دعاؤں کے انداز

اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
البقرة : 186

یہ ماہ رمضان چل رہا ہے، اس آیت سے پہلے اور بعد میں ماہِ رمضان کا ذکر ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماہ رمضان، خصوصاً روزے کی حالت دعا کی قبولیت کا خاص سبب ہے

دعا ایک طاقت ہے، نازک وقت میں دعا مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے
دعا، اس ذات مقدس پر اعتماد کا اظہار ہے کہ میں کوئی اکیلا نہیں ہوں مجھے سنبھالنے، اٹھانے اور سہارا دینے والی کوئی ذات موجود ہے
اسی اعتماد کی ایک مثال ہے کہ
ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ھیں جس کی دعا قبول کی جاتی ھے ؟
بزرگ نے جواب دیا نہیں ، مگر میں اس کو جانتا ھوں جو دعائیں قبول کرتا ھے –

دعا کرنے کا انداز دعا کی قبولیت میں بڑا اثر رکھتا ہے

ہر چیز کا کوئی ڈھنگ اور ہر کام کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے، حسن سلیقہ سے کیا ہوا کام خوبصورت اور جاذبِ نظر بن جاتا ہے، اپنا مطالبہ منوانے کے لیے اچھے الفاظ، خوبصورت طریقہ اور مناسب موقع بڑی اہمیت رکھتا ہے

یہی حال دعا کا ہے، یوں تو دعا کا نہ کوئی وقت مقرر ہے اور نہ ہی کوئی خاص الفاظ اور طریقہ کار متعین ہے جس وقت چاہو اور جیسے چاہو اللہ تعالیٰ سے مانگ لو
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔
غافر : 60
لیکن
بعض دعائیہ کلمات اور انداز ایسے ضرور ہیں کہ جنہیں اپنانے سے دعا کی قبولیت کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں

اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کا انداز بنائیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا
جب اس نے اپنے رب کو چھپی آواز سے پکارا۔
مريم : 3

ابن قیم رحمہ اللہ اپنے استاد ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں:
شیخ الاسلام صحراؤں کی طرف نکل جاتے، اللہ تعالیٰ سے انس اور اسکی ملاقات کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور کہتے :
اے اللہ! میں آبادیوں سے دور اس لیے نکل جاتا ہوں کہ دل کو تیرے متعلق رازداری سے کچھ بتا سکوں۔
[مدارج السالكين (3/ 59)]

اپنے گلے شکوے صرف اسی کے سامنے رکھیں

جیسے یعقوب علیہ السلام نے کہا تھا :
إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ
میں تو اپنی ظاہر ہوجانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں۔
يوسف : 86

اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی بے بسی کا خوب گڑگڑا کر اظہار کریں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
« اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْيَةً »
[ الأعراف : ۵۵ ]
’’اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو۔‘‘

إمام مقبل الوادعي رحمه الله فرماتے ہیں:
إذا غُلِبتَ فعليك بالدعاء، دعوة واحدة ربما تنكب دولة، والله المستعان.
[السماع المباشر١٩]
جب آپ مغلوب اور بے بس ہو جائیں تو آپ کو اللہ سے دعا کرنی چاہیے بس اوقات ایک دعا (ظالم )ریاست کو تباہ کر دیتی ہے اور اللہ مددگار ہے۔

بے بسی کی ایک دعا نے اپنا اثر دکھا دیا

ایک دن مامون کا ایک درباری روتا ہوا آپ کے پاس آیا اور بولا :
ابو عبداللہ! معاملہ بہت سخت ہے۔ مامون نے تلوار نیام سے نکال لی ہے اور قسم کھا کر کہہ رہا ہے :
اگر احمد نے خلقِ قرآن کا اقرار نہ کیا تو میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑادوں گا۔
یہ سن کر امام احمد بن حنبل نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیک دیا اور آسمان کی طرف دیکھا پھر بولے :
اے اللہ! اس فاجر کو تیرے حلم نے اتنا مغرور کر دیا ہے کہ اب وہ تیرے دوستوں پر بھی ہاتھ اُٹھانے سے باز نہیں آرہا… اے اللہ! اگر قرآن تیرا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے تو مجھے اس پر ثابت قدم رکھ… اور میں اس کے لئے ساری مشقتیں برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔
یہ دُعا ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ رات کے آخری حصے میں مامون کی موت کی خبر آ گئی۔ حضرت امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :
مجھے یہ خبر سن کر بہت خوشی ہوئی

