قمیص ہے وہ (اتنی لمبی ہے کہ)  اسے گھسیٹ رہے ہیں۔ لوگوں نے عرض کی:اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: ((الدین)) ’’دین‘‘

توضیح و فوائد: کائنات میں سب سے زیادہ معزز مسلمان ہیں کیونکہ اللہ تعالی کے نزدیک عزت کا معیار دین اسلام ہے اور دین اسلام کی اصل توحید ہے، اس لیے جس آدمی میں توحید جس قدر پختہ ہو گی وہ دوسروں سے اسی قدر افضل ہوگا۔ ان احادیث میں ایمان و توحید کے اس فرق کی وضاحت ہے۔ اہل دنیا کا معیار چاہے کچھ بھی ہو اللہ تعالی کے ہاں معیار ایمان و توحید ہے۔ امت کے بعض افراد کا نام لے کر رسول اکرم سی ایم نے ان کے مراتب کا تعین کر دیا، وہ ترتیب نبوی کے مطابق سب سے افضل ہیں اور باقی امت کے لیے مذکورہ معیار ہی ملحوظ ہو گا۔

58۔سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ، وَلَمْ يَكُمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَمَرْيَمُ بنتُ عِمْرَانَ، وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ)) (أَخْرَجَهُ البخاري:3411، ومُسْلِمٌ:2431)

’’مردوں میں بہت سے لوگ کامل ہوئے ہیں لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے سوا کوئی کامل نہیں ہوئی اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اسی طرح ہے جس طرح ثرید کی باقی کھانوں پر‘‘

توضیح و فوائد: کمال سے مراد وہ احسن انسانی صفات ہیں جن کی اللہ تعالی نے تعریف فرمائی، جسے علم، صداقت، سخاوت، استقامت وغیرہ۔ مذکورہ خوا تین دنیا کی تمام خواتین سے افضل ہیں۔ صحیح احادیث کے مطابق ان کے ساتھ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کون افضل ہے؟ اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک کی فضیلت جدا گانہ اعتبار سے ہے، کسی ایک کو دوسری پر کلی فضیلت دینا بظاہر مشکل ہے۔

59۔ سیدنا  علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مُلِئَ عَمَّارٌ إِيمَانًا إِلَى مُشَاشِهِ)) (أخرجه النسائي:5010، وابن ماجه:147)

’’عمار (رضی اللہ تعای عنہ) سر لے کر پاؤں تک ایمان سے لبریز ہے۔‘‘

60۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تقسیم کا کچھ مال لوگوں میں

بانٹا تو میں نے عرض کی:اللہ کے رسول! فلاں کو بھی دیجیے کیونکہ وہ مومن ہے، نبیﷺ نے فرمایا:

((أَوْ مُسْلِمٌ))  ’’(مومن ہے) یا مسلمان ہے۔‘‘

میں نے یہی بات تین مرتبہ عرض کی اور آپ ﷺ تینوں مرتبہ میرے سامنے یہی الفاظ دہراتے رہے:

((أَوْ مُسْلِمٌ)) ’’(مومن ہے) یا مسلمان ہے۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِنِّي لَأُعْطِيَ الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْهُ، مَخَافَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللهُ فِي النَّارِ))(أخرجه البخاري 27و 1478، و مسلم: 150، و اللفظ له)

’’میں ایک آدمی کو مال وغیرہ دیتا ہوں جبکہ دوسرا مجھے اُس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے، اس ڈر سے مبادا اللہ اسے اوندھے منہ آگ میں ڈال دے۔‘‘

توضیح و فوائد: کلمہ توحید کا اقرار کر کے اسلام کے ظاہری ارکان نماز وغیرہ پر عمل کرنے والا مسلمان اور ظاہری اقرار کے ساتھ ساتھ دلی طور پر بھی اس کی تصدیق اور اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور رسولوں پر ایمان لانے والا فرد مومن کہلاتا ہے، تاہم کبھی مومن کا لفظ مسلمان کے لیے اور مسلمان کا لفظ مومن کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

…………