دعا کی قبولیت کے اوقات

عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: أَقْرَبُ مَا يَكُونُ العُبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاء. (اخرجه مسلم)

(صحیح مسلم: کتاب الصلاة، باب ما يقال في الركوع والسجود)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کہ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدے میں ہوتا ہے، پس سجدے میں زیادہ دعائیں کرو۔

وَعَنْ أَني رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : "لَا يَرْدُ الدُّعَاءِ بَينَ الأَذَانِ والإِقَامَةِ (أخرجه أبو داود).

(سنن ابو داود: کتاب الصلاة، باب في الدعاء بين الأذان والإقامة، وصححه الألباني في صحيح سنن أبي داود: (521)

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے۔

وَعَن سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ال : بُنْتَانِ لَا تُرَدَّانِ أو قل مَا تُرَدَانِ الدُّعَاءُ عِندَ النَّدَاءِ، وَعِندَ النَّاسِ حِينَ يُلْحَمُ بَعْضُهُم بَعْضًا. (اخرجه ابو داؤد).

سنن أبو داود: کتاب الجہاد، باب الدعاء عید اللقاء، و صححه الألباني في صحيح سنن أبي داود (2540)

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو وقت کی دعائیں رد نہیں کی جاتی ہیں یا بہت کم رد کی جاتی ہیں۔ ایک اذان کے وقت اور دوسری جنگ کے وقت، جب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھڑ جاتے ہیں۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: يَنزِلُ رَبُّنَا تبَارَكَ وَتَعَالَى كُلِّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى تلك اللَّيْلِ الآخر، فَيَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَاسْتَجِيبَ لَهُ، وَمَنْ يَسْأَلْنِي فَاعْطِيَهُ، وَمَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَاغْفِرَ لَهُ . (متفق عليه)

(صحيح بخاري: كتاب التهجد، باب الدعاء في الصلاة من آخر الليل، صحیح مسلم: كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في الدعاء والذكر في آخر الليل والإجابة فيه.)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کہ اللہ تبارک و تعالی نچلے آسمان پر ہر روز نازل ہوتا ہے جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے پس وہ کہتا ہے، کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اسے بخش دوں؟

وَعَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: إِنْ في اللَّيْلِ لَسَاعَةً لا يُوَافِقُهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ خَيْرًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَذَلِكَ كُلُّ لَيْلَةٍ، (اخرجه مسلم)

(صحیح مسلم: کتاب صلاة الليل ساعة مستجاب فيها الدعاء)

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، بیشک رات میں ایک ایسا وقت ہوتا ہے کہ اگر مسلم شخص کو وہ وقت مل جائے اور اس میں وہ اللہ تعالی سے دنیا و آخرت کی بھلائی کے لئے دعا کرے تو وہ دعا مستجاب ہوتی ہے اور یہ وقت ہر رات آتا ہے۔

تشریح:

اللہ تعالی نے دعا کی قبولیت کے چند اوقات متعین فرمائے ہیں جن میں اکثر دعا میں قبول ہونے کی امید کی جاتی ہیں۔ مسلمان کے لئے مناسب ہے کہ ان اوقات میں کثرت سے دعا ئیں کریں۔ اوقات مستجاب یہ ہیں:

1۔ سجدے کی حالت میں، کیونکہ مسلمان سجدے میں اپنے رب سے سب سے زیادہ

قریب ہوتا ہے۔

2۔ اذان و اقامت کے درمیان، کیونکہ مسلمان ان کے درمیان نماز کے انتظار میں

ہوتا ہے۔

3۔ میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑنے کے وقت، کیونکہ اس کے ذریعہ اللہ کے کلمات کو بلند کرنا مقصود ہوتا ہے۔

4۔ رات کے آخری حصہ میں، کیونکہ اللہ تعالی رات کے آخری حصہ میں ہر دن نچلے

آسمان پر نازل ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی اوقات و مقامات ہیں جہاں پہ انسان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اور قبولیت دعا کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔

1۔ عین مطلوب چیز کا بر وقت مل جانا۔

2۔ تاخیر سے دعا کا قبول ہوتا۔ جس میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔

3۔ بعض اوقات میں مطلوب تو نہیں دیا جاتا مگر اس کے بدلے کوئی شر دور کر دیا جاتا

ہے یا کوئی فائدہ پہنچا دیا جاتا ہے۔

4۔ یا اس کی دعا کو آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا جاتا ہے جب کہ انسان از حد محتاج ہوگا۔ (عون المعبود ) ۔ اللہ تعالی ہمیں ان اوقات کو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔

فوائد:

٭ اوقات مستجاب میں کثرت سے دعا کرنی چاہئے۔

٭ سجدہ کی حالت میں دعا کرنا، اذان واقامت کے درمیان دعا کرنا، رات کے آخری حصہ میں دعا کرنا، میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑتے وقت دعا کرنا، یہ سب دعا کی قبولیت کے اوقات ہیں۔