دنیا بمقابلہ آخرت
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ [آل عمران : 152]
تم میں سے کچھ وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے اور تم میں سے کچھ وہ تھے جو آخرت چاہتے تھے
حسن بصری رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں
ہر امت کا ایک بت ہوتا ہے جس کی وہ پرستش کرتی ہے اور اس امت کا بت درہم و دینار ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کفار مکہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا اس طرح تو ہماری دنیا خطرے میں پڑ جائے گی
وَقَالُوا إِنْ نَتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا [القصص : 57]
اور انھوں نے کہا اگر ہم تیرے ہمراہ اس ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا سے جس قدر بے نیاز ہوں گے اسی قدر دنیا ہمارے قریب آئے گی
دنیاسے بے رغبت ہوجاؤ، اللہ تم سے محبت کرے گا
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّوكَ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الزُّهْدِ،بَابُ الزُّهْدِ فِي الدُّنْيَا،4102)
"دنیاسے بے رغبت ہوجاؤ، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز ہوجاؤ، لوگ تم سے محبت کریں گے”
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
وَمَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ جَمَعَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَهُ وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ (ابن ماجہ ،كِتَابُ الزُّهْدِ،بَابُ الْهَمِّ بِالدُّنْيَا،4105 صحیح)
جس کی نیت آخرت کاحصول ہو، اللہ تعالی اس کے کام مرتب کردیتاہے اور اس کے دل میں استغنا پیدافر دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہوکر اس کے پاس آتی ہے
امام عبد الله بن شوذب رحمه الله فرماتے ہیں :
امام کثیر بن زیاد رحمه الله سے کہا گیا: کچھ نصیحت فرمائیے؛ بولے:
"دنیا بیچ کر آخرت لے لو؛ دونوں ملیں گی، آخرت بیچ کر دنیا مت لینا؛ دونوں جائیں گی!” (الزهد لابن أبي الدنيا : 398)
روزی کے پیچھے زیادہ مت بھاگو وہ اللہ کے ذمے ہے عبادت میں دل لگاؤ کہ وہ تمہارے ذمے ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى [طه : 132]
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ، ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔
عام طور پر روزی کمانے کی وجہ سے آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز میں سستی کرتا ہے، اس لیے فرمایا، ہمارا مطالبہ آپ سے روزی کمانے کا نہیں عبادت اور نماز کا ہے، روزی تمھیں ہم دیں گے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ إِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی يَقُوْلُ يَا ابْنَ آدَمَ ! تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِيْ أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًی وَأَسُدَّ فَقْرَكَ وَإِلاَّ تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلاً وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ] [ترمذي، صفۃ القیامۃ، باب أحادیث ابتلینا بالضراء… : ۲۴۶۶، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے پوری طرح فارغ ہو جا، (تو) میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری فقیری دور کر دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری فقیری دور نہیں کروں گا۔‘‘
محض دنیا حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتے رہنا نِرا خسارہ ہے
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا [الكهف : 103] [الكهف : 104]
کہہ دے کیا ہم تمھیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا
وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔
یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور آخرت کی پروا نہ کی اور دنیا کی خوش حالیوں اور کامیابیوں کو اپنا اصل مقصد بنائے رکھا
قارون کا عبرتناک واقعہ
قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا اللہ تعالیٰ نے اسے اتنے خزانے دیے تھے کہ جن کمروں میں وہ خزانے پڑے ہوئے تھے ان کے تالوں کی چابیاں ایک قوت والی جماعت پر اٹھانے میں بھاری تھیں حتی کہ بنی اسرائیل کے بہت سے لوگ اسے دیکھ کر خواہش کیا کرتے تھے کہ کاش ہمیں بھی اسی طرح دولت ملے جیسے اس کے پاس ہے
اور اہل علم لوگ انہیں سمجھایا کرتے تھے کہ افسوس تم پر! اللہ کا ثواب اس شخص کے لیے(اس مال و دولت سے) کہیں بہتر ہے جو ایمان لایا اور اس نے اچھا عمل کیا
اور دوسری طرف قارون اپنی قوم کے خلاف فرعون کا ساتھی بنا ہوا تھا
