دین میں غلو کرنا
اہم عناصرِ خطبہ :
01. اُمت محمدیہ کی ایک خصوصیت : اعتدال اور توسط
02. غلو کا معنی اور اس کی اقسام :
01. انبیائے کرام علیہم السلام اور صالحین میں غلو کرنا
02. عبادت میں غلو کرنا
03. نفلی عمل میں غلو کرنا
04. رخصتوں کو قبول نہ کرنا
05. اپنے آپ پر سختی کرنا
06. بے جاسوالات کرکے دین میں سختی کرنا
07. دعا میں غلو کرنا
08. دعوت الی اللہ میں غلو کرنا
09. قراء ت ِ قرآن میں غلو کرنا
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! امت ِ محمدیہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک معتدل اور متوسط امت ہے ۔ اور اِس کا دین دین ِ وسط ہے اور اس میں افراط وتفریط نہیں ہے ۔ یہ امت نہ کسی عمل میں حد سے تجاوز کرتی ہے اور نہ ہی اس میں کمی کرتی ہے ۔ اس میں نہ تو یہودیت کی طرح تشدد ہے اور نہ ہی نصرانیت کی طرح حد سے تجاوز ہے ۔بلکہ یہ امت توسط اور اعتدال کی روش اختیار کرتی ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ﴾ البقرۃ2 :143
’’ اور اسی طرح ہم نے تمھیں ( اے مسلمانو ! ) ایک معتدل اور بہترین امت بنایا ہے ۔ ‘‘
لہذا اِس امت کے تمام افراد پر لازم ہے کہ وہ اپنے تمام عقائد ونظریات ، عبادات ومعاملات اور اخلاق وکردار میں اعتدال کی راہ اپنائیں اور افراط وتفریط سے اجتناب کریں ۔
جو شخص افراط وتفریط سے پرہیز کرتا ہے اور میانہ روی اختیار کرتا ہے اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کامیابی کی نوید سنائی ہے ۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل نجد میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے ، اس کی آواز کی گنگناہٹ سنائی دیتی تھی ، لیکن اس کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی ، یہاں تک کہ وہ قریب آگیا ۔چنانچہ وہ اسلام کے متعلق سوال کرنے لگا ۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِی الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ )) ’’ دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں ۔ ‘‘
اس نے کہا : کیا ان کے علاوہ بھی کوئی نماز فرض ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ )) ’’ نہیں ، البتہ تم نفلی نماز پڑھنا چاہو تو پڑھ سکتے ہو ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَصِیَامُ رَمَضَانَ)) ’’ اور رمضان کے روزے بھی فرض ہیں ۔ ‘‘
اس نے کہا : کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزہ فرض ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ)) ’’ نہیں ، البتہ تم نفلی روزہ رکھنا چاہو تو رکھ سکتے ہو ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے زکاۃ بھی ذکر کی ۔
تو اس نے کہا : کیا اس کے علاوہ بھی کچھ فرض ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ)) ’’ نہیں ، البتہ تم نفلی طور پر خرچ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو ۔ ‘‘
چنانچہ وہ شخص پیٹھ پھیر کر یہ کہتے ہوئے جانے لگا کہ ( وَاللّٰہِ لَا أَزِیْدُ عَلٰی ہٰذَا وَلَا أَنْقُصُ )
’’ اللہ کی قسم ! میں نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ ہی اس سے کم ۔ ‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ )) ’’ اگر اس نے واقعتا ایسے ہی کیا تو یہ کامیاب ہو گیا۔ ‘‘ صحیح البخاری :46، وصحیح مسلم :11
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ مسلمان دین میں کمی بیشی اور افراط وتفریط نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کی کامیابی کو اِس بات سے مشروط کیا ہے کہ اگر وہ صدقِ دل سے افراط وتفریط سے اجتناب کرے گا تو کامیاب ہوجائے گا ۔ لہذا کامرانی وکامیابی کے حصول کیلئے افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے اعتدال اور توسط کی راہ کو اختیار کرنا لازم ہے۔
محترم بھائیو ! آج ہمارا موضوع ’ غلو ‘ ہے ۔ جس کا معنی ہے : حد سے تجاوز کرنا ۔تمام اہل ِ لغت نے اِس کا یہی معنی ذکر کیا ہے ۔
اورالمناوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
( اَلْغُلُوُّ : مُجَاوَزَۃُ الْحَدِّ ، وَالْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ : التَّصَلُّبُ وَالتَّشَدُّدُ فِیْہِ حَتّٰی مُجَاوَزَۃ الْحَدِّ )
’’ غلو سے مراد حد سے آگے بڑھنا ہے ۔ اور دین میں غلو کا مطلب ہے : اُس میں سختی اور تشدد کرنا حتی کہ حد سے تجاوز کرجانا۔ ‘‘
اور ہم خطبہ کے آغاز میں ہی یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ’ غلو ‘سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری امر ہے ۔
کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع کرتے ہوئے تنبیہ فرمائی کہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں ’غلو ‘نے ہی تباہ وبرباد کیا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم لوگ بھی ’غلو ‘کروگے تو تباہی سے دوچار ہوگے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
(( إِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّیْنِ فَإِنَّمَا أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ)) سنن النسائی : 3057 ، سنن ابن ما جہ : 3029۔ وصححہ الألبانی
’’دین میں غلوکرنے سے بچتے رہنا ، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کودین میں غلو نے ہی تباہ کیا ۔‘‘
اسی طرح ’ غلو ‘ کا مترادف ایک اور لفظ ہے اور وہ ہے : تنطُّع ۔ جس کا معنی ہے :انتہائی گہرائی میں جا کر اپنے اقوال وافعال میں حدود سے تجاوز کرنا اور خواہ مخواہ دین میں تشدد اورسختی کرنا ۔
اور دین میں اِس قسم کی سختی بھی ہلاکت وبربادی کا موجب بنتی ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُونَ )) قَالَہَا ثَلَاثًا صحیح مسلم :2670
