دینی مجلسوں کی فضیلت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَا يَقْعُدُ قومٌ يَذْكُرُونَ اللهَ عَزَّ وَجَلَ اِلَّاحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَغَشِيَتُهُمُ الرَّحْمَةُ وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِيْنَةُ وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِيمَنْ عِندَهُ . (اخرجه مسلم)
(صحيح مسلم كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر)
ابو ہریر ورضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو قوم بھی کسی جگہ جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی ہے تو انہیں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمتیں ڈھانپ لیتی ہیں اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرشتوں میں فرماتا ہے جو ان کے پاس ہوتے ہیں۔
عَن أَبِي مُوْسٰى الأَشْعَرِيِّ رضيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ : مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرْ رَبَّهُ وَالَّذِى لا يَذْكُرُ رَبَّهُ مَثَلِ الْحّيِّ وَالْمَيِّتِ. (أخرجه البخاري)
(صحیح بخاری: کتاب الدعوات، باب فضل ذكر الله عز وجل)
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔
عَنْ أَبِي هُزِيرَة رَضِيَ اللهُ عنهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِنَّ لِلَّهِ ملائِكَةُ يَطُوفُونَ فِي الطَّرْقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ الله تَنادُوا هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُم، قَالَ: فَيَحْفُّونَهُم بِأَجْنِحَتِهم إلى السماء الدنيا، قَالَ: فَيَسْأَلهم رَبُّهَمْ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ مِنْهُم مَا يَقُولُ عِبَادِي قَالَ: تَقُولُ: يُستحونك ويكبرونك ويَحْمَدُونَ، قَالَ: فَيَقُولُ: هَلْ رَأَوْنِي؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لا، وَاللهِ مَا رَأَوْكَ، قَالَ: فَيَقُولُ: كَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَوْ رَأوك كانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً، وَأَشَدَّ لَكَ تمجيدًا، وأكثر لك تسبيحًا، قال : يَقُولُ: فَمَا يَسْأَلُونِي ؟ قَالَ: يسألونك الجنةَ، قَالَ : يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا قَالَ: يَقُولُونَ: لَا، وَاللَّهِ يَارَبِّ مَا رَأَوْهَا، قَالَ: فَيَقُولُ : فكيف لو أَنَّهُم رأوها ؟ قَالَ : يَقُولُونَ: لَو أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عليها حرصًا، وأشدَّ لَهَا طَلبًا وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً، قَالَ: فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ ؟ قَالَ يَقُولُونَ: مِنَ النَّارِ، قَالَ: يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ قَالَ: يَقُولُونَ: لا، وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأوها، قَالَ : يَقُولُ: فَكَيفَ لَوْ رَأَوْهَا، قَالَ: يَقُولُونَ: لَوْ رَأَوُهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا، وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً، قَالَ: فَيَقُولُ: فَأٌشْهِدُكُم أَنِّي قد غَفَرْتُ لَهُم، قَالَ يَقُوْلُ مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فِيْهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُم إنَّما جَاءَ لِحَاجَةٍ ؟ قَالَ: هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقِى جَلِيْسُهُم . (متفق عليه)
(صحیح بخاري كتاب الدعوات، باب فضل ذكر الله عز وجل، صحیح مسلم: كتاب الذكر والدعاء
والتوبة والاستغفار، باب فضل مجالس الذكر.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالی کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب کچھ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں جو اللہ تعالی کا ذکر کرتے ہوتے ہیں تو دوسروں کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا۔ پھر وہ پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر سایہ کئے رہتے ہیں۔ (پھر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں اللہ کے نبی ﷺ کہتے ہیں پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے کہ میرے بندے کیا کہہ رہے تھے ؟ آپ ﷺ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح پڑھ رہے تھے، تیری کبریائی بیان کر رہے تھے، تیری حمد بیان کر رہے تھے اور تیری بڑائی کر رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں اللہ کی قسم ! انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا ہے۔ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا اگر دو مجھے دیکھ لیتے ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کر لیتے تو تیری عبادت اور کرتے، تیری بڑائی اور بیان کرتے، تیری تسبیح اور کرتے۔ پھر اللہ تعالی دریافت کرتا ہے، مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالی دریافت کرتا ہے کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ اے رب! انہوں نے تیری جنت نہیں دیکھی۔ اللہ تعالی دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر جنت دیکھ لیتے ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس کے پانے کے لئے اور بھی زیادہ خواہش مند ہوتے، اس کے مزید طلب گار ہوتے اور اس کی طرف مزید راغب ہوتے۔ پھر اللہ تعالی پوچھتا ہے کہ وہ کسی چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں، دوزخ ہے۔ اللہ تعالی پوچھتا ہے کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے پھر اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے کے لئے اور تیز بھاگتے اور اس سے مزید خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کردی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ یہ (ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔
تشریح:
اسلام نے اپنی جانوں اور مجلسوں میں شرکت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اور اللہ تعالی کو بھی ایسی تامیں بہت پسند میں جن میں تلاوت کلام پاک، درس حدیث، ندا کرو علمیہ تسبیح و تہلیل اور استغفار ہوتا ہو۔ کیونکہ یہ اعمال قربت الہی اور گناہوں کی معافی اور درجات کے بلند ہونے کا ذریعہ ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو قوم کسی دیق مجلس میں شریک ہو کر اللہ تعالی کا ذکر کرتی ہے تو ایسی مجلسوں کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمتیں ڈھانپ لیتی ہیں اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقربین فرشتوں میں کرتا ہے۔ اسی طرح دینی مجلسوں میں جتنے آدمی بھی شریک ہوتے ہیں خواه وہ کسی غرض سے بھی آئے ہوئے ہوں سب کو اللہ تعالی معاف فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں دینی مجلسوں میں شرکت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ دینی حلقوں اور مجلسوں میں شرکت کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔
٭ ذکر الہی گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔
٭ دینی مجلسوں کو اللہ تعالی کے فرشتے اپنے گھیرے میں لئے رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