بنی اسرائیل کے نیک بزرگ اور عالم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے دولت دی ہے تو اپنے آپ میں رہ، اسے اللہ کی نافرمانی میں خرچ مت کر اور پھول مت جا، اللہ تعالیٰ پھول جانے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس میں آخرت کا گھر تلاش کر اور دنیا سے اپنا حصہ مت بھول اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد مت ڈھونڈ، بے شک اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا
اس نے(ماننے کی بجائے) کہا مجھے تو یہ(سارا مال و دولت) ایک علم کی بنا پر دیا گیا ہے، جو میرے پاس ہے
جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے عذاب میں مبتلا کردیا اور اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، پھر نہ اس کے لیے کوئی جماعت تھی جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ اپنا بچاؤ کرنے والوں سے تھا
پھر جن لوگوں نے کل اس کے مرتبے کی تمنا کی تھی انھوں نے اس حال میں صبح کی کہ کہہ رہے تھے افسوس! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور تنگ کر دیتا ہے، اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہم پر احسان کیا تو وہ ضرور ہمیں دھنسا دیتا
دنیا کماؤ مگر آخرت سے غفلت نہ کرو
قارون کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ دنیا کماتے ہوئے آخرت سے روگردانی نہیں کرنی چاہیے
اللہ تعالیٰ نے متقی بندوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا
رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ [النور : 37]
وہ بڑی شان والے مرد جنھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خرید و فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔
اذان ہونے پر خواہ کوئی چیز بک رہی ہو یا خریدی جا رہی ہو اور خواہ کتنا نفع حاصل ہو رہا ہو وہ دنیا کے اس نفع کو لات مار کر اللہ کے گھر میں حاضر ہو جاتے ہیں۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ
جلیل القدر تابعی قتادہ رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا حال بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں : [ كَانَ الْقَوْمُ يَتَبَايَعُوْنَ وَ يَتَّجِرُوْنَ وَلٰكِنَّهُمْ إِذَا نَابَهُمْ حَقٌّ مِنْ حُقُوْقِ اللّٰهِ لَمْ تُلْهِهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ حَتّٰہ يُؤَدُّوْهُ إِلَی اللّٰهِ] [بخاري، بعد ح : ۲۰۵۹ ]
’’وہ لوگ خرید و فروخت کرتے اور تجارت کرتے تھے، لیکن جب ان کے سامنے اللہ کے حقوق میں سے کوئی حق آ جاتا تو کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت انھیں اللہ کے اس حق کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتی تھی۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ آئے ہیں :
[ وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا ] [ ترمذي، الدعوات، باب دعاء ”اللهم اقسم لنا…“ : ۳۵۰۲، قال الألباني حسن ]
’’اور دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنانا اور نہ اسے ہمارے علم کی انتہا بنانا۔‘‘
دنیا آخرت کی کھیتی ہے
دنیا آخرت کے لیے کھیت اور امتحان گاہ کا مقام رکھتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
خذ من صحتک لسقمک ومن حیاتک لموتک
اپنی صحت میں بیماری اور زندگی میں موت کے لیے تیاری کرتے رہو
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا [الكهف : 7]
بے شک ہم نے زمین پر جو کچھ ہے اس کے لیے زینت بنایا ہے، تاکہ ہم انھیں آزمائیں ان میں سے کون عمل میں بہتر ہے۔
اور یہ ایسی کھیتی ہے کہ جو کاشت کرو گے کل وہی کاٹو گے
فرمایا
وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا [الإسراء : 72]
اور جو اس میں اندھا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا اور راستے سے بہت زیادہ بھٹکا ہوا ہو گا۔
دنیا بیچ کر آخرت کماؤ
فرمایا :
«اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ » [ التوبۃ : ۱۱۱ ]
’’بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے۔‘‘
اور فرمایا :
«وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ » [ البقرۃ : ۲۰۷ ]
’’اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے۔‘‘
آخرت بیچ کر دنیا نہ کماؤ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا إِنَّمَا عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ [النحل : 95]
اور اللہ کے عہد کے بدلے کم قیمت نہ لو، بے شک وہ چیز جو اللہ کے پاس ہے وہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
اور فرمایا :
أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ [البقرة : 86]