’’ دین میں سختی کرکے حدود سے تجاوز کرنے والے ہلاک ہوگئے ۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار ارشاد فرمائے ۔
اور’غلو ‘ کی کئی صورتیں ہیں ، چند اہم صورتیں اور ان کا شرعی حکم ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں آپ کی خدمت میں ذکر کرتے ہیں ۔
01. انبیائے کرام علیہم السلام اور صالحین میں غلو کرنا
جیسا کہ یہود ونصاری نے انبیائے کرام علیہم السلام میں غلو کیا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ﴾ التوبۃ9 :30
’’اور یہودیوں نے کہا کہ عزیر ( علیہ السلام ) اللہ کے بیٹے ہیں ۔ اور نصاری نے کہا کہ مسیح ( عیسی ابن مریم علیہ السلام ) اللہ کے بیٹے ہیں ۔ ‘‘
تو عزیر علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دینا ’ غلو ‘ ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی اولاد سے پاک ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالی نے اِس عقیدے کی تردید کی ہے ۔بلکہ اسے سخت بے ہودہ بات اور بہت ہی بھاری گناہ قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا ٭ لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّا ٭ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا ٭ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا ٭ وَمَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ﴾ مریم19 :88۔92
’’اور وہ (مشرک ) کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو اپنی اولاد بنا رکھا ہے ! یقینا تم لوگوں نے ( یہ کہہ کر ) بہت بھاری گناہ کیا ہے ۔ قریب ہے کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ اس لئے کہ وہ لوگ رحمن کیلئے اولاد کا دعوی کرتے ہیں ۔ جبکہ رحمن کیلئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے ۔ ‘‘
اللہ تعالی کیلئے اولاد کا دعوی کرنا ایک بہت بڑا بہتان ہے ۔ اور اس سے اللہ تعالی نے خصوصا اہل کتاب کو منع کیا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ﴾ المائدۃ5 :77
’’آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں نا حق طور پر غلو نہ کرو ۔ اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے خود بھی گمراہ ہو گئے اور بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کیا اور راہِ راست سے بھٹک گئے۔‘‘
اسی طرح فرمایا :
﴿یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا ﴾ النساء4 :171
’’اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی شان میں حق بات کے علاوہ کچھ نہ کہو ۔ مسیح عیسی بن مریم صرف اللہ کے رسول تھے اور اس کا کلمہ ، جسے اس نے مریم کی طرف پہنچا دیا ۔ اور اس کی طرف سے ایک روح ۔ لہذا تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ ۔ اور تین معبودوں کے قائل نہ بنو ۔ اِس سے باز آجاؤ ، اسی میں تمھاری بہتری ہے ۔ یقینا اللہ اکیلا معبود ہے ، وہ اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو ۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کی ملکیت ہے ۔ اور اللہ بحیثیت کار ساز کافی ہے ۔ ‘‘
ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے خصوصا اہل کتاب کو دین میں غلوکرنے سے منع فرمایا ہے ۔کیونکہ وہ لوگ بہت زیادہ غلو کرتے تھے ۔ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ اپنے راہبوں اور درویشوں میں بھی غلو کرتے تھے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کافرمان ہے :
﴿ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ﴾ التوبۃ9 :31
’’ ان لوگوں نے اپنے عالموں اور اپنے عابدوں کو اللہ کی بجائے معبود بنا لیا اور مسیح عیسی بن مریم کو بھی ۔ حالانکہ انھیں تو صرف ایک ہی معبود کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔ وہ ان کے شرک سے پاک ہے ۔‘‘
ان لوگوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو کس طرح معبود بنا لیا تھا ! اس کی وضاحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے ہوتی ہے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَہُمْ،وَلٰکِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا أَحَلَّوْا لَہُمْ شَیْئًا اِسْتَحَلَّوْہُ،وَإِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوْہُ)) جامع الترمذی :3095 وصححہ الألبانی
’’ خبردار ! وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ وہ جب کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو اسے یہ حلال تصور کر لیتے اور وہ جب کسی چیز کو حرام کہتے تو اسے یہ حرام مان لیتے ۔ ‘‘
محترم بھائیو ! جیسا کہ اہل کتاب نے اپنے انبیاء علیہم السلام اور صالحین میں غلو کیا ، بالکل اسی طرح سے اِس امت کے لوگ بھی امام الانبیاء جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور صالحین ِ امت میں غلو کرتے ہیں اور ان کی تعریف میں حد سے تجاوز کرتے ہیں ۔
جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں :
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر اُتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی ہو کر
اور کسی نے غلو کرتے ہوئے یہ شعر کہا :
شریعت کا ڈر ہے نہیں تو یہ کہہ دوں خدا خود رسول ِ خدا بن کے آیا
اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں :
نہ بندہ رہے گا نہ اللہ رہے گا خدائی کا مالک محمد رہے گا
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں یہ شعر بھی پڑھا جاتا ہے :
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید وبا یزید ایں جا