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

جب مشرکین لاچار ہو کر خدا کو پکارتے تھے، وہ ان کی پکار کا جواب دیتا تھا تو اہل ایمان سے اس کا معاملہ کیا ہو گا؟
جامع المسائل (٧١/١)

لھذا دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی لاچاری اور بے بسی کو خوب سے خوب بیان کریں

زکریا علیہ السلام کو دیکھیں

آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فرمایا :
قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا
کہااے میرے رب! یقینا میں ہوں کہ میری ہڈی کمزور ہوگئی اور سر بڑھاپے سے شعلے مارنے لگا اور اے میرے رب! میں تجھے پکارنے میں کبھی بے نصیب نہیں ہوا۔
مريم : 4

ان الفاظ پہ غور کریں
"میری ہڈی کمزور ہوگئی ہے”
"میرا سر بڑھاپے سے شعلے مارنے لگا ہے”
گویا اپنے آپ کو رب تعالیٰ کے سامنے انتہا درجے کا لاچار اور بے بس بنا کر گرا دیا کہ اس سے زیادہ تو کوئی قابلِ رحم ہی نہیں ہے
یعنی ان الفاظ میں اپنی انتہائی کمزوری کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے، کیونکہ وہ کمزوروں پر زیادہ رحم فرماتا ہے۔ یہ دعا کے آداب میں سے ایک ادب ہے۔
اور پھر ساتھ یہ بھی کہہ دیا
وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا
یعنی اپنے اوپر رب تعالیٰ کے سابقہ احسانات کا اعتراف بھی کیا کہ پہلے بھی تو ہی دیتا رہا ہے، تیری ہی کرم نوازی سے جیتا رہا ہوں، سب کچھ تیرا ہی دیا ہے اور اب بھی تو نے ہی دینا ہے

اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اچھے اچھے منصوبوں کے ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کریں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ چودہ سال بہت محنت اور جدوجہد کرکے اہل اسلام کی ایک جماعت تیار کی تھی، بدر کی جنگ کا موقع بنا تو آپ کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ خدانخواستہ اگر یہ جماعت قتل ہو گئی تو پھر پیچھے کون ہے جو اسلام کی حفاظت کرے گا
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا کی :
"اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ ”
صحيح مسلم | 1763
اے اللہ! تو نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کر
اے اللہ! تو نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا ہے وہ پورا کر
اے اللہ! اگر اہل اسلام کی جماعت ختم ہو گئی تو پھر زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی

زکریا علیہ السلام اپنے منصوبوں کے ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں

زکریا علیہ السلام نے اپنی قوم میں دعوت و اصلاح اور تعلیم و تعلم کے شاندار سلسلے شروع کر رکھے تھے جب بوڑھے ہوگئے اور پیچھے ان پروگرامز کو جاری رکھنے والا کوئی لائق جانشین نظر نہیں آ رہا تھا تو اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے کہ مجھے ان میں سے کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو اس لائق ہو کہ میرے مرنے کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکے اور میرا اور آل یعقوب کا علمی و عملی وارث بن سکے، جس سے تیرے دین پر عمل اور اس کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہ سکے، بلکہ مجھے ان سے خطرہ ہے کہ وہ دین کو بگاڑیں گے اور اپنی من مانیاں کریں گے
چنانچہ ان الفاظ میں دعا کی :
وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا
اور بے شک میں اپنے پیچھے قرابت داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی شروع سے بانجھ ہے، سو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔
مريم : 5
يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب! اسے پسند کیا ہوا بنا۔
مريم : 6

اور وراثت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے کہنے لگے :
رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ
اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو ہی سب وارثوں سے بہتر ہے۔
الأنبياء : 89

اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہوئے دعا کریں

یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں پھنس گئے، اکیلے تھے، بے بس تھے، گہرائیوں میں تھے، اندھیروں میں تھے، اللہ تعالیٰ سے آزادی مانگنے لگے تو پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت بیان کی اور پھر اپنی آزادی کی دعا کی اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کو اپنی صفت بیان کرنے کی وجہ سے آزادی عطا کردی
فرمایا :
فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ
پھر اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں سے تھا۔
الصافات : 143
لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
تو یقینا اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔
الصافات : 144