یہی لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے خریدی، سو نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
صرف دنیا طلب کرنے والے آخرت میں نقصان اٹھائیں گے
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرمایا
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ [البقرة 200]
پھر لوگوں میں سے کوئی تو وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے دے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
اور فرمایا
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ [هود : 15]
جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتا ہو ہم انھیں ان کے اعمال کا بدلہ اسی (دنیا) میں پورا دے دیں گے اور اس (دنیا) میں ان سے کمی نہ کی جائے گی۔
أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [هود : 16]
یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہوگیا جو کچھ انھوں نے اس میں کیا اور بے کار ہے جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔
فَأَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّى عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [النجم : 29]
سو اس سے منہ پھیرلے جس نے ہماری نصیحت سے منہ موڑا اور جس نے دنیا کی زندگی کے سوا کچھ نہ چاہا۔
ذَلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَى [النجم : 30]
یہ علم میں ان کی انتہا ہے، یقینا تیرا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے اسے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور وہی زیادہ جاننے والا ہے اسے جو راستے پر چلا۔
دنیا اور آخرت دونوں مانگنے والے کامیاب ہیں
وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة : 201]
اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اکثر دعا یہ تھی :
[اَللَّہُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ] [ بخاری، الدعوات، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ربنا آتنا… : ۶۳۸۹۔ مسلم : ۲۶۹۰]
’’اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘
آخرت کے متلاشی اور دنیا کے متلاشی دونوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مختلف رویہ
فرمایا
مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ [الشورى : 20]
جو کوئی آخر ت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اورجو کوئی دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے ہم اس میںسے کچھ دے دیں گے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’
” مَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ ، وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ، وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ”. (سنن الترمذي أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. | باب ،2465)
جس کا مقصود زندگی آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں استغناء وبے نیازی پیداکردیتاہے، اوراسے دل جمعی عطا کرتا ہے ۱؎ ، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر آتی ہے اور جس کا مقصود طلب دنیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتاہے اور اس کی جمع خاطر کو پریشان کردیتاہے اوردنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہے’۔
اور فرمایا
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا [الإسراء : 18]
جو شخص اس جلدی والی (دنیا) کا ارادہ رکھتا ہو ہم اس کو اس میں جلدی دے دیں گے جو چاہیں گے، جس کے لیے چاہیں گے، پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنا رکھی ہے، اس میں داخل ہوگا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا ہوا۔
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا [الإسراء : 19]
اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی، جو اس کے لائق کوشش ہے، جب کہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدرکی ہوئی ہے۔
كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا [الإسراء : 20]
ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی اور ان کی بھی، تیرے رب کی بخشش سے اور تیرے رب کی بخشش کبھی بند کی ہوئی نہیں۔
اللہ تعالیٰ دنیا کے سرمایہ دار اور آخرت کے سرمایہ دار کا موازنہ کرتے ہیں
فرمایا
أَفَمَنْ وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَنْ مَتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ [القصص : 61]