یعنی ’’ آسمان کے نیچے ادب کی ایک ایسی جگہ ہے جو عرش سے بھی نازک ہے ، جہاں جنیداور بایزید جیسے بزرگ بھی سانس روک کر حاضر ہوتے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح ایک اور شعر آج کل زبان زدعام ہے :
کعبے کی عظمتوں کا منکر نہیں ہوں میں کعبے کا بھی کعبہ پیارے نبی کا روضہ
جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعریف میں غلو سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
(( لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ ))
’’ میری تعریف وتعظیم میں حد سے تجاوز نہ کرو ، جیسا کہ نصاری نے عیسی بن مریم ( علیہ السلام ) کی تعریف وتعظیم میں حد سے تجاوز کیا ۔ میں تو محض اللہ کا ایک بندہ ہوں ، لہٰذا تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو ۔ ‘‘ صحیح البخاری :3445
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان اختیارات کا مالک تصور کرنا جو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجت روا ، یا مشکل کشا ، یا غوث تصور کرنا حرام ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام اور تعظیم کی جو حد مقرر کردی گئی ہے اس سے تجاوز ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ قُلْ لاَّ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا إِلاَّ مَا شَائَ اللّٰہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْئُ إِنْ أَنَا إِلاَّ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤمِنُوْنَ ﴾ الأعراف : 188
’’ کہہ دیجئے کہ مجھے تو خود اپنے نفع ونقصان کا اختیار بھی نہیں ہے ، مگر اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ۔ میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان کیلئے جو ایمان لے آئیں ۔ ‘‘
نیز فرمایا : ﴿ قُلْ لاَّ أَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا أَقُوْلُ لَکُمْ إِنِّیْ مَلَکٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوْحٰی إِلَیَّ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الْأعْمٰی وَالْبَصِیْرُ أَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ ﴾ الأنعام6 :50
’’ آپ ان سے کہئے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، نہ ہی میں غیب کی باتیں جانتا ہوں ۔ اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں بلکہ میں تو پیروی کرتا ہوں اس چیز کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے ۔ آپ ان سے پوچھئے کہ کیا نا بینا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں ؟ پھر تم لوگ کیوں نہیں سوچتے ؟ ‘‘
اسی طرح کئی لوگ صالحین میں انتہائی غلو کرتے ہیں ۔اور ان کی قبروں کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کرتے ہیں، پھر ان سے نفع کی امید رکھتے ہوئے ان کی قبروں پر نذرو نیاز پیش کرتے ہیں ۔ رکوع وسجود کرتے ہیں اور انھیں حاجت روا اورمشکل کشا تصور کرتے ہوئے ان سے دعائیں مانگتے ہیں ۔
جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انبیائے کرام علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں کے متعلق آگاہ فرمایا کہ ان پر اللہ کی لعنت برستی ہے ۔ چہ جائیکہ کسی اور کی قبر کو اِس طرح سجدہ گاہ بنایا جائے !
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں بار بار یوں ارشاد فرماتے : (( لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَأَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ)) صحیح البخاری : 3453 ،3454
’’ یہود ونصاری پر اللہ تعالی کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔‘‘
اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود اپنی امت کو ڈرانا تھا کہ وہ بھی یہود ونصاری کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنائیں ۔ اور جب ایک نبی کی قبر کو سجدہ گاہ بنانا حرام ہے تو یقینا نبی سے کم تر کسی اور انسان کی قبر کو سجدہ بنانا بھی بالأولی حرام ہے ۔
یاد رہے کہ صالحین میں غلو کی وجہ سے ہی زمین پر شرک کی ابتداء ہوئی ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک گرجا گھر اور اس میں رکھی تصویروں کا تذکرہ کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ أُولٰئِکَ إِذَا کَانَ فِیْہِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ ، بَنَوْا عَلٰی قَبْرِہٖ مَسْجِدًا ، وَصَوَّرُوْا فِیْہِ تِلْکَ الصُّوَرَ ، فَأُولٰئِکَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) صحیح البخاری 427
’’ ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے ۔ اور اس میں ان تصویروں کو رکھ دیتے ۔ تو یہ لوگ قیامت کے روز اللہ کے نزدیک سب سے برے ہوں گے ۔ ‘‘
آج کل بہت سارے لوگ بڑے دھڑلے سے ’ غلو ‘ کرتے ہیں اور صالحین ِ امت کی تعریف میں اِس قدر حد سے تجاوز کرتے ہیں کہ انھیں اللہ تعالی کے اختیارات تک کا مالک تصور کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ
جیسا کہ ایک قوال کسی پیر کے بارے میں کہتا ہے :
لوگی تینوں پیر مندے اساں تینوں رب منیا !!
یعنی لوگ آپ کوپیر مانتے ہیں جبکہ ہم آپ کو ( نعوذ باللہ ) رب مانتے ہیں !!
اسی طرح ایک اور کہتا ہے :
لوگی عرشاں دے اُتے لبھدے نیں رب بوری والے دے اولے آبیٹھا
یعنی لوگ رب کو عرش پر تلاش کرتے ہیں جبکہ رب تو بوری والے پیر کے ہاں آ بیٹھا ہے !
اسی طرح کئی لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں شدید غلو کرتے ہیں اور انھیں رب تک مانتے ہیں ۔ نیز یہی لوگ اپنے ائمہ کو معصوم قرار دیتے ہیں ، بلکہ انھیں انبیاء علیہم السلام سے بھی افضل گردانتے ہیں !