یعنی اگر یونس علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی تسبیح نہ کرتے تو قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے معلوم ہوا کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے ہوئے اپنی درخواست پیش کرنی چاہیے

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ذو النون (یونس علیہ السلام ) کی دعا، جو اس نے مچھلی کے پیٹ میں کی
« لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ»
فَإِنَّهٗ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِيْ شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللّٰهُ لَهٗ
ترمذي : 3505
کوئی مسلم آدمی اس کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں دعا نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کے ساتھ دعا کریں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا
الاعراف : 180
اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو

ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے ساتھ دعا کرتے ہوئے دیکھا :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى ”
سنن الترمذي | 3475
مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!
اس نے اللہ تعالیٰ سے اس کے عظیم نام کے ذریعے دعا کی ہے جب اس کے ذریعے اس سے دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے اور جب اس کے ذریعے اس سے کچھ مانگا جائے تو وہ دیتا ہے

یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ کا واقعہ

یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ کے سامنے ایک آدمی نے یہ آیت پڑھی:
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا
"اے موسیٰ و ہارون! تم فرعون کے ساتھ نرمی سے بات کرنا”
طه : 44
یحییٰ یہ سن کر رونے لگے
پھر فرمایا:
الٰہی! تیرا یہ نرمی کا انداز اس شخص کے بارے میں ہے جو خود کو اِلٰه کہتا تھا
تو اس شخص کے ساتھ تیری نرمی کا کیا عالم ہو گا جو تجھے اِلٰه مانتا ہے!!!
اور
جب اس قدر نرمی تُو اس شخص کے ساتھ اپنا رہا ہے جس نے کہا تھا:
(أنا ربكم الأعلى)
تو بھلا اس کے ساتھ تیری نرمی کا کیا عالم ہو گا جو شب و روز کہتا ہے:
سبحان ربي الأعلى
(تفسير البغوي: 3/263)

کچھ مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی پہلے سے موجود کسی نعمت کا اعتراف کریں

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یوں دعا کرتے :
اللهم كما صنت وجهي عن السجود لغيرك
فصن وجهي عن المسألة لغيرك.
حلية الأولياء (٩/٢٣٣)
اے اللہ! جیسے تو نے میرے چہرے کو اپنے علاوہ کسی اور کے سامنے سجدوں سے محفوظ رکھا ہے بالکل اسی طرح میرے چہرے کو اپنے علاوہ کسی اور سے سوال کرنے سے بھی محفوظ رکھ

امام شافعی رحمہ اللہ دعا کیا کرتے تھے :
"اے اللہ! تو نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا حالانکہ میں نے اس کومانگا بھی نہیں تھا۔اے اللہ!مجھے جنت الفردوس عطا کرنا،جب کہ اب میں تجھ سے مانگ بھی رہا ہوں‘‘

ایک اعرابی دوران طواف دعا مانگ رہا تھا : ”مولا! ہم نے تیری اطاعت کرتے ہوئے تیری محبوب ترین چیز توحید کی گواہی دی اور تیری معصیت سے بچتے ہوئے تیری مبغوض ترین چیز شرک سے دامن بچا کر رکھا، پس ان دو کے درمیان سرزد ہوئی کوتاہیاں معاف فرما دے

العقد الفريد لابن عبد ربه : ٥/٤

مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طاقت و قوت کا اظہار کریں

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے یوں ہم کلام ہوا کرتے تھے :
اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ
صحيح البخاري | 6615
اے اللہ جسے تو دے اس سے روکنے والا کوئی نہیں اور جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی مال دار کو اس کی دولت ومال تیری بارگاہ میں کوئی نفع نہ پہنچا سکیں گے۔