تو کیا وہ شخص جسے ہم نے وعدہ دیا اچھا وعدہ، پس وہ اسے ملنے والا ہے، اس شخص کی طرح ہے جسے ہم نے سامان دیا، دنیا کی زندگی کا سامان، پھر قیامت کے دن وہ حاضر کیے جانے والوں سے ہے۔
اور فرمایا
وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ [يوسف : 57]
اور یقینا آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔
اور فرمایا
انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا [الإسراء : 21]
دیکھ ہم نے ان کے بعض کو بعض پر کس طرح فضیلت دی ہے اور یقینا آخرت درجوں میں بہت بڑی اور فضیلت دینے میں کہیں بڑی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کو ترجیح دینے والے اور دنیاوی خواہشات سے نفس کو روکنے والے کا فرق
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
فَأَمَّا مَنْ طَغَى [النازعات : 37]
پس لیکن جو حد سے بڑھ گیا ۔
وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [النازعات : 38]
اور اس نے دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔
فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى [النازعات : 39]
توبے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى [النازعات : 40]
اور رہا وہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اس نے نفس کو خواہش سے روک لیا۔
فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى [النازعات : 41]
تو بے شک جنت ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔
پرتعیش زندگی گزارنے والے اور مصائب میں مبتلا رہنے والے جب آخرت کی جزاء و سزا دیکھیں گے
حدیث میں آیا ہے :
[ يُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُصْبَغُ فِي النَّارِ صَبْغَةً ثُمَّ يُقَالُ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيْمٌ قَطُّ؟ فَيَقُوْلُ لاَ وَاللّٰهِ ! يَا رَبِّ! وَيُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسَا فِی الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُقَالُ لَهٗ يَا ابْنَ آدَمَ ! هَلْ رَأَيْتَ بُؤْسًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ؟ فَيَقُوْلُ لاَ وَاللّٰهِ ! يَا رَبِّ ! مَا مَرَّ بِيْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلاَ رَأَيْتُ شِدَّةً قَطُّ ] [ مسلم، صفات المنافقین، باب صبغ أنعم أہل الدنیا فی النار : ۲۸۰۷، عن أنس رضی اللہ عنہ ]
’’قیامت کے دن اس شخص کو جو اہل جہنم میں سے دنیا میں سب سے زیادہ خوش حال تھا، لایا جائے گا، اسے آگ میں ایک غوطہ دے کر نکالا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا: ’’کیا تم نے کبھی کوئی خوشحالی دیکھی، کیا تیرے پاس آسودگی آئی؟‘‘ وہ جواب دے گا : ’’نہیں اللہ کی قسم! اے میرے رب!‘‘ پھر اہل جنت میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ بدحال تھا، اسے جنت میں ایک غوطہ دے کر نکالا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا : ’’کیا تم نے دنیا میں کوئی بدحالی دیکھی، یا کوئی سختی پہنچی؟‘‘ وہ جواب دے گا :’’نہیں اللہ کی قسم! اے میرے رب! مجھے کوئی سختی نہیں پہنچی اور میں نے کوئی بدحالی نہیں دیکھی۔‘‘
دنیاوی سازوسامان پر رال ٹپکانے سے گریز کریں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى [طه : 131]
اور اپنی آنکھیں ان چیزوں کی طرف ہرگز نہ اٹھا جو ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیا کی زندگی کی زینت کے طور پر برتنے کے لیے دی ہیں، تاکہ ہم انھیں اس میں آزمائیں اور تیرے رب کا دیا ہوا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
آخرت،دنیا سے بہتر ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [الأعلى : 16]
بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔
وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى [الأعلى : 17]
حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے ۔
اور فرمایا
وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ [الزخرف 32]
اور تیرے رب کی رحمت ان چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں
اور فرمایا
قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ [الجمعة : 11]
کہہ دے جو اللہ کے پاس ہے وہ تماشے سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔
اور فرمایا
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا [النساء :77]
کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر دھاگے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
آخرت کی ایک خوبی جو دنیا میں نہیں