اللہ رب العزت غلو کرنے والے اِن تمام لوگوں کو ہدایت دے ۔
02. عبادت میں غلو کرنا
بعض لوگ عبادت میں غلو کرتے ہیں ، یعنی حد سے تجاوز کرتے ہیں ۔ اور ایسا کرنا درست نہیں ہے ، کیونکہ شریعت میں جب ایک چیز کی حد مقرر کردی جائے تو اس سے تجاوزکرنا درست نہیں ہوتا ۔
اِس کی دو دلیلیں ہیں :
01. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذو الحج کی صبح کو اپنے سواری پر بیٹھے ہوئے مجھے حکم دیا کہ ( ہَاتِ اُلْقُطْ لِیْ ) ’’ لاؤ ، مجھے کنکریاں چن کر دو ۔ ‘‘
تو میں نے چند کنکریاں جو چنے کے سائز سے تھوڑی سی بڑی تھیں ، چن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رکھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو فرمایا :
(( بِأَمْثَالِ ہٰؤُلَائِ ، وَإِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّیْنِ فَإِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ)) سنن النسائی :3075، سنن ابن ماجہ :3029۔ وصححہ الألبانی
’’ اسی طرح کی کنکریاں مارنا ۔ اور دین میں غلو سے پرہیز کرنا ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہی ہلاک وبرباد کیا ۔ ‘‘
جبکہ آج کل بہت سارے لوگ مناسک ِ حج کی ادائیگی کے دوران جب جمرات کو کنکریاں مارتے ہیں تو کئی طرح سے غلو کرتے ہیں ۔ چنانچہ کئی لوگ بڑے بڑے پتھر مارتے ہیں ۔ کئی لوگ چپل اور جوتے مارتے ہیں ۔ اور کئی لوگ کنکریاں مارتے ہوئے شیطان کو گالیاں تک دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو یہ سب غلو ہی کی صورتیں ہیں ، جن سے حجاج کرام کو بچنا چاہئے ۔
02. حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے متعلق سوال کیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کرکے دکھایا اور تمام اعضائے وضو کو تین تین بار دھویا ( سوائے مسح کے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( فَمَنْ زَادَ عَلٰی ہٰذَا فَقَدْ أَسَائَ وَتَعَدَّی وَظَلَمَ )) سنن النسائی :140۔ وصححہ الألبانی
’’ جس شخص نے اِس پر اضافہ کیا تو اس نے برا کام کیا ، زیادتی کی اور ظلم کیا ۔ ‘‘
یہ حدیث اِس بات کی دلیل ہے کہ وضو کے اعضاء کو زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ دھویا جا سکتا ہے ۔ اِس سے زیادہ مرتبہ دھونا برا عمل او ر ظلم وزیادتی ہے۔لہذا اس میں غلو کرنے سے بچنا ضروری ہے ۔
03. نفلی عمل میں غلو کرنا
بعض لوگ نفلی اعمال میں حد سے تجاوز کرتے ہیں ۔ اور یہ بھی درست نہیں ہے ۔ کیونکہ پوری کی پوری خیر وبھلائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں ہے ۔
اِس نکتے کی کئی دلیلیں ہیں :
01. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا تُوَاصِلُوْا )) ’’ تم دن اور رات کا روزہ نہ رکھا کرو ۔ ‘‘
تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : آپ تو رکھتے ہیں !
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنِّیْ لَسْتُ مِثْلَکُمْ ،إِنِّیْ أَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ ))
’’ میں تمھاری طرح نہیں ہوں ، میں رات گزارتا ہوں ، تو مجھے میرا رب کھانا بھی کھلاتا ہے اور پانی بھی پلاتا ہے ۔ ‘‘
اِس کے باوجود بھی وہ لوگ اِس سے باز نہ آئے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ مسلسل دو دنوں یا دو راتوں کا روزہ رکھا ۔ پھر انھوں نے چاند دیکھ لیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَوْ تَأَخَّرَ الْہِلَالُ لَزِدتُّکُمْ )کَالْمُنَکِّلِ لَہُمْ ))
’’ اگر چاند نظر نہ آتا تو میں تمھیں اور زیادہ دنوں کا روزہ رکھواتا ۔ ‘‘ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں سزا دے رہے تھے ۔ صحیح البخاری :7299
02. حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق سوال کیا۔ چنانچہ انھوں نے اس کے بارے میں انھیں مطلع کیا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو ( اپنے نظریے سے ) کم تصور کرنے لگے اور کہنے لگے : ہم کہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہو سکتے ہیں ، ان کی تو اللہ رب العزت نے اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں !
پھر ان میں سے ایک نے کہا : میں تو ہمیشہ ساری رات کا قیام کرتا رہوں گا۔
دوسرے نے کہا : میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ نہیں چھوڑوں گا ۔
اور تیسرے نے کہا : میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔
ان کی یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچیں تو آپ ان کے پاس آئے اور فرمایا :
(( أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا ؟ أَمَا وَاللّٰہِ إِنِّی لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہُ ، لٰکِنِّی أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ ، وَأُصَلِّیْ وَأَرْقُدُ ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی ))
’’ کیا وہ تم ہو جنھوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں ؟ تمھیں جاننا چاہئے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں ۔ میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں ، میں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ۔ لہذا جو شخص میرے طریقے سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہوگا۔‘‘ صحیح البخاری :5063، صحیح مسلم :1401
03. حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا ۔ چنانچہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ملنے آئے تو انھوں نے حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہیں اور انھوں نے کوئی بناؤ سنگھار نہیں کیا ہوا۔ جب انھوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہ تمھارا بھائی ابو الدرداء دنیا سے بالکل بے نیاز ہو چکا ہے ۔ اس کے بعد حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بھی گھر میں پہنچ گئے تو انھوں نے مہمان کیلئے کھانا تیار کروایا اور انھیں کھانا پیش کرکے کہنے لگے :
بھائی تم کھاؤ ، میں تو روزے سے ہوں ۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا : میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک تم میرے ساتھ نہیں کھاتے !