‏اے اللہ! ہم نے تیری قدرت دیکھ لی ہے اب تو ہمیں اپنی رحمت دکھا

بقیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
ہم ابراہیم بن ادھم کے ساتھ سمندری سفر میں تھے کہ تیز ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں، جہاز ہچکولے کھانے لگا اور مسافروں نے رونا شروع کر دیا
تو ابراہیم نے کہا :
( يا حي حين لا حي، ويا حي قبل كل حي، ويا حي بعد كل حي، يا حي ، يا قيوم، يا محسن، يا مجمل !)
قد أريتنا قدرتك، فأرنا عفوك . فهدأت السفينة من ساعته
سير أعلام النبلاء ( ٣٩١/٧)
تو نے ہمیں اپنی طاقت و قوت دکھا دی ہے اب ہمیں اپنی کرم نوازی بھی دکھا
تو دیکھتے ہی دیکھتے طوفان تھم گیا اور کشتی ٹھہر گئی

دعا میں بہتر جملے استعمال کریں

موسی علیہ السلام کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
بھوکے تھے، کھانے کی ضرورت تھی۔
پیاسے تھے، پانی کی ضرورت تھی۔
بےگھر تھے، گھر کی ضرورت تھی۔
رہ حیات میں اکیلے تھے ایک رفیقہ حیات کی ضرورت تھی۔
خوف دامن گیر تھا، امن کی ضرورت تھی۔
کیا مانگتے اور کیا چھوڑتے، لمبی فہرست تھی، ہر چیز کے محتاج تھے پھر دعا کی تو کیا ہی پیارا جملہ بولا، فرمانے لگے :
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
اے میرے رب! بے شک میں، جو بھلائی بھی تو میری طرف نازل فرمائے، اس کا محتاج ہوں۔
القصص : 24
سبحان اللہ
ایک دعا نے انھیں سب کچھ دے دیا۔

آسیہ رضی اللہ عنہا نے کیا خوب دعائیہ جملہ بولا

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ عنہا کی ایک دعا کے الفاظ بیان کیے ہیں اس نے یوں دعا کی :
رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجْنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجْنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
(سورۃ تحریم : 12)
میرے رب تو میرے لیے اپنے پاس قرب میں ) ایک مکان بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے۔

یہاں کسی صاحب نے بہت اچھا نکتہ نکالا ہے کہ آسیہ نے گھر کا لفظ بعد میں بولا اور لفظ "عندک” پہلے بولا
یعنی انہوں نے گھر مانگنے سے پہلے اچھے پڑوس اور اچھی لوکیشن طلب کی کیونکہ گھر خریدنے سے پہلے پڑوسی کو دیکھنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے

کسی شاعر نے کیا کمال کی دعا کی ہے

لکھتا ہے :
یا مَنْ آتَیتَ موسی سُوالاً کانَ یَطْلُبُہُ
اُجْبُرِ الفُؤادَ وَآتِیہِ اِلَہِی مَا تَمَنَّاہُ
لَسْتُ موسی وَمَا عِنْدِی عَصَاہُ
وَلَا أُؤْتِیتُ مُعْجِزَۃً وَلَکِنَّکَ اللہُ

اے وہ ذاتِ کریمی! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو اس چیز سے نوازا جس کے وہ طلبگار تھے؛
یا الہی! میرے دل کو مضبوط کر دیجیے اور اسے وہ عطا کر دیجیے جس کا یہ طلبگار ہے۔
میں موسیٰ تو نہیں ہوں اور نہ میرے پاس کوئی عصا ہے اور نہ ہی مجھے کوئی معجزہ دیا گیا ہے،
لیکن آپ تو میرے اللہ ہیں ناں

مولا !کیا تو مجھے عذاب دے گا حالانکہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہی تو ہے

کسی عبادت گزار اور نیک بندے کا تذکرہ ہے کہ وہ آدھی رات اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر یوں دعا کرتا
أتراك معذبي وأنت قرة عيني يا حبيب قلباه؟!
(المحبة لله للختلي : ٢١ ١١ عن بعض العباد)
مولا ! حبیب من ! کیا تو مجھے عذاب دے گا حالانکہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہی تو ہے ؟!