اور خوبی میں آخرت اس لیے کہیں بہتر ہے کہ اس کی ہر نعمت کسی بھی قسم کے غم یا فکر سے پاک ہے، جب کہ دنیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں اور وہ اتنی بہتر ہے کہ کوئی شخص نہ اس کی خوبی بیان کر سکتا ہے، نہ وہ کسی کے تصور میں آ سکتی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
[ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ : [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنھا مخلوقۃ : ۳۲۴۴ ]
« فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ » ] [ السجدۃ : ۱۷]
’’میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال تک آیا ہے۔‘‘ اگرچاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’کوئی جان نہیں جانتی کہ اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان چھپا کر رکھا گیا ہے۔‘‘
اچھے اور ناقص موبائل کا تقابل
ہمارے سامنے دو موبائل پڑے ہیں ایک 20 ہزار کا ہے اور دوسرا 1 لاکھ 20 ہزار کا ہے لیکن ہمیں قیمت معلوم نہیں ہے دونوں کی کمپنی بھی ایک ہے ظاہری شکل حجم بھی ایک ہے ہمیں اختیار دیا جاتا ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کر لو وہ تمہارے لیے ہے
یقینا ہم کسی ماہر آدمی کے پاس جائیں گے دونوں میں تقابل کریں گے جس میں کوالٹی، معیار، فنکشنز، زیادہ ہونگے اسے سیلیکٹ کریں گے
اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا و آخرت دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا ہے اور اس کا فضل دیکھیں کہ اس نے خود ہی دونوں میں تقابل کرتے ہوئے اچھے کی طرف رہنمائی بھی کردی ہے
دنیا اور آخرت میں تقابل
دنیا مچھر کے پر سے بھی حقیر جبکہ آخرت دنیا و ما فیھا سے بہتر ہے
دنیا کی قیمت کے متعلق حدیث میں آتا ہے
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰهِ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ مَا سَقَی كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ] [ ترمذی، الزھد، باب ما جاء في ھوان الدنیا علی اللّٰہ عزوجل : ۲۳۲۰، صححہ الألباني ]
’’اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے کو نہ دیتا۔‘‘
اور آخرت کی قیمت
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ مِنَ الجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا (بخاری ،كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَابُ فَضْلِ رِبَاطِ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،2892)
جنت میں تم میں سے کسی ایک کی کوڑے برابر جگہ، دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سب سے بہتر ہے
اگر آپ دیکھیں کہ دو شخص مچھر کے پر سے بھی ہلکی کسی چیز پر جھگڑا کر رہے ہیں تو یقیناً آپ ان کی عقل پر ماتم کریں گے
تو پھر کیا خیال ہے ان لوگوں کے متعلق جو دنیا کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں حالانکہ یہ دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے
لھذا ایک مومن کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی تیاری کرے اور اس کے سبھی اعمال خرید و فروخت، محنت، مزدوری، زراعت، تجارت آخرت کی طلب کے لیے ہی ہوں
دنیا بکری کے مردہ بچے سے بھی حقیر جبکہ آخرت کی قیمت جان سے زیادہ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کی) کسی بالائی جانب سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے ،لوگ آپ کے پہلو میں(آپ کے ساتھ چل رہے) تھے۔آپ حقیر سے کانوں والے مرے ہوئے میمنے کے پاس سے گزرے،آپ نے اسے کان سے پکڑ کر اٹھایا،پھر فرمایا:تم میں سے کون اسے ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے گا؟
"توانھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے کہا:ہمیں یہ کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں،ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟آپ نے فرمایا:”(پھر) کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے؟”انھوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کی:اللہ کی قسم!اگر یہ زندہ ہوتاتو تب بھی اس میں عیب تھا،کیونکہ(ایک تو) یہ حقیر سے کانوں والا ہے(بھلانہیں لگتا)۔پھر جب وہ مرا ہوا ہے تو کس کام کا؟ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَوَاللَّهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذَا عَلَيْكُمْ (مسلم ،كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ،بَابٌ «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ»،7418)
"اللہ کی قسم!جتنا تمہارے نزدیک یہ حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔”
یہ دنیا کی حقیقت ہے کہ بکری کے مردہ بچے اور مچھر کے پر سے بھی حقیر ہے جبکہ آخرت کی قیمت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بخوبی معلوم کی جا سکتی ہے