تو حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ کھانے لگے ۔
پھر جب رات چھا گئی تو حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے اپنے مہمان سے سونے کا کہا اور خود جا کر نماز پڑھنے لگے ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے کہا : جاؤ تم بھی سو جاؤ ۔ چنانچہ وہ بھی سو گئے اور جب رات کا آخری حصہ شروع ہوا تو انھوں نے کہا : اب اٹھو اور نماز پڑھ لو۔ پھر انھوں نے کہا :
(( إِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا ،وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ،وَلِأَہْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ،فَأَعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ ))
’’ تم پر تمھارے رب کا حق بھی ہے ، تمھاری جان کا حق بھی ہے اور تمھارے گھر والوں کا حق بھی ہے ۔ لہذا تم سب کے حقوق ادا کیا کرو ۔ ‘‘
پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو پورا قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( صَدَقَ سَلْمَانُ )) ’’ سلمان نے سچ کہا ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :1968
04. اسی طرح عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا :
(( یَا عَبْدَ اللّٰہِ ! أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّکَ تَصُوْمُ النَّہَارَ وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ ؟))
’’ عبد اللہ ! کیا مجھے خبر نہیں دی گئی کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہو ؟ ‘‘
تو میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیوں نہیں ، میں ایسے ہی کرتا ہوں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَلَا تَفْعَلْ ،صُمْ وَأَفْطِرْ ، وَقُمْ وَنَمْ ، فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ،وَإِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا،وَإِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا،وَإِنَّ بِحَسْبِکَ أَنْ تَصُوْمَ کُلَّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ،فَإِنَّ لَکَ بِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشْرُ أَمْثَالِہَا ،فَإِنَّ ذَلِکَ صِیَامُ الدَّہْرِ کُلِّہٖ )) صحیح البخاری :1975 ’’ تم ایسے نہ کیا کرو ۔ روزہ رکھا کرو اور پھر روزہ چھوڑ دیا کرو ۔ نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو ۔کیونکہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے ، تمھاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے ، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمھارے مہمانوں کا بھی تم پر حق ہے ۔ اور تمھیں یہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھ لیا کرو ۔ کیونکہ ایک نیکی دس نیکیوں کی طرح ہوتی ہے ۔ یوں یہ روزے سال بھر کے ہو جائیں گے ۔ ‘‘
05. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( مسجد میں ) داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک رسی دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ( مَا ہٰذَا الْحَبَل ؟) ’’ اِس رسی کا کیا ماجرا ہے ؟ ‘‘ تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : یہ زینب رضی اللہ عنہا کیلئے بندھی ہوئی ہے ۔ جب وہ ( نماز پڑھتے پڑھتے ) تھک جاتی ہیں تو اسے پکڑ لیتی ہیں ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( َلا ، حُلُّوْہُ ، لِیُصَلِّ أَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ ، فَإِذَا فَتَرَ فَلْیَقُعُدْ ) صحیح البخاری :1150
’’ نہیں ، اسے کھول دو ، تم میں سے ہر شخص اُس وقت تک نماز پڑھے جب تک نشیط ( چست) رہے ، پھر جب تھک جائے تو بیٹھ جائے ۔ ‘‘
06. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( خُذُوْا مِنَ الْأعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ ، فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا ، وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلیَ اللّٰہِ مَا دُوْوِمَ عَلَیْہِ وَإِنْ قَلَّ)) صحیح البخاری :1970،صحیح مسلم:782 ۔ واللفظ لہ
’’ تم اپنی طاقت کے مطابق ہی عمل کیا کرو ، کیونکہ اللہ تعالی اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم خود نہ اکتا جاؤ ۔ اور اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے چاہے وہ کم کیوں نہ ہو۔ ‘ ‘
ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ نفلی اعمال میں اپنے اوپر سختی کرنا اور ان میں غلو کرنا درست نہیں ہے ۔ لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ اور اپنی طاقت کے مطابق ہی نفلی عبادت کرنی چاہئے ۔
04. رخصت کو قبول نہ کرنا
غلو کی ایک صورت ہے : شریعت میں دی گئی رخصت کو قبول نہ کرنا اور خواہ مخواہ دین میں سختی کرنا ۔
مثلا مسافر کو رخصت دی گئی ہے کہ وہ سفر میں روزہ چھوڑ سکتا ہے ۔ اگر کوئی مسافر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے ہوئے دوران سفر روزہ جاری رکھے تو یہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کا رش دیکھا جنھوں نے ایک آدمی پر سایہ کیا ہوا تھا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اسے کیا ہوا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ روزے سے ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ )) صحیح البخاری :1946،صحیح مسلم:1115
’’ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے ۔ ‘‘