الہی میں وہ ہوں، جسے تو جانتا ہے

امام عمرو بن يعقوب رحمه الله کے متعلق آتا ہے، کہ وہ جب رات کو اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے؛ تو کہتے :
"الہی میں وہ ہوں، جسے تو جانتا ہے وہ نہیں؛ جسے لوگ جانتے ہیں”
القند في ذكر علماء ثمرقند : 473)

مولا! جب غلام بوڑھا ہوجاتا ہے تو لوگ اسے آزاد کر دیتے ہیں

امام فریابی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
میں مزدلفہ میں رات کو جاگ رہا تھا ، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خاتون نماز پڑھ رہی ہے ، اور اس کے پاس اس کا بوڑھا خاوند مناجات کرتے ہوئے کہہ رہا ہے :
مولا !… ہم نے دنیا والوں کو دیکھا ہے کہ جب غلام ان کی خدمت کرتے کرتے بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ اسے آزاد کر دیتے ہیں۔ ہم بھی تیری بندگی کرتے کرتے بوڑھے ہو چلے ہیں، ہمیں بھی آگ سے آزاد کر دے۔“
( مثير الغرام الساكن إلى أشراف الأماكن لابن الجوزي : ۲۰۳ ، ترجمانی : فیضان فيصل)

ابوسلمہ نے ام سلمہ کو بہترین الفاظ میں دعا دی

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا اپنے خاوند ابو سلمہ سے کہنے لگیں:
آئیے باہم معاہدہ کرتے ہیں کہ اگر میں وفات پا گئی تو آپ مزید نکاح نہیں کریں گے اور اگر آپ کی وفات ہوئی تو میں کسی دوسرے خاوند سے شادی نہیں کروں گی۔
ابو سلمہ اپنی بیوی سے کہنے لگے:کیا تم میری بات مان لو گی ؟ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے کہا:جی ہاں
ابو سلمہ کہنے لگے:جب میں فوت ہو جاؤں تو تم نکاح کر لینا اور پھر یہ دعا کی:اﻟﻠًّﻬُﻢ اﺭﺯﻕ ﺃﻡ ﺳﻠﻤﺔ ﺑﻌﺪﻱ ﺭجلًا ﺧﻴﺮًا ﻣﻨﻲ
ﻻ ﻳُﺤﺰﻧﻬﺎ ﻭﻻ يُؤذيها،
اے اللہ میرے بعد ام سلمہ کو مجھ سے بہتر خاوند دینا جو اسے پریشان نہ کرے اور اسے تکلیف نہ پہنچائے۔
ابو سلمہ کی وفات ہوئی تو ام سلمہ رضی اللہ عنھا کا نکاح امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گیا۔
(سير أعلام النبلاء ٢٠٣/٢)

اگر مانگنے کے لیے الفاظ اور جملے بنانے نہیں آتے تو ویسے ہی ہاتھ اٹھائے رکھیں

اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنا مافی الضمیر (اپنے دل کا حال بیان کرنے سے عاجز رہا تو اس نے خاموشی سے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے
بعض سلف رات کو الله کے سامنے سر ڈھائے اور ہاتھ پھیلائے خاموش بیٹھے رہتے، جیسے کوئی مسکین منگتا ہوتا ہے۔“
مجموع رسائل ابن رجب :(٧٤/٤)

دعا کُھل کُھلا کر مانگیں

یاد رکھیے کہ قسمت ہم انسانوں کی مجبوری ہے، اللہ کی نہیں، اس لیے جب اللہ سے مانگیں تو قسمت کا خوف ختم کرکے مانگیں کیونکہ آپ قسمت کے مالک سے مانگ رہے ہیں ۔
وہ مالک کہ جس نے فرمايا ہے
وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ
اور کوئی بھی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے۔
الحجر : 21

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمْ الْمَسْأَلَةَ ، وَلَا يَقُولَنَّ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي ، فَإِنَّهُ لَا مُسْتَكْرِهَ لَهُ
بخاری :6338
”جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اللہ سے قطعی طور پر مانگے اور یہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ
ترمذي : 3479 ، حسن
”تم اللہ سے دعا مانگو اور اس یقین کے ساتھ مانگو کہ تمہاری دعا ضرور قبول ہو گی، اور ( اچھی طرح ) جان لو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہی اور بے توجہی سے مانگی ہوئی غفلت اور لہو و لعب میں مبتلا دل کی دعا قبول نہیں کرتا

اور صرف اسی سے مانگو

دعا کی قبولیت کے لیے بہت ضروری ہے کہ بندہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگے
نبي کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ
سنن الترمذي | 2516،صحيح
جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو

ابن قیم رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :
اپنے مولا کے سوا کسی سے کچھ مت مانگو کہ غلام کا اپنے آقا کے بجائے کسی دوسرے سے مانگنا آقا کی توہین ہے!
(الفوائد، ص ٥٠)

مصائب میں دعا قبول کروانا چاہتے ہیں تو خوشحالی میں بھی دعا کیا کریں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكَرْبِ فَلْيُكْثِرْ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ
ترمذي : 3382 ، حسن
”جسے اچھا لگے ( اور پسند آئے ) کہ مصائب و مشکلات ( اور تکلیف دہ حالات ) میں اللہ اس کی دعائیں قبول کرے، تو اسے کشادگی و فراخی کی حالت میں کثرت سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیئے“۔

اللہ تعالیٰ کے غضب سے اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ لے لو

جب ہم دنیا میں مختلف بیماریوں اور آفتوں میں گرے انسانوں کو دیکھتے ہیں تو دل بجھ جاتا ہے
اور بالخصوص جب قبر، حشر اور جہنم کی ہولناکیاں پڑھتے سنتے تو بے حد خوف اور مایوسی طاری ہو جاتی ہے
خیال آتا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہو گیا اور ان عذابات میں مبتلا ہو گئے تو کیسے برداشت کریں گے اور کیسے بچ پائیں گے
تو
بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے مالک ہی کی پناہ میں آ جائیں
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کیا کرتے تھے :
اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ
صحيح مسلم | 486
’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا مندی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری ثنا پوری طرح بیان نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود بیان کی۔‘‘

میرے اس بندے کو چھوڑ دو

سيدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

❞إِنَّ الرَّجُلَ لَيُجَرُّ إِلَى النَّارِ فَتَنْزَوِي وَتَنْقَبِضُ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ، فَيَقُولُ لَهَا الرَّحْمَنُ: مَا لَكِ؟ قَالَتْ: إِنَّهُ يَسْتَجِيرُ مِنِّي، فَيَقُولُ: أَرْسِلُوا عَبْدِي.❝
[تفسير ابن كثير وقد صحح سنده الحافظ ابن كثير)]
«(قیامت کے دن جب) ایک شخص کو جہنم کی طرف گھسیٹ کر لے جایا جا رہا ہوگا تو جہنم کے بعض حصے بعض کے ساتھ سِمٹ اور سُکڑ جائیں گے۔
اللہ رحمٰن (جہنم سے مخاطب ہو کر) فرمائیں گے: "تُجھے کیا ہُوا؟”
وہ کہے گی: "(اے میرے پروردگار!) یہ بندہ مُجھ سے (تیری) پناہ مانگ رہا ہے۔”
(یہ سُن کر) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: "میرے اس بندے کو چھوڑ دو۔”»

کبھی یہ انداز بھی اپناؤ کہ کسی سے دعا کروالیں

سیدنا عمر ؓ کبھی کبھی کسے بچے کا ہاتھ پکڑتے اور اسے کہتے! میرے لیے دعا کرو، اس لیے کہ تم نے ابھی تک کوئی گناہ نہیں کیا۔
[ مناقب أمير المؤمنين، لابن الجوزي: ص141 ]

امیر المومنین سیدنا عمرؓ کی حسن بصریؒ کو دعا
حسن بصری کی پیدایش 21ھ میں ہوئی؛ یعنی سیدنا عمر کی خلافت کے آخری دو برسوں میں۔ یہ چھوٹے تھے تو ان کی والدہ انھیں صحابہ کے پاس بھیجا کرتی تھیں اور وہ ان کے لیے دعا کرتے۔ ایک مرتبہ وہ انھیں حضرت عمر کے پاس لے گئیں تو انھوں نے دعا دی: اے اللہ! اسے دین کی فقاہت عطا فرما اور لوگوں کا محبوب بنا دے!
انھی کا دعا کا اثر ہے کہ حسن بصری عظیم فقیہ اور اپنے زمانے میں محبوب خلائق بنے۔
(البدایۃ و النھایۃ، 9: 278)

فرشتوں سے دعا کروائیں

صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں (اپنی ساس) ام درداء رضی اللہ عنہا سے ملا تو انہوں نے کہا :
کیا تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔ انہوں نے کہا : ہمارے لیے خیر کی دعا کرنا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :
دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ
مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے ، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے ، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے : آمین ، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو ۔
مسلم 6929