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبة : 111]
بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوب خوش ہو جائو جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
دنیا،مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ (مسلم، كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ،بَابٌ «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ»7417)
"دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔”
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے بیان کیا کہ کچھ لوگ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے ۔
انہوں نے پانی مانگا تو ایک مجوسی نے ان کو پانی ( چاندی کے پیالے میں ) لا کر دیا ۔ جب اس نے پیالہ ان کے ہاتھ میں دیا تو انہوں نے پیالہ کو اس پر پھینک کر مارا اور کہا اگر میں نے اسے بارہا اس سے منع نہ کیا ہوتا ( کہ چاندی سونے کے برتن میں مجھے کچھ نہ دیا کرو ) تومیں اس سے یہ معاملہ نہ کرتا لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے
«لاَ تَلْبَسُوا الحَرِيرَ وَلاَ الدِّيبَاجَ، وَلاَ تَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ، وَلاَ تَأْكُلُوا فِي صِحَافِهَا، فَإِنَّهَا لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَنَا فِي الآخِرَةِ»
کہ ریشم ودیبانہ پہنو اورنہ سونے چاندی کے برتن میں کچھ پیو اورنہ ان کی پلیٹوں میں کچھ کھاؤ کیونکہ یہ چیزیں ان ( کفار کے لیے ) دنیا میں ہیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں ۔
دو سوکنوں کی مثال
وهب بن منبه رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مثل الدنيا والآخرة كمثل رجل له ضرَّتان، إن أرضى إحداهما أسخط الأخرى. [الزهد لابن المبارك]
دنیا اور آخرت کی مثال دو سوکنوں کی ہے کہ آدمی ایک کو راضی کرتا ہے تو دوسری کو ناراض کر بیٹھتا ہے
آخرت کی کامیابی حقیقی کامیابی ہے جبکہ دنیا کا ساز و سامان محض دھوکہ ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
« فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ » [ آل عمران : ۱۸۵ ]
’’پھر جو شخص آگ سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
اور یہی بات سورہ حدید میں بھی ہے
فرمایا
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ [الحديد :20]
اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔
حقیقی زندگی آخرت کی ہے، دنیا تو محض کھیل کود کا نام ہے
آخرت کے متعلق فرمایا
« وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ » [ العنکبوت : ۶۴ ]
’’اور بے شک آخری گھر، یقینا وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔‘‘
اور دنیا کے متعلق فرمایا
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ [الحدید :20]
جان لو کہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل ہے اوردل لگی ہے اور بناؤ سنگار ہے اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر بڑائی جتانا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے
اور فرمایا
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا (آیت 46)
مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میںبہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں۔
دنیا ملعون ہے جبکہ حقیقی کامیابی آخرت کی ہے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرُ اللَّهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ
(ترمذی ،أَبْوَابُ الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مِنْهُ حدیث إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ،2322 حسن)
بیشک دنیا ملعون ہے اورجوکچھ دنیامیں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاداور اس چیزکے جس کو اللہ پسندکرتا ہے، یا عالم (علم والے) اورمتعلم(علم سیکھنے والے) کے
دنیا کی نعمتیں عارضی ہیں اور آخرت کی نعمتیں دائمی ہیں
فرمایا
مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النحل : 96]
جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور یقینا ہم ان لوگوں کو جنھوں نے صبر کیا، ضرور ان کا اجر بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔
دنیا کی نعمتوں میں روک ٹوک ہے جبکہ آخرت کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوں گیں
دنیا میں ہر پھل کا ایک موسم ہے، اس کے بعد وہ ختم ہو جاتا ہے، اسی طرح اس کا ایک علاقہ ہے دوسرے علاقے میں نہیں ملتا۔ جنت کے پھل ایسے نہیں کہ کسی موسم یا کسی جگہ میں نہ ملیں، بلکہ وہ ہر جگہ اور ہر وقت تیار ملیں گے۔
