دنیا کی خاطر اور دنیا و آخرت دونوں کی خاطر جہاد کرنے والے کا بیان
378۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: کوئی شخص خاندانی حمیت اور غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے، کوئی بہادری دکھانے کے لیے میدان جنگ میں کودتا ہے اور کوئی محض ریا کاری اور شہرت کے لیے لڑتا ہے تو ان میں سے کون اللہ کے راستے میں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ الله)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي:7458، ومُسْلِم1904)
’’جوشخص اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کے غلبے کے لیے لڑتا ہے تو وہی اللہ کی راہ میں (لڑنے والا) ہے۔‘‘
379۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ غَزَا فِي سَبِيلِ اللهِ وَهُوَ لَا يَنْوِي فِي غَزَاتِهِ إِلَّا عِقَالًا فَلَهُ مَا نَوَى)) (أخرجه أحمد:22692، والنسائي:24،25/6، وابن حِبَّان:4638، والبيهقي:331/6، والدارمي: 24/6)
’’جس شخص نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور اس جہاد سے اس کی نیت دنیوی مال کا حصول تھا تو اس کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔‘‘
380۔ سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرمﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا:
آپ بتائیں، ایک شخص جنگ کرتا ہے۔ ثواب اور شہرت دونوں کا طلب گار ہے۔ اسے کیا ملے گا؟
رسول الله ﷺ نے فرمایا: ((لا شَيءَ لَهُ) ’’اسے کچھ نہیں ملے گا۔‘‘
اس شخص نے تین دفعہ یہ سوال دہرایا۔ ہر دفعہ آپ فرماتے تھے:
((لا شَيْء لَهُ)) ‘‘اسے کچھ نہیں ملے گا۔“
پھر آپ نے فرمایا: ((إِنَّ اللهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا، وَابْتُغِي بِهِ وَجْهُهُ) (أخرجه النسائي: 3142)
’’ اللہ تعالیٰ صرف اس عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے کیا جائے اور صرف اس کی رضا مندی مقصود ہو۔ ‘‘
توضیح و فوائد: رسول اللہ ﷺ نے جہاد کو اسلام کی چوٹی قرار دیا ہے۔ لیکن یہ درجہ اسی وقت نصیب ہوتا ہے، جب انسان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی ہو۔ اگر مقصد شہرت یا مال و دولت کا حصول ہو تو پھر اجر و ثواب نہیں ملے گا اور اگر ثواب کے ساتھ ساتھ مال حاصل کرنے کی غرض سے جہاد کیا، اس طرح کہ مال کی امید نہ ہونے پر جہاد ترک کر دیا جب بھی کوئی ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اس کی رضا کے لیے کیا گیا ہو۔
381۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَا مِنْ غَازِيَةٍ تَغْزُو فِيْ سَبِيلِ اللهِ فَيُصِيبُونَ الْغَنِيمَةَ، إِلَّا تَعْجِلُّوا ثُلُثَىْ أَجْرِهِمْ مِنَ الْآخِرَةِ، وَيَبْقٰى لَهُمُ الثُّلُثُ، وَإِنْ لَمْ يُصِيبُوا غَنِيمَةً تَمَّ لَهُمْ أَجْرُهُمْ.))
’’جولڑنے والا لشکر اللہ کی راہ میں جہاد کرے، پھر اسے مال غنیمت بھی حاصل ہو جائے تو وہ اپنے لیے آخرت کے اجر سے دو ثلث (دو تہائی) دنیا میں جلد حاصل کر لیتا ہے، اور اس کے لیے ایک ثلث (ایک تہائی باقی رہ جاتا ہے اور اگر اسے مال غنیمت حاصل نہیں ہوتا تو (آخرت میں) اس کا اجر پورا ہوگا۔
توضیح و فوائد: اصل مقصد اگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور غنیمت بھی حاصل ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، تاہم اگر دو آدمی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کریں تو جہاد کے اصل ثواب میں دونوں برابر ہیں کیونکہ دونوں نے برابر مشقت اٹھائی لیکن جسے غنیمت مل گئی اسے مشقت کا کچھ نہ کچھ صلہ دنیا ہی میں مل گیا جبکہ خالی ہاتھ واپس جانے والے کو کچھ نہ ملا، یقینًا اسے پورے کا پورا اجر آخرت میں ملے گا۔
(أَخرجه مسلمٌ:1906)
382۔ سیدنا عبد الله بن عمر و رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ (میں نے کہا) اللہ کے رسول! مجھے جہاد اور غزوے
کے متعلق ارشاد فرمائیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
((يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِوا إِنْ قَاتَلْتَ صَابِرًا مُحْتَسِبًا بَعَثَكَ اللهُ صَابِرًا مُحْتَسِبًا. وَإِنْ قَاتَلْتَ مُرَائِيًا مُكَاثِرًا بَعَثَكَ اللهُ مُرَائِيًا مُكَاثِرًا، يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو! عَلٰى أَیِّ حَالٍ قَاتَلْتَ أَوْ قُتِلْتَ بَعَثَكَ اللهُ عَلَى تِيكَ الْحَالِ)) (أخرجه أبو داود:2519، والبيهقي:98168، والحاكم:85/2 وصحَّحه ووافقه الذهبي، وفي إسناده حنان بن خارجة، قال عنه الذهبي في ميزان الاعتدال:618/1: لا يعرف)
’’عبد اللہ بن عمرو! اگر تم صبر کے ساتھ اور اجر کی نیت سے قتال کرو تو اللہ تعالیٰ تمھیں صبر کرنے والوں اور اجر کے طلب گاروں میں اٹھائے گا اور اگر تم دکھلاوے اور مال جمع کرنے کی غرض سے قتال کرو تو اللہ تعالی تمھیں ریا کار اور مال جمع کرنے والوں میں اٹھائے گا۔ اے عبداللہ بن عمرو! جس حال (اور نیست) میں بھی تم نے لڑائی کی (جہاد کیا) یا تھیں قتل کر دیا گیا تواللہ تمہیں اسی حالت پر اٹھائے گا۔‘‘
383۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((الْغَرُوُ غَزْوَانِ فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللهِ، وَأَطَاعَ الْإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَذَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ بِكَفَافٍ)) (أَخْرَجَهُ أبو داود: 2515)
’’جہاد دو قسم کا ہے: جس نے اللہ کی رضا چاہی، امام کی اطاعت کی، عمدہ مال خرچ کیا، اپنے شریک کار سے نرمی کا برتاؤ کیا اور فساد سے بچتا رہا تو بلا شبہ ایسے مجاہد کا سونا اور جاگنا کبھی اجر و ثواب کا کام ہے لیکن جس نے فخر، دکھلاوے اور شہرت کی نیت رکھی، امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد کیا تو بلاشبہ ایسا آدمی (ثواب تو کیا) برابری کے ساتھ بھی نہیں پلٹا۔ (گناہ سے بچ آنا بھی مشکل ہے)۔ ‘‘
384۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا:
((انْتَدَبَ اللهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ، لاَ يُخْرِجُهُ إِلَّا إِيمَانٌ بِي وَتَصْدِيقٌ بِرُسُلِي، أَنْ أُرْجِعَهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ، أَوْ أُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، وَلَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ))(أَخْرَجَةُ البُخَارِيَّ: 36، وَمُسْلِمِ:1876)
’’اللہ تعالی اس شخص کے لیے ذمہ داری لیتا ہے جو اس کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلے۔ اسے گھر سے صرف اس بات نے نکالا کہ وہ مجھے (اللہ) پر ایمان رکھتا ہے اور میرے رسولوں کی تصدیق کرتا ہے تو میں اسے اس ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا جو اس نے جہاد میں پایا یا اسے (شہید بنا کر) جنت میں داخل کروں گا۔ اور (رسول اللہ علیہ نے فرمایا:) اگر میں اپنی امت کے لیے اسے دشوار نہ سمجھتا تو کبھی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ بیٹھ رہتا۔ اور میری یہ آرزو ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔‘‘
385۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ایک انسان جہاد کے لیے نکلتا ہے مگر وہ دنیا کا مال چاہتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَا أَجْرَ لَهُ)) ’’اس کے لیے کوئی اجر نہیں۔‘‘
لوگوں نے اس فرمان کو بہت گراں جانا، انھوں نے اس آدمی سے کہا: دوبارہ پوچھو، شاید تم اپنی بات واضح نہیں کر سکے۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! ایک انسان جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلتا ہے اور وہ دنیا کا مال چاہتا ہے؟
آپ نے فرمایا: ((لا أَجْرَ لَهُ)) ’’اس کے لیے کوئی ثواب نہیں۔ ‘‘
لوگوں نے اس آدمی سے کہا: رسول اللہﷺ سے پھر پوچھو۔
اس نے تیسری بار آپ سے پوچھا تو آپ نے اسے یہی فرمایا: ((لا أَجْرَ له)) ’’اس کے لیے کوئی ثواب نہیں۔ ‘‘(أَخْرَجَة أحمد: 7900، 8793، وأبوداؤد: 2516، وابن حبان:4637، والحاكم: 85/2، والبيهقي:169/9)
توضیح و فوائد: مذکورہ دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جہاد بھی وہی قبول ہے جو خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو اور جہاد کرنے والا اللہ پر پکا ایمان رکھتا ہو، یعنی توحید پر کار بند ہو۔ گویا شرک اصغر (ریا کاری) یا شرک اکبر دونوں صورتوں میں جہاد کا ثواب ختم ہو جاتا ہے۔