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا اور اس میں رخصت دی ۔ لیکن جب لوگوں کو پتہ چلا تو انھوں نے اسے ناپسند کیا اور اس سے بچنے لگنے ۔ تو یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا ، اللہ تعالی کی حمد بیان کی ، پھر فرمایا :
(( مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَتَنَزَّہُوْنَ عَنِ الشَّیْیئِ أَصْنَعُہُ ، فَوَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأَعْلَمُہُمْ بِاللّٰہِ وَأَشَدُّہُمْ لَہُ خََشْیَۃً)) صحیح البخاری :6101، 7301 ،صحیح مسلم :2356
’’ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس کام سے بچنے لگے ہیں جو میں کرتا ہوں ! اللہ کی قسم ! میں ان سے زیادہ اللہ کو جاننے والا اور ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔ ‘‘
05. اپنے آپ پر سختی کرنا
’ غلو ‘ کی ایک صورت ہے : اپنے آپ کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالنا اور اپنی جان پر سختی کرنا ۔ جو یقینا درست نہیں ہے ۔ اور اس کے کئی دلائل ہیں :
01. ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا جو کھڑا ہوا تھا اور بیٹھنے سے گریز کر رہا تھا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا ، تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو اسرائیل ہے جس نے نذر مانی ہے کہ یہ کھڑا رہے گا اور نہیں بیٹھے گا ۔ نیز سائے میں نہیں جائے گا ( ہمیشہ دھوپ میں رہے گا ) اور کسی سے بات چیت بھی نہیں کرے گا اور روزہ رکھے گا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مُرْہُ فَلْیَتَکَلَّمْْ ، وَلْیَسْتَظِلَّ ، وَلْیَقْعُدْ ، وَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ )) صحیح البخاری :6704
’’ اسے حکم دو کہ بات چیت شروع کردے ، سائے میں بھی جائے ، نیز بیٹھ جائے اور اپنا روزہ مکمل کرلے۔‘‘
02. عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ کی طرف پیدل چل کر جائے گی۔ اور اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کیلئے فتوی طلب کروں ۔ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی طلب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لِتَمْشِ وَلْتَرْکَبْ )) ’’ اسے کہو کہ وہ پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہو ۔ ‘‘ صحیح البخاری :1866، صحیح مسلم :1644
03. انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا جسے اس کے دو بیٹوں کے سہارے پر چلایا جا رہا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (( مَا بَالُ ہٰذَا ؟))’’ اسے کیا ہوا ہے ؟ ‘‘ تو لوگوں نے کہا کہ اس نے چلنے کی نذر مانی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ عَنْ تَعْذِیْبِ ہٰذَا نَفْسَہُ لَغَنِیٌّ ))
’’ بے شک اللہ تعالی اِس بات سے بے پروا ہے کہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالے ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سواری پر سوار ہونے کا حکم دیا ۔ صحیح البخاری :1865،صحیح مسلم :1642
ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے آپ پر خواہ مخواہ سختی کرنا اور خودکومشقت میں ڈالنا غلو ہے ، جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور اعتدال کی راہ اپنانے کا حکم دیا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ، وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا ، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِّنَ الدُّلْجَۃِ ))
’’بے شک دین آسان ہے اور جو آدمی دین میں تکلف کرے گا اور اپنی طاقت سے بڑھ کر عبادت کرنے کی کوشش کرے گا دین اس پر غالب آ جائے گا ۔ لہذا تم اعتدال کی راہ اپناؤ ، اگر کوئی عبادت مکمل طور پر نہ کر سکو تو قریب قریب ضرور کرو ، عبادت کے اجر وثواب پر خوش ہو جاؤ اور صبح کے وقت ، شام کے وقت اور رات کے آخری حصہ میں عبادت کرکے اللہ تعالی سے مدد طلب کرو ۔‘‘ صحیح البخاری ۔کتاب الإیمان :39
لہذا غلو کی ان تمام صورتوں سے بچنا چاہئے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو غلو سے محفوظ رکھے ۔
06. بے جا سوالات کے ذریعے دین میں سختی کرنا
’غلو ‘ کی ایک اور صورت ہے : بے جا اور غیر ضروری سوالات کرکے دین میں خواہ مخواہ سختی کرنا۔جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ شریعت جن امور میں خاموش ہو ان میں خاموشی ہی اختیار کی جائے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر بعض لوگوں کے بے جا سوالات کو انتہائی نا پسند فرمایا ۔ جیسا کہ حج کی فرضیت ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَیُّہَا النَّاسُ ، قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا ))
’’ اے لوگو ! اللہ نے تم پرحج فرض کیا ہے ، لہذا تم حج کرو۔ ‘‘
یہ سن کر ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہر سال حج فرض ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی حتی کہ اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَوْ قُلْتُ نَعَمْ ، لَوَجَبَتْ ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ))
’’ اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال حج واجب ہو جاتا ، اور ایسا ہو جاتا تو تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ ‘‘
اس کے بعد فرمایا :((ذَرُوْنِیْ مَا تَرَکْتُکُمْ ، فَإِنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلَافِہِمْ عَلٰی أَنْبِیَائِہِمْ ، فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْیٍٔ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ ، وَإِذَا نَہَیْتُکُمْ عَنْ شَیْیٍٔ فَدَعُوْہُ)) صحیح مسلم :1337
’’ جب تک میں خود تمھیں کچھ نہ بتاؤں اُس وقت تم بھی مجھ سے کچھ نہ پوچھا کرو ۔ کیونکہ تم سے پہلے لو گ اپنے نبیوں سے بہت زیادہ سوالات اور ان سے اختلاف کرکے ہی ہلاک ہوئے ۔ لہذا جب میں تمھیں کوئی حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کیا کرو ۔ اور جب میں تمھیں کسی چیز سے روکوں تو اسے چھوڑ دیا کرو۔ ‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِیْنَ فِی الْمُسْلِمِیْنَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَیْیئٍ لَمْ یُحَرَّمْ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ ، فَحُرِّمَ عَلَیْہِمْ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِہٖ )) صحیح البخاری :7289، صحیح مسلم :2358واللفظ لہ
’’ مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جو کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہ کی گئی ہو ، پھر اسے مسلمانوں پر اُس کے سوال کی وجہ سے حرام کردیا گیا ۔ ‘‘
07. دعا میں غلو کرنا
دعا کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ وہ چپکے چپکے دعا کرے اور اونچی اونچی آواز میں چیخ وپکار کرتے ہوئے دعا نہ کرے جیسا کہ عموما طواف اور صفا ومروہ کی سعی کے دوران نظر آتا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ﴾ الأعراف7 :55
’’ تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے پکارو کیونکہ وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ‘‘
دعا میں ’غلو ‘ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ دعا کرنے والا دورانِ دعا اپنی آواز میں حد سے تجاوز کرے اور اونچی اونچی آواز میں دعا کرے ۔ اور ایسا کرنا ہرگز جائز نہیں ۔ کیونکہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ جب ہم کسی وادی کے قریب پہنچتے تو اونچی اونچی آواز کے ساتھ لا إلہ إلا اللہ اور اللہ اکبر کہنا شروع کردیتے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! اِرْبَعُوا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ فَإِنَّکُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا ، إِنَّہُ مَعَکُمْ ، إِنَّہُ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ ، تَبَارَکَ اسْمُہُ وَتَعَالٰی جَدُّہُ )) صحیح البخاری :2830 ، صحیح مسلم :2704
اے لوگو ! تم اپنے اوپر ترس کھاؤ ، کیونکہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔ وہ تو تمھارے ساتھ ہے۔ وہ یقینا بہت سننے والا اور نہایت قریب ہے ۔ اس کا نام بابرکت اور اس کی بزرگی بہت بلند ہے ۔ ‘‘
اور ’ غلو ‘ کی دوسری صورت یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کے الفاظ میں حد سے تجاوز کرے ۔
جیسا کہ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یوں دعا کرتے ہوئے دیکھا :
( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْقَصْرَ الْأَبْیَضَ عَنْ یَمِیْنِ الْجَنَّۃِ إِذَا دَخَلْتُہَا )
’’اے اللہ ! میں جب جنت میں داخل ہو جاؤں تو مجھے اس کی َدائیں طرف سفید محل نصیب کرنا ۔ ‘‘
تو انھوں نے کہا : (( أَیْ بُنَیَّ ! سَلِ اللّٰہَ الْجَنَّۃَ وَتَعَوَّذْ بِہٖ مِنَ النَّارِ ))
’’ میرے بیٹے ! اللہ تعالی سے بس جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ طلب کرو ۔ ‘‘
کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :
(( سَیَکُونُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ قَوْمٌ یَّعْتَدُوْنَ فِی الطَّہُورِ وَالدُّعَائِ)) سنن أبی داؤد : 96، وسنن ابن ماجۃ :3864۔ وصححہ الألبانی
’’ میری امت میں عنقریب ایسے لوگ ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے ۔ ‘‘
آخر میں اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔
دوسرا خطبہ
محترم حضرات ! پہلے خطبے میں ہم نے غلو کی سات صورتیں بیان کی ہیں ۔ اب اِس کی ایک دو صورتیں اور بھی جان لیجئے ۔
8۔ دعوت الی اللہ میں غلو
جو حضرات میدان ِ دعوت میں کام کرتے ہیں اور تبلیغ ِ دین اور وعظ ونصیحت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ، ان میں سے بعض لوگ اپنی دعوت میں غلو کرتے ہیں ۔ اور خواہ مخواہ دین میں سختی کرکے لوگوں کو نفرت دلاتے ہیں ۔
جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ﴾ النحل16 :125
’’ آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے ۔ اور ان کے ساتھ بحث وتکرار میں سب سے عمدہ اسلوب اختیار کیجئے ۔ ‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ کو دعوتِ اسلام کیلئے یمن کی طرف روانہ فرمایا تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ
((یَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا ، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا ، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا)) صحیح البخاری : 3038
’’ لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرنااور انھیں سختی اور پریشانی میں نہ ڈالنا ۔ اور ان کوخوشخبری دینا ، دین سے نفرت نہ دلانا ۔ اور دونوں مل جل کر کام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَحَبُّ الْأَدْیَانِ إِلیَ اللّٰہِ تَعَالَی الْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ)) صحیح الجامع : 160