دنیا میں پھلوں کے حصول میں کئی رکاوٹیں ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ وہ کسی اور کی ملکیت ہیں، خریدنے کے لیے قیمت موجود نہیں، اپنے بھی ہیں تو ابھی تیار نہیں یا درختوں سے اتارنا مشکل ہے۔ جنت کے پھلوں کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں
فرمایا
لَا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ [الواقعة : 33]
جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ان سے کوئی روک ٹوک ہوگی۔
دس گنا زیادہ زمین
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ إِنَّ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُوْلاً الْجَنَّةَ ، وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنَ النَّارِ رَجُلٌ يَخْرُجُ حَبْوًا فَيَقُوْلُ لَهُ رَبُّهُ ادْخُلِ الْجَنَّةَ فَيَقُوْلُ رَبِّ! الْجَنَّةُ مَلْأَی فَيَقُوْلُ لَهُ ذٰلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَكُلُّ ذٰلِكَ يُعِيْدُ عَلَيْهِ الْجَنَّةُ مَلأَی فَيَقُوْلُ إِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا عَشْرَ مِرَارٍ ] [ بخاري، التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ… : ۷۵۱۱ ]
’’جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا، جو جہنم سے نکلنے والوں میں سب سے آخری ہو گا، گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا تو اسے اس کا رب فرمائے گا : ’’جنت میں داخل ہو جا۔‘‘ وہ کہے گا : ’’اے میرے رب! جنت بھری ہوئی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اسے تین دفعہ فرمائے گا، ہر بار وہ یہی جواب دے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’تمھیں دنیا سے دس گنا زیادہ (جنت) عطا کی جاتی ہے۔‘‘
ایک مثال کے ذریعے دنیا کا آخرت سے تقابل
مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ وَاللّٰهِ! مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ وَ أَشَارَ يَحْيٰی بِالسَّبَّابَةِ هٰذِهِ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ؟ ] [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب فناء الدنیا و بیان الحشر یوم القیامۃ : ۲۸۵۸ ]
’’اللہ کی قسم! آخرت کے مقابلے میں دنیا اس کے سوا کچھ نہیں جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی یہ (شہادت کی) انگلی سمندر میں ڈالے، پھر دیکھے وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے؟‘‘
دنیاوی زندگی کی مثال
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا (آیت 45)
اور ان کے لیے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کر، جیسے پانی، جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے ساتھ زمین کی نباتات خوب مل جل گئی، پھر وہ چورا بن گئی، جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
یعنی دنیا کی مثال اس پانی کی سی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اتارا، اس کے ساتھ زمین سے پودے اگے، پھر اتنے گھنے ہوگئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہایت خوب صورت منظر پیش کرنے لگے، جسے دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے، پھر وہ کھیتی پک کر زرد ہو گئی، پھر ایسی خشک ہوئی کہ ٹوٹ پھوٹ کر چورا ہو گئی۔
ابن آدم کے مال کی حقیقت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ يَقُوْلُ الْعَبْدُ مَالِيْ مَالِيْ إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَّالِهِ ثَلَاثٌ، مَا أَكَلَ فَأَفْنٰی أَوْ لَبِسَ فَأَبْلٰی أَوْ أَعْطٰی فَاقْتَنٰی وَمَا سِوَی ذٰلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَ تَارِكُهُ لِلنَّاسِ ] [مسلم، الزھد، باب ’’ الدنیا سجن للمؤمن و جنۃ للکافر ‘‘ : ۲۹۵۹ ]
’’بندہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال، حالانکہ اس کے مال میں اس کی تو صرف تین چیزیں ہیں، جو اس نے کھایا اور فنا کر دیا، یا پہنا اور پرانا کر دیا، یا (اللہ کی راہ میں) دیا اور ذخیرہ بنا لیا اور جو اس کے سوا ہے تو یہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر (دنیا سے) جانے والا ہے۔‘‘
کفن کی دو چادریں اور خوشبو
نَصِيْبُكَ مِمَّا تَجْمَعُ الدَّهْرَ كُلَّهُ
رِدَائَانِ تُلْوٰي فِيْهِمَا وَ حَنُوْطُ
’’ساری عمر تو جو کچھ جمع کرے گا اس میں سے تیرا حصہ دو چادریں ہیں، جن میں تجھے لپیٹا جائے گا اور مُردے کو لگائی جانے والی خوشبو ہے۔‘‘
فرعون کے جادو گروں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی
جب موسی علیہ السلام کا معجزہ دیکھ کر فرعون کے جادوگروں نے حق پہچان لیا تو
قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ [الأعراف : 121]
انھوں نے کہا ہم جہانوں کے رب پر ایمان لائے۔
رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ [الأعراف : 122]
موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔
اس پر فرعون نے کہا
لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [الأعراف : 124]
یقینا میں ضرور تمھارے ہاتھ اور تمھارے پائوں مخالف سمت سے بری طرح کاٹوں گا، پھر یقینا تم سب کو ضرور بری طرح سولی دوں گا۔
فرعون کو جواب دیتے ہوئے
قَالُوا لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [طه : 72]
انھوں نے کہا ہم تجھے ہرگز ترجیح نہ دیں گے ان واضح دلائل پر جو ہمارے پاس آئے ہیں اور اس پر جس نے ہمیں پیداکیا ہے، سو فیصلہ کر جو تو فیصلہ کرنے والا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں کہ تو اس دنیا کی زندگی کا فیصلہ کرے گا۔
إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى [طه : 73]
بے شک ہم اپنے رب پر اس لیے ایمان لائے ہیں کہ وہ ہمارے لیے ہماری خطائیں بخش دے اور جادو کے وہ کام بھی جن پر تو نے ہمیں مجبور کیا ہے اور اللہ بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
ایک صحابیہ رضی اللہ عنھا نے جسمانی صحت پر جنت کو ترجیح دے دی
عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ، تمہیں میں ایک جنتی عورت نہ دکھا دوں ؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں ، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجئے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ» (بخاری، كِتَابُ المَرْضَى، بَابُ فَضْلِ مَنْ يُصْرَعُ مِنَ الرِّيحِ،5652)
اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کردوں ۔
اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے آپ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کردیں کہ ستر نہ کھلا کرے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نرم بستر پر آخرت کو ترجیح دے دی
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً فَقَالَ مَا لِي وَمَا لِلدُّنْيَا مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا (ترمذی ،أَبْوَابُ الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺبابُ حدیث ما الدُّنْيَا إِلاَّ كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ2377 صحيح)
رسول اللہ ﷺ ایک چٹائی پرسوگئے، نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑگیاتھا، صحابہ نے عرض کیا :
اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا بنادیں تو بہتر ہوگا
آپﷺ نے فرمایا:
مجھے دنیا سے کیامطلب ہے، میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے ، پھر وہاں سے کوچ کرجائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے’۔
کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھیوں کی ترجیح اور منافقین کی ترجیح اور ان دونوں کا نتیجہ
جنگ تبوک میں تین مخلص مسلمانوں کے لشکر سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان سے بائیکاٹ ہے، جس کا نتیجہ ان کے اخلاص و امانت کی بدولت ان کی توبہ کی قبولیت اور قرآن میں ہمیشہ کے لیے ذکر خیر کی صورت میں نکلا۔اس کے برعکس منافقین کا عذر بظاہر قبول کر لیا جاتا ہے، مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں کسی جنگ میں ساتھ لے جانے، ان کا جنازہ پڑھنے، ان کی قبر پر کھڑا ہونے سے منع کر دیا جاتا ہے اور آخرت کے بدترین عذاب کی نوید سنا دی جاتی ہے۔
آخرت طلب کرنے والی چیزوں کے ذریعے دنیا طلب کرنے کی سزا
سیدنا ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ, لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ابوداؤد ،كِتَابُ الْعِلْمِ،بَابٌ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ لِغَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى،3664 صحيح)
” جس نے اللہ کی رضا مندی والا علم اس غرض سے حاصل کیا کہ دنیا حاصل کرے ‘ تو ایسا آدمی قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا“
یہ تو ایسے ہی ہے جیسے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے کہا تھا
أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [البقرة : 61]
کیا تم وہ چیز جو کمتر ہے، اس چیز کے بدلے مانگ رہے ہو جو بہترہے
ہم اکثر اوقات بنی اسرائیل بن کر ایسی بدذوقی کا اظہار کرتے رہتے ہیں.
بالخصوص
تب جب ہم کم تر دنیاوی لذتوں کو جنت کی اعلی لذتوں پر ترجیح دیتے ہیں اس وقت ہم بنی اسرائیل بنے ہوتے ہیں.