’’ اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب دین ‘ دین ِ حنیفی ہے جوکہ آسان ہے ۔ ‘‘
لہٰذا دعاۃ ، خطباء اور واعظین پر یہ بات لازم ہے کہ وہ دین کو لوگوں کے سامنے آسان انداز میں اور بہترین اسلوب کے ساتھ پیش کریں اور خواہ مخواہ سختی نہ کریں کہ جس سے لوگوں کے دلوں میں اسلامی تعلیمات سے نفرت پیدا ہو ۔
٭ بعض دعاۃ وخطباء فروعی ، اجتہادی مسائل پر خوب گفتگو کرتے اور بحث ومباحثہ کرتے ہیں ،بلکہ اپنی زیادہ تر توانائیاں اسی پر صرف کرتے ہیں اور اصولی ، اعتقادی مسائل کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں یا ان پر بہت کم بات کرتے ہیں ۔ یہ بھی غلو ہی کی ایک صورت ہے ۔ کیونکہ دین میں دعوت الی اللہ کی ترجیحات متعین کردی گئی ہیں ۔ اور عقائد و ایمانیات ، فرائض اسلام ، مبادیٔ دین اور اخلاقیات کو دیگر مسائل پر فوقیت دی گئی ہے ۔ اس لئے داعی الی اللہ کو بھی اپنی دعوت میں انہی ترجیحات کو مد نظر رکھنا چاہئے ۔
٭ اسی طرح بعض لوگ اپنی دعوت میں صرف ’ فضائل اعمال ‘ ذکر کرتے ہیں اور وہ بھی زیادہ تر ایسے جو ضعیف، جھوٹی اور من گھڑت احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں ۔ اور دین کے اہم مسائل ، مثلا توحید الوہیت ، توحید اسماء وصفات ، ارکان اسلام اور ارکان ایمان پر ایک لفظ بھی نہیں بولتے ۔ توحید کے بارے میں گفتگو کریں گے تو زیادہ سے زیادہ توحید ربوبیت ہی بیان کریں گے جسے مشرکین مکہ بھی تسلیم کرتے تھے اور اِس دور کے مشرک بھی مانتے ہیں ۔ اور جس توحید کو وہ نہیں مانتے ، یعنی توحید الوہیت ، تواُس کے بارے میں نہ وہ خود آشنا ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مبلغین لوگوں کو شرک سے نہیں ڈراتے اور نہ ہی اس کی سنگینیوں کے متعلق انھیں آگاہ کرتے ہیں۔اِس کے علاوہ معاشرے میں پھیلے ہوئے دیگر خطرناک اور
سنگین جرائم مثلا زنا ، شراب نوشی ، چوری ، ڈاکہ زنی اور قتل وغارت گری وغیرہ کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں ۔اور ان جیسے بڑے بڑے گناہوں کے بارے میں لوگوں کو تنبیہ نہیں کرتے ۔
اسی طرح یہ لوگ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن لوگوں کو ابتداع کی شرعی حیثیت اور اس کے خطرناک نتائج کے بارے میں آگاہ نہیں کرتے ۔ اور نہ ہی معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعات پر متنبہ کرتے ہیں ۔ تو صرف ’ فضائل اعمال ‘ پر زور دینا اور اساسیاتِ دین کو بالکل نظر انداز کرنا بھی غلو کی شکلوں میں سے ایک شکل ہے ۔جس سے دعاۃ ومبلغین کو بچنا چاہئے ۔
٭ اوربعض لوگ دعوت میں اِس قدر غلو کرتے ہیں کہ وہ لوگوں پر ’کفر‘ کا فتوی لگانے سے بھی باز نہیں آتے ۔ اور معمولی باتوں پر ’کفر ‘ کا فتوی صادر کردیتے ہیں ۔ حالانکہ کسی پر ’ کفر ‘ کا فتوی لگانا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِذَا کَفَّرَ الرَّجُلُ أَخَاہُ فَقَدْ بَائَ بِہَا أَحَدُہُمَا)) صحیح البخاری :6104، صحیحمسلم :60واللفظ لہ
’’ جب ایک آدمی اپنے بھائی کو کافر کہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک ضرور اس کا مستحق ہوتا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَیُّمَا امْرِیٍٔ قَالَ لِأَخِیْہِ : یَا کَافِرُ ، فَقَدْ بِہَا بِہٖ أَحَدُہُمَا ، إِنْ کَانَ کَمَا قَالَ ، وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَیْہِ)) صحیح مسلم : 61
’’ جو آدمی اپنے بھائی سے کہے : اے کافر ! تو ان دونوں میں سے کوئی ایک ضرور اس کا مستحق ہوتا ہے ۔ جس کو اس نے کافر کہا ، اگر وہ ویسا ہی ہے تو ٹھیک ، ورنہ وہ لفظ خود اسی پر لوٹ آتا ہے ۔ ‘‘
اور ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کو کافر کہنا اسے قتل کرنے کے برابر قرار دیا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( وَمَنْ رَمَی مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ فَہُوَ کَقَتْلِہٖ)) صحیح البخاری : 6105
’’ اور جس آدمی نے مومن پر کفر کا فتوی لگایا تو وہ اسے قتل کرنے کی طرح ہے ۔ ‘‘
لہذا اِس سنگین قسم کے غلو سے بھی غلو کرنے والے لوگوں کو ڈرنا چاہئے اور اس سے قطعی اجتناب کرنا چاہئے ۔
09. قراء ت ِ قرآن میں غلو کرنا
قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے ۔ اور اسے اُسی طرح پڑھنا ضروری ہے جیسا کہ اسے اللہ تعالی نے نازل
فرمایا۔ اور اس کا تلفظ اور ادائیگی ویسے ہی ہونی چاہئے جیسا کہ تجوید قرآن کے اصول وقواعد کی روشنی میں اس کی حدود مقرر کردی گئی ہیں ۔ لیکن اسے کیا کہئے کہ بعض قراء کرام قراء ت میں بہت غلو کرتے ہیں ۔اور گلا پھاڑ پھاڑ کے پڑھتے ہیں ۔ اور قواعد ِ تجوید سے تجاوز کرتے ہیں ۔
اسی طرح بعض خطباء بھی لمبی لمی راگ لگاتے ہیں جو قطعا جائز نہیں ہے ۔ اِس کے علاوہ مخارج حروف سے قطعی طور پر نا آشنا ہوتے ہیں اور اللہ کے کلام کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں ۔یقینا یہ بھی درست نہیں ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ہر قسم کے غلو سے محفوظ رکھے ۔ کیونکہ دین میں غلو کرنے کا انجام بہت برا ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِیْ لَنْ تَنَالَہُمَا شَفَاعَتِیْ : إِمَامٌ ظَلُوْمٌ غَشُوْمٌ ، وَکُلُّ غَالٍ مَارِقٍ)) السلسلۃ الصحیحۃ 470
’’ میری امت کے دو قسم کے لوگوں کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ۔ ظالم بادشاہ اور ہر وہ شخص جو غلو کرے اور غلو کے ذریعے دین سے خارج ہوجائے ۔ ‘‘